نتیش کمار جی! اگر ذلت سے بچنا ہے تو…….  شکیل رشید

نتیش کمار جی!

اگر ذلت سے

بچنا ہے تو…….

 

شکیل رشید

 

آج نتیش کمار کا حال گزرے ہوئے کل سے خراب ہے !

بننے کوتو نتیش کمار مسلسل چوتھی بار بہار کے وزیر اعلیٰ بن گیے ہیں، اور یقیناً یہ سننے میں ان کا ایک بڑا کارنامہ لگتا ہے، لیکن حقیقتاً یہ بڑا کارنامہ اس وقت ہوتا جب واقعی انہیں وزیر اعلیٰ بننے کا عوامی مینڈیٹ حاصل ہوتا ۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ عوام نے انہیں این ڈی اے کی حلیف بی جے پی سے بھی کم سیٹوں پر کامیاب کرایا، یعنی صاف طور پر عوام نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ نتیش کمار ایک وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کی پسند نہیں ہیں، مگر خود بی جے پی کو بھی اتنی سیٹیں نہیں دیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر یا کچھ ممبران اسمبلی کو یہاں وہاں سے کچھ دے دلا کر، حکومت بنالے، لہذا پوری خواہش اور ساری سازشوں اور توڑجوڑ کے باوجود بی جے پی اپنے کسی نیتا کو وزیر اعلیٰ کی گدّی پر نہیں بٹھا سکی ، اور اسے نہ چاہتے ہوئے بھی نتیش کمار کو وزیراعلیٰ بنانا پڑا ۔ اگر انتخابی نتائج کا باریکی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ سچ سامنے آتا ہے کہ بہار میں فرقہ پرستی کے لیے ابھی کوئی جگہ نہیں بنی ہے، ہاں بی جے پی اس کی مسلسل کوشش کر ضرور رہی ہے لیکن اسے ابھی اس میں اتنی کامیابی نہیں ملی ہے کہ اپنے بل بوتے پر، یا اپنی ہم خیال سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے وہ بہار پر مکمل طور پر قابض ہو سکے ۔ لیکن آئندہ 2024ء کے لوک سبھا انتخابات اور اس کے بعد کے 2025ء کے بہار اسمبلی کے انتخابات میں وہ اس کی بھر پور کوشش ضرور کرے گی کہ کسی طرح بہار اس کے مکمل قبضے میں آجائے، اور اس کے لیے وہ نتیش کمار کے راج والے بہار کو ایک تجربہ گاہ ،اور نتیش کمار کو اس تجربہ گاہ کا گنی پِگ بنا کر ان کی بھینٹ چڑھا سکتی ہے ۔ اگر ایسا ہوا، اور ایسا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، تو ذمہ دار نتیش کمار ہی ٹہریں گے ۔ جو بھی انہوں نے بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا ہی ۔ نتیش کمار ایک اچھے بھلے سوشلسٹ، سیکولر اور سمجھ دار سیاسی رہنما تھے، جب تک لالو پرساد یادو کا اور ان کا ساتھ رہا بہار فرقہ پرستی سے بڑی حد تک محفوظ رہا ۔ جب آر جے ڈی راج کو پوری منصوبہ بندی سے جنگل راج قرار دینے میں حزبِ اختلاف کامیاب ہوا اور لالو پرساد یادو کا سنگھاشن ڈول گیا (اور اس کی ایک بڑی وجہ نتیش کمار تھے کہ وہ لالو سے رشتہ توڑ کر اور بی جے پی سے رشتہ جوڑ کر بہار کے نئے مکھیہ منتری بنے تھے) تب نتیش کمار خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوئے تھے ۔ انہوں نے بہار کو وکاس کی راہ پر ڈالا تھا، بہار میں سڑکوں کا جال بچھایا ، ہر ایک کے لیے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا اور سب کے لیے، بالخصوص لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حصول کو آسان کیا تھا، سڑکوں پر سائیکل سوار اسکولی لڑکیوں کا نظارہ خوشگوار تھا ۔ نتیش کمار نے صحت کے محکمہ کو بھی فعال کیا تھا، اور کسانوں کے لیے بھی کئی اچھے منصوبے بنائے تھے ۔ ان کی ساکھ بہتر سے بہترین ہوئی تھی، وہ سشاسن بابو کہے جانے لگے تھے ۔ اور وہ ہنوز سشاسن بابو رہتے اگر 2015ء میں لالو پرساد یادو کی پارٹی سے رشتہ توڑ کر، جو عرصہ بعد قائم ہوا تھا، دوبارہ بی جے پی کی گود میں نہ جا بیٹھتے ۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا ۔ بی جے پی اور

آر ایس ایس انہیں 2005ء میں تو اپنے جال میں نہیں پھانس سکی تھی کیونکہ بہار میں آگے بڑھنے کے لیے اسے نتیش کمار کے مضبوط کندھوں کی ضرورت تھی، لیکن اس کے بعد اس نے نتیش کمار کو اپنے جال میں ایسا پھانسا کہ اس بہار میں جہاں ایک دور میں وہ عروج پر تھے، لوگوں میں مقبول تھے، انہیں ووٹ مانگنے کے لیے وزیراعظم نریندر مودی کے نام کا سہارا لینے اور یہ کہہ کر ووٹ مانگنے پر مجبور ہونا پڑا کہ یہ میرا آخری الیکشن ہے ! وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بنے رہنے کے لیے انہوں نے بی جے پی اور سنگھ کے ایجنڈے کو روکنے کے لیے ہاتھ پیر تک نہیں ہلائے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ سنگھی ایجنڈے کو لاگو کرنے میں انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے مدد کی، نتیجے میں ان کی مقبولیت گھٹی، ان کے ووٹ اور ان کی سیٹیں گھٹیں ۔ چاہے کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی قرارداد کی منظوری رہی ہو، چاہے طلاق ثلاثہ پر پابندی کے بِل کو اور سی اے اے جیسے آئین مخالف بِل کو قانون بنوانا رہا ہو، سب ہی میں نتیش کمار نے بی جے پی کا ساتھ دیا ۔ حالانکہ وہ مسلم تنظیموں، علماء کرام، اور مسلم دانشوروں سے ملتے رہے کہ ہم ان معاملات میں تمہارے ساتھ ہیں ۔ یہ دوہرا کھیل تھا ۔ اور ابھی حال ہی میں کسان مخالف جو بِل پارلیمنٹ سے منظور ہوئے ہیں انہیں بھی نتیش کمار کی حمایت حاصل رہی ہے ۔ گویا یہ کہ نتیش کمار نے مسلمانوں سے لے کر کسانوں تک سب کو ناراض کر دیا ہے ۔ عام بہاری بھی ناراض ہوئے ہیں کہ روزگار نہیں ہے، سرکاری ملازمتیں نہیں ہیں اور کورونا نے مہاجر مزدوروں پر جو قہر ڈھایا ہے اس کی کوئی بھرپائی نہیں ہوئی ہے ۔ تو نتیش کمار وزیر اعلیٰ بن تو گیے ہیں لیکن عوامی مینڈیٹ کے برخلاف ۔ اور آگے کی راہ بڑی کٹھن ہے ۔ ایک بڑا مسئلہ تو بے روزگار نوجوانوں کے روزگار کا ہے ۔ سچ کہیں تو بی جے پی نے اس معاملے میں نتیش کمار کو پوری طرح سے پھنسا دیا ہے ۔ تیجسوی یادو نے دس لاکھ ملازمتوں کا وعدہ کیا تھا، اس پر بی جے پی کے اُس وقت کے نائب وزیراعلیٰ سشیل کمار مودی نے کہا تھا کہ یہ وعدہ پورا کرنا ناممکن ہے کیونکہ سرکاری خزانہ میں اتنا پیسہ ہے ہی نہیں کہ ملازمتیں دی جا سکیں ۔ لیکن بعد میں این ڈی اے کو 19 لاکھ ملازمتیں، نوکریاں اور روزگار دینے کا اعلان کرنا پڑا ۔ سوال یہی ہے کہ اگر سرکاری خزانہ خالی ہے تو نتیش کمار نوکریاں کیسے دیں گے؟ بی جے پی نے ایک چالاکی یہ بھی کی کہ کورونا کی ساری بدانتظامی سے خود کو بھی اور نریندر مودی کو بھی بچا لے گئی، سارا الزام نتیش کمار کے سر گیا ہے، اس گندگی کو صاف کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ ان پر بہار میں خراب ہوتے لاء اینڈ آرڈر پر قابو نہ پانے کا الزام ہے، گلناز نامی ایک لڑکی کو جلا کر زندہ ماردینے کا واقعہ تو ایک دم تازہ ہے ۔ ان پر خراب گورننس کا، خراب بلکہ تباہ کن پالیسیوں کے بنانے کا، جیسے شراب بندی، جس سے شراب کی کھپت اور بڑھی ہے، اور کرپشن کو کھلی چھوٹ دینے کا الزام ہے ۔ میوا لال کا ہی معاملہ لے لیں کہ کرپشن کے الزام میں انہیں وزیر تعلیم کے طور پر حلف لینے کے چار روز بعد ہی استعفیٰ دینا پڑا ہے ۔ یہ الزامات سنگین ہیں ۔ نتیش کمار پر لگی پلٹو رام کی چھاپ بھی ان کے آڑے آ رہی ہے، اور بی جے پی ہے کہ اس نے نتیش کمار کی راہ میں کانٹے بونے شروع کر دیے ہیں ۔ بی جے پی نے دو دو نائب وزیر اعلیٰ ان کی پیٹھ پر سوار کر دیئے ہیں ۔ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بہار میں سی اے اے لاگو کرنے کا نعرہ بلند کر دیا ہے، مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے اعلان کر دیا ہے کہ بہار میں لو جہاد کے خلاف قانون بنایا جائے گا ۔ یہ سب کچھ فرقہ پرستی کو بڑھانے، ہوا دینے کے لیے ہے تاکہ بی جے پی اپنے دم پر بہار میں مضبوط ہو ۔ آگے ابھی بہت کچھ ہونا ہے، فرقہ وارانہ تشدد بھی اور فرقہ وارانہ پالیسیوں کا نفاذ بھی ۔ مودی اور امیت شاہ کے بہار مشن میں اب نتیش کمار کمزور کڑی ہیں جسے موقع ملتے ہی توڑا جا سکتا ہے ۔ چونکہ ابھی نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنائے بغیر بی جے پی کی دال نہیں گل رہی تھی اس لیے یہ غیر حقیقی شادی ہوئی ہے، پر طلاق یقینی ہے ۔ اگر بی جے پی اپنے کسی نیتا کو وزیراعلیٰ بنانے پر زور دیتی توممکن تھا کہ نتیش کمار این ڈی اے چھوڑ دیتے، اور وہی صورتحال بی جے پی کے سامنے ہوتی جو مہاراشٹر میں ہے ۔ شیوسینا سے کٹ کر آج مہاراشٹر میں بی جے پی کمزور پڑ گئی ہے، بہار میں نتیش کمار سے کٹ کر کمزور ہو جاتی، اور کمزوری اس کے بہار پر مکمل قبضے کے مشن کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی، لہذا اس نے نتیش کمار کو ہی وزیراعلیٰ بنانے میں بہتری سمجھی، کم از کم اس وقت تک کے لیے جب تک نتیش کمار کو راہ سے ہٹانے کے لیے حالات سازگار نہیں ہو جاتے ۔ بی جے پی نے ہر موقع پر نتیش کمار کا فائدہ اٹھایا ہے، یہ نتیش کمار کا ساتھ ہی تھا جس کی وجہ سے اسے 2010ء میں 91 سیٹیں ملی تھیں، مگر 2015ء میں جب جے ڈی یو اور آر جے ڈی و کانگریس کا مہا گٹھ بندھن تھا تب مودی لہر کے باوجود بی جے پی کو، نتیش کمار کے بغیر منھ کی کھانی پڑی تھی اور وہ صرف 53 سیٹیں حاصل کر سکی تھی، اس وقت جے ڈی یو کو 71 سیٹیں ملی تھیں ۔ ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ بی جے پی کو نریندر مودی کی لہر یا ساکھ نے نہیں بہار میں نتیش کمار کی ساکھ یا مقبولیت نے کامیاب کیا ہے ۔ بی جے پی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اسے اس بار گزشتہ کی 53 سیٹوں کی جگہ 73 سیٹیں ملی ہیں، یعنی 20 سیٹیں زیادہ، لیکن یہ 2010ء کی 91 سیٹوں سے 18 کم ہیں، جو بیس سیٹیں اسے زائد ملی ہیں وہ نتیش کمار کی ہی گزشتہ کی 71 سیٹوں میں سے کٹ کر ملی ہیں ۔ واضح رہے کہ اس بار نتیش کمار نے پہلے کے مقابلے 28 سیٹیں کھوئی ہیں، ان میں سے 20 تو بی جے پی کے کھاتے میں آ گئیں مگر 8 کا نقصان پھر بھی رہا ۔ مطلب یہ کہ جے ڈی یو اور بی جے پی نے ایک دوسرے کو ہی نقصان پہنچایا ہے اور حکومت سازی کے باوجود آر جے ڈی کے مقابلے دونوں کمزور ہوئی ہیں ۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ آج نتیش کمار کا حال گزرے ہوئے کل سے خراب ہے لیکن بی جے پی کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے ۔ ہاں آئندہ نتیش کمار کا حال مزید خراب ہو گا اور حال کی خرابی میں سب سے بڑا ہاتھ بی جے پی کا ہوگا ۔ وہی بی جے پی جس نے اس بار حلیف ہوکر بھی، بہار پر مکمل قبضے کاسپنا ساکار کرنے کے لیے نتیش کمار کی راہ میں کانٹے بچھائے، ایل جے پی کے چراغ پاسوان کو ان کے خلاف کھڑا کر کے انہیں تقریباً 28 سیٹوں پر کمزور کیا، اپنی سیٹیں بڑھانے کے چکر میں ان کی سیٹیں گھٹائیں، لیکن وہ 73 سیٹیں ہی حاصل کر سکی، 2010ء سے کم ۔ بی جے پی نہ جانے کتنے بار نتیش کمار کو دھوکہ دے گی ۔ سب سے بڑا خطرہ تو یہ ہے کہ مودی اور شاہ کی جوڑی کہیں نتیش کمار کے ممبران اسمبلی کو اپنی طرف نہ کھینچ لے ۔ بی جے پی نے یہ کھیل بار بار کھیلا ہے لہٰذا نتیش کمار کو بہت چوکس رہنا ہوگا ۔ بی جے پی نتیش کمار کے بنیادی ووٹروں کو اپنے پالے میں لانے کی کوششیں بھی کر سکتی ہے، جیسا کہ اس بار اس نے چراغ پاسوان کے توسط سے کیا ہے ۔ ایک بڑا خطرہ مسلمانوں اور پچھڑے طبقات میں دراڑ پیدا کرنے کا بھی ہے ۔ بہت ساری سیاسی تبدیلیوں کے باوجود بہار کے پچھڑے طبقات بڑی حد تک بی جے پی سے دامن بچائے ہوئے ہیں، بی جے پی انہیں اپنے ساتھ ملانے اور اس کے نتیجے میں میں اقتدار پانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی ۔ فرقہ پرستی کا عفریت آزاد کیا جائے گا ۔ سوال یہی ہے کہ ایک کمزور نتیش کمار کیسے اپنی سیکولر اور سوشلسٹ روپ کو بچا سکیں گے؟ وزیر اعلیٰ کی کرسی بچانے کے لیے انہیں مفاہمت وہ بھی ذلت آمیز مفاہمت کرنا ہی پڑے گی ۔ یعنی نتیش کمار کی قسمت میں آئندہ کے لیے ذلت لکھ گئی ہے ۔ لیکن ایک حل ہے ۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ بہار میں ابھی بھی فرقہ پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں بنی ہے، نتیش کمار کو بس اسی حقیقت پر غور کرنا ہوگا ۔ نتائج دیکھیں : لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے 74 سیٹوں پر جیت حاصل کی ہے، مہاگٹھ بندھن کی اس کی حلیف کانگریس کو 19 سیٹیں ملی ہیں اور کمیونسٹ پارٹیوں کو 16 سیٹیں ۔ مہا گٹھ بندھن کو آر جے ڈی کے نوجوان قائد تیجسوی یادو کی قیادت میں مجموعی طور پر 110 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں ۔ ادھر این ڈی اے کی دو بڑی پارٹیوں بی جے پی اور نتیش کمار کی متحدہ جنتا دل (جے ڈی یو) کو بلترتیب 73 اور 43 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے، اسے مجموعی طور پر 125 سیٹیں ملی ہیں ۔اگر 125 میں سے جے ڈی یو کی 43 سیٹیں نکالی جائیں تو این ڈی اے کے پاس بچتی ہیں 82 سیٹیں، ظاہر ہے کہ اتنی سیٹیں حکومت سازی کے لیے ناکافی ہیں ۔ اگر یہ سیٹیں مہا گٹھ بندھن کی 110 سیٹوں میں شامل کر لی جائیں تو مجموعی سیٹیں 153 ہو جاتی ہیں، اتنی زیادہ کہ کسی طرح کی توڑ جوڑ کا خطرہ نہیں بچتا ۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ بی جے پی کے مقابلے آج بھی سیکولر سمجھی جانے والی پارٹیوں کے ووٹر بہار میں زیادہ ہیں اور فرقہ پرستی کے قدم وہاں جم نہیں سکے ہیں، بس مضبوط اتحاد کی ضرورت ہے ۔ لہذا نتیش کمار کو اگر ذلت سے بچنا ہے اور بہار کو گرداب میں ڈھکیلنے والے وزیر اعلیٰ کا دھبہ اپنے دامن پر لگنے نہیں دینا ہے تو انہیں واپس مہا گٹھ بندھن کی طرف پلٹنا ہوگا ۔ تیجسوی کو بھی اپنا دل وسیع کرنا ہوگا ۔ ایسا ہوا تو بہار ترقی بھی پائے گا اور فرقہ پرستی کا عفریت بھی وہاں سے بھاگ جائے گا ۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے !؟

Comments are closed.