ہر ایک کا بن جاتا ہے تو یار زبردست، جذبات کا کرلیتا ہے بیوپار زبردست. سلیم شوق پورنوی

ہر ایک کا بن جاتا ہے تو یار زبردست

جذبات کا کرلیتا ہے بیوپار زبردست

 

میں خود کو بھی آگے کبھی بڑھنے نہیں دیتا

بن جاتا ہوں خود کے لیے دیوار زبردست

 

تب جاکے یہ احساس ہوا اس کو خدا ہے

حالات کی جب اس پہ پڑی مار زبردست

 

اُس پار بسے ہیں مرے کچھ جان سے پیارے

اِس پار سے زیادہ تو ہے اُس پار زبردست

 

پھر لوٹ کے دل سینے میں آیا نہ دوبارہ

جب اس کو لگا عشق کا آزار زبردست

 

اس بار مقابل میں مرے دوست کھڑے ہیں

اس بار تو ہونی ہے مری ہار زبردست

 

ہر اک سے نبھا لیتا ہے یہ پیار سے رشتہ

دل میرا بھی کتنا ہے اداکار زبردست

 

غزلوں کو مری سن کے پری زادی یہ بولی

سرکار زبردست ہے سرکار زبردست

 

ابرو ہے کماں برق ہے آنکھوں میں تمہاری

تم رکھتے ہو ہر طرح کے ہتھیار زبردست

 

ہم دونوں میں اب بات بھی ہوتی نہیں برسوں

ہم دونوں میں ہوتا تھا کبھی پیار زبردست

 

مبہوت سا رہ جائے اسے دیکھنے والا

ہے شوق وہ اک حسن کا شہکار زبردست

 

Comments are closed.