انسان کا وجود، خدا کے وجود کا ثبوت- محمد صابر حسین ندوی

انسان کا وجود، خدا کے وجود کا ثبوت-
محمد صابر حسین ندوی
*مغربی فلسفہ اور فکر کی بنیاد ہوا پرستی پر ہے، وہ اپنی تحقیقات میں اسی پہلو کو اہمیت دیتے ہیں جس سے انسانی فطرت میں سرکشی، طغیانی اور خالق سے بیزاری کا اظہار ہو، جو قانون الہی سے دور کرتے ہوئے ابن آدم کو ایک غیر یقینی کیفیت میں مبتلا کرکے خواہشات کی راہ پر گامزن کروادے، یہی وجہ ہے کہ وہ خود سائنس کو ایک وجود مانتے ہیں، اس سے ثابت شدہ اشیاء کی تصویر اور حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، اپنی معمولی تحقیق کو بھی دنیا پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں؛ مگر جب یہی سائنس چھپی ہوئی معدوم شئی کی طرف دلالت کرتی ہے، اور بتاتی ہے کہ اگر عدم کو ہی ماننا ہے تو پھر معدوم کو بھی مانو! حالانکہ اللہ تعالی کا وجود اگرچہ مرئی نہیں ہے؛ لیکن عقل و دانش اور فکری لطافت کے ماہرین کیونکر اس کے منکر ہوسکتے ہیں، حق تو یہ ہے کہ وہ صرف اپنی تخلیق اور جسمانی ساخت و پرداخت پر ہی غور کرلیں تو ممکن ہے؛ کہ غیر مرئی طاقت مرئی بن جائے، اس سے بھی انکار نہیں کہ "خدا کے بارے میں جاننا خالق (Creator) کے بارے میں جاننا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ابھی تک انسان خالق کی تخلیق (creation) کے بارے میں بھی صرف چند فی صد جان سکا ہے۔ ایسی حالت میں کسی انسان کا یہ مطالبہ کرنا کہ خالق کے بارے میں ہم کو قطعی معلومات دو، سرتاسر ایک غیر علمی مطالبے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب انسان کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک تخلیق کے بارے میں پورا علم حاصل نہ کرسکا تو وہ خالق کے بارے میں پورا علم کیسے حاصل کرسکتا ہے۔ تخلیق کا وجود زمان ومکان(space and time) کے اندر ہے، اور خالق کا وجود ماورائے زمان ومکان(beyond space and time) سے تعلق رکھتا ہے، پھر جو انسان اتنا محدود ہو کہ وہ زمان ومکان کے اندر کی چیزوں کا بھی احاطہ نہ کرسکے، وہ زمان ومکان کے باہر کی حقیقت کو اپنے احاطے میں کس طرح لا سکتا ہے— حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان خدا کو صرف عجز کی سطح پر دریافت کرسکتا ہے، نہ کہ علم کی سطح پر۔”*(الرسالہ نومبر2009)
*یہ عجز دلی رجحان کا نام ہے، قلب کی نرمی، سادگی اور حقیقت بینی سے تعبیر ہے، جو خود میں جھانکنے سے شروع ہو کر معرفت الہی تک پہنچتا ہے، تبھی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کا وجود، خدا کے وجود کا ثبوت ہے، مولانا وحیدالدین خان بہت مناسب بات کہی ہے، آپ فرماتے ہیں: "وسیع کائنات میں صرف انسان ہے جو خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے- حالانکہ انسان کا خود اپنا وجود، خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے- اگر انسان جیسی ایک ہستی یہاں موجود ہے تو خدا بهی یقینی طور پر موجود ہے- انسان کے اندر وه تمام صفتیں ناقص طور موجود ہیں جو خدا کے اندر کامل طور پر موجود ہیں- اگر ناقص ہستی کا وجود ہے تو کامل ہستی کا بهی یقینی طور پر وجود ہے- ایک کو ماننے کے بعد دوسرے کو نہ ماننا ایک ایسا منطقی تضاد ہے جس کا تحمل کوئی صاحب عقل نہیں کر سکتا- ڈکارٹ (Rene Descartes) مشہور فرنچ فلسفی ہے وه 1596 میں پیدا هوا اور 1650 میں اس کی وفات هوئی- اس کے سامنے یہ سوال تها کہ انسان اگر موجود ہے تو اس کی موجودگی کا عقلی ثبوت کیا ہے- لمبے غور فکر کے بعد اس نے اس سوال کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے —— میں سوچتا هوں اس لئے میں هوں- ڈیکارٹ کا یہ جواب منطقی اعتبار سے ایک محکم جواب ہے- مگر یہ منطق جس سے انسان کا وجود ثابت هوتا ہے، وه اس سے بهی زیاده بڑی بات کو ثابت کر رہی ہے، اور وه ہے خدا کے وجود کا عقلی ثبوت- اس منطقی اصول کی روشنی میں یہ کہنا بالکل درست هو گا———- کہ سوچ کا وجود ہے، اس لئے خدا کا بهی وجود ہے- سوچ ایک مجرد چیز ہے-*
*جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وه اسی لیے خدا کا انکار کرتے ہیں کہ خدا انہیں ایک مجرد تصور معلوم هوتا ہے، اور مجرد تصور کی موجودگی ان کے لیے ناقابل فہم ہے، یعنی ایک ایسی چیز کو ماننا جس کا کوئی مادی وجود نہ هو- لیکن ہر انسان سوچنے والی مخلوق ہے- خود اپنے تجربے کی بنیاد پر ہر آدمی سوچ کے وجود کو مانتا ہے- حالانکہ سوچ مکمل طور پر ایک مجرد تصور ہے، یعنی ایک ایسی چیز جس کا کوئی مادی وجود نہیں- اب اگر انسان ایک قسم کے مجرد تصور کے وجود کو مانتا ہے تو اس پر لازم آ جاتا ہے کہ وه دوسری قسم کے مجرد تصور کے وجود کو بهی تسلیم کرے- یہ بلاشبہہ خدا کے وجود کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کا تجربہ ہر آدمی کرتا ہے اور جس کی صحت کو ہر آدمی بلا اختلاف مانتا ہے- اگر سوچ کے وجود کا انکار کر دیا جائے تو اس کے بعد یقینی طور پر انسان کے وجود کا اور خود اپنے وجود کا انکار کرنا پڑے گا- کوئی بهی آدمی اپنے وجود کا انکار نہیں کر سکتا، اسی لیے کسی بهی آدمی کے لیے منطقی طور پر یہ ممکن نہیں کہ وه خدا کے وجود کا انکار کرے- خدا کا غیر مرئی (invisible) هونا، اس بات کے لیے کافی ہے کہ خدا کے وجود کا انکار کیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ غیر مرئی هونے کے بنا پر خدا کا انکار کرنا، ماڈرن سائنس کے زمانے میں ایک خلاف زمانہ استدلال ہے- اس لئے کہ آئن سٹائن کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیا اور علم کا دریا عالم صغیر (micro world) تک پہنچ گیا تو اس کے بعد معلوم هوا کہ یہاں ہر چیز غیر مرئی ہے- پہلے جو چیزیں مرئی سمجهی جاتی تهی اب وه سب کے سب غیر مرئی هو گئیں- ایسی حالت میں عدم رویت کی بنیاد پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ایک غیر علمی موقف بن چکا ہے- "* (اظہار دین)
7987972043
Comments are closed.