کچھ تو شرم کرے یہ سرکار

شکیل رشید
آج ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹّر کا ایک بیان دیکھا کہ یہ جو کسانوں اور مزدوروں کا احتجاج ہے، ہے، اور اسے اسپانسر اپوزیشن خاص طور پر کانگریس پارٹی کر رہی ہے ۔ اسپانسر کرنے کا مطلب روپیے پیسے دے کر کسی تقریب، ایونٹ یا پروگرام کا انعقاد ۔ گویا یہ کہ کسانوں کا احتجاج، ان کا دہلی چلو کا نعرہ بی جے پی کی نظر میں ایک ایسا پروگرام ہے جس کے لیے اپوزیشن نے روپیے خرچ کیے ہیں ! وہ کسان اور مزدور جنہوں نے، ملک کی الگ الگ ریاستوں سے، مرکز کی مودی سرکار کی کسان مخالف پالیسیوں اور کسان مخالف قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے دہلی کی طرف کوچ کیا اور پولیس کے لاٹھی ڈنڈے کھا رہے ہیں، جن پر سخت ترین سردی میں پانی کی تیز دھار ماری جا رہی ہے، جن کے راستے میں روکاوٹیں اور باڑ لگا دی گئی ہے، وہ صرف تماشہ کر رہے ہیں ! کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی بے حسی ہو سکتی ہے ۔ اور یہ صرف کھٹّر ہی کی بات نہیں ہے ساری بی جے پی، چھوٹے سے لے کر بڑے لیڈر تک ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ یہ سارا تماشہ اپوزیشن کے اشارے پر ہو رہا ہے ۔ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی تک کو، جو ذرا ذرا سے حادثات پر ٹوئٹ سے ٹوئٹر کے اپنے اکاؤنٹ کو بھر دیتے ہیں، ان کسانوں اور مزدوروں کی فکر نہیں ہے ۔ وہ ان کا ٹھنڈ میں کھلے آسمان تلے بھوکے پیاسے رہ کر احتجاج میں شامل ہونا دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ نہیں بول رہے ہیں ۔ یہ کس قدر افسوس ناک ہے کہ ان کسانوں اور مزدوروں کی جائز مانگ کو، اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی روزی روزگار پر منڈراتے خطرات کو دور کرنے کے اقدامات، عزم اور حوصلے کو اس طرح کے گھٹیا الزام سے شکستہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ یہ تو بس اپوزیشن کا کھیل تماشہ ہے ! بلاشک و شبہ مودی سرکار نے کسانوں کے تعلق سے جو تین قوانین منظور کیے ہیں وہ کسانوں کی محنت، اور ان کے خون پسینے کی گاڑھی کمائی پر ڈاکہ کی مانند ہیں ۔ اور کسان بس یہ کوشش کررہے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے اور ان کے خدشات کو رفع کر کے ان کی کھیتی باڑی پر جو آفت سایہ کیے ہوئے ہے اسے دور کیا جائے ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ بی جے پی دھنّا سیٹھوں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے، اسے اڈانی اور امبانی اس ملک کے کسانوں اور مزدوروں سے زیادہ پیارے ہیں، اسی لیے اس نے وہ قانون بنائے ہیں جس کے بَل پر کسانوں کی کمائی بغیر ڈکار لیے یہ دھنّا سیٹھ ہضم کر لیں ۔ اس حکومت نے اب تک یہی تو کیا ہے ۔ نوٹ بندی کرکے لوگوں کی کمر توڑی، جی ایس ٹی لگا کر سب کو کنگال کیا، بینکوں سے کئی کئی لاکھ کروڑ روپیے فراڈ کرنے والوں کو دیش کی دولت لے کر بھاگنے دیا، بینک بند کرائے، کمپنیاں اور فیکٹریاں بند کروائیں ۔ کورونا کے دوران غریبوں، مزدوروں کو مرنے دیا ۔ تالہ بندی یعنی لاک ڈاؤن ایسے وقت میں لگایا کہ لوگ بے بسی سے ایک دوسرے کا منھ دیکھتے رہ گئے ۔ نتیجہ معاشی مندی کے روپ میں سامنے آیا ہے ۔ اور اب کسانوں کے روزگار پر نظر ہے، اسے برباد کرنے کی تیاری ہے ۔ کسان یہ بربادی سہنے کو تیار نہیں ہیں اسی لیے احتجاج کر رہے ہیں ۔ یہ جائز جمہوری احتجاج ہے لیکن اسے غیر جمہوری طریقے سے روکا بھی جا رہا ہے اور اس کو تماشہ بھی قرار دیا جا رہا ہے ۔ کچھ تو شرم کرے یہ سرکار!

Comments are closed.