آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم: المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری: اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
میاں بیوی کے درمیان گھر کے اسباب کی تقسیم
سوال: زید اور ہندہ میاں بیوی ہیں؛ لیکن دونوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے، اب ہندہ میکہ میں رہ رہی ہے اور شوہر کے گھر سے چلی گئی ہے ؛ اگرچہ طلاق نہیں ہوئی ہے اور نہ طلاق کا ارادہ ہے؛ لیکن دونوں الگ الگ رہنے پر رضامند ہیں، سسرال میں رہتے ہوئے ہندہ کے زیر استعمال جو چیزیں تھیں، ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ کون سی چیزیں شوہر کی ہیں، اور کون سی چیزیں بیوی کی، اس کا فیصلہ کس طرح ہوگا؟ ( فائقہ بیگم، فلک نما)
جواب: اولاََ تو جب طلاق کی نوبت نہیں آئی ہے تو دونوں خاندان کے بزرگوں کو چاہئے کہ اختلاف کو پاٹ کر میاں بیوی کے ایک ساتھ رہنے کی صورتیں پیدا کریں؛ تاہم اگر دونوں الگ الگ رہنے ہی پر مصر ہوں اوراپنااپنا سامان لینا چاہتے ہوں تو اصول یہ ہے کہ چاہے نکاح قائم ہو، یا ختم ہوگیا ہو اور دونوں زندہ ہوں یا دونوں میں سے کسی ایک کی موت ہوگئی ہو اور دونوں کے ورثہ کے درمیان اختلاف ہو، ہر صورت میں جو چیزیں خواتین کے استعمال کی ہیں، وہ بیوی کی سمجھی جائیں گی، سوائے اس کے کہ شوہر کے پاس ثبوت ہو کہ وہ چیز اس کی ملکیت ہے، اسی طرح جو چیزیں مرد وں کے استعمال کی ہیں، وہ مرد کی سمجھی جائیں گی، سوائے اسکے کہ عورت اس پر ملکیت کا دعویٰ کرتی ہو اور اس کے پاس اس کا ثبوت بھی موجود ہو، جو چیزیں مشترکہ استعمال کی ہیں، وہ شوہر کی سمجھی جائیں گی؛ کیوں کہ یہ اس کے گھر میں ہیں، سوائے اس کے کہ عورت کا دعویٰ اس کے بر خلاف ہو اور اس پر کوئی ثبوت موجود ہو: إذا اختلف الزوجان فی متاع البیت حال قیام النکاح، أو بعد الفرقۃ بالطلاق…….ما یصلح للرجال فھو للرجل……. وما یصلح للنساء فھو للمرأۃ……… وما یصلح لھما….. فھو للرجل……. إلا أن یقیم المرأ البینۃ (فتاویٰ تاتارخانیہ: ۴؍۲۹۳، مسئلہ نمبر: ۶۲۳۰)
دوسرے کی دی ہوئی طلاق کو شوہر جائز قرار دے
سوال: ہمارے یہاں ایک واقعہ پیش آیا کہ ساس اور بہو میں جھگڑا ہو گیا، دونوں نے ایک دوسرے کو خوب برا بھلا کہا، شوہر کے والد بھی موجود تھے، انھوں نے غصہ میں آکر بہو کو کہا کہ میں تم کو اپنے بیٹے کی طرف سے طلاق دیتا ہوں، بیٹے نے سن کر کہا: ٹھیک ہے، میں نے اس کو جاری کیا، کیا اس صورت میں اس عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی؟ (نصراللہ ، یاقوت پورہ)
جواب: شوہر کو حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے، اگر شوہر کا باپ یا اس کا کوئی رشتہ دار طلاق دے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی، ہاں اگر کسی شخص نے طلاق دی اور شوہر نے کہا: میں نے اس کو جائز قرار دیا تو اب شوہر کے یہ کہنے سے طلاق واقع ہو جائے گی: رجل قال لامرأۃ رجل: إن دخلت ھذہ الدار فأنت طالق، فأجاز الزوج ذلک ثم دخلت الدار، طلقت، (فتاویٰ تاتارخانیہ: ۴؍۵۳۷، مسئلہ نمبر: ۶۸۵۹)؛ لہٰذا بیوی پر طلاق واقع ہوگئی؛ البتہ سسر نے طلاق کے لئے جو الفاظ استعمال کئے ، اس کے اعتبار سے طلاق کی نوعیت (رجعی، بائن، مغلظہ) متعین ہوگی۔
دیوالی میں تحفہ کا لین دین
سوال: ابھی دیوالی گزری ہے، میں جس آفس میں کام کرتا ہوں، اس میں زیادہ تر غیر مسلم بھائی ہوتے ہیں، وہ دیوالی کے موقع پر تحفہ دیتے ہیں، اور یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ ان کے مسلمان دوست بھی تحفہ دیں گے، جیسا کہ وہ مسلمانوں کو رمضان المبارک اور عید کے موقع سے تحفہ دیا کرتے ہیں، اس وقت ماحول اتنا فرقہ وارانہ ہو گیا ہے کہ ایسے مواقع پر تحفہ کا لین دین نہ کرنے کو بہت محسوس کیا جاتا ہے اور اس کو مسلمانوں کی شدت پسندی سمجھا جاتا ہے، تو کیا ہمارے لئے اس موقع پر مٹھائی وغیرہ لینا یا دینا جائز ہوگا؟ (عبدالحفیظ، بنجارہ ہلز)
جواب: جہاں حالات اس طرح کے نہ ہوں، وہاں تو خاص دیوالی کے موقع پر تحفہ کے لین دین سے بچنا چاہئے؛ لیکن جہاں محسوس ہو کہ غیر مسلم رفقاء اسے برا سمجھیں گے اور فرقہ واریت پر محمول کریں گے، وہاں نیت کی صحت کے ساتھ تحفہ کے لین دین کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ غیر مسلم کو تحفہ دینا یا لینا اصلاََ جائز ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛ البتہ ہدیہ کے لین دین کا مقصد ان کے تہوار کا احترام نہ ہونا چاہئے؛ بلکہ جس کو دے رہے ہیں، اس کا احترام اور اس سے اظہار محبت ہونا چاہئے، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اس سلسلہ میں بڑا اچھا اصول لکھا ہے کہ ’’ عادت سے معلوم ہے کہ اس ہدیہ کا سبب مہدی لہ کی تعظیم ہے نہ کہ تہوار کی تعظیم‘‘ (امدادالفتاوی: ۳؍۴۸۲) ہندوستان کے علماء میں حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلیؒ نے بھی ہولی یا دیوالی میں تحفہ کے لین دین کی اجازت دی ہے (ترجمہ مجموعۂ الفتاویٰ: ۲؍۳۶۳)…………. البتہ تہوار کے علاوہ مواقع پر غیر مسلم دوستوں کو تحفہ دینا چاہئے؛ تاکہ نفرت کا ماحول ختم ہو اور انسانی اخوت کے جذبات کو فروغ ملے۔
بیٹے کے اکاؤنٹ میں رقم ڈالنا اس کو مالک بنانا نہیں ہے
سوال: رشید نے ٹیکس سے بچنے کے لئے اپنی بعض رقوم اپنے بعض بیٹے کے اکاؤنٹ میں جمع کرایا، یہ بات لوگوں کو معلوم ہے، اب زید کے انتقال کے بعد ان بیٹوں کا مطالبہ ہے کہ یہ ان کی ملکیت ہے، یہ والد نے ان کو ہبہ کر دیا ہے، تو کیا ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے، یا یہ پیسے تمام ورثہ کے درمیان تقسیم ہوں گے؟ (فرزانہ، مانصاحب ٹینک)
جواب: اگر کوئی شخص دوسرے کے اکاؤنٹ میں اپنی کوئی رقم کسی مصلحت کی وجہ سے رکھ دے تو صرف اس وجہ سے کوئی دوسرا شخص اس کا مالک نہیں ہو جائے گا؛ بلکہ یہ اس کی نیت پر موقوف ہوگا، جب اس نے انکم ٹیکس کے قانون کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے پیسے اپنی اولاد میں سے کسی کے اکاؤنٹ میں رکھا ہے اور اس نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ رقم میں تم کو دے رہا ہوں تو یہ اس لڑکے کی ملکیت نہیں؛ بلکہ تمام ورثہ میں حصہ شرعی کے مطابق اس کی تقسیم ہوگی، مشہور فقیہ حضرت مولانا مفتی شفیع صاحبؒ بیوی کے نام مکان رجسٹری سے متعلق ایک فتویٰ کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ اگر فی الواقع زید نے یہ مکان اپنی زوجہ کی ملک نہ کیا تھا؛ بلکہ کسی مصلحت سے کاغذات سرکاری میں اس کا نام لکھوا دیا تھا تو یہ مکان زوجہ کی ملک نہیں ہوا، اور بعد اس کی وفات کے اس کے وارثوں کا اس میں حق نہ ہوگا؛ بلکہ بدستور زید کی ملک میں رہے گا، کاغذات سرکاری میں کسی کا نام درج ہو جانے سے شرعاََ اس کی ملک ثابت نہیں ہوتی، جب تک کہ مالک اپنی رضا سے اس کو مالک نہ بنائے اور قبضہ نہ کرائے‘‘ (امدادالمفتیین: ۲؍۷۳۸، کتاب الہبہ)
ایس بی آئی کسٹمر سروس سینٹر
سوال: میں ایس بی آئی کسٹمر سروس سینٹر چلاتا ہوں، جس کے اندر یہ چار طرح کے کام ہوتے ہیں (۱) رقم نکلوانا (۲) رقم جمع کرانا (۳) رقم کی منتقلی (۴) اکاؤنٹ کھولنا، یہ سب کرنے پر مجھ کو ایس بی آئی کی طرف سے کمیشن ملتا ہے، میں یہ سب ٹرانزیکشن (منتقلی) اپنے خود کے پیسے سے کرتا ہوں، یہ کام کرنے کے لئے مجھ کو ایک کمپنی نے آفر کیا، جس میں کمپنی کو ۳۰؍ فیصد اور مجھ کو ۷۰؍ فیصد منافعہ ملتا ہے، کیا یہ کام درست ہے؟ اکاؤنٹ کھولنے پر کوئی کمیشن نہیں ملتا ہے۔ (نہال قادری، پربھنی)
جواب: رقم نکلوانا، رقم جمع کرانا، ایک جگہ سے دوسری جگہ رقم منتقل کرنا اور کسی کسٹمر کے لئے اکاؤنٹ کھولنا یہ سب جائز عمل ہیں، چاہے ان کا تعلق بینک سے ہو، اور یہ سارے کام وہ ہیں، جن کی اجرت لینا جائز ہے، اس میں بینک جیسے سودی ادارہ کے تعاون کا شبہ نہیں ہونا چاہئے؛ کیوں کہ سود کے لین دین میں تعاون جائز نہیں، بینک کی جائز خدمات سے استفادہ کرنا یا کسی استفادہ کرنے والے کو سروس فراہم کرنا ناجائز نہیں ہے، اور اگر آپ یہ کام کسی کمپنی کے ساتھ مل کر کریں اور اس میں ۳۰؍ فیصد یا ۷۰؍ فیصد کے تناسب سے نفع کی تقسیم ہو تو یہ بھی جائز ہے؛ کیوں کہ یہ اجرت ہے اور فیصد کے لحاظ سے اجرت کی تقسیم اور تعیین موجودہ دور میں عام تعامل کی وجہ سے نزاع کا باعث نہیں ہوتی ہے، اور شرعاََ معاملات میں ایسے طریقہ پر مبہم رکھنا منع ہے، جو نزاع کا باعث بنتی ہو۔
رقم ٹرانسفر کرنے کی اجرت
سوال: آج کل لوگ دکان ڈال کر بینک میں پیسہ ٹرانسفر کرتے ہیں، ٹرانسفر کرتے وقت چارج بھی کٹتا ہے، چارج سے زیادہ پیسہ لینا جائز ہے یا نہیں؟(نہال قادری، پربھنی)
جواب: بینک میں پیسہ ٹرانسفر کرنا ایک جائز عمل ہے، ٹرانسفر کرتے ہوئے جو مقررہ چارج کٹ جاتا ہے، وہ تو بینک کی ملکیت ہوگئی، اور بینک اپنی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولت کی اجرت وصول کرتا ہے، بینک کے چارج سے زیادہ پیسہ لینا، جس سے کسٹمر کو واقف کرادیا جائے، جائز ہے؛ کیوں کہ یہ اس شخص کی اجرت ہے۔
ختنہ کی دعوت
سوال: آج کل مسلم سماج میں ختنے کی دعوت کا رواج بہت بڑھ گیا ہے، اس کے لئے بڑی بڑی تقریبات رکھی جاتی ہیں، کیا یہ دعوت جائز ہے؟ (احتشام الدین، ملے پلی)
جواب: ختنہ یقیناََ ایک اہم سنت ہے؛ لیکن جیسے ولیمہ اور عقیقہ کے موقع سے دعوت ثابت ہے، ختنہ کے موقع پر دعوت ثابت نہیں ہے؛ اگرچہ دعوت کرنا بذات خود ایک جائز عمل ہے؛ لیکن ایسی باتوں کا رواج آہستہ آہستہ لازمی رسم کی شکل اختیار کر لیتا ہے؛ اس لئے اس سے بچنا چاہئے، سلف صالحین بھی اس طرح کی دعوت کے قائل نہیں تھے، ایک صحابی عثمان ابن ابی العاصؓ کو ختنہ کی دعوت دی گئی تو انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہمیں ختنہ کی دعوت دی جاتی تھی اور نہ ہم اس میں شریک ہوتے تھے: إنا کنا لا نأتي الختان علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا ندعی لہ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۷۸۳۳)(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.