وجئے شاہ اور صوفیہ قریشی: اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے

ڈاکٹر سلیم خان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی نے بی جے پی کو اکھنڈ بھارت بھگوا یا ترا کو ترنگا یاترا میں بدل دیا ، مگر مدھیہ پردیش کے ریاستی وزیر وجئے شاہ کی کرنل صوفیہ پر مذموم تبصرے نے بی جے پی کی ترنگا یاترا کےرنگ میں بھی بھنگ ڈال دیا۔ اس کارنامے کا سہرہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے سر بندھتا ہے۔عدالت نے اگر کنور وجئے کمار شاہ کے کرنل صوفیہ قریشی پر متنازع بیان کا از خود سخت نوٹس نہیں لیا ہوتا تو یہ ناقابلِ معافی جرم بھی رفع دفع ہوجاتا ۔ سچ تو یہ ہ جسٹس اتل شری دھرن کی قیادت والی ڈیویژن بنچ نے مدھیہ پردیش کے ڈائریکٹر جنرل پولیس کو چار گھنٹے کے اندر یعنی شام ۶؍ بجے سے پہلے ملزم وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دےکر وزیر اعلیٰ موہن یاد و کو دھرم سنکٹ میں ڈال دیا ۔ بی جے پی کے تحت کام کرنے والا خود سر انتظامیہ چونکہ عدالتی احکامات کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اس لیے دوٹوک انداز میں خبردار کیا گیا کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو ڈی جی پی کو توہین عدالت ایکٹ کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بدزبان وجے شاہ کے خلاف فوری طور پر ایف آئی آر کی خاطر عدالت کا سخت لہجہ معاملہ کی سنگینی کا اعتراف ہے۔
ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل نے جب اس معاملے میں وقت مانگا تو جسٹس اتل شری دھرن بولے میں کل زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس مختصر جواب نے بیک وقت جسٹس لویا اور جسٹس مرلی دھرکی یاد دلا دی ۔اول الذکر کی پر اسرارموت اور مؤخرالذکر کا کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر پر اصرار کے نتیجے میں راتوں رات دہلی سے چنڈی گڑھ ایسا تبادلہ کہ پھر وہ سبکدوش ہونے تک دہلی نہیں آسکے۔ اپنے عبرتناک انجام سے بے نیاز جسٹس شری دھرن کا حوصلہ مند موقف قابلِ ستائش ہے۔ ان کی اصول پسندی کا یہ عالم ہے کہ ۷؍سالوں تک مدھیہ پردیش کی عدالت میں خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے از خود سپریم کورٹ سے اپنے تبادلے درخواست کی تھی۔ ان کا کہنا تھا چونکہ اگلے سال سے ان کی بیٹی اسی عدالت میں پریکٹس کرنے جارہی ہے اس لیے ان کا کسی اور ریاست میں تبادلہ تقاضائے انصاف ہے۔ اس مارچ میں وہ لوٹ کر آئے اور وجئے شاہ کے لیے مصیبت بن گئے۔
ریاستی وزیر کے وکیل نےاعتراض کیا کہ عدالتی حکم صرف اخباری رپورٹس پر مبنی ہےتو عدالت نے کہا کہ اب اس میں سرکاری ریکارڈ اور ویڈیو لنکس بھی شامل ہوں گے۔ عدالت ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل پرشانت سنگھ کو سخت ہدایات جاری کرنےکے بعد اگلے دن صبح مقدمہ کی اول سماعت طے کردی۔اس زبردست پھٹکار کے باوجود بے حیا انتظامیہ شام ۶؍ بجے تک ایف آئی آر دج نہیں کرسکا ۔ویسے تقریباً ساڑھے سات بجے ایک پھسپھسی ایف آئی آر تیارتو ہوگئی تھی مگر نصف شب تک سرکار کے چشمِ ابرو کا انتظار ہوتا رہا اور رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے تاریخ بدلنے سے قابل بحالتِ مجبوری اسے داخل کیا گیا کہ کہیں ہتک عزت کا معاملہ نہ بن جائے۔ دوسرے دن جب جسٹس شری دھرن کے سامنے ایف آئی آر آئی تو انہوں نے پھر سے پھٹکار لگا کر اسے مسترد کردیا ۔ ان کا اعتراض تھا کہ اس گمراہ کن ایف آئی آر میں ملزم کے کرتوت لکھے ہی نہیں گئے اس لیے یہ دورانِ سماعت ٹِک نہیں سکے گی ۔ عدالتی تبصرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جسٹس شری دھرن وجئے شاہ کو جیل بھیج کر ہی دم لیں گے ۔
عدالت نے ایف آئی آر پر کئی اعتراضات کیے مثلاً اس میں مشتبہ شخص کے کرتوتوں کا ایک بھی تذکرہ موجودنہیں ہے۔ اس طرح گویا اس کے خلاف درج جرائم کو نرم کیا گیا ہے۔عدالت نے یہ سنگین الزام بھی لگایا کہ ایف آئی آر میں (جان بوجھ کر) ایسی غلطیاں کی گئی ہیں جس کی وجہ سے مستقبل میں ایف آئی آر منسوخ ہو سکتی ہے۔ اس طرح گویا انتظامیہ پر وجے شاہ سے سانٹھ گانٹھ کرنے کا الزام لگایا گیا۔ جسٹس شری دھرن کے مطابق ایف آئی آر میں قانونی کارروائی کے لیے مواد کی تفصیلات کی کمی پائی گئی۔ کمزور ایف آئی آر درج کرنا ریاست کی طرف سے کھلے عام دھوکے کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ یہیں نہیں رکے بلکہ انتظامیہ کو خبردار کرتے ہوئے آگے بڑھ کر حکمنامہ میں یہ بھی لکھ دیا کہ ’مستقبل میں ہائی کورٹ یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ محکمہ پولیس میں اس اناڑی کوشش کا ذمہ دار کون ہے؟
عدالتِ عالیہ نے کہا کہ فراڈ ختم کرنے کے لیے ہائی کورٹ کا مکمل حکم ایف آئی آر میں شامل کرنے کی تاکید کی اور عدلیہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ’اگر اس (مقدمہ) کی نگرانی نہیں کی جائے گی تو پولیس منصفانہ تفتیش نہیں کرے گی نیز شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔ اس لیے اب ہائی کورٹ کیس کی تحقیقات کو اپنی نگرانی میں رکھے گی۔ یہ ریاستی حکومت کے گال پر کرارہ طمانچہ اور واضح عدم اعتما د کا اظہار ہے۔ اس پر تو وجئے شاہ کے ساتھ وزیر اعلیٰ موہن یادو سے استعفیٰ لے لینا چاہیے لیکن بقول اقبال بی جے پی کے ’مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر‘ ہوتا ہے۔ مدھیہ پردیش کے کابینی وزیر وجئے شاہ کو اندازہ تھا کہ ان کے اپنے صوبے کی عدالت عالیہ میں دال نہیں گلے گی اس لیے وہ ہائی کورٹ کی کارروائی کو رکوانے کے لیے دوڑے دوڑے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ ریاست کا وزیر اعلیٰ موہن یادو ناتجربہ کار اور کمزور آدمی ہے مگر دہلی میں تو ان کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے امیت شاہ کا بولا بالا ہے اور پھر مودی بھی ہیں جن کے لیے سب کچھ ممکن ہےلیکن بیچارے وجئے شاہ کی ساری قیاس آرائی غلط نکل گئی اور مایوسی ہاتھ لگی ۔
سپریم کورٹ نے اول تو فوراً سماعت کی درخواست کو مسترد کیا اور اگلے دن کی تاریخ دی پھر ایف آئی آر کو منسوخ کرکے ہائی کورٹ کو روکنے سے منع کردیا اوپر سے ایسی پھٹکار لگائی کہ موصوف کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ کرنل صوفیہ قریشی پر دیے گئے انتہائی قابل اعتراض بیان پر سرزنش کرتے ہوئے کہا نئے چیف جسٹس گووئی بولے ، ’’آپ وزیر ہیں اور اس حیثیت میں آپ کو یہ زیب دیتا ہے کہ آپ اس طرح کی زبان استعمال کریں؟ کیا یہ ایک وزیر کو زیب دیتا ہے؟‘‘وجئے شاہ کے وکیل نے دلیل دی کہ ان کے موکل نے معافی مانگ لی ہے اور میڈیا نے ان کے بیان کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے پیش کیا۔ تاہم عدالت نے سوال کیا کہ اگر انہیں شکایت تھی تو وہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے سامنے کیوں نہیں پیش ہوئے؟ عدالت نے مزید کہا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت کل کرے گی اور 24 گھنٹے میں کچھ ایسا نہیں ہوگا جس سے روک لگانا ضروری ہو۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ جب ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہو تو عوامی عہدے پر بیٹھے شخص سے اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ عدالت نے کہا کہ وزیر کے بیان سے سماجی ہم آہنگی پر اثر پڑتا ہے اور ایسے وقت میں ایک خاتون فوجی افسر کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے۔اس طرح گویا وجئے شاہ کو مودی اور شاہ بھی نہیں بچا سکے اور انہیں ذلیل ورسوا ہوکر دہلی سے لوٹنا پڑا۔
وجئے شاہ کی پریشانی یہ ہے کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے حکم پر ان کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعات 152، 196(1)(بی) اور 197(1)(سی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس میں ۷؍ سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ اسی لیے وہ ہاتھ جوڑ کر صوفیہ سے بار بار معافی مانگ رہے ہیں لیکن بات نہیں بن رہی۔ہندوتوا نوازوں میں معافی مانگنے کی روایت انگریزوں کے زمانے میں ساورکر نے شروع کی اس لیےان لوگوں کو شرم نہیں ا ٓتی مگر وجئے شاہ جیسے عادی مجرم کا قرار واقعی علاج ضروری ہے۔ 2013 میں اسے سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی اہلیہ کے خلاف بھدے تبصرے کی وجہ سے ریاستی کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا مگر تین ماہ بعد بحال کر دیا گیا تو اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ 12 سال قبل ایک تنازعہ پر تادیبی کارروائی کے باوجود بی جے پی اعلیٰ کمان ا سے ٹکٹ دیتی رہی ۔ 2018 میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی اورواجپائی سمیت سارے پرانے وزرائے اعظم پر تضحیک آمیز تبصرے کو بھی نظر اندا کر دیا گیا ۔ 2022 میں راہل گاندھی پر اس نےکہا تھا، ’وہ55-56 سال تک غیر شادی شدہ ہیں اور میرا 28 سال کا بیٹا شادی شدہ ہے۔ آپ کا بچہ 25 سال کی عمر میں غیر شادی شدہ ہے، تو پڑوسی سوال کرتے ہیں۔ 2024 میں وہ ستپورہ ٹائیگر ریزرو کے کور زون میں ‘پکنک کا مزہ لیتے ہوئے’ دیکھا گیا تھا۔ودیا بالن کے ساتھ میں عشائیہ سے انکار پر یہ ان کی شوٹنگ رکوا چکا ہے لیکن اب کی بار اس کا سابقہ کسی اداکارہ سے نہیں کرنل صوفیہ قریشی سے پڑا ہے اور امید ہے وہ اسے جیل میں چکی پسوا کررہیں گی۔
Comments are closed.