تنقیدات وترجیحات

مئولفہ:ناصحہ عثمانی صفحات:244،قیمت:300،سنہ اشاعت:2019 ناشر:عرشیہ پبلی کیشنر،دہلی مبصر:محمدشار ب ضیاء رحمانی آر85،بٹلہ ہائوس ،جامعہ نگر،نئی دہلی

 

 

’’تنقیدات وترجیحات‘‘ ان مضامین کامجموعہ ہے جوناصحہ عثمانی نے مختلف سمیناروں اورادبی اجلاس میں پیش کیے ہیں یامختلف رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔کچھ مضامین وہ ہیں جنھیں طالبات کے استفادے کے لیے حمیدیہ گرلس ڈگری کالج الہ آبادمیں دوران تدریس تحریرکیاگیاہے۔ان میں زیادہ ترمطبوعہ مضامین ہیں۔یہ نثراورشعردونوں کی تنقیدوجائزے پرمبنی ہیں۔’تنقیدات وترجیحات‘ کوتین حصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔پہلے حصے میں میر،جوہر،مجاز،اکبر،ناصرکاظمی،بیاض عاصی،مرزاغالب،ظفرکی شاعری پرمختلف زاویے سے روشنی ڈالی گئی ہے۔میرکے تصورحیات پران کے اشعارکے ذریعے مدلل گفتگوکی گئی ہے۔’جوہرکی شاعرانہ خصوصیات‘کابالتفصیل جائزہ لیاگیاہے۔عثمانی نے جوہرکی شاعری کاصحیح تجزیہ نہ کیے جانے کاشکوہ کیاہے۔انھوں نے بتایاہے کہ ان کی شاعری کاسیاسی نقطہ نظرسے تجزیہ کیاگیااوران کی شخصیت کااصل جوہرجنگ آزادی اورخلافت تحریک کوماناگیا،اسی لیے سارے پہلوکھل کرسامنے نہیں آسکے۔چنانچہ ناصحہ عثمانی،جوہرکے شعری اوصاف پرمزیدباریک بینی سے جائزہ لینے کاتقاضہ کرتی ہیں۔وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ اگرجوہر کی پوری توجہ شاعری پرہوتی توبڑے شاعروں میں شمارکیے جاتے۔مضمون نگارنے جوہرکی شاعری میں استادشعراکے اثرات ڈھونڈھے ہیں اورمثال پیش کرتے ہوئے میر،درد،غالب کے اشعارکے ساتھ موازنہ کیاہے۔

 

’اکبرالہ آبادی‘کی غزلیہ شاعری ‘میں عثمانی نے واضح کیاہے کہ گرچہ اکبرکاتعارف طنزیہ ومزاحیہ شاعری کے حوالے سے کیاگیاہے،لیکن روایتی اندازمیں بھی وہ کہیں پیچھے نہیں ہیں۔غالب اورپہلی جنگ آزادی پرگفتگوکرتے ہوئے عثمانی نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان کے سماجی وسیاسی حالات کاغالب پرکیااثررہا۔ مضمون نگارنے غالب کے خطوط کو سلطنت مغلیہ کے زوال کی تاریخی دستاویزقراردیاہے۔ساتھ ہی عثمانی نے،متعددنثری اورشعری حوالوں کے ساتھ ثابت کیاہے کہ غالب صحیح معنوں میں ملک کے حالات سے فکرمندتھے اوردلی کی بربادی پربے انتہا مغموم تھے، لیکن انھوں نے یہ بھی تسلیم کیاہے کہ شایدضروریات زندگی کے تقاضے نے غالب کو اقتدارکی مدح سرائی پرمجبورکیا۔ایک مضمون میں مضمون نگارنے ’بہادرشاہ ظفرکی شاعری میں مذہبی رجحانات‘ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اوررسمی شاعری کوعشقیہ فضاسے نکال کراخلاقی بلندیوں سے روشناس کرانے پرظفرکوخراج تحسین پیش کیاہے۔اقبال کے حوالے سے جنگ آزادی میں اردوادب کی خدمات پرروشنی ڈالی گئی ہے۔جس میں حسرت،جوہر،لیاقت علی،اشفاق اللہ خان کی انقلابی شاعری پراجمالی گفتگواوراقبال کے اشعاروخطاب پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

 

کتاب کادوسراحصہ نثرپرمشتمل ہے۔اس حصے میں اردوداستان اورموجودہ تہذیب کاتنقیدی جائزہ لیاگیاہے ۔قرۃ العین حیدرکی تصانیف کے حوالے سے تہذیبی المیہ کوبیان کیاگیاہے۔پریم چندکے ناولوں میں عورتوں کے سماجی اورنفسیاتی مسائل پرغورکیاگیاہے۔مضمون نگارنے پریم چندکے میدان عمل کے اقتباسات کے ذریعے بتانے کی کوشش کی ہے کہ:

’’ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے،ناول نگارکے نظریے گاندھی جی کے نظریات سے قریب ترہوتے جاتے ہیں۔گائوں کووہ ہندوستانیوں کااصل میدان عمل سمجھتے ہیں‘‘۔ص،162

 

اس کے علاوہ اس حصے میں مقدمہ شعروشاعری کاجائزہ لیاگیاہے۔مزیدانیسویں صدی کے اواخرکی بدلتی ادبی روایت پرمنشی نول کشورکے حوالے سے گفتگوکی گئی ہے۔مطبع نول کشورکی خدمات پرسرسری روشنی ڈالتے ہوئے انیسویں صدی میں اس کے غیرمعمولی ادبی کارناموں کوسراہاگیاہے ۔اس ضمن میں اردوتراجم ،مخطوطے اورنایاب کتب کی اشاعت کاحوالہ دیاگیاہے اور مطبع کی مقبول کتابوں کی مختصرفہرست پیش کی گئی ہے ۔

 

تیسرے حصے میں اقبال کی نظم’شمع وشاعر‘کاتجزیاتی مطالعہ کیاگیاہے۔پھرحسن نعیم کی اہم نظم’انقلاب آئے گادوست‘کی معنویت ثابت کی گئی ہے۔پروفیسرمحمدحسن کے معرکۃ الآراء ڈرامے ’ضحاک‘ کاتنقیدی مطالعہ بھی گراں قدر ہے۔سجادظہیرکے معروف ناول ’لندن کی ایک رات‘میں لندن میں زیرتعلیم طلبہ کی زندگی بلکہ نوجوان طبقے کی عکاسی کاجائزہ لیاگیاہے۔ناصحہ عثمانی نے رشیدحسن خان کے باغ وبہارکے نسخے کی افادیت اورتحقیقی اہمیت کواجاگرکیاہے اورثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ نسخہ، تاحال کیوں اہم ماناجاتاہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرقمرالہدی فریدی کی مرتبہ طلسم ہوشرباکی تلخیص پرتنقیدی نظرڈالی گئی ہے جس میں مضمون نگارنے بتایاہے کہ اسے طلسم ہوشرباکی تلخیص نہیں بلکہ جلداول کی تلخیص کہناچاہیے بلکہ تلخیص کہنے پرہی اعتراض کرتے ہوئے قصہ کاباتسلسل انتخاب قراردینے کی پیروی کی ہے ۔چنانچہ رقم طرازہیں:

’’کیوں کہ ہزارصفحات پرمشتمل جلدجس کے مصنف محمدحسین جاہ ہیں ،کوتقریباََ100صفحات میں الگ الگ واقعات کومنتخب کرکے اس طرح پیش کیاہے کہ قصہ گوئی کاتسلسل کہیں بھی منقطع نہیں ہونے پایاہے اورقصہ میں کہیں کچھ حذف کیاگیاہے،اس کاشائبہ بھی نہیں ہوتا‘‘ص 242

 

مضمون نگارنے افادیت بیان کرتے ہوئے اس نسخے کوطلبہ کے لیے قیمتی سرمایہ اورتنقیدی وتحقیقی میدان میں قابل قدراضافہ بتایاہے ۔عثمانی نے طلسم ہوشرباکی سبھی باقی ماندہ جلدوں کے انتخاب کی بھی خواہش ظاہرکی ہے تاکہ اسے اردوشائقین تک بآسانی پہونچایاجاناممکن ہواوراس اہم ادبی سرمائے کی حفاظت ہوسکے۔

 

کتاب میں بعض اقتباسات کے حوالے توپیش کیے گئے ہیں،لیکن کچھ حوالے نظراندازکردیے گئے ہیں۔اگرسبھی اقتباسات مآخذاورصفحہ نمبرکے ساتھ مزین کیے جاتے توبہترہوتا۔کہیں کہیں پروف کی غلطی ہے۔امیدہے کہ آئندہ ایڈیشن میں یہ چیزیں دیکھ لی جائیں گی۔

 

مجموعی طورپرناصحہ عثمانی اپنے دعوے میں درست ہیں کہ انھوں نے نفس مضمون کے ساتھ انصاف کیاہے ۔مثبت تنقیدی رویے بھی مضامین کوانفرادیت بخشتے ہیں۔الغرض مضامین کامجموعہ مفیدہے اورطلبہ وریسرچ اسکالروں کے لیے بہت کچھ معلومات کاسامان بھی ہے۔کتاب کی قیمت اورطباعت مناسب ہے اورمکتبہ جامعہ دہلی،انجمن ترقی اردودہلی،ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ،عثمانیہ بک ڈپوکولکاتہ سمیت متعددمکتبوں میں دستیاب ہے۔

[email protected]

8750258097

Comments are closed.