” عشق نامراد ” افسانہ

قلم: تاج الدین محمد، نئی دہلی۲۵
وہ میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ میں ٹرین میں داخل ہوا، ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈال کر اپنی سیٹ پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اس نے لال سلوار اور ہرے رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی جس پر زری کے لال لال پھول کڑھے ہوئے تھے۔ ایک کالا دوپٹہ جس کے دونوں سرے پر ایک سنہرا جھالر لٹک رہا تھا جو باریک موتیوں سے پرویا ہوا تھا جو اسکے گندمی چہرے پر اچھے لگ رہے تھے۔ عمر کوئی اٹھارہ بیس برس رہی ہوگی۔ ہاتھ میں ایک بڑا موبائیل ساتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ جسے اس نے کھڑکی کی طرف رکھ چھوڑا تھا۔
میں نے اپنے سفر کو بارہا صعوبتوں سے گھرا پایا ہے جہاں وقت کی سوئی رک سی جاتی ہے لیکن آج پہلا اتفاق تھا کہ ایک کہانی جسکی ابتدا نے مجھے انتہا تک پہنچنے کی جلدی میں وقت کو ایک دم سے تیز کر دیا تھا۔
اس نے اپنے بیگ کا چین کھولا، پن ہاتھ میں لیا، سم کا سلاٹ باہر نکالا اور پرانے سم کو بیگ میں رکھتے ہی نیا سم لگا دیا۔ ٹنگ ٹنگ کی صدا کیساتھ ہی چند میسیج اسکی اسکرین پر نمودار ہوئے جسے غور سے پڑھنے کے بعد موبائیل کو دونوں ہاتھوں سے دباتی رہی، مسرت کی چند خفیف لکیریں اس کے چہرے سے ظاہر ہوئیں۔ تبھی کھڑکی سے آئی ہوئی ہوا کے تیز جھونکے نے میری کہانی کے کئی اوراق کو یک بیک ہی پلٹ کر آغاز سے انجام کی جانب ایک سبک رفتار گھوڑے کی مانند سفر شروع کر دیا۔
کبھی ایک لمحے کو چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہوتے تو اچانک ہی اداسی و پسیمانی سے چہرہ خسک ہو جاتا تھا۔ ظاہراً شریف گھر کی پڑھی لکھی معلوم ہوتی تھی۔ شاید وقت اور زمانے کی گردش نے کسی عیار اور مکار کے دام فریب میں گرفتار کر دیا تھا۔ تبھی ایک ہلکے سے ہچکولے کیساتھ ٹرین چل پڑی۔ میں نے باہر کی جانب نگاہ دوڈائی ٹرین آہستہ آہستہ اسٹیشن پر رینگ رہی تھی۔
تھوڑی بہت دیر بعد بیگ سے ایک پرچی نکال کر اس پر لکھے نمبر کو اپنے موبائیل سے ڈائل کرنے لگی۔ کئی بار کی جستجو اور ناکامی کے بعد اسکے چہرے کی رنگت بدلنے لگی اور مایوسی و ناامیدی نے شفق کی سرخی کی مانند فکر و تردد کی لالی کو گالوں پر بکھیر دیا۔ میں ابتک اپنی کہانی کے کئی اوراق پڑھ چکا تھا۔ جس کا تجسس ابن صفی کی کہانیوں سے مشابہ تھی۔ میں سفر میں ہم سفروں سے بات چیت کرنے کے بہانے ڈھونڈھنے میں بڑا شوخ واقع ہوا ہوں۔ کوئی پریشانی تو نہیں؟ اگر آپکو کہیں کال کرنی ہے تو میرا فون استعمال کر سکتی ہیں۔ آپ نے پرانا سم نکال کر نیا سم ڈال لیا، ایسا کیوں؟
وہ مسکرا کر خاموش ہو گئی شاید اسے میرا سوال پسند نہ آیا تھا۔ میں بھی خاموش رہا۔ اس نے دوبارہ نمبر لگایا لیکن کامیابی نہیں ملی۔ میں نے پراعتماد لہجے میں کہا اگر برا نہ مانے تو ایک بات کہوں وہ ہاں کہتے ہوئے جھجھک سی گئی۔ میں نے کہا کسی سے پیار کرتی ہو اور گھر سے بھاگ کر اس کے پاس جا رہی ہو۔ وہ زیر لب مسکرائی دوپٹے کو درست کرتے ہوئے کہنے لگی ہاں ایسا ہی ہے۔
میری کہانی کے چند اوراق کو دیمکوں نے چاٹ لیا تھا اور سرحد کی مانند اوپر سے نیچے کی جانب ایک لکیر کھینچ ڈالا تھا جس سے چند الفاظ دریا برد ہو گئے تھے جس سے جملے کی ساخت کو سمجھنے میں دشواری پیدا ہو رہی تھی۔ میں نے کتاب بند کر دی۔ استفسار کرنے پر اس نے کہا فیس بک سے، اوہ فیس بک! میرے دل سے ایک ہوک سی نکلی۔ درد سے سینہ تنگ سا ہو گیا۔ میں ایک لمب سرد آہ بھر کر خاموش ہو گیا۔ اس نے میری جانب ایک مشکوک نگاہ ڈالی اور کہا فیس بک میں کیا مسئلہ ہے پہلے لوگ آس پاس کے لوگوں کو ہی جان پاتے تھے اب دور دراز کے لوگوں سے بھی دوستی کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کیا خیال ہے آپ کا؟ اس کے اس سوالیہ جملے نے مجھے کافی متعجب کر دیا تھا۔ میں چند لمحے میں ہی بیک وقت کئی طرح کے سوالات سے جھوجھ رہا تھا۔ ایک معصوم دماغ کو اپنی گرفت میں لینے والے شاطر لڑکوں کے بارے میں سوچکر لڑکی کی کم عقلی پر میرے دل کا ٹمٹماتا ہوا دیا کھڑکی سے آئی ہوئی ہوا کے تیز جھونکے سے اچانک ہی بجھ سا گیا۔
میں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا، کیا میں آپکا نام جان سکتا ہوں؟ آپکو قطعی اسکی ضرورت نہیں! اسکے جواب میں تلخی تھی۔ میں نے اصرار کیا تو اس نے کہا شگفتہ ایک فرضی نام ہی سمجھ لیجئے۔ میں نے کہا آپکا سفر کہاں تک ہے اس نے خاموشی اختیار کی دوبارہ پوچھنے پر کہا فرض کر لیجئے نئی دہلی۔ میرے دوست نے مجھے راستے میں کسی مسافر سے بات کرنے نام پتہ بتانے سے منع کیا ہے۔ میرے منھ سے نکلا بڑا چالاک اور شاطر ہے آپ کا دوست۔ اس نے منھ بنا لیا۔ اور پانی کی بوتل کھولتے ہی کہنے لگی۔ پانی لیں گے آپ؟ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ قدرے توقف کے بعد میں نے کہا۔ کافی اطمینان جھلک رہا ہے آپ کے چہرے پر۔ میں نے کسی بھاگنے والے کے چہرے پر اتنی بے فکری پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ وہ خوش ہوئی اور کہنے لگی۔ اس نے کہا تھا جب گھر سے نکلنا ماں باپ بھائی بہن اور اپنے گھر کے بارے میں بالکل نہیں سوچنا صرف اور صرف میرے اور اپنے بارے میں سوچنا اور منزل پر نگاہ رکھنا۔ میں نے کہا اچھا تو تمہارا واسطہ ایک مکار اور عیار آدمی سے پڑا ہے۔ اس نے ناراضگی کا اظہار کیا لیکن ابتک وہ کافی گھل مل گئی تھی۔ میں نے پوچھا تمہیں عشق کا مطلب پتہ ہے؟ عشق کیا ہوتا ہے؟ اس نے میرے چہرے پر ایک تجسس بھری نگاہ ڈالی اور کہا عشق مطلب پیار محبت اور کیا؟
ہاں، تم نے صحیح کہا۔ لیکن عشق کیا نہیں جاتا، ہو جاتا ہے۔ زندگی انسان کو کبھی ایسے دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے کہ انسان دل کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن عاشق کبھی ظلم نہیں کرتا بلکہ ظلم سہتا ہے۔ عاشق کسی کی بے عزتی نہیں کرتا بلکہ ذلت برداشت کرتا ہے۔ عشق وہ ہوتا ہے جس میں کوئی لالچ نہیں کوئی چھل نہیں کوئی فریب نہیں کوئی دغا نہیں۔ عاشق چالاک نہیں ہوتا عاشق سودا نہیں کرتا، عاشق عزت کرنا جانتا ہے وہ کبھی کسی کی بے عزتی کا سبب نہیں بنتا۔ اس نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا۔ ہمارا دوست بھی سب کی عزت کرتا ہے۔ وہ ہم سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔
میں نے اپنی کتاب کا ایک اور صفحہ پلٹتے ہی پانی کی بوتل اسکے ہاتھ سے لیکر کئی گھونٹ اپنے خسک گلے میں انڈلتے ہوئے کہا اگر وہ سچا عاشق ہوتا تو تمہیں ٹرین سے دہلی بلانے کی بجائے اسے تمہارے ماں باپ کے گھر آنا چاہیے تھا اور بہتر یہ ہوتا کہ وہ خود اپنے ابو امی کیساتھ تمہارے یہاں آتا اور تمہارے والدین سے تمہارا رشتہ مانگتا۔ کیا تم نے کبھی اس سے پوچھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ اسکی بہن کو کوئی بھگا کر لے جائے تو اسے کیسا محسوس ہوگا؟ اس نے تو پیار میں کوئی رشک ہی نہیں لیا؟ سب کچھ تمہارے سر پر ڈال دیا؟ یہاں تک کہ تن تنہا ایک اکیلی لڑکی کو دہلی تک بلایا؟ یہ کیسا پیار ہے؟ اسکے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب چکی تھی۔
تھوڑے سے وقفے میں ایک سچا عشق اور ایک فریبی و مکار عاشق کے تعلق سے میں نے ایک پوری تقریر اس کے گوش گزار کر دی۔ اسکی بھنویں تن گئیں چہرے پر فکر کی لکیریں صاف نظر آنے لگیں۔ اس نے پانی کی آدھی بوتل اپنے گلے میں انڈیل لیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ پیڑ پودھے تیزی سے بھاگے جا رہے تھے وقت کی رفتار کی مانند۔ اس نے موبائیل کھولا وقت دیکھکر موبائیل کو بیگ میں رکھ دیا۔
قدرے خاموشی کے بعد اس نے اپنے سر کو اوپر اٹھایا بالوں میں انگلیاں پھیر کر الجھے ہوئے بالوں کو درست کرتے ہوئے اف کی ایک مبہم سی صدا کیساتھ اپنی آنکھیں میرے چہرے پر گاڑ دی۔ آنکھیں مزید کچھ جاننے کی متلاشی تھیں۔ میں نے نظریں نیچی کر لی۔ وہ بدبدائی، کچھ سوالات جو اب بھی متضاد سمت میں کھڑے تھے اور جواب کے منتظر تھے۔
یہ گلی چوراہے کے لونڈے لپاڑے عاشق نہیں بلکہ جسم حاصل کرنے والے سوداگر ہیں جو کم سن معصوم لڑکیوں کا شکار کرتے ہیں۔ بیٹا ہم جس معاشرے میں جیتے ہیں اس میں لڑکے کے بھاگ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بس والدین کو اتنا کہنا ہی کافی ہوتا ہے غصے میں گھر سے چلا گیا ہے۔ جب غصہ ٹھنڈا ہوگا خود ہی واپس آ جائیگا۔ لیکن لڑکی کے بھاگ جانے سے پورے خاندان کی عزت ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔
دنیا ترقی کے کتنے بھی منازل طے کر لے لڑکا اور لڑکی کا فرق ازل سے ہے اور ابد تک رہیگا اور اسے رہنا بھی چاہیے۔ لڑکا فٹ پاتھ پر سو جاتا ہے کسی ہوٹل میں برتن مانجھ کر بھی کھانا کھا لیگا کسی دکان میں کام کر کے گزارا کر لیگا۔ لیکن کیا لڑکی ایسا کر پائیگی، امریکہ ہو یا لندن عورت ہر جگہ اکیلی اور تنہا غیر محفوظ ہے اسے مرد کا بازو ہی محفوظ بناتا ہے چاہے وہ اسکا باپ ہو بیٹا ہو بھائی ہو یا شوہر؟ اس کے علاوہ کوئی نہیں، کوئی بھی نہیں؟ ایک عاشق کو ذمہ دار شوہر بنتے بنتے اور اپنا اعتماد ایک دوسرے پر بحال کرتے کرتے زندگی گزر جاتی ہے پھر بھی ایک دوسرے پر شک کی سوئی گھومتی ہی رہتی ہے۔
وہ کسی خیال میں گم ہو گئی۔ زندگی کی بھول بھلیوں میں اچھے برے کو وقت سے پہلے سمجھنے کی جستجو نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ میں نے زیادہ بولنا مناسب نہیں سمجھا اور خاموش ہو رہا۔ دل ہی دل میں سوچنے لگا شاید کچھ زیادہ ہی بول گیا۔ مجھے اتنا نہیں بولنا چاہیے تھا۔ تھوڑے سے وقفے سے اس نے میری طرف دیکھا جیسے کچھ اور سمجھنا چاہتی ہو۔
میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا تمہارے دوست نے ایک لمحے کو بھی نہیں سوچا کہ جب تمہاری ماں کو پتہ چلیگا کہ تم گھر سے بھاگ چکی ہو تو اسکا کیا ہوگا۔ وہ تو جیتے جی مر جائیگی کئی کئی دن وہ کھانا نہیں کھائیگی۔ اسکا وزن چند ہفتوں مہینوں میں ہی آدھا رہ جائیگا۔ کیا ہوگا تمہارے باپ کا جب راستے چوراہے پر لوگ اس سے بولیں گے بھائی صاحب بٹیا کا کچھ پتہ چلا؟ کیا ہوگا تمہارے بھائیوں کا جب اسکے دوست اس سے پوچھیں گے ابتک بہن ملی یا نہیں؟ کیا ہوگا تمہاری بہنوں کا جب اسکی سہیلیاں اس سے سوال کریں گی کیا بہن ابتک واپس نہیں آئی؟ ایک بات یاد رکھنا عورت اگر بھاگ کر شادی کر لے تو پوری زندگی معاشرہ اسے وہ عزت نہیں دے پاتا جو ماں باپ بھائی بہن کی مرضی کیساتھ ہوئی شادی کیساتھ عورت پاتی ہے۔ وہ عمر کے آخر حصے تک بھی معاشرے میں بھگوڑی کے نام سے ہی جانی پہچانی جاتی ہے۔ اس کے بچے یہاں تک کہ اس کا شوہر بھی تاحیات تضحیک کا نشانہ بنتا ہے۔
ٹرین نئی دہلی اسٹیشن پر لگ چکی تھی۔ میں بہت دنوں بعد دہلی آیا تھا اب پہلے کی طرح کچھ بھی نہیں تھا سب کچھ بدل چکا تھا اور ساتھ ہی ساتھ شگفتہ بھی بدل چکی تھی۔ اس نے دوبارہ پن نکالا سلاٹ کھولا نئے سم کو توڑ کر پھیک دیا اور پرانے سم کو ڈالتے ہی میسیج کی بھرمار نے اسے آبدیدہ کر دیا۔ تبھی ایک رنگ کیساتھ اسکے پاپا کی کال آئی، شگفتہ نے روتے ہوئے کہا ‘ساری’ پاپا میں آ رہی ہوں۔ پھر اسکی ماں کی سسکیاں نالے گریہ و فریاد اور آہ و فغاں جسے میں بمشکل سن پایا۔ اس نے روتے ہوئے کہا ممی میں نے اپنی زندگی میں شاید کوئی نیکی کی تھی کہ ایک ہمدرد بھائی اور مشفق باپ مل گیا جس نے میری سمت درست کر دی ہے میں ابھی گھر آ رہی ہوں۔ اس نے میرا نمبر لیا میں نے اپنی کتاب کا آخری صفحہ پلٹتے ہی کتاب بند کر دی۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی میرے سینے سے لگ کر زار و خطار روتے ہوئے الوداع میری شادی میں ضرور آئییگا میں کال کرونگی اور ہاں سم مت بدلنا خدا حافظ کیساتھ ہی وہ اسٹیسن کے دوسرے جانب بریلی جانے والی ٹرین پر سوار ہو گئی۔
۔۔۔ ختم شد ۔۔۔
Comments are closed.