لو جہاد قانون یا قانون کی آڑ میں سیاست؟

عبدالمقیت عبید اللّہ فیضی
ہندوستان میں کرونا وائرس سے متاثر لوگوں کی تعداد ٩٠ لاکھ سے زیادہ پہنچ چکی ہے اور ١ لاکھ ٣٥ ہزار سے زائد لوگوں کی اب تک موت ہو چکی ہے۔ہندوستان میں بے روزگاری اور معاشی بہران کی حالت اتنی نازک ہو چکی ہے کہ لاکھوں نوجوان بے روزگار ہو گئے ہیں لیکن ان سب کے باوجود اب تک اگر کسی چیز پر بات ہو رہی ہے تو وہ ہے "لو جہاد” ،اتر پردیش سرکار نے باقاعدہ یہ بل پاس کر دیا ہے کہ لو جہاد پر ٢٥ ہزار روپئے جرمانہ اور ١٠ سال کی سزا ہو گی۔
اب تک ہم لوگ اسے سماج میں پھیل رہے سوشل میڈیا کے ذریعے، آر ایس ایس کے ذریعے، سنگھ پریوار کے ذریعے یا لوگوں کے ذریعے سن رہے تھے لیکن اسے اب باقاعدہ عملی جامہ پہنا کر کے، قانونی جامہ پہنا کر کے ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے۔یعنی کہ اترپردیش سرکار کا ایک ایسا قانون کہ اگر کسی لڑکی کو بہلا پھسلا کر اس کا زبردستی مذہب بدلوا کر اس سے شادی کی جاے گی تو کڑے قانون کے تحت اس کو سزا دی جائے گی۔
ایک ایسا قانون لو جہاد جو کہ پوری طرح سے جھوٹ، من گڑھت پر منحصر ہے، جو کہ سرا سر غلط ہے کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں سے رشتے جوڑتے ہیں ان کو بہلاتے پھسلاتے ہیں، خیر اب اس کو قانونی جامہ پہنا دیا گیا ہے۔
ایک ایسا قانون جسے ہمارے آئین میں جگہ ہی نہیں دیا گیا جو کہ پرسنل لبرٹی کے خلاف ہے، اسے ایک ریاستی سرکار کھلی طور پر قانونی جامہ پہنا کر ہم پر تھوپ رہی ہے۔ ہم اس کی کڑی مذمت کرتے ہیں جسے قانونی لفظ کہنا ہی قانون کی توہین ہے۔ اس قانون کو بنانے کے لئے انھوں نے ہائی کورٹ کا جو حوالہ دیا وہ دوسرے معنی میں تھا اور جو دو سپرم کورٹ کا حوالہ دیا سرلہ مدھوگر وغیرہ کا وہ بھی دوسرے معنی میں تھا۔ ہاں سپریم کورٹ نے یہ ضرور کہا تھا کہ صرف شادی کے نیت سے مذہب بدلنا ٹھیک نہیں ہے!
اس کے پیچھے ایک چھپا ہوا خاکہ تھا، ایک ہندو شخص تھے جو دوسری شادی کرنا چاہتے تھے وہ پہلی شادی کو بنا توڑے(طلاق) دئیے ہوئے دوسری شادی کرنے کے لئے اسلام قبول کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے اب میں دوسری شادی کرونگا۔ تو اس بات پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اس کے لئے آپ کو پوری طرح سے یا اندر کی جانب سے اسلام قبول کرنا ہو گا تبھی آپ کر سکتے ہیں۔ پہلی بات کہ پہلے آپ پہلی شادی کو توڑئے(طلاق) پھر آپ دوسری شادی کر سکتے ہیں۔
اسی کو غلط طریقے سے اترپردیش سرکار نے پیش کیا اور قانون بنا دیا کہ ١٠ سال کی سزا ہو گی۔
مطلب سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس میں کونسا اتنا بڑا جرم کر دیا گیا جس کے لئے ١٠ سال کے سزا کا قانون بنا دیا گیا، اگر کوئی زبردستی کر کے اسے بہلا پھسلا کر کے یا ڈرا کر کے اسے چھیڑتا ہے، شادی کرتا ہے تو اس کے لئے دفعہ ٢٩٥ کے تحت ١٠ سال کی سزا ہو گی جو کہ یہ پہلے سے ہندوستان کے قانون میں موجود تھا_ پھر اس لو جہاد کی کیا ضرورت؟؟
ان سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندوستان میں جن لوگوں نے اپنے مذاہب سے الگ دوسرے مذاہب میں شادیاں کیں ان کا کیا؟
کیا انھوں نے لو جہاد نہیں کیا؟
کیا یہ ہندوستان کے سالوں کے بنائے ہوئے محبت و الفت کو توڑنے کی کڑی نہیں؟
کیا یہ سماجی دوریاں پیدا کرنے کی طرف نشاندھی نہیں؟
کیا یہ ہندو مسلم کو حاشئے پر لاکر ان کے آپسی تعلقات کو مسمار کرنے کی کوشش نہیں؟
اس کے برعکس کہ اگر کوئی ہندو لڑکا کسی مسلم لڑکی کے ساتھ کوئی بے حرمتی کرے تو پھر اس کا کیا؟؟
یہ سب قانون کے آڑ میں سیاست نہیں تو اور کیا ہے؟
اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں نیٹ فلکس پر ریلیز ہوئی ایک سیریز "اے سٹیبل بوائے” (A suitable boy) پر ان لوگوں (بی جے پی کے کچھ وزراء) نے مدھیہ پردیش میں ایف آئی آر درج کرایا ہے۔ ایف آئی آر اس ضمن میں درج کرایا کہ سیریز کے ایک نظارے میں مندر کے اندر ہونٹوں کو لمس کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس میں ہیرو ایک مسلم ہے اور ہیروئن ہندو۔ اس نظارے کو مندر کے اندر لمس کرتے ہوئے فلمایا گیا ہے جو کہ ہمارے مذہب کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ اس میں باقاعدہ لو جہاد کا ایک انگل ہے، ایف آئی آر یہ کہتا ہے کہ لو جہاد کو بڑھاوا دیا گیا ہے۔
پہلی بات میں مانتا ہوں آپ کو ٹھیس پہنچا آپ نے ایف آئی آر درج کرا دیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں آپ کو پریشانی کیا تھی؟ کس بات کا ایف آئی آر ؟ جب آپ جانتے ہیں کہ نیٹ فلکس پر سچے واقعات کو فلما کر دکھایا جاتا ہے۔
اگر انھیں اس بات کی پریشانی ہے کہ مندر کے اندر لمس کرتے دکھایا گیا ہے تو سپریم کورٹ کا اس پر پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے۔ ٢٠٠٥ میں ونود پانڈے کی ایک فلم آئی تھی سنس(Since) نام سے، اس کو کیرالا شہر میں فلمایا گیا تھا اس میں بھی اس طرح کے بہت سارے نظارے دکھائے گئے تھے۔ اس پر بھی بہت ہنگامہ ہوا آخر میں یہ کورٹ سے کلیر ہو کر چلی۔
دوسری بات اگر لمس کرتے ہوئے سین میں یا کردار میں ہندو لڑکا ہندو لڑکی ہوتے تو کیا تب بھی آپ ایف آئی آر درج کراتے؟؟
اس کے علاوہ اگر ڈائریکٹر ایسے واقعات پر فلم بنائے جیسے کٹھوا عصمتدری، یوپی کے نوئیڈہ میں ایک پجاری کے ذریعے عصمتدری جسے مندر میں انجام دیا گیا، اب اس پر فلم بنائی جائے تو اسے مندر میں ہی تو دکھایا جائے گا؟ اس میں ہندو مذہب کی بے حرمتی کہاں؟؟
اس پورے معاملے میں اگر دیکھا جائے تو ایک عورت کی جو قانوناً لبرٹی(آزادی) ہے اسے چھیننے کی کوشش تو کی ہی جا رہی ہے ساتھ ہی ساتھ پچھلے کئی سالوں سے چلے آرہے ہندو مسلم کے درمیان جو اتحاد، تعلقات و رشتے ہیں انھیں بھی پوری طرح سے سیاست کی آڑ میں دھراشائی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پچھلے پانچ چھ سالوں سے ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ جو اقلیتی طبقہ ہے ان کو کبھی قانونی طور پر تو کبھی سیاسی طور پر کس طرح سے ہاشئے پر پھینکنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن اس قانون کے ذریعے لوگوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ سماجی دوری اختیار کی جائے، دونوں مذاہب کے مابین کوئی رشتہ ہی نہ بن پائے، کوئی پل ہی نہ بن پائے جو پائے تکمیل تک پہنچ سکے۔
امید ہم یہ کرتے ہیں کہ جہاں سے یہ بیماری نکل رہی ہے وہیں اس کا خاتمہ بھی ہو گا۔
آخیر میں انھیں یہ شعر توپتا ہوں کہ….
ہاتھ میں خنجر لے کر سوچتے کیا ہو، قتلِ مراد کر بھی ڈالو
داغ ہیں سو دامن پہ تمہارے، ایک اضافہ اور صحیح!

Comments are closed.