فارغین مدارس کے مسائل اور انکا حل

نقی احمد ندوی ،ریاض، سعودی عرب
ایک غبارہ فروش کسی چوراہے پر غبارہ بیچ رہا تھا۔ دور دور سے لوگ اور بچے آتے اورغبارہ خریدتے۔ جب غباروں کی سیل کم ہونے لگتی تو وہ کچھ غبارے اڑا دیتا تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کوئی غبارہ فروش وہاں پر ہے، ظاہر ہے ہیلم گیس سے بھرے رنگ برنگے غبارے اوپر اڑتے اور بچے غبارہ خریدنے کے لیے کھنچے چلے آتے۔ ایک روز اس محسوس کیا کہ کوئی اس کا کپڑا کھینچ رہا ہے۔ نیچے دیکھا تو ایک معصوم چھوٹا سا کالے رنگ کا معصوم بچہ اس کی توجہ چاہ رہا تھا۔ وہ جھکا اور بچے سے دریافت کیا۔ بچہ بولا: انکل! کیا کالے رنگ کا غبارہ بھی اوپر اڑتا ہے۔ غبارہ فروش سوچ میں پڑ گیا پھر بولا: بیٹا! رنگ سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ غبارہ کے اندر جو ہوتا ہے وہی غبارہ کو اڑاتا ہے۔
اور یہ سچ ہے کہ سات آٹھ سال مدرسے میں پڑھنے کے بعد طلباء نے جو کچھ حاصل کیا ہے اسی کی بنیاد پر ان کے مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے۔صورت شکل سے کچھ نہیں ہوتا، اسمارٹ بننے اور دکھنے سے کچھ نہیں ملتا بلکہ جو کچھ اندر ہوتا ہے اسی کی بنیاد پر ایک طالب علم آسمان کی بلندیوں پر اڑتا ہے۔ عام طور پر فارغینِ مدارس کے اندر جو احساسات پائے جاتے ہیں وہ مختلف ہوتے ہیں۔ بہت ساری وجوہات کی بنا پر کبھی وہ احساس برتری تو کبھی احساس کمتری میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اور یہ دونوں نقصان دہ ہیں۔ بیشتر مدارس کے طلباء خوش فہمیوں کا شکار رہتے ہیں۔ انہیں دنیا کی کڑوی سچائی کا علم نہیں ہوتا اور وہ کتابی دنیا سے باہر نہیں نکل پاتے۔ میںبھی ایسے ہی فارغین مدارس میں شامل تھا جو نہ صرف احساس برتری کا شکار تھا، بلکہ فراغت کے بعدکتابی دنیا سے نکل ہی نہیں پایا، مدرسے کی فراغت بعد عام طور پر فارغینِ مدارس یہی سوچتے ہیں: میں ایک آسمانی مخلوق ہوں۔ مدرسے کی پڑھائی کا موقع میرے لیے ایک نعمت غیر مرقبہ تھا۔ حدیث اور قرآن، فقہ اور عربی زبان پڑھنے کا موقع خوش قسمت لوگوں کو ہی ملتا ہے او رمیں کتنا خوش قسمت ہوں۔ جب میں چھٹیوں میں گھر جاتا ہوں تو لوگاور یہ سچ ہے کہ سات آٹھ سال مدرسے میں پڑھنے کے بعد طلباء نے جو کچھ حاصل کیا ہے اسی کی بنیاد پر ان کے مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے۔صورت شکل سے کچھ نہیں ہوتا، اسمارٹ بننے اور دکھنے سے کچھ نہیں ملتا بلکہ جو کچھ اندر ہوتا ہے اسی کی بنیاد پر ایک طالب علم آسمان کی بلندیوں پر اڑتا ہے۔ یوں تو آپ چاہے مدرسے سے فارغ ہوں یا کسی ٹیکنیکل ادارے اور یونیورسٹی سے، فراغت کے بعد سبھی اسٹوڈنٹس اور طلباء یکساں حالت ہوتی ہے۔ مستقبل کی فکر، کیریئر کا آغاز یا پھر آگے کی پڑھائی یہ عام مسئلہ ہے۔ جس کاسامنا اہلِ مدارس اور اہلِ یونیورسٹی سبھوں کو کرنا پڑتا ہے۔ مگر عام طور پر فارغینِ مدارس کے اندر جو احساسات پائے جاتے ہیں وہ مختلف ہوتے ہیں۔ بہت ساری وجوہات کی بنا پر کبھی وہ احساس برتری تو کبھی احساس کمتری میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اور یہ دونوں نقصان دہ ہیں۔ بیشتر مدارس کے طلباء خوش فہمیوں کا شکار رہتے ہیں۔ انہیں دنیا کی کڑوی سچائی کا علم نہیں ہوتا اور وہ کتابی دنیا سے باہر نہیں نکل پاتے۔ میںبھی ایسے ہی فارغین مدارس میں شامل تھا جو نہ صرف احساس برتری کا شکار تھا، بلکہ فراغت کے بعدکتابی دنیا سے نکل ہی نہیں پایا، مدرسے کی فراغت بعد عام طور پر فارغینِ مدارس یہی سوچتے ہیں: میں ایک آسمانی مخلوق ہوں۔ مدرسے کی پڑھائی کا موقع میرے لیے ایک نعمت غیر مرقبہ تھا۔ حدیث اور قرآن، فقہ اور عربی زبان پڑھنے کا موقع خوش قسمت لوگوں کو ہی ملتا ہے او رمیں کتنا خوش قسمت ہوں۔ جب میں چھٹیوں میں گھر جاتا ہوں تو لوگ اور سماج میری کتنی عزت کرتے ہیں۔ بھائی، بہن اور والدین میری دینی تعلیم پر کتنا خوش ہوتے ہیں۔ اسٹیج پر کچھ کہنے کے لیے مجھ سے اصرار کیا جاتا ہے ہر جمعہ کے دن خطبہ دینے کی درخواست کی جاتی ہے۔ واقعی دینی تعلیم میں کچھ نہ کچھ ہے جو اسے عصری تعلیم سے مختلف کرتی ہے۔ قرآن کی تفسیر مجھے آتی ہے اور کسی بھی حدیث پر گھنٹوں تقریر کرسکتا ہوں۔ فقہ کی باریکیاں مجھے معلوم ہیں اور عربی اور اردو ادب کے نہ جانے کتنے اشعار میری زبانِ زد ہیں جو میری تحریر و تقریر میں چار چاند لگادیتے ہیں۔ نحو اور صرف کے پیچیدہ قواعد مجھے خوب آتے ہیں اور فصاحت و بلاغت کی کتابیں بھی میں نے چاٹ ڈالی ہیں۔ منطق میں میرا کوئی جوڑ نہیں اور عربی ادب میں میرا کوئی توڑ نہیں۔ یہی نہیں میرے کتنے مضامین بھی چھپ چکے ہیں اور بڑے بڑے لوگوں نے میرا مضمون پڑھ کر شاباشی بھی دی ہے۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ میں اپنی سات آٹھ سال کی محنت کا صحیح استعمال کروں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں اور قوتوں کا استعمال کرکے وہ انقلاب برپا کروں جس کا خواب میں نے تعلیم کے دوران دیکھا تھا، دنیا میں کفر و الحاد کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ عریانیت سرعام ناچ رہی ہے، بے ایمانی اور سود خوری کا دور دورہ ہے، اسلام پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں، مسلمانوں کا وجود خطرے میں ہے اور ایسے دور میں مجھے کچھ کرنا چاہیے اور آخر کار میرے مدرسے کے عظیم اساتذہ اور مربیوں نے اسی کی تو تعلیم دی تھی اور سب لوگ بھی مجھ سے یہی امید کرتے ہیں۔
اور گھر والوں کی امیدیں بھی کچھ کم نہیں ہوتیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جس بچے نے آٹھ دس سال مدرسے میں خرچ کیے ہیں، اس کا حاصل کیا ہے؟ والدین کی اپنی ضروریات اور توقعات ہوتی ہیں، لہٰذا بیشتر یہ امید لگا کر بیٹھے رہتے ہیں کہ جیسے ہی میرا بیٹامدرسے سے فارغ ہوکر آئے گا گھر کا بوجھ اٹھانا شروع کردے گا۔
تیسری طرف سماج کی توقعات بھی کچھ کم نہیں ہوتیں، سماج مولوی طبقے سے کچھ الگ ہی امیدیں لگا کر بیٹھا رہتا ہے۔ ان کے تصور میں ایک مولوی تقویٰ وطہارت اور زہد و قناعت کا پورا مجسمہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ وہ مسجد اور مدرسے کے باہر کسی عالمِ دین کو کوئی کام کرتے برداشت نہیں کرتے۔ ان کے تصور میں مولوی وہی ہے جو کرتا پائجامہ پہنے، ٹوپی اس کی نہ اترے اور موزے کا بھی وہ خوب پابند ہو۔ دیکھنے میں پُرنور ہو مگر خستہ حالی اور بدحالی سے چور ہو ۔ اس کے بال بچے بھی قناعت کا پھٹا لباس پہنے ہوں اور دنیا کی بنیادی ضروریات سے محروم ہوں۔ ولادت پر اذان وہ ضرور دے اور موت پرجنازہ وہ ضرور پڑھائے۔ ہر دکھ درد میں وہ ضرور کام آئے اور سماج کی ساری برائیوں سے وہ ضرور لڑے مگر اپنے اور اپنی فیملی کے لیے کچھ نہ سوچے، کچھ نہ کرے نہیں تو وہ وارثِ نبی کیسے ہوسکتا ہے؟
فراغت کے بعد ایک مولوی جب ایسی صورت حال میں خود کوپاتا ہے تو وہ ششدر رہ جاتا ہے۔وہ ایسی دو ناؤں پر ہوتا ہے کہ اگر ایک قدم ہٹائے تو پھسل کر گر جائے۔ چنانچہ ایک طرف اس کی ذاتی ضروریات اور اہلِ خانہ کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں تو دوسری طرف اپنا انقلابی مشن اور سماج اور معاشرہ کی توقعات۔ اس پر طرئہ یہ کہ وہ زادِ راہ جو اس نے آٹھ دس سال تک اس سفر کے لیے تیار کیا تھا، ناکافی، غیر عملی اور آؤٹ ڈیٹڈ معلوم ہوتی ہے۔
مدرسے کے دس سالہ تعلیمی کورس کو مکمل کرنے کے بعد جب ایک فارغ التحصیل عالم خود کو ان حالات میں گھرا ہوا پاتا ہے تو پریشان ہونا لازمی ہے۔مگر کہانی اب شروعہوتی ہے، ایسے موڑ پر کہا ںجانا ہے او رکیسے جانا ہے اس کا فیصلہ بقیہ پوری زندگی پر اثر ڈالتا ہے۔
ہندوستان میں ایسے بڑے مدارس بہت کم ہیں جہاں عالمیت اور فضیلت تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ چھوٹے مدارس ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ اگر آپ کسی چھوٹے مدرسے کے طالب علم ہیں تو آپ کو بڑے مدرسے میں داخلہ کے لیے معلومات اکٹھا کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ کسی مشہور دینی درسگاہ سے تعلیم مکمل کرسکیں۔ کچھ ایسے بھی مدارس ہیں جہاں پر عالمیت تک کی تعلیم تو ہوتی ہے مگر پڑھائی کا معیار اتنا کمزور ہے کہ وہاں کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی آپ کی علمی صلاحیت اس قابل نہیں ہوگی کہ آپ ترقی و کامرانی کی راہ پر چل سکیں۔ ایسے مدرسوں سے چپکے رہنا آپ کے مستقبل کے لیے سود مند نہیں ہے۔ کوشش یہ کریں کہ بڑے اور مشہور مدارس میں تعلیم کی تکمیل ہو۔
دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد انہیں مدرسوں میں پڑھتی ہے جن کے سرٹی فیکٹ کو سرکاری ادارے تسلیم نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ بہت سارے طلباء سرکاری کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں اور بہت ساری سرکاری ملازمتوں اور اسکیموں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔
اس کا حل یہ ہے کہ اگر آپ کسی چھوٹے مدرسے میں زیر تعلیم ہیں تو آپ سرکاری مدرسوں میں داخلہ لے لیں۔ تاکہ آپ کے پاس ایسے سرٹی فکٹ ہوں جو مستقبل میں اعلیٰ تعلیم اور سرکاری اسکیموں اور ملازمتوں میں کام آسکیں۔
ایک دوسرا حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدرسے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ آن لائن یا فاصلاتی نظامِ تعلیم کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ کچھ مدرسوں کی پالیسی ہے کہرسے کی تعلیم کے دوران کسی دوسرے سرکاری ادارے سے تعلیم حاصل کرنا ممنوع ہوتا ہے۔ مدرسے کی پالیسی صحیح ہے یا غلط۔ یہ ہمارا موضوع نہیں۔ مگر اس سے نقصان طلباء کا اس وقت ہوتا ہے جب وہ فراغت کے بعد اعلیٰ تعلیم یا ٹیکنیکل اور پروفیشنل کورسیز کے لیے سرکاری اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ چوںکہ آپ اپنے مدرسے کے نظام اور پالیسی کو تبدیل نہیں کرسکتے لہٰذا آپ کو خود بدلنا ہوگا اور وہ سارے وسائل اختیار کرنے ہوں گے جو آپ کے روشن مستقبل کے لیے ممد و معاون ہوں۔
یہ بات یاد رکھیں کہ فراغت کے بعد ہی دراصل آپ کی اصلی تعلیم کا آغاز ہوتا ہے۔ اب تک آٹھ دس سال جو کچھ آپ نے پڑھایا سیکھا تھا۔دراصل آگے کی پڑھائی کی وہ بنیاد تھی، آپ کو فراغت کے وقت ایک کنجی دی گئی ہے، جس سے آپ دوسرے علوم کا دروازہ کھول سکتے ہیں، بہت سارے فارغینِ مدارس یہ سمجھ بیٹھتے ہیںکہ پڑھائی مکمل ہوگئی، پڑھائی مکمل نہیں ہوئی، بلکہ اب آغاز ہوا ہے، اب یہا ںسے جو تعلیم آپ حاصل کریں گے، اسی پر آپ کے روشن مستقبل کا دارومدار ہوگا۔

Comments are closed.