ظریفانہ :نشی کانت کا شیر ،کتا اور بلی

 

ڈاکٹر سلیم خان

للن جوشی نے کلن مراٹھے سے کہا یار میں تو کہتا ہوں نشی کانت دوبے کو مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ بنادینا چاہیے۔

کلن بولا تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے۔ اسے تو جھارکھنڈ کوو زیر اعلیٰ بھی نہیں بنایا جائے گا تم نے صبح صبح بھنگ تو نہیں پی لی۔

نہیں بھائی وہ جس طرح کھل کر بولتا ہے نا قسم سے دل خوش ہوجاتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔ آج ایسے رہنما کی ضرورت ہے۔

کیوں اپنا فڈنویس بھی تو بہت بدزبان ہے۔

بدزبان تو ہے مگر بزدل بھی ہے۔ اس نے ٹھاکرے برادران سے ڈر کر فیصلہ بدل دیا ۔ کل یگ میں ایسے ڈرپوک آدمی سے کام نہیں چلے گا ۔

کلن بولا بھیا یہ صفت تو تم برہمنوں کے ڈی این اے میں ہے۔ پہلے گیدڑ بھپکی دکھانا پھر ڈر جانا ۔ اس میں بیچارے فڈنویس کا کوئی قصور نہیں۔

ہاں یارمسئلہ یہ بھی ہے کہ آج کل مہاراشٹر میں ہندی مراٹھی کی لڑائی چل رہی ہے اور دوبے تومراٹھی سے پوری طرح نابلد ہے۔

وہی تو میں کہہ رہا ہوں اس لیے اس کا وزیر اعلیٰ ہونا ناممکن ہے۔ ہر ریاست کا وزیر اعلیٰ مقامی ہی ہوتا ہے چاہے مسلمان کیوں نہ ہو؟

لیکن تم نے دیکھا اس نے اپنا ٹویٹ مراٹھی میں بھیج کر ادھو اور راج کو گھر میں گھس کر مارا ۔

کلن بولا اس میں کون سی بڑی بات ہےآپ ہندی میں لکھواور گوگل سے مراٹھی ترجمہ کرواکر بھیج دو۔ کام ختم ۔

اچھا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ؟ ”ہندی بولنے والوں کو مارنے والو اگر ہمت ہے تو اردوزبان والوں کومارکردکھاؤ ‘‘۔

یاریہ تنازع اس لیے پیدا ہوا کیونکہ مراٹھی پر ہندی کو تھوپا جارہا تھا اردو کو نہیں ۔ اس لیے اردو کو اس میں گھسیٹنے کی کیا تُک ہے؟

بھیا ہم لوگ جب کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو اس سے نکلنے کے لیے ہندو مسلم کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس میں کون سی نئی بات ہے؟

جی ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر اب عام لوگ بھی اس کھیل کو سمجھنے لگے ہیں ۔

للن نے کہا وہ تو ٹھیک مگر جب نشی کانت چیلنج کرتا ہے کہ ماہم درگاہ کے علاقہ میں اردو بولنے والوں کو نہیں مارسکتے تو اس کا کیا مطلب؟

اس کا تو یہی مطلب ہے کہ ہم لوگ مسلمانوں کے محلے میں ان سے ڈرتے ہیں۔ اس طرح تو اس نے مراٹھیوں کی توہین کردی ۔

بھیا یہ تو ہمارے فڈنویس کی بھی توہین ہے کہ اس ڈبل انجن سرکار میں بھی ہندو خوفزدہ ہے، اگر ایسا ہے تو بڑی بڑی باتوں کا کیا فائدہ؟

کلن نے کہا جی ہاں یہ نشی کانت جیسے بڑبولے نہیں جانتے کہ وہ اپنی بدزبانی سے خود ہندووں کو ہی بزدل اور ڈرپوک ثابت کررہے ہیں ۔

یار وہ تو ٹھیک ہے مگر یہی بات تو دہلی کے رکن پارلیمان منوج تیواری بھی کہہ رہے ہیں ۔ ہماری پارٹی کا یہی بیانیہ ہے۔

چلو مان لیا مگر نشی کانت نے اپنےٹویٹ میں یہ بھی لکھ دیا کہ ’’ اپنے گھرمیں توکتا بھی شیرہوتا ہے۔ کون کتا، کون شیر، خود ہی فیصلہ کرلو۔“

للن نے کہا یار یہ شیر اور کتے کا معاملہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اب تم ہی بتاو کہ کیا قصہ ہے؟

بھائی دیکھو یہ سمجھنے کے لیے نشی کانت کا ایک اور ٹویٹ دیکھنا ہوگا۔

للن نے سوال کیا وہ کیا؟

وہ لکھتا ہے آپ اپنے گھر مہاراشٹر میں اگر بہت بڑے باس ہے تو یوپی ، بہار یا تمل ناڈو آو۔ تم کو پٹخ پٹخ کر ماریں گے۔

ارے تو کیا اس نے ہمیں اپنی گلی کا کتا کہہ دیا جو اپنے آپ کو شیر سمجھتا ہو؟ یہ تو بہت بری بات ہے مگر پھر اصلی شیر کون ہے؟

کلن بولا نشی کانت کے مطابق اصلی شیر وہ اردو بولنے والے ہیں جن سے ہم مراٹھی نہیں بلوا سکتے۔

یار مجھے تو نشی کانت مسلمان نواز نظر آتا ہے ۔کہیں وہ کالی بھیڑ تو نہیں؟ میں تو اسے ہندووں کا ہمدرد و غمخوار سمجھتا تھا ۔

نہیں مجھے تو وہ ایسا احمق دوست لگتا جو دشمنوں سے زیادہ نقصان دہ ہو۔ اسی لیے پردھان جی اس کو مرکز میں وزیر نہیں بناتے ۔

اچھا یار نشی کانت کی منطق کے مطابق اردو بولنے والے شیر اور مراٹھی والے کتے ہوگئے تو پھر وہ ہندی بولنے والے کیا ہوئے؟

بلی سمجھ لو جو میاوں میاوں کرکے اپنے آقا کے پیر میں لوٹتے رہتی ہے ۔ نہ بھونکتی ہے اور نہ کاٹتی ہے۔

للن نے کہاتم نے درست کہا کہ دیگر زبان بولنے والوں کا اترپردیش یا بہار میں کچھ بھی نہیں بگڑتا سارا جھگڑا پہلے تمل ناڈو اور اب مہاراشٹر میں ہے

کلن بولا اور یہ احمق وہاں بیٹھ کرپٹخ پٹخ کر مارنے کی بات کرتا ہے اگر ایسا ہوا تو ٹھاکرے برادران کہیں گے کہ اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے ۔

اچھا یہ بتاو کہ نشی کا نت کے اس الزام میں کتنی سچائی ہے کہ ٹھاکرے برادران ہندووں میں پھوٹ ڈال رہے ہیں ؟

بھائی سچائی تو یہ ہے ادھو اور راج دونوں نہ صرف چچا زاد بھائی بلکہ ہندو ہیں۔ ہم نے ان میں پھوٹ ڈال کر سیاسی فائدہ اٹھایا اب وہ متحد ہوگئے ہیں۔

جی ہاں اسی طرح کی بات ادھو ٹھاکرے نے بھی کہی کہ سنگھ پریوار نےان دونوں کو استعمال کرکے انہیں کوڑے دان میں پھینک دیا۔

کلن نے کہابھائی دیکھو ہم لوگوں کو متحد کرنے یا رکھنے کے لیے مشترکہ دشمن یعنی مسلمان کی بہت ضرورت ہے ورنہ ہم آپس میں لڑتے رہیں گے۔

جی ہاں اسی لیے بڑی مہارت سے نشی کانت نے اردو کی آڑ میں بلا واسطہ مسلمانوں کو گھسیٹنے کی کوشش کی ہے۔

کلن بولا نہیں اس نے تو کھلے عام لکھا کہ ادھو ، راج اور شرد پوار بھی کشمیری پنڈتوں کو بھگانے والے مولانا مسعود اظہر اورداود ابراہیم جیسے ہیں۔

للن نے سوال کیا لیکن میں نے تو سنا ہے کہ مولانا مسعود اظہر کو اٹل سرکار کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ کابل چھوڑ کر آئے تھے۔ کیا یہ درست ہے؟

صد فیصد صحیح ہے۔ ان کو رہا کرنے کا فیصلہ ہماری سرکارنے کیا اور داود ابراہیم کوو اپس لانے میں بھی ہم ہی نا کام ر ہے۔ ۱۱؍ سال کم نہیں ہوتے؟

للن بولا یار مجھے تو لگتا ہے کہ نشی کانت دوبے نے اس پھٹے میں ٹانگ ڈال کر اپنے دیوا بھاو ٔیعنی دیویندر فڈنویس کے لیے دھرم سنکٹ پیدا کردیا ۔

جی ہاں تمہاری بات درست ہے ہونٹ بھی کیونکہ ان کے اپنے ہیں دانت بھی اپنے ہی ہیں ۔ وہ مراٹھی اور پارٹی میں سے کسی کو بھی چھوڑ نہیں سکتے۔

بھیا عام مسلمان تو چھوڑو ، اب تو دوبے سے لے کر تیواری تک کئی رہنما راج ٹھاکرے کو پہلگام کے دہشت گردوں کا ہم پلہ قرار کہہ رہے ہیں۔

کلن نے پوچھا کیا؟ ہم تو سمجھتے تھے ہندو دہشت گرد ہوہی نہیں سکتا اور راج ٹھاکرے تو ایسا ہندو ہے جو پردھان جی کے ساتھ تقریر کرچکا ہے ۔

جی ہاں ہم سے یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ملک میں ساری دہشت گردی پاکستان سے آتی ہے اس لیے آپریشن سیندو ر کرنا پڑا تو کیا اب ۰۰۰۰۰

تم رک کیوں گئے للن اپنا جملہ پورا کرو ۔ ہم ہر مودی بھگت ہیں ہمیں سب کچھ بولنے کی پوری آزادی ہے۔ بلاخوف بولو۔

للن بولا یار میں سوچ رہا تھا کہ اگر راج اور ادھو ٹھاکرے بھی پہلگام دہشت گردوں جیسے ہیں تو کیا اب سینا بھون پر سرجیکل اسٹرائیک ہوگا؟

بھیا ادھو ٹھاکرے نے اس الزام کو مراٹھیوں کا پہلگام کے دہشت گردوں سے موازنہ قرار دے کر پوچھا پہلگام کے حملہ آور کہاں چلے گئے؟

للن نے کہا ارے بھائی وہ تو آگے بڑھ کر یہ بھی پوچھ رہے ہیں کیا وہ سب بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں؟  وہ مل کیوں نہیں رہے ہیں؟‘‘

بھیا جن سوالات کا جواب امیت شاہ کے پاس بھی نہیں ہو توان کا جواب بیچارہ نشی کانت دوبے کیسے دے سکے گا؟

ہاں لیکن اگر ادھو ٹھاکرےاگر یہ الزام لگائے کہ ہم لوگ دہشت گردوں سے ہندووں کی حفاظت نہیں کر سکے تو جواب دینا ہی پڑے گا۔

کلن بولا صحیح بات ہے بھیا ادھو ٹھاکرے نے تو ہمیں مراٹھی کا قاتل بھی بنا دیا ہمارے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں ہے۔

بھیا ادھوکی  ترجمان سشما اندھارے نے تو دیویندر فڈنویس سے پوچھ لیا تم نشی کانت دوبے کے ہاتھوں مار کھا نا چاہتے ہو یا  اسے مارنا چاہتے ہو۔

ہاں یار اندھارے نےصحیح کہا ’’   یہ دھمکی ہر مراٹھی کے لیے ہے۔   بی جے پی کے تمام مراٹھی وزراء اور رہنما اس کی زد میں آتے ہیں ۔

اس دوران شرد پوار کے نائب روہت پوار نے بھی نشی کانت دوبے کو چیلنج کیا اگر ہمت ہے تو وہ مہاراشٹر آکر مراٹھی کے خلاف بول کر دکھائیں۔

روہت پوار مہاراشٹر میں پیدا ہونے والے گجراتی، راجستھانی، بنگالی  کو بھی مراٹھی مان کردوبے کو مہاراشٹر میں پھوٹ ڈالنے سے منع کرتے ہیں۔

للن بولا یار نشی کانت دوبے کی اس حماقت سے مہا وکاس اگھاڑی تو متحد ہوگئی مگر اپنی مہایوتی میں پھوٹ پڑ چکی ہے۔

اچھا یہ تو بہت برا ہوا مگر تم سے کس نے بتایا ؟ ویسے فڈنویس کا ڈھیلا ڈھالا بیان میں نے دیکھا تھا۔

اجیت پوار کی این سی پی نے نہ صرف نشی کانت دوبے کی مذمت کی بلکہ اس کی روپالی ٹھومبرے نے تو اسے چپل سے مارنے کی دھمکی دے ڈالی۔

کلن بولا یار تب تو میونسپل الیکشن اپنے ہاتھ سے گیا سمجھو یعنی’ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ ‘ والی بات ہوگئی ۔

مجھے تو لگتا ہے اس کا نقصان بہار میں بھی ہوگا ۔ وہاں کے ہندی بولنےوالے مہاراشٹرکی بی جے پی سرکار کو اپنا دشمن سمجھنےلگیں تو مشکل ہو گی۔

ہاں یار اگر ایسا ہوگیا تو ڈبل یعنی 440ووٹ کا جھٹکا لگ جائے گا اور کہیں ایک بیساکھی ٹوٹ جائے تو دہلی کی مرکزی سرکار بھی لڑ کھڑا جائے گی ۔

للن نے سوال کیا یار دہلی والی بات سمجھ میں نہیں آئی؟

ارے بھائی اگر بہار کی کراری ہار کے بعد جے ڈی یو کے ارکان پارلیمان آر جے ڈی میں چلے جائیں تو ہماری مرکزی حکومت از خود گر جائے گی۔

للن نے کہا بھیا اتنا اشبھ نہ بولو ۔ دیکھو میں کمزور دل کا آدمی ہوں ۔ ایسا صدمہ مجھ سے براشت نہیں ہوگا۔ تمہارا ایک دوست دنیا سے چلا جائے گا۔

بھائی دیکھو سرکار جائے تو جائے مگر تم نہ جانا۔ ویسے میں کربھی کیا سکتا ہوں آج کل ایسے ہی الٹی سیدھی باتیں دماغ میں کلبلاتی رہتی ہیں۔

جی ہاں ان سے بچنے کے لیے چلو موبائل پر باگیشور بابا کا پروچن سن کر دل بہلائیں ۔ آج کل انہیں کی باتوں سے دل بہلتا ہے ۔

Comments are closed.