لہجے کو تلوار بنانا مجبوری ہے اب تو میرا طیش میں آنا مجبوری ہے! سلیم شوق پورنوی. @SaleemSiddiqi20

لہجے کو تلوار بنانا مجبوری ہے

اب تو میرا طیش میں آنا مجبوری ہے

 

ہنستا ہے سب داغ دکھاکر چہرے کے

آئینے سے آنکھ چرانا مجبوری ہے

 

لوگ سمجھتے ہیں میں گونگا بہرا ہوں

سومیرا اب شور مچانا مجبوری ہے

 

میری وجہ سے تم کو مسئلے ہوتے ہیں

میرا تم سے ہاتھ چھڑانا مجبوری ہے

 

تم ہو میٹھا زہر میں سب کچھ جانتا ہوں

پھر بھی میرا ساتھ نبھانا مجبوری ہے

 

کاندھا دے گا کون مجھے رونے کے لئے

دیواروں سے سر ٹکرانا مجبوری ہے

 

ہم ایسے تو بوجھ ہیں اپنے بچوں پر

ہم ایسوں کا تو مرجانا مجبوری ہے

 

رات نے اپنا بوریا بستر باندھ لیا

تاروں کا اب چھپ جانا مجبوری ہے

 

میری ہنسی سے دشمن کے دل جلتے ہیں

چہرے پر مسکان سجانا مجبوری ہے

 

لوگوں کا اب ذوق نہیں پہلے جیسا

شوق اپنا معیار گرانا مجبوری ہے

سلیم شوق پورنوی

Comments are closed.