پریم یُدّھ: ایک لمحہ ٔ فکریہ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
اگرلڑائی میں دولوگ شریک ہوں توانھیں روکنے کے لئے آپ کوبیچ میں کھڑاہوناہوگا، اگرآپ ایک شخص کا ہاتھ پکڑلیں تودوسرااس پرحملہ آورہوجائے گااوراس طرح آپ ایک کے ساتھ ناانصافی کرنے والے ہوجائیں گے، معاشرہ میں آج کل یہی چل رہاہے، جہاں بھی لڑائی ہوتی ہے، وہاں انصاف کے تقاضوں کوسامنے رکھ کرلڑائی کوروکنے والے کھڑے نہیں ہوتے؛ بل کہ پہلے لڑائی کرنے والوں کوتولتے ہیں اورجب یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کون کمزورہے اورکون طاقت ورتو کمزورکاساتھ دینے اورطاقت ورکاہاتھ پکڑنے کی بجائے کمزورکوہی دبوچ لیتے ہیں؛ تاکہ طاقت وراپنی طاقت دکھاسکے اورکمزورمزیدکمزورہوکرزندگی گزارے۔
ابھی یوپی میں قانون بنایاگیا’’غیرقانونی تبدیلی ٔمذہب مانع آرڈیننس2020‘‘کے نام سے ، اس کے پس پردہ اصل مقصد’’لو-جہاد‘‘کوروکناہے، جب کہ آرڈیننس میں بین مذہبی شادی کے لئے اجازت طلب کرنے کی غرض سے عرضی کاایک ڈرافٹ بھی شامل کیاگیاہے، جس کی روسے شادی سے دومہینے قبل ڈسٹرک مجسٹریٹ کواس کی اطلاع دینی ہوگی، بغیراس اجازت کے 6ماہ سے لے کر3سال تک کی جیل اور10ہزارروپے جرمانہ کی سزاکامستحق ہوگا، اس قانون کی اس ملک میں بالکل ضرورت نہیں تھی، جس ملک کاکوئی مذہب ہی نہیں ہے، جب ملک کاہی کوئی مذہب نہیں اوراس کے آئین اوردستورمیں’’تمام اشخاص کوآزادی ضمیراورآزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی کرنے اوراس کی تبلیغ کرنے کامساوی حق ہے‘‘ توپھراس قانون کاکوئی مطلب سوائے اس کے کہ اس کے ذریعہ سے غلط فائدہ اٹھایاجائے گا، اورکچھ نہیں رہ جاتا۔
جس صوبہ میں یہ قانون بنایاگیاہے، اس کے سی ایم اپنے جلسوں میں مسلسل لوجہادکے تعلق سے بات کرتے رہے ہیں؛ لیکن کبھی بھول کربھی انھوں نے ’’پریم یُدّھ‘‘ کی بات نہیں کی؛ حالاں کہ اس وقت ہمارے ملک میں جس کثرت سے پریم یدھ کی ہواچل رہی ہے کہ اگراس کی طرف توجہ نہ دی گئی تونئی نسل کی تعلیم یافتہ بچیاں اس کی شکارہوکر ارتداد کے راستے پرچل پڑیں گی؛ بل کہ چل پڑی ہیں، خصوصیت کے ساتھ ساؤتھ انڈیااس کازیادہ کاشکارہے، جس کی بنیادی وجہ مارڈن ایجوکیشن ہے، اس کامطلب یہ نہیں کہ بچیوں کوتعلیم سے دور رکھا جائے؛ بل کہ اس کے لئے سنجیدگی کے ساتھ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔
پہلاکام تویہ کرناچاہئے کہ ایسے اسکولوں کاجال بچھایاجائے، جہاں فرض عین کی تعلیم بھی نصاب میں شامل ہو، صرف مارڈن ایجوکیشن نہ ہو؛ بل کہ مارل ایجوکیشن کی بھی تعلیم دی جاتی ہو، اس کے لئے بڑے بڑے بزنس مینوں کومتوجہ کرنے کی ضرورت ہے، جولوگ بزنس میں روپیہ لگاناچاہتے ہیں، انھیں مشورہ دیاجائے کہ اس میں روپیہ لگائیں، تجارت بھی ہوگی اورخدمت بھی، روپیہ بھی ملے گااورثواب بھی۔اگرایسے اسکول قائم کرلئے گئے توان شاء اللہ چند سالوں میں کایاپلٹ ہوگی اورہماری بچیاں پریم یدھ کے شکارہونے سے بچ جائیں گے۔
اس میں وقت لگ سکتاہے؛ کیوں کہ یہ دقت طلب امرہے توایسی صورت میں مکاتب کے نظام کومضبوط کیاجائے، بچے اوربچیوں کے لئے الگ الگ نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے، ہوتایہ ہے کہ عام طورپرچھوٹے بچے اوربچیاں تومساجد کے صباحی یامسائی مکاتب میں کچھ نہ کچھ سیکھ لیتے ہیں؛ لیکن بڑی بچیاں اس سے محروم رہ جاتی ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ وہ تصورہے، جوہمارے ذہنوں میں بیٹھا ہواہے کہ خواتین کے لئے مسجدآنے کی اجازت نہیں ہے، میں سمجھتاہوں کہ ہرمسجد میں دوسری منزل بھی ہوگی، اس منزل کوبڑی بچیوں کے لئے خاص کیاجائے اوران کی تعلیم کے لئے لیڈی ٹیچرکابندوبست کیاجائے۔
اسی کے ساتھ ساتھ ہفتہ واری درس قرآن اوردرس حدیث کانظام بھی بنایاجائے، مردوں کے لئے توبہت ساری جگہوں پراس کانظم ہوجاتاہے؛ لیکن بے چاری خواتین کے لئے کوئی نظم نہیں ہوپاتا، یادرکھئے، خواتین کی تعلیم بھی ہماری ذمہ داری ہے اوردینی تعلیم دیناتوفرض میں شامل ہے، جس سے وہ حلال وحرام کی تمیز کرسکے، ایک مرتبہ کاواقعہ ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ایک وفدحضوراکرم ﷺ کی صحبتِ بابرکت میں بیس دن تک سعادت مندیوں اورخوش بختیوں کی نعمتوں سے بہرہ مندہونے کے بعدگھرواپسی کاارادہ کیا تواللہ کے رسول ﷺ نے زادِ راہ سے سرفراز فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:’’اپنے گھروالوں کے پاس لوٹ جاؤ، انھیں کے درمیان قیام کرو، انھیں سکھاؤ اورانھیں حکم دو‘‘۔
آج تک ہم لوگوں نے بڑے بڑے جلسوں میں بہت روپے صرف کئے، میں یہ نہیں کہتاکہ جلسے نہیں ہونے چاہئیں؛ لیکن ایک سوال کرتاہوں کہ اس سے فائدہ کتناہوتا ہے؟ اس کے برخلاف اگران روپیوں کواسکول کھولنے اورمکاتب کے نظام کودرست کرنے میں اوران میں تعلیم دینے والوں کے اوپرخرچ کریں توشاید بڑے بڑے جلسوں سے زیادہ مفید ثابت ہو، اورقوم کی بچیاں ارتداد کاراستہ اختیارکرنے سے بچ جائیں، ہزاروں کی تعداد میں مرتد ہونے کی خبرآرہی ہیں، کیایہ ہمارے لئے لمحۂ فکریہ نہیں ہے؟
جہاں تک لوجہادکے خلاف قانون کی بات ہے تواس کے ذریعہ سے کمزوروں پررعب جھاڑاجائے گا، اگرکوئی غیرمسلم لڑکی اپنی خوشی سے مذہب تبدیل کرے گی تواسے بھی لوجہاد میں شامل کردیاجائے گا اوراگرکوئی مسلم لڑکی ڈراوخوف کی وجہ سے بھی کسی غیرمسلم لڑکے ساتھ جانے پرمجبورہوگی تواسے پریم یدھ میں شامل نہیں کیاجائے گا، ایسے بہت سارے واقعات پیش آچکے ہیں، بے چاری ہادیہ کوکورٹ کے ذریعہ سے لڑائی لڑنی پڑی، ثناخان اورزائرہ وسیم نے صرف پردۂ سیمیں سے توبہ کیا توان کے خلاف ٹرینڈ چلائے گئے اورانتہاء تواس وقت ہوگئی، جب ثناخان نے ایک مفتی سے شادی رچالی، محسوس یوں ہونے لگا، جیسے بھوکم آگیاہو، جب ایک مسلم لڑکی کے سدھرنے اور توبہ کرنے سے یہ حالت ہوسکتی ہے توایک غیرمسلم لڑکی کے اسلام میں داخل ہونے سے کیانہیں ہوسکتا؟ اس لئے خصوصیت کے ساتھ ہمارے نوجوانوں کوبھی سوچنا چاہئے اورکوئی بھی ایساقدم اٹھانے سے باز رہناچاہئے، جس کی وجہ سے آپ خود بھی مصیبتوں کے شکار ہوجائیں، آپ کے گھروالے بھی پریشان ہوں اورجس کی وجہ سےآپ کی قوم پرداغ لگے۔
Comments are closed.