عظیم شاعر علی سردار جعفری کی فن و شخصیت

محمد رمضان ڈِھلّوں
ریٹائرڈ انسپکٹر، پنجاب پولیس، پٹیالہ.رابطہ؛ 9815307786
اردو ادب میں جب بھی ترقی پسند شعراء و ادبا کی بات چلتی ہے تو اس میں معروف شاعر و ادیب علی سردار جعفری کا نام نمایاں طور پر لیا جاتا ہے.آپ ترقی پسند شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ تھے ایک اعلی ادیب، نقاد تھے. رسالہ ’گفتگو‘ میں بطور مدیر اپنے فرائض انجام دیتے رہے اور ساتھ ہی اردو زبان کے مختلف شعرا ء پر دستاویزی فلمیں بھی بنائیں.
آپ کی پیدائش اترپردیش کے گونڈہ ضلع کے بلرامپور میں 29 نومبر 1913 کو ہوئی۔ آپ نے لکھنو میں ایک مذہبی ماحول میں پرورش پائی۔ جبکہ اعلیٰ تعلیم آپ نے لکھنو یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یہاں سے علی سردار جعفری نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی.
آپ بچپن سے ہی بہت ذہین تھے آپ کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ آٹھ سال کی عمر میں وہ انیس کے مرثیوں میں سے 1000 اشعار نہ صرف آپ کو زبانی یاد تھے بلک انھیں روانی سے پڑھتے تھے۔ جعفری نے اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز پندرہ برس کی عمر سے کیا اور اپنے ادبی سفر کی شروعات افسانہ نگاری سے کی۔ 1938 میں آپ کا پہلا افسانوں کا مجموعہ‘‘منزل’’شائع ہوا. لیکن اس کے بعد جلدی ہی جعفری نے اپنی تمام تر توجہ شاعری کی طرف مرکوز کر دی. لیکن یہاں قابل ذکر ہے کہ
جعفری نے اپنی شاعری میں محبوب کی ذلف کے پیچ و خم کو سنوارنے کی بجائے شاعری میں انقلابی اور حب الوطنی سے جڑے موضوعات کو اپنے اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا. اپنی انقلابی شاعری کی آپ کو قیمت بھی چکانی پڑی یعنی اس کی وجہ علی سردار جعفری کو 1940 میں گرفتار کر لیا گیا۔
لیکن اس کے باوجود علی سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن کے طور پر مسلسل کام کرتے رہے اور ساتھ ہی ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں مستعدی سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور اپنی شاعری کے ذریعے آپ عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے تا عمر کوشش کرتے رہے۔ علی سردار جعفری کے انقلابی تحریک سے لبریز چند اشعار آپ بھی یہاں دیکھیں کہ
اسی لیے تو ہے زنداں کو جستجو میری
کہ مفلسی کو سکھائی ہے سرکشی میں نے
انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو
بہت آہستہ نہیں ہے جو بہت تیز نہیں
بہت برباد ہیں لیکن صدائے انقلاب آئے
وہیں سے وہ پکار اٹھے گا جو ذرہ جہاں ہوگا
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
دامن جھٹک کے وادء غم سے گزر گیا

آپ کی نظمیں بھی اردو ادب بہترین و بیش قیمتی سرمایہ ہیں نظم‘‘اب بھی روشن ہیں’’میں سے دو بند آپ بھی یہاں دیکھیں کہ
اب بھی روشن ہیں وہی دست حنا آلودہ
ریگ صحرا ہے نہ قدموں کے نشاں باقی ہیں
خشک اشکوں کی ندی خون کی ٹھہری ہوئی دھار
بھولے بسرے ہوئے لمحات کے سوکھے ہوئے خار
ہاتھ اٹھائے ہوئے افلاک کی جانب اشجار
کامرانی ہی کی گنتی نہ ہزیمت کا شمار
صرف اک درد کا جنگل ہے فقط ہو کا دیار
جب گزرتی ہے مگر خوابوں کے ویرانے سے
اشک آلودہ تبسم کے چراغوں کی قطار
جگمگا اٹھتے ہیں گیسوئے صبا آلود
ایک اور نظم ’’بہت قریب ہو تم’’میں سیبھی چند اشعار دیکھیں کہ
بہت قریب ہو تم پھر بھی مجھ سے کتنی دور
کہ دل کہیں ہے نظر ہے کہیں کہیں تم ہو
وہ جس کو پی نہ سکی میری شعلہ آشامی
وہ کوزہ شکر و جام انگبیں تم ہو
مرے مزاج میں آشفتگی صبا کی ہے
ملی کلی کی ادا گل کی تمکنت تم کو
صبا کی گود میں پھر بھی صبا سے بیگانہ
وفا بھی جس پہ ہے نازاں وہ بے وفا تم ہو
جو کھو گئی ہے مرے دل کی وہ صدا تم ہو
بہت قریب ہو تم پھر بھی مجھ سے کتنی دور
حجاب جسم ابھی ہے حجاب روح ابھی
ابھی تو منزل صد مہر و ماہ باقی ہے
حجاب فاصلہ ہائے نگاہ باقی ہے
وصال یار ابھی تک ہے آرزو کا فریب
تمام حسن و حقیقت تمام افسانہ

آپ کی ایک اور نظم ہے جو آج بھی ہندوستان پاکستان کے مابین رشتوں کو پختہ کرنے اور امن و امان کے قیام کی دعوت دیتے ہوئے محسوس ہوتی ہے. نظم کا عنوان ہے‘‘تمہارا ہاتھ بڑھا ہے جو دوستی کے لیے’’آپ بھی دیکھیں کہ
تمہارا ہاتھ بڑھا ہے جو دوستی کے لیے
مرے لیے ہے وہ اک یار غم گسار کا ہاتھ
وہ ہاتھ شاخ گل گلشن تمنا ہے
مہک رہا ہے مرے ہاتھ میں بہار کا ہاتھ

خدا کرے کہ سلامت رہیں یہ ہاتھ اپنے
عطا ہوئے ہیں جو زلفیں سنوارنے کے لیے
زمیں سے نقش مٹانے کو ظلم و نفرت کا
فلک سے چاند ستارے اتارنے کے لیے

زمین پاک ہمارے جگر کا ٹکڑا ہے
ہمیں عزیز ہے دہلی و لکھنو? کی طرح
تمہارے لہجے میں میری نوا کا لہجہ ہے
تمہارا دل ہے حسیں میری آرزو کی طرح

کریں یہ عہد کہ اوزار جنگ جتنے ہیں
انہیں مٹانا ہے اور خاک میں ملانا ہے
کریں یہ عہد کہ ارباب جنگ ہیں جتنے
انہیں شرافت و انسانیت سکھانا ہے

جئیں تمام حسینان خیبر و لاہور
جئیں تمام جوانان جنت کشمیر
ہو لب پہ نغمہ مہر و فا کی تابانی
کتاب دل پہ فقط حرف عشق ہو تحریر

تم آو گلشن لاہور سے چمن بردوش
ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر
ہمالیہ کی ہواوں کی تازگی لے کر
پھر اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے

ان کی ایک اور نظم ‘‘گفتگو’’میں دونوں ممالک کے حوالے سے بات کی گئی ہے چند اشعار آپ بھی دیکھیں.
گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شام ملاقات چلے
ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے
ہوں جو الفاظ کے ہاتھوں میں ہیں سنگ دشنام
طنز چھلکائے تو چھلکایا کرے زہر کے جام
تیکھی نظریں ہوں ترش ابروئے خم دار رہیں
بن پڑے جیسے بھی دل سینوں میں بیدار رہیں
بے بسی حرف کو زنجیر بہ پا کر نہ سکے
کوئی قاتل ہو مگر قتل نوا کر نہ سکے

صبح تک ڈھل کے کوئی حرف وفا آئے گا
عشق آئے گا بصد لغزش پا آئے گا
نظریں جھک جائیں گی دل دھڑکیں گے لب کانپیں گے
خامشی بوسہ لب بن کے مہک جائے گی
صرف غنچوں کے چٹکنے کی صدا آئے گی
اور پھر حرف و نوا کی نہ ضرورت ہوگی
چشم و ابرو کے اشاروں میں محبت ہوگی
نفرت اٹھ جائے گی مہمان مروت ہوگی
ہاتھ میں ہاتھ لیے سارا جہاں ساتھ لیے
تحفہ درد لیے پیار کی سوغات لیے
ریگزاروں سے عداوت کے گزر جائیں گے
خوں کے دریاوں سے ہم پار اتر جائیں گے
گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شام ملاقات چلے
ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے
یہاں قابل ذکر ہے کہ جب 1999 میں اس وقت کے بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان کے تاریخی دورہ امن پر آئے تھے، تب انہوں اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کو‘‘سرحد’’کے نغموں کا البم پیش کیا تھا جنہیں لکھا علی سردار جعفری نے تھا اور آواز سیما انیل سہگل دی تھی۔
آپ کی غزلوں کے بیشتر اشعار بھی ایک طرح سے انقلابی رنگ جھلکتا نظر آتا ہے ایک غز ل کے چند اشعار آپ بھی دیکھیں کہ
اک صبح ہے جو ہوئی نہیں ہے
اک رات ہے جو کٹی نہیں ہے
مقتولوں کا قحط پڑ نہ جائے
قاتل کی کہیں کمی نہیں ہے
ویرانوں سے آ رہی ہے آواز
تخلیق جنوں رکی نہیں ہے
ہے اور ہی کاروبار مستی
جی لینا تو زندگی نہیں ہے
ہر رنگ کے آ چکے ہیں فرعون
لیکن یہ جبیں جھکی نہیں ہے
جعفری کو شاعری کے ساتھ ساتھ ڈرامے اور افسانہ نگاری میں بھی عبور حاصل تھا۔ آپ ممبء سے چھپنے والے سہ ماہی‘‘نیا ادب’’کے مدیر رہے۔ آپ نے شیکسپئر کی کچھ تحریروں کا اردو میں کامیاب ترجمہ بھی کیا۔ ہندی اور اردو میں حدفاصل کو گھٹانے کے ایک تجربے کے طور پر انہوں نے چار روایتی شعرا غالب، میر، کبیر اور میرا کے کلاموں کو ایک ہی کتاب میں یکجا کرتے ہوئے دونوں زبانوں کے بیچ کی دوریاں مٹانے کی ایک کامیاب و مخلصانہ کوشش کو انجام دیا۔ علی سردار جعفری کو ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے 1967 میں پدم شری کو قومی اعزاز سے نوازا گیا اور آپ گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی سرفراز کیے گئے.
دنیا میں امن و امان اور یکجہتی کا پیغام دینے والا یہ عظیم شاعر علی سردار جعفری بالآخر یکم اگست 2000 کو ممبء شہر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا. اور ادب و شاعری کی دنیا میں ایک ایسی خلا پیدا گیا جس کی بھرپائی ہوپانا مشکل ہے.

Comments are closed.