دہلی کی قدیم تاریخی مساجد کسمپرسی کی حالت میں

عبدالرافع رسول
ایک عہد ہے کہ تیزی سے اوجھل ہو رہا ہے۔ گویا مٹھیوں سے خشک ریت پھسل رہی ہے۔ قدیمی چہرے ،آثار،شعائر،نشانات ایک ایک کرکے منہدم اور مٹتے چلے جارہے ہیں۔ایسے میں جب ہاتھ ساز کے کسی تار کے ساتھ چٹختے ہیں تو نغمہ ان دیکھے خلا میں کھو جاتا ہے۔ 1947میں تقسیم برصغیرکی اٹھا پٹخ کے دوران ہندوستان کے جومسلمان پاکستان بنانے کے لئے مہاجرت اختیارکرگئے کامیاب ہوگئے اورجواس وقت پاکستان کی دشمن مسلم قیادت کے جھانسے میں آکراپنے لئے ہندوستان کوہی مستقرٹھراتووہ خوارہوگئے اوروہ 73برس گذرجانے کے طویل عرصے کے بعد بھی رستاخیز صورتحال سے دوچار ہیں۔
ہندئووں کی نظروں میںوہ کبھی بھی ابنائے وطن نہیں ٹھرے،ان کی آشفتگی کا رنگ ہرنئے دن کے ساتھ گہراہوتاچلاجارہا ہے۔وہ مسلسل ہندئووں کی گرفت اوران کے حصارمیں ہیں۔شریرہندئووںکے غوغائے بے معنی کے بہکاوے میں آ کروہ پہلے ہی گائے کاگوشت کھاناترک کرچکے تھے کہ شائدوہ ان کے اس عمل سے خوش اوران سے راضی ہوجائیں گے لیکن انکے قسمت بدل نہ سکی اورانکی تاریخ کے وہی سخت ترین دن ان پرچکر کاٹ رہے ہیں کہ جوآج سے تین دہائیاں قبل شروع ہوئے تھے۔ ہندئووں کی سیاسی قیادت مقامی جذبات کی للو پتو میں اس قدر آگے نکل گئی ہے کہ مسلم قوم کے مفادات مجروح ہوتے چلے گئے ۔مگر عالمی پذیرائی سے وہ محروم ہیں ۔دلی میں مسلمانوں کی بے شمار مساجد مقفل اورویران پڑی ہیں جنہیں دیکھ کردل سہ پارہ ہوجاتاہے ۔ دہلی میں سیکڑوں مسجدیں ایسی ہیں جن کا نام و نشان اب باقی نہیں رہا لیکن کچھ عظیم الشان تاریخی مساجد اب بھی موجود ہیں جو اپنی تباہی اور بربادی کی داستان خود بیاں کر رہی ہیں ۔وہ مساجد جو عبادت گاہ تھیں وہ آج وہ شرابیوں کی آماجگاہ میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ ان مساجد میں غیراخلاقی حرکات کی اجازت ہے لیکن فرزندان توحید کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔چلئے آج ہم اپنے قارئین کودلی کی انہی مساجدکااحوال بتاتے ہیں۔
دہلی کی قدیم تاریخی مساجدمیں ایک مسجد خیر المنازل جودہلی کے چڑیا گھرسے مغرب میں واقع ہے۔اس مسجد میں صرف تین وقت: ظہر، عصر اور مغرب کی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ عشا اور فجر میں تالا لگادیا جاتا ہے۔رمضان میں تراویح پڑھنے کی اجازت نہیں، اس مسجدکوبجلی کنکشن کی اجازت نہیں ہے، جس کے نتیجے میں گرمی اور اندھیرے میں ہی نماز ادا کرنی پڑتی ہے۔پانی کے انتظام کے لیے ایک قدیم کنواں ہے ، جس سے پانی نکالنا جوئے شیر لانے کے مرادف ہے ، پانی کا موٹر لگانے کی اجازت نہیں ہے، جس کے باعث پانی کی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔قدیم زمانے کا ایک حوض ہے ، لیکن نہ تو اس میں پانی بھرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اس کی صاف صفائی کرنے دی جاتی ہے ، نتیج بارش وغیرہ کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے ایک جوہڑبن گیاہے اور گندگی پھیل رہی ہے۔یہاں استنجا کا انتظام نہیں ہے، جس سے نمازیوں ، گیٹ کیپر اور سیاح افراد کو بھی بہت دقت ہوتی ہے اور یہ افراد اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے آس پاس کی جگہوں پر جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
مسجدکی عمارت کافی بڑی ہے ، لیکن کافی بوسیدہ ہوچکی ہے۔اس مسجدکے پچاس سے زائد کمرے تھے، لیکن اب ٹوٹ کر بیس سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے کونوں اور کنارے کنارے بنے کمروں میں نئی نسل کے جوڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ جواری اور جرائم پیشہ افراد بھی اپنے مشاغل انجام دیتے ہیں۔ اور حیرت کی انتہا تو یہ ہے کہ ان کمروں میں بول و براز بھی کردیتے ہیں۔ایک کمرہ کے کنارے تو باقاعدہ بول کے لیے قدمچہ بناہوا پایا گیا ، جس سے اس کے آس پاس کے حصے کافی متعفن ہوچکے ہیں۔سیاح جوتے اور چپل پہن کر ہی مسجد میں گھس آتے ہیں اور اس کی بے حرمتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
دہلی کی دوسری مسجدمسجد قلع کہنہ ہے اوریہ پرانا قلعہ مسجدکہلاتی ہے ۔ یہ مسجد دلی کے پرانے قلعہ کے اندر شیر منڈل کے شمال پرگتی میدان کی جانب میں واقع ہے ۔گھومنے پھرنے والے لوگ بلا روک ٹوک جوتے چپل پہن کر بے حرمتی میں مصروف ہیں۔ یہاں نہ نماز کی اجازت ہے اور نہ ہی بیٹھنے کی ۔یہاں پہنچ کراگرکوئی مسلمان کہے کہ ہم دو رکعت نماز ادا کرسکتے ہیں ، تو اس نے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا جاتاہے مسجد کے اندر کی گندگی کے ڈھیرپڑے ہوئے ہیں ۔سیکورٹی کے افراد بھی تعصب پسند ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اوپر سے خاموش ہدایت ہے کہ کسی بھی صورت میں نماز پڑھنے نہیں دینا ہے۔ظلم تو یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے اس میں نماز پر سخت پابندی ہے ، اس میں کوئی مسلم سیاح بھی نماز نہیں پڑھ سکتا ہے لیکن غیر شرعی اور غیر اخلاقی حرکت کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔مسجد کی عمارتیں رفتہ رفتہ مخدوش ہوتی جارہی ہیں۔
دلی کی تیسری مسجد،’’محمدی مسجد‘‘ یہ مسجد لودھی دور 1451-1526کی تعمیر ہے، جو ایک لمبی دیوار کے باہری حصے میں واقع ہے۔ دیوار کے تعمیری ڈھانچے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ قلعے کا باہری حصہ ہوگا ۔یہ مسجد انتہائی خوب صورت ہے اور ابھی صحیح سالم موجود ہے۔ مسجد ہذامیں نمازکی ادائیگی کی اجازت نہیں ،چندسال قبل اس مسجد جمعہ کی نماز شروع کی تھی، لیکن اس پر شرپسندوں نے تالا لگادیا اور نماز سے روک دیا ۔ غیور مسلمانوں نے تالا توڑ کر دوبارہ نماز شروع کردی، اس پر شرپسندوں نے مقدمہ قائم کردیا اور سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کرکے پولیس اور فورس کا سہارا لے کر دوبارہ مسجد کو بند کروادیا۔مسجد لگائے گئے کتبے میں تین مساجد کا تذکرہ ہے ، جن کے نام تحفہ والا گنبد، مخدوم صاحب مسجد اور محمد والی مسجد ہیں، لیکن ابھی صرف محمدوالی مسجد ہی موجود ہے ، جس کا نام سرکاری دستاویزوں میں محمدی مسجد ہے۔ مسجد کے احاطہ میں نہ پانی ہے اور نہ ہی بجلی۔
دلی کی تیسری مسجد درویش شاہ کی مسجد، گل مہر پارک ہے۔یہ مسجد لودھی دور کی یاد گار ہے ۔مسجد کافی پرانی ہوچکی ہے ، جگہ جگہ سے دیواریں مخدوش ہوچکی ہیں۔محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے مسجدکو چوبیس گھنٹے بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کسی بھی ٹوپی کرتے والے شخص کو مسجدہذاکے سایے میں بھی کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا۔جب کہ آتش عشق کے شکار جوڑے کی مسجد کے بنے حجرے نما جگہوں میں حرام کاری پر اف بھی نہیں کرتے۔صاف دکھائی دیتاہے کہ مسجدہندوپرفرقہ پرستی کی تنگ نظری کی شکارہوچکی ہے۔ دلی کی چوتھی مسجد’’نیلی مسجد حوض خاص‘‘ کہلاتی ہے۔ مسجد کی دائیں طرف ایک بہت بڑا پیپل کا درخت ہے ، جس پرہندو مورتیاں رکھ دیتے ہیں اور فساد برپاکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسجدمیں پانی کے انتظام کی اجازت نہیں ہے۔دلی کی پانچویں مسجد’’مخدوم شاہ مسجد مئے فیر حوض خاص‘‘ایک بڑے پارک کے بیچوں بیچ یہ مسجد واقع ہے۔ مسجدبے حرمتی کے باعث کافی اضطراری حالت میں ہے، یہاںجب نماز پڑھنے کی بات کی جاتی ، تو داروغان کاکہناہوتا کہ جی جناب یہ ہمارے پیٹ کا سوال ہے ، ہم قطعی نماز پڑھنے نہیں دیں گے۔مسجدانکشاف ہوا، لیکن مسجد کے کنارے واقع ایک درخت کے پاس بت نصب کردیا گیا ہے اور جس کو پوجنے کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس مسجد کو رہائش گاہ اور منبر کو حمام کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ مسجد کے درودیوارپرجگہ جگہ لکھے اللہ اور قرآنی آیتوں کو کھرچ کر مٹانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ ،عمارت کافی خستہ ہوچکی ہے ، فرش ٹوٹا پڑا ہے، پلاستر جھڑ رہے ہیں۔ہندوغنڈے سر شام مسجد کے صحن میں کرکٹ کھیلتے ہیں۔ مسجد کے مشرقی حصے میں قبریں ہیں۔ ان کی آڑ میں بت پوجا کی کوشش کی جارہی ہے۔
دلی کی پانچویں مسجد’’مسجد موٹھ‘‘ہے ۔ یہ لب سڑک واقع ہے اور بہت بڑی مسجد ہے۔ اس کے آس پاس پاکستانی غیر مسلم شرنارتھی آباد ہیں۔ مسجدمیںپہلے نماز اداہوتی تھی، لیکن مسلم کش فساد کے نتیجے میں اس پر شرپسندوں نے تالا لگادیا۔عدالت کے فیصلے کے باوجود نماز پر پابندی ہے۔ جب بھی مسلمان نماز پڑھنے کے لئے اس مسجد کی طرف آتے ہیں ، تو مقامی لوگ پتھراو شروع کردیتے ہیں اور نماز پڑھنے نہیں دیتے، جس کے نتیجے میں مسجدمکمل طورپر بند ہے ۔صرف سیاحت کے لئے ہرروز صبح گیارہ بجے سے پانچ بجے شام تک یہ مسجد کھلی رہتی ہے۔ اس دوران سیاحوں اور مقامی ہندواس مسجد کی بے حرمتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور تعینات گارڈ کچھ بھی نہیں کہتا ۔ مسجدکے صحن میں ہندونوجوان کھیل کودکرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہندولڑکے سیڑھیاں لگاکر دیوار پار کرتے ہیں اور پھر شام ہوتے ہی ناپاک حرکتوں میں لگ جاتے ہیں۔
دلی کی چھٹی مسجد’’بیگم پوری مسجد‘‘کہلاتی ہے۔یہ دلی کے بیگم پور گائوں سے ملحق مالویہ نگر میں واقع ہے،مسجد ہندوجواریوں کی آماج گاہ بن چکی ہے اورمسجدمیںجگہ جگہ تاش کے پتے بکھریے ہوئے پائے جاتے ہیں۔جبکہ پوری بالائی منزل قضائے حاجت کا میدان بنی ہوئی تھی ، جس سے ہوش ربا تعفن پیدا ہورہا ہے۔ بدبو کا یہ عالم ہے کہ یہاں ایک منٹ ٹھہرنا بھی دشوار ہے۔مسجدکاحوض شراب کی بوتلوں سے اٹا پڑا ہے۔ دن ڈھلتے ہی عیاشی و فحاشی شروع ہوجاتی ہے، جس میں پولیس اہلکار بھی شریک ہوتے ہیں۔ مسجد میں کتے سورہے ہوتے ہیں ، جیسے انہیں یہ پتہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے ، اسے یہاں سے کوئی نہیں بھگائے گا۔حالات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ والے یہ چاہتے ہیں کہ اس مسجد کے نشانات مٹاکر اس کی شناخت کو ختم کردیا جائے۔اسی لیے مسجد کی حفاظت اور بے حرمتی سے بچانے کے لیے کوئی معقول و غیر معقول انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ حصوں کی دیواریں اور چھت انتہائی مخدوش حالت میں ہیں۔
دلی کی ساتویں مسجد’’مسجد کالو سرائے‘‘ہے۔ یہ مسجد پوری طرح سے ہندئووں کی رہائش گاہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس طرح سیکڑوں سال قدیم مسجد کالوسرائے اس وقت پوری طرح سے رہائش گاہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ محکم آثار قدیمہ کی بے توجہی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے مسجد پر تقریبا نصف درجن سے زائد لوگوں کے گھر آباد ہو چکے ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ یہاں کئی برسوں سے رہ رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مسجد ہی نہیں ہے۔ اس قسم کی تعمیرات نہیں تھی لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی کے سبب ایسا ہوا ہے ۔غور طلب ہے کہ مسجد کے احاطے میں ہی علاقے کے سابق ایم پی رمیشور سنگھ نے اپنا گھر بنا رکھا ہے اور اسی نے مسجد کے آس پاس لوگوں کو آباد کیا ہے ۔ آثار قدیمہ ہونے کے باوجود مسجد کی حالت بدل دی گئی ہے ۔مسجد کے دوسرے حصے کو لکڑیاں اور کوڑا کرکٹ رکھنے کا گودام بنالیا ہے۔مسجد کے ایک دوسرے راستے کو کتوں کیکھڑرا کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ کچھ ایسے حصے بھی ہیں، جہاں چھت نہیں ہیں، تاہم وہ بھی انھیں لوگوں کے استعمال میں ہیں۔
دلی کی آٹھویںمسجد’’رضیہ سلطانہ مسجد، مہرولی‘‘کہلاتی ہے۔اس مسجد کے احاطے میں رائوجاں کی باولی موجود ہے ۔ منبرو محراب صحیح سالم حالت میں ہیں۔ دیواروں پر عجیب و غریب فن کاری کے نقشے اور قرآنی آیات تحریر ہیں۔ ہندوغنڈے مسجد کے اندرونی حصے میں تاش کھیل رہے ہیںجبکہ جواری، شرابی سوئے پڑے ہیں۔تقریبا پندرہ بیس سال پہلے اس میں آگ لگائی گئی ، جس کے بنا پر کالی کالی ہوگئی ہے۔مسجدکے درودیوارپرکندہ عربی عبارتوں کو رگڑ کر مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔
دلی کی نویں مسجد’’جمالی کمالی مسجد مہرولی‘‘کہلاتی ہے۔یہ مسجد بھی ساجدین کی راہ تک رہی ہے۔ اپنی آرائش و زیبائش ،شان و شوکت، لطافت و نفاست کے لحاظ سے فن تعمیر کا اعلی نمونہ ہے ۔مسجد میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی کہ جس سے مسجد کا تقدس پامال ہو رہا ہو۔مسجد میں صفائی ستھرائی کے نظام کودیکھ کرجب آپ مسجد میں نماز ادا کرناچاہیں تو محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے تعینات ہندوچوکیدار نے نماز ادا کرنے سے روک دیتاہے۔ ہندوچوکیدار صاف صاف کہتاہے کہ آپ اس مسجد کا جائزہ تو لے سکتے ہیں لیکن نماز نہیں ادا کر سکتے ۔کیوںکہ سرکار کی طرف سے آڈر ملا ہے کہ یہاں نماز ادا کرنا ممنوع ہے ۔ یہ یقینامحکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے مساجداور مسلمانوں پر ایک ظلم اور زیادتی ہے اور افسوس کی بات ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی زیادتی کی بنا پر نہ صرف جمالی کمالی مسجد بلکہ اس جیسی دیگر تاریخی اور قدیمی مساجد غیر آباد ہیں اور ساجدین کی منتظرہیں۔
اس مسجد کے ارد گرد بہت بڑی جگہ ہے ، جو تقریبا ویران اور خراب ہے ۔ پچھلے سال کچھ غیور مسلمانوں نے قانونی کارروائی کے بغیر کھول کر نماز پڑھنے کی کوشش کی، لیکن دلی سرکارنے اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر اسے قفل بند کردیا ۔ ابھی اس میں نماز اذان کچھ بھی نہیں ہوتی۔ یہ مسجد مسلمانوں کے غیرت ایمانی کو للکار رہی ہے اور پکار رہی ہے کہ ہے کوئی ! جو مجھے آباد کرے ۔
دلی کی دسویںمسجد’’ مسجد مہرولی‘‘مسجد جمالی کمالی سے نصف کلومیٹر جنوب میں یہ مسجد واقعہ ہے۔ مسجد کا ایک مینار محکمہ آثار قدیمہ کی بے اعتنائی کے سبب اپنا وجود کھو چکی ہے ۔ اس مسجد میں بھی نماز کی ادائیگی پرپابندی عائدہے ۔نمازیوں سے مسجد آباد نہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ گندی اور مخدوش ہوتی جارہی ہے۔ صحن کے تہہ خانہ میں کوڑا کباڑ اور شراب کی بوتلیں ملیں۔ سیاح بے روک ٹوک جوتے چپل پہن کر ہی گھومتے پھرتے ہیں۔ راجیش کمار نامی گارڈ تعینات ہے ، لیکن یہ کسی کو بھی مسجد کی بے حرمتی سے منع نہیں کرتا، لیکن نماز سے ضرور روکتا ہے۔دلی کی گیارویں مسجد’’افسر نامہ گنبد والی مسجد‘‘یہ مسجدہمایوں کے مقبرہ بستی حضرت نظام الدین بستی کی یادگار ہے ۔مسجد کی عمارت کافی بوسیدہ ہوچکی ہے۔ مسجد کے پارک کی چہاردیواری کے اندر ناجائز جوڑے عشق فرمائی میں مصروف نظر آئے۔یہاں صرف جمعہ نمازکی ادائیگی کی اجازت ہے باقی پنجہ گانہ نمازکی نہیں۔
دلی کی بارہویں مسجدہمایوں کے مقبرہ سے متصل مسجد عیسی خاںمسجدبھی ہے ۔ مسجد کی حالت بے حد خستہ ہے ۔ مسجد کے باہر ایک کنواں ہے جس میں گندگی بھری پڑی ہے۔مسجدسے متصل عیسی خان کی قبر ہے عیسی خان شیر شاہ سوری کے کورٹ کا آدمی تھا، جن کے لیے زندگی میں ہی یہ مقبرہ اور مسجد تعمیر کرادی گئی تھی۔ یہ مسجدبھی غیر آباد ہے اوریہاں بھی نماز پر پابندی ہے۔مسجد انتہائی خوب صورت ہے، تاہم زمانے کے خرد برد کی شکار ہورہی ہے۔ہمایوں کے مقبرہ سے متصل ایک اور مسجد ہے جس کانام’’ مسجدعرب سرا ‘‘ہے۔ مسجدمیںنماز پنج گانہ کی اجازت نہیں ہے ۔نمازیوں سے آباد نہ ہونے کہ وجہ سے عمارت مخدوش ہوتی جارہی ہے۔
مدرسہ صفدر جنگ یہاں نواب شجاع الدولہ نے اپنے والد محترم مرزامقیم عبدالمنصور خاں کی یاد میں بہت بڑی عمارت تعمیر کرائی تھی، جو آج کل تماشا گاہ عالم بنی ہوئی ہے۔ اسی کے احاطے میں مشرقی دروازے سے متصل اوپری منزل پر ایک پرشکوہ مسجد ہے ۔یہ دلی کی تیرویں مسجد ہے ۔اس مسجدمیں صرف جمعہ کی نماز کی اجازت ہے۔ اسی دن کھولی جاتی ہے باقی دنوں میں اسے دیکھنے پر بھی پابندی ہے۔دلی کی چودہویں مسجدشیخ یوسف قتال مسجد، مالویہ نگرہے۔
اس مسجد کے احاطے میں باقاعدہ طور پر ایک چھوٹا سا مندر بن چکا ہے، جس پر پھول وغیرہ چڑھائے گئے ہیں۔مسجد کے اندر ہر جگہ شراب کی بوتلیں نظر آرہی ہیں۔مسجد کے اندر داخل ہو تو اندر سے شراب اور چرس گانجے کی بدبو آرہی ہے ۔ مسجد کے چاروں کونوں کو پان مسالے کی پیک سے رنگین کر دیا گیاتھا اور مسجدکے قریب میں ہی لوگوں نے پیشاب پاخانہ کر رکھا تھا جس کے تعفن سے وہاں ایک لمحہ بھی ٹھہرنا دشوار ہو رہاہے ۔ محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے کوئی چوکیدار مقرر نہیں کیا گیا۔ البتہ مسجد میں وقف بورڈ کی جانب سے ایک امام مقرر ہے لیکن انہیںیہاں نماز پڑھنے او رپڑھانے کی اجازت نہیں ہے ۔ گو کہ مسجد میں تمام غیر شرعی اور غیر قانونی کام تو انجام دیئے جا سکتے ہیں لیکن نمازنہیں پڑھی جا سکتی ۔مسجدکی زمین پر قرب وجوار کے لوگوں نے قبضہ کر رکھاہے ۔ و اضح رہے کہ اس مسجد کو حضرت فرید شکرگنج کے نواسے شیخ علا الدین نے بنوایاتھا ۔ حضرت شیخ یوسف قتال حضرت قاضی جلال الدین لاہوری کے مرید خاص اور صاحب نسبت بزرگوں میں سے تھے۔
دلی کی پندرویں مسجد’’گنبد اور ستون والی مسجد‘‘ہے ۔یہ مسجددلی کے ساکیت روڈ سے ملحق کھڑکی گائوں میں واقع ہے جو عہد فیروزشاہی کی نشانی اور استحکام و مضبوطی میں لاثانی ہے ۔مسجد کے باہر ہی ایک مندر بنا ہوا ہے جس میں قدیم مندر لکھا ہوا ہے ۔ اس مندر کی تعمیر ابھی تین چار سال پہلے ہی ہوئی ہے اس سے پہلے یہاں ایک مورتی رکھ دی گئی تھی اور دیکھتے دیکھتے یہاں مکمل مندر کھڑا ہو گیا۔ مسجد کے اندر شرابیوں،جواریوں ،اور چرسیوں کی محفلیں سجتی ہیں ،ہندوچوکیدار بھی اس میں شامل رہتا ہے ۔ مسجد میں نمازکی ادائیگی بند ہے۔ اس مسجد کی محراب میں کھڑے ہو کر جب آوازدی جاتی ہے تواس کی آواز پورے 82 گنبدوں تک صاف سنائی دیتی تھی ۔ مسجد میں بے حدگندگی ہے اوریہاں برسوں سے صفائی نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ اس مسجد کی تعمیر اعظم خان جہاں جونانشہ نے کرائی تھی جو چونے اور پتھروں کی بنی ہوئی ہے ۔مسجدکھڑکی کی نمایا ں خصوصیت یہ ہے کہ یہ جتنی لمبی ہے اتنی ہی چوڑی بھی ہے ۔ اب یہ مسجد نہایت ہی مخدوش حالت میں ہے مشرقی دروازہ کے شمال میں چھت شہید ہو گئی ہے اور اس حصے کے نو گنبدوں میں سے پانچ گنبد بھی شہید ہو گئے ہیں اور چار گنبد نیم شکستہ حالت میں ہیں۔پوری مسجد میںجگہ جگہ گانجہ، چرس اور افیم کی تھیلیاں پڑی ہوئی ہیں۔مسجد میں بنے کچھ کمروں پرقبضہ کرلیا گیا ہے، جب کہ دوسرے کچھ کمرے بول وبراز کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ کچھ کمروں کو کوڑا گھر بنالیا گیا ہے۔شرافت سے گری ہوئی حرکتوں کے لیے بھی اس مسجد کو اڈے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
دلی کی سولہویں مسجد’’شاہ عالم مسجد ‘‘ وزیرآبادہے۔یہاں فیروز شاہ تغلق نے ایک پل تعمیر کرایا تھا ، اسی پل سے متصل بائیں جناب شاہ عالم کا مقبرہ اور شاہ عالم مسجد ہے۔ یہ مسجد تالا بند ہے۔مسلمان گارڈ ہونے کی وجہ سے مسجد میں صفائی ستھرائی ہے، گارڈ نے مسجد میں غیر شرعی عمل کو روکنے کے لیے پولیس میں بھی اپلی کیشن دے رکھا ہے۔دلی کی سترویں مسجد’’سلطان غاری مسجد‘‘ہے یہ مسجد مہی پال پور وسنت کنج دہلی میں واقع ہے۔اس مسجد کے چاروں طرف وسیع و عریض میدان ہے ۔ آبادی یہاں سے کافی دور ہے۔ کافی بڑی مسجد ہے۔ یہ مسجد شمس الدین التمش کی تعمیر ہے ۔ اس کے صحن میں التمش کے بیٹے سلطان ناصر الدین محمود کا مقبرہ ہے ۔مسجدکی دیوار پر ہندوانہ علامت بنائی ہوئی ملی اور اندر قبر کے پاس شیو لنک کا پتھر رکھاگیا۔
اس مسجدسے تھوڑے فاصلے پر مغرب کی جانب جھاڑی میں ایک اور مسجد ہے، جس کی صرف دیواریں باقی رہ گئی ہیں اور وہ بھی آدھی ادھوری ہی بچی ہیں۔ وہاں لگا بورڈ سے صرف اتنا پتہ چل پایا کہ یہ مسجد فیروز شاہ تغلق کی تعمیر ہے۔ اس کی دیوار سے متصل بیت الخلا کے قدمچے بنے ہوئے ملے اور جگہ جگہ گندگی کے انبار نظر آئے۔ان دونوں مسجدوں کے اطراف کی لمبی چوڑی زمینوں پر آہستہ آہستہ قبضہ کیا جارہا ہے۔ اور مسجد کے راستے میں ایک بہت بڑے حصے پر گاو شالہ بنالیا گیا ہے۔
دلی کی انسیویں مسجد’’تین برجی مسجد محمد پور ‘‘ہے یہ مسجد دہلی کے محمدپورمیں واقع ہے۔یہ بہت بڑی مسجد ہے۔ اس کے چاروں طرف بڑی بڑی عمارتیں بنالی گئی ہیں، یہاں تک کہ مسجد کی دیوارکو ہی لوگوں نے اپنے مکان کا حصہ بنالیا ہے۔یہ مسجد لودھی عہد ۔ کی یادگار ہے۔مسجد کے گیٹ پر ہمہ وقت تالا لگا رہتا ہے۔روزانہ کایہاں معمول ہے کہ شام کو نشہ کرنے والے مسجد میں دروازہ پھاند کر داخل ہو جاتے ہیں اور شراب و دیگر نشہ کرتے ہیں۔
دلی کی بیسویں مسجد’’محمد پور اندر گلی کی مسجد‘‘ہے۔ تنگ اور پتلی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک جگہ پر پہنچے جہاں صرف گنبد کا ہی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ اس کے چاروں طرف بڑے بڑے مکانات تعمیر ہوچکے ہیں۔ حتی کہ راستہ بھی اتنا تنگ ہوگیا ہے کہ بمشکل تمام صرف ایک آدمی ہی آواگون کرسکتا ہے۔ اس کے چہار سو ہندو آبادی ہے۔ مقامی لوگ جب کسی شخص کو اسلامی شان و وضع کے ساتھ دیکھتے ہیں تووہ گالم گلوچ پراترآتے ہیں اور جتنی بری سے بری اورنازیبا باتیں ہوسکتی ہیں، سب سناڈالتے ہیں؛ حتی کہ یہ بھی کہاجاتاہے کہ اگر تم لوگ یہاں سے نہیں گئے تو تمہاری لاشیں یہاں سے جائیں گی۔
دلی کی اکیسویں مسجد’’شاہی مسجدقدسیہ باغ‘‘ہے یہ مسجد، نزد کشمیری گیٹ بس اڈہ میں واقع ہے ۔مسجد کے بالکل سامنے رنگ روڈ پر مسجد سے متصل ایک جدید ہنومان مندر کی تعمیر کی گئی ہے ۔واضح رہے کہ دلی میں اکثر قدیم مسجدوں کے سامنے مندروں کی تعمیر کی گئی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی مہربانی سے مسجدیں ویران ہیں اور جدید مندر پوری طرح سے آباد ہو رہے ہیں ۔ آثار قدیمہ قانون کے مطابق میٹر تک کوئی جدید تعمیراتی کام نہیں ہو سکتا ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ قدیم مسجد میں عبادت کے لیے پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ قانونی اعتبار سے مسجد میں نماز کی پابندی نہیں ہو سکتی لیکن جدید مندر میں پوجا پاٹھ کا کام زور و شور سے ہو رہا ہے اور محکمہ آثار قدیمہ آنکھ بند کیے ہوئے ہے۔ مسجد قدسیہ مغل فن تعمیر کاشاہکار نمونہ ہے ۔مسجد کافی خوبصورت تھی لیکن اس وقت یہ کافی خستہ حال ہے ۔ حاکم محمد شاہ کی اہلیہ نواب قدسیہ بیگم نے مسجد قدسیہ باغ کو وقف کیاتھا ۔
دلی کی بائیسویں مسجد’’چوبرجی مسجد‘‘ہے۔یہ مسجد جھولا پارک میں واقع ہے۔ آس پاس صفائی ستھرائی ہے۔لیکن مسجد تالابند ہے۔ مسجد کے اندرونی حصے میں بندروں نے اپنا رین بسیرا بنا رکھا ہے ۔ مسجد کے مشرقی دیوار پر ناریل پھوڑنے او راگربتی کے آثار نظرآئے، جس سے پتاچلتاہے کہ اس مسجد کو بھگواکرن بنانے کی ایک سازش ہوسکتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر سلطان فیروز شاہ نے کرائی تھی ۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کے چار برج اور اتنے ہی گنبد تھے، لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی کی وجہ سے صرف ایک گنبد باقی رہ گیا ہے ، مسجد کے سبھی چھوٹے بڑے مینارے بھی منہدم ہوگئے ہیں۔لاپرواہی کا یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں ، جب اس مسجد کا نام و نشان بھی اس عالم سے ختم ہوجائے گا۔
دلی کی تیسویںمسجد’’مسجد پیٹھان والی‘‘ہے یہ دلی کے مال روڈ چوک اور جھولا پارک کی دوسری سمت میں کافی اونچائی پر واقع ہے۔یہ مسجد پہلے اسمیک مسجد کے نام سے مشہور تھی، جس پر گانجہ ،افیم اور چرس وغیرہ کا دھندہ کرنے والوں کا قبضہ تھا۔16سال تک کیس لڑنے کے بعد اسے آزاد کرایا گیا ہے۔ اس سے متصل ایک اور چھوٹی مسجد ہے ، جس کی چھت گرچکی ہے اور دہلی سرکار مرمت کرارہی ہے۔ چاروں طرف پارک ہے۔ صاف صفائی ہے۔ غیر شرعی عناصرکی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔نماز پر مکمل پابندی ہے۔
دلی کی چوبیسویں مسجد’’عید گاہ مسجد یامسجد وال‘‘ہے۔یہ مسجددلی کے آرکے پورم، سیکٹرمیں واقع ہے ۔یہ مسجد لودھی زمانے کی تعمیر ہے۔ مغرب میں مسجدکے دیوار سے متصل گردوارہ اورمشرقی دیوار سے متصل ایک بڑا مندر بنادیا گیا ہے۔ مشرق کا ایک گنبد، رہاشی گھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شمالی کی طرف ایک بڑی جگہ پر قبضہ کرکے ایک اسکول قائم کردیا گیا ہے۔ مسجدکے اندرغیراخلاقی حرکات کرنے والے انسانی چمگادڑوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔اس مسجد کے متصل دلی کی ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے جس کا نام ’’بجری خان مسجد‘‘ بناوٹ سے اندازہ لگایا جائے تو یہ خانقاہی چلہ کشی کے لیے ا س کی تعمیر ہوئی ہوگی۔ اس کے مشرق حصے پر قبضہ کرکے ایک مندر بنا لیا گیا ہے۔دلی کی پچسیوںمسجد ’’مسجد بھول بھلیاں‘‘ہے۔ بھول بھلیاں بادشاہ اکبر کے رضاعی بھائی اوہم خاں اور رضاعی ماں ماہم بیگم کا مقبرہ ہے ۔اس مقبرہ کے احاطے میں تقریبا 200 فٹ کے فاصلے پر جنوب میں سڑک کے دوسری طرف ایک پتلی گلی ہے اسی گلی سے ہوکر جانے پر مسجد میں جانے کا راستہ ہے ۔ اسی راستے میں ایک ٹائپنگ سینٹرہے اور اس سے متصل مسجد میں جانے کے لئے در وازہ ہے ۔اس دروازے سے صرف وہ لوگ ہی اندر جا سکتے ہیں جن کا قبضہ مسجد پر ہے ۔مسجد کو چاروں طرف سے قبضہ کر لیا گیا ہے اور اس میں ہندئووں کی رہائش ہے ۔ مسجد کا گنبد صاف طور پر مسجد کے وجود پر دلالت کرر ہا ہے ۔ دلی کی چھوبیسویں مسجد’’مسجد حوض خاص‘‘ہے یہ مسجددلی کے حوض خاص گائوں میں واقع ہے ۔مسجد کو پوری طرح سے رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ مسجد کے محراب میں ہندوقابضین چارپائی اور بستر لگائے ہوئے سو رہے ہیں ۔ مسجد میں اتنی گندگی پھیلی ہوئی ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ مسجد کے باہر مقبرہ اور اس کے احاطے سیاحت کے نام پر ہندو لڑکے اور لڑکیاں عیاشی کر رہے ہیں۔دلی کی ستائیسوں مسجد’’مسجد جہاز محل‘‘ ہے یہ دلی کے مہرولی میں حوض شمسی کے کنارے ایک انتہائی شاندار اور خوبصورت مسجد ہے۔ ایک زمانہ بیت گیا ہے اس کے باجود اس کی بناوٹ و سجاوٹ اور آرائش و زیبائش کی دل کشی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، لیکن مسجد کی جو اصل تاج ہے ، اس سے دیگر تاریخی مساجد کی طرح یہ مسجد بھی محروم ہے۔ یہاں بھی نماز پر پابندی ہے۔ ہندو اس مسجد کو بھی عیاشی و فحاشی کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ مسجدکے مختلف کونوں میں پڑی ملی شراب کی بوتلیں اس کی بے حرمتی کی داستان جان کاہ بیان کر رہی ہیں۔
دلی کی اٹھائیسویں مسجد’’مسجد نیل گو‘‘ہے۔جہاز محل کے بالکل سامنے ایک اور مسجد انتہائی مخدوش حالت میں ہے، جس کو وہا ں کے لوگ مسجد نیل گو کے نام سے جانتے ہیں ۔ مسجد کی موجودہ صوورتحال کو دیکھ کر ہر صاحب ایمان کی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ مسجد اور مسجد کے باہر نجاست ہی نجاست پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کے قریب بھی کھڑا ہونا مشکل ہوتاہے۔ مسجد کے اندر نجس جانورپناہ لئے ہوئے تھے اور باقی کی زمین پر علاقائی لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ مسجد کا وجود ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔دلی کی انتیسویں مسجد کا نام ’’مسجد راجوں کی بائیں‘‘ہے یہ مسجدبھی ہندو شرابیوں اور جواریوں کا اڈا بنادی گئی ہے ۔
مسجد کے اندر کھلے عام شراب پی جارہی ہے اور کھلے عام جوا کھیلا جارہا ہے ۔ یہاں بھی نماز پڑھنا ممنوع ہے ۔مسجد کے اندر بالی ہے جس میں گندگی کا انبار لگا ہوا ہے ۔بالی کے اندر گند ہ پانی بھرا ہوا ہے اور اس میں پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر اشیا پڑی ہوئی ہیں۔واضح رہے کہ یہ مسجد مہرولی بس ٹرمینل سے تقریبا سو میٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے ۔ اس مسجد کی تعمیر دولت خاں نے بڑے خلوص و محبت کے ساتھ سرخ پتھر سے کرائی تھی جو سکندرشاہ لودھی کے عہد حکومت کا امیر تھا ۔
دلی کی تیسویں مسجد’’موتی مسجدقطب الدین بختیار کاکی ہے ۔ موتی مسجد کا دورہ کیا تو دیکھا کہ سنگ مرمر سے بنی ایک خوبصورت اور عالیشان مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی کے نذر ہو چکی ہے۔مسجد میں صفائی ستھرائی نہ ہونے کے سبب گندگی پھیلی ہے جس کی وجہ سے موتی نما یہ مسجد پیلی ہوتی جا رہی ہے ۔مسجد میں نماز ادا کرنے کی ممانعت کی وجہ سے ہی مسجد کی حالت تشویشناک ہے ۔ صرف موتی مسجدہی نہیں جتنی بھی بند مساجد ہیں اگر ان میں نماز کی اجازت دے دی جائے تو مساجد صاف بھی رہیں گی اور ان کا تقدس بھی باقی رہے گا ۔واضح رہے کہ اس مسجد کی تعمیرمحمد معظم شاہ عالم بہادر شاہ اول نے کرائی تھی۔دلی کی اکتیسویںمسجد’’مسجد قوہ الاسلام ہے ‘‘دلی کے مہرولی میں واقع عظیم الشان مسجد قوہ الاسلام میں لکھی قرآنی آیات آج بھی اپنی جاہ و جلال و شان وشوکت کی گواہ بنی ہوئی ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ اس سے بے فکر ہے ۔
دلی کی بتیسویںمسجد’’مسجد حنفیہ ‘‘ہے۔یہ مسجددلی کی نبی کریم کی اندرونی گلی میں واقع ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اس مسجد کے صحن میں سفید قبریں تھیں اسی وجہ سے یہ مسجد سفید قبر والی مسجد کے نام سے بھی مشہور ہے، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ تمام قبروں کو ملبہ اور کوڑا سے دباکر غیر قانونی قبضہ کرکے مکانات تعمیر کر لیے گئے ہیں اور جو حصے باقی رہ گئے ہیں، ان کو کوڑا دان کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ علاقے کے ہندو شرپسند عناصر نے پولیس کی مدد سے اس مسجد کو بند کرادیا ، ان لوگوں کی غنڈہ گردی کی انتہایہ ہے کہ اس سے متصل ایک چھوٹا مدرسہ جس کا رنگ ہرا تھا، ان فسطائیوں نے پولیس والوں سے کہہ کر رنگ بدلنے پر مجبور کیا۔ آے دن یہ شرپسند عناصر یہاں آکر گالی گلوچ کرتے رہتے ہیں تاکہ کوئی فرقہ وارانہ جھگڑا ہوجائے اور ملک کے فضائے امن و امان کو مکدر کرنے کا موقع ہاتھ آجائے، لیکن مسلمان دفع شر کی بنیاد پر خاموش رہتے ہیں۔دلی کی تینتیسویں مسجد’’مسجد بڑا گنبد لودھی گارڈن‘‘ہے۔ یہاں بھی نماز پڑھنے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔یہ مسجد انتہائی خوب صورت ہے، لیکن کوئی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے بے رونق ہوتی جارہی ہے ، جگہ جگہ سے پلستر جھڑ رہے ہیں، اس کے گنبد کے کچھ حصے شہید ہوگئے ہیں۔بے التفاتی سے رفتہ رفتہ اس کا وجود بھی مٹتا جائے گا۔لودھی گارڈن میں ہی اس مسجد کے تھوڑے فاصلہ پر ایک اور مسجد ہے ، جس کا تاریخی نام تو معلوم نہ ہوسکا ، البتہ لوگ اسے چھوٹی مسجد کہتے ہیں۔مسجد انتہائی خوب صورت ہے اور اب بھی صحیح سالم موجود ہے، لیکن توجہ نہ دی گئی، تو اس کا حشر بھی دیگر مساجد سے مختلف نہیں ہوگا۔
دلی کی چونتیسویںمسجد’’مسجد محمد تغلق شاہ ہے۔ یہ مسجددلی کے تغلق آباد میں واقع کھنڈرو ویران قلعے میں واقع ہے۔ جس طرح پورا قلعہ خستہ و خجستہ ہوچکا ہے،اسی طرح اس میں موجود مساجد بھی منہدم ہوچکے ہیں اور صرف ظاہری امتیازات کی بناپر ہی یہ نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ یہ کبھی ایسی پاک جگہ تھی، جہاں انسان اپنی جبین نیاز خم کیا کرتے تھے۔تحقیق و معائنے سے انکشاف ہوا کہ یہاں چھوٹی بڑی تین مساجدبھی تھیں اور اب تینوں ویران و کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں۔مسجد کے حصے میں گدھے چر رہے ہیں۔گویا یہ گدھے زبان حال سے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کی عملی پیمانہ پیش کر رہے تھے۔دلی کی پنتیسویں مسجد’’موتی مسجد لال قلعہ‘‘یہ مسجد احاطہ لال قلعہ کے اندر واقع ہے۔ مسجد انتہائی خوب صورت ہے، اس کی زیب وزینت کے لیے سفید سنگ مرمرکا استعمال کیا گیا ہے، لیکن روحانی رونق سے یہ مسجد بھی محروم ہے اوریہ مسجد بھی تالا بند ہے۔ دلی کی چھتیسویں مسجد’’کوٹلہ فیروز شاہ مسجد‘‘ہے یہ مسجد دہلی گیٹ سے متصل خونی دروازے سے مشرق میں واقع ہے۔ مسجد کافی بڑے رقبے میں پھیلی ہوئی ہے، تعمیراتی مرمت پر عدم توجہ کی بنیاد پر پوری چھت اور گنبد منہدم ہوگئی ہے، صرف صحن ہی باقی ہے۔ اس کے گرد ا گرد پارکوں میں روشنی بجلی کا انتظام ہے جب کہ مسجد میں لالٹین جلانے پر بھی پابندی ہے۔ دلی کی دیگر مساجد کی طرح یہاں بھی ناجائز عناصر گھومتے رہتے ہیں اور تہہ خانہ میں بنے کمروں کی حرمت پامال کرتے رہتے ہیں۔
ان مساجد کے علاوہ بھی جیسے کلاں مسجد، مسجد شیر شاہ ، مسجد کھجور وغیرہ کا دورہ کیا ، تمام جگہوں پر مساجد کی موجودہ صورت حال کم و بیش یکساں ہے، ہر جگہ محکمہ آثار قدیمہ نے تحفظ کے نام پر نماز پر پابندی لگائی ہوئی ہے ، البتہ نماز کے علاوہ ہر غیر شرعی و غیر قانونی عمل کی کھلی اجازت ہے۔یہ مساجد منتظر ہیں کہ کوئی غیرت مند صاحب ایمان اٹھے اور انھیں بے حرمتی و پامالی سے تحفظ فراہم کرے۔اس مضمون میں صرف انھیں مساجد کا تذکرہ کیا گیا ہے، جہاں پر راقم نے معلومات حاصل کرلی ہیں۔نئی دہلی میں وقف بورڈ اور محکمہ آثار قدیمہ کے زیر نگرانی مساجد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق دہلی میں2ہزار مساجد ہیں، جن میں سے مساجد محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہیں اور پانچ سو مساجد دلی وقف بورڈ کے زیر انتظام ہیں اور بانوے مساجد پر ناجائز قبضہ ہے اور باقی مساجد مسلمانوں کے زیر اہتمام ہیں۔بھارتی مسلمانوں کوبیک آوازسے بھارتی سرکارسے کہہ دیناچاہئے کہ ہماری یہ ساری مساجد کے سجدوں اور اذان کی صدائوں سے آباد ہونی چاہیے جو اب شرابیوں ، جواریوں اور عیاشوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔حفاظت و نگہہ داشت کے نام پر ان کو برباد کرنے کی خاموش حکمت عملی جاری ہے۔اور مساجد کی حرمت و تقدس سے ناآشنا تعصب آمیز ذہنیت کے حامل چوکیداروں کا رویہ اس کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی حکمت عملی اپنائے اور ایسا لائحہ عمل تیار کرے ، جس سے ان مساجد کی عظمت رفتہ، سابقہ تقدس و حرمت اور روحانیت واپس آجائے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے گھر کو مقدس و مطہر بنانے اور تحفظ فراہم کرانے میں کامیابی عطا فرمائے ۔ آمین ۔ثم آمین۔

Comments are closed.