الحاد:ٹوپی ڈرامہ

سمیع اللہ ملک
عصرحاضرمیں الحادکادقت نظرسے تجزیاتی وتحلیلی مطالعہ کرنے کی بہت ضرورت ہے،اس سلسلے میں ملحدین کے پھیلائے ہوئے جزوی شبہات واعتراضآت(جواگرچہ بذات خود ایک اہم کام ہے)کی بجائے الحادکی اساسیات اوراس کے متنوع اسباب پرنگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے یعنی سب سے پہلے یہ بات کہ وہ کون سے اسباب ہیں جن کی بناپرایک شخص یاگروہ الحاداختیارکرتاہے۔ الحادکے اسباب ایک توجغرافیہ بدلنے سے بدل جاتے ہیں،مغربی دنیامیں الحادمیں مبتلاہونے کے اسباب الگ ہیں جبکہ اسلامی دنیا میں اسلام کوچھوڑ کر الحاداپنانے کی وجوہات بالکل علیحدہ ہیں۔اس کے علاوہ خودشخصیات کی علمی،ذہنی،نفسیاتی اورعقلی سطح کے اعتبارسے بھی الحادکے مختلف اسباب بن جاتے ہیں۔اسی طرح الحادکی اساسیات کاتجزیہ بھی ضروری ہے،کہ وہ کون سے بنیادی امورودعاوی ہیں،جن پرملحدین کی دعوت الحادکھڑی ہے،ان امورکاماخذومصدرکیاہے،نیزالحادکی ان’’ایمانیات‘‘کے بارے میں معاصرجملہ ملحدین کانقطہ نظرایک ہے یاالگ الگ ۔
اس وقت پوری دنیامیں نت نئے نظریات وافکارکاماخذومنبع’’خطہ مغرب‘‘ہے،اورفکرونظرکے حوالے سے مغرب وہ شجرہ خبیثہ ہے،جس کی شاخیں پوری دنیامیں پھیلی ہوئی ہیں‘‘ ۔ ’’مغربی دوست‘‘اس پرچیں بہ جبیں نہ ہوں،مغرب کی انسانیت بخش ایجادات کا مجھے بھی اقرارہے،البتہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان ایجادات پرلگنے والے سرمایہ کیلئے’’سونے کی کس کس چڑیا‘‘کوشکارکیا گیا)جدید الحاد)دنیامیں دہریوں کاوجودہرمعاشرے میں کچھ نہ کچھ رہاہے،پریہاں معاصرنظریہ الحادکی بات ہورہی ہے )بھی مغرب کی دین ہے،اور وہاں سے یہ نظریہ پوری دنیامیں کاپی کیاگیا۔اس لیے میں اولین مغربی دنیامیں الحاد کے پھیلنے کے بنیادی اسباب وعلل پرمختصرابات کروں گا۔اس سے بقیہ دنیاخصوصاًاسلامی دنیا میں الحادکی وجوہ جاننے میں معاونت ملے گی ۔مغربی الحادکااگرتجزیہ کیاجائے تواس کے تین بڑے سبب سامنے آتے ہیں:
1۔مغرب میں عیسایئت کی بطورمذہب کے شکست کے بعدجدیدفلسفیانہ افکارجدیدیت،مابعدجدیدیت اورسوشل سائنسزکی کوکھ سے الحادنے جنم لیا۔ان ملحدین کاایک طویل تاریخی پس منظرہے۔اسلام کی پوری تاریخ کے اندر،اسلام کوان دشواریوں کاسامنانہیں کرنا پڑاجویورپ کوان کے غلط عقیدے کی وجہ سے کرناپڑا۔بہت اہم مشکلات میں سے ایک مذہب اورسائنس کے درمیان خوفناک اختلافات تھے۔مذہب اس بے رحمی کے ساتھ سائنس سے جاٹکرایاکہ کلیسانے بہت سے سائنسدانوں کوزندہ جلادیااس بناپرکہ وہ ان کی کتاب کے خلاف چل رہے تھے۔اہلِ کلیساکے ان لرزہ خیزمظالم اورچیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچادی۔ان افراد کوچھوڑکرجن کے مفادات کلیساسے وابستہ تھے،سب کے سب کلیساسے نفرت کرنے لگے اورنفرت وعداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انہوں نے مذہب کے پورے نظام کوتہ وبالاکردینے کاتہیہ کرلیاچنانچہ غصے میں آ کر وہ ہدایتِ الہٰی کے باغی ہوگئے ۔
گویااہلِ کلیساکی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اورسولہویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی،جس میں چڑاور ضدسے بہک کر’’تبدیلی‘‘کے جذبات خالص الحاد کے راستے پرپڑگئے اوراس طویل کش مکش کے بعدمغرب میں تہذیب الحاد کادوردورہ شروع ہوا۔اس تحریک کے علم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجودزندگی کی ساری عمارت کواس بنیاد پرکھڑاکیاکہ دنیامیں جوکچھ ہے،وہ صرف مادہ ہے۔نمو،حرکتِ ارادی،احساس،شعوراورفکرسب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں ۔تہذیبِ جدیدکے معماروں نے اسی فلسفے کوسامنے رکھ کراپنی انفرادی اوراجتماعی زندگی کی عمارت تعمیرکی۔ہرتحریک جس کا آغازاس مفروضے پرکیاگیاکہ کوئی خدانہیں،کوئی الہامی ہدایت نہیں،کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں،کوئی حشرنہیں اورکوئی جواب دہی نہیں،ترقی پسندتحریک کہلائی۔اس طرح یورپ کارخ ایک مکمل اوروسیع مادیت کی طرف پھرگیا۔خیالات،نقط نظر، نفسیات وذہنیت،اخلاق واجتماع،علم وادب،حکومت وسیاست،غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاداس پرپوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طورپرہوا اور ابتدامیں تواس کی رفتاربہت سست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
مغرب میں صدیوں مذہب کوحکمرانی حاصل تھی،لیکن اس حکمرانی نے انہیں اس دورکے پسماندہ ترین قوموں کی صف میں لا کھڑاکیاتھا،اسی لیے خودمغرب اپنے اس دورکو یعنی ‘‘تاریک زمانہ‘‘کہتاہے۔سولہویں صدی سے جب مذہب سے آزادی کی تحریک ’’اصلاح مذہب‘‘کی شکل میں شروع ہوئی،جوآہستہ آہستہ مذہب کے کلی انخلاپرمنتج ہوئی،اس وقت سے مغرب ترقی کی شاہراہ پر چڑھ گیا،اوراب تک تسلسل کے ساتھ روزبروز آگے بڑھ رہاہے۔اس پورے تاریخی عمل سے مغربی اہل علم نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتاہے۔اوریوں مذہب وخدادنیاکاکلی انکارسامنے آیا۔اس راستے پرچل کرجولوگ الحادکاشکارہوئے، ان کابنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایک توانہوں نے عیسائیت کی شکست کو’’مذہب‘‘کی شکست کے مترادف سمجھا،حالانکہ کسی خاص مذہب کی ناکامی کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ مذہب نام کی ہرقسم ناکام ہوگئی۔دوسرادنیاکے دیگرمذاہب خصوصااسلام کاگہرامطالعہ اور اسلام کی ہزارسال کی تاریخ سے مکمل واقفیت نہیں تھی اوراگرکوئی واقفیت تھی بھی،تومستشرقین کے واسطے سے تھی،اور مستشرقین کا’’اسلامی سرمایہ‘‘اسلام کی بجائے اینٹی اسلام کواپنے پہلومیں لیے ہوئے ہے،اس لیے محض عیسائیت کی شکست سے انہوں نے یہ سمجھاکہ اب مذہب اورخداکادورختم ہوگیا ۔
اس الحادکے شکارلوگوں نے جب بھی بالغ نظری سے اسلام کامطالعہ کیا،توانہوں نے اسلام کوگلے لگایا۔آج جومغربی دنیامیں اسلام جوق درجوق پھیل رہاہے،ان میں سے بڑی تعداد’’سابق ملحدین‘‘کی ہیں۔کہ جب ان کے سامنے اسلام کی صحیح شکل سامنے آئی،تو بلاجھجک اسے قبول کیا۔یادرہے کہ عمومالوگ سمجھتے ہیں کہ شاید’’عیسائی مذہب کے پیروکار‘‘ نے اسلام قبول کیا،حالانکہ وہاں کے صحیح’’مذہبی آدمی‘‘کواسلام سے اتنی ہی نفرت ہے،جیسے کہ ایک کٹراوربنیادپرست مسلمان کوعیسایئت سے۔۔۔۔۔مغرب میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے کاسبب وہاں کا’’الحاد‘‘ہی ہے۔آج بھی اگرمغرب کے ایک’’ملحد‘‘کے سامنے سنجیدہ،شستہ،علمی وعقلی اندازسے اسلام کوپیش کیاجائے،تووہ اسے فوراقبول کرنے پرآمادہ ہوتا ہے۔تاہم مسئلہ یہ ہے کہ آج کی علمی زبان اوراصطلاحات میں اسلام کومغربی دنیاکے سامنے کتناپیش کیاگیاہے۔یہ ایک المیہ ہے،امت مسلمہ کے تمام طبقات کاالمیہ،جملہ مکاتب فکرکاالمیہ۔۔۔۔۔۔۔!
2۔مغربی دنیامیں الحادکے پھیلنے کادوسرابڑاسبب علوم فلسفہ سے حدسے زیادہ اعتنااوروسیع پیمانے پرفلسفیانہ افکارکی بازگشت ہے۔کلیساسے آزادی حاصل کرتے ہی مغربی اداروں میں’’علمی سیلاب‘‘آیااورخآص طورپر’’اندلس مرحوم‘‘کے اسلامی علمی ذخیرے کی مغربی زبانوں میں منتقلی اس کاسبب بنی،اندلس کے’’مکتب ابن رشد‘‘کاسارافلسفیانہ لٹریچرمغربی دنیامیں پھیلا۔اس کے علاوہ خودبھی مغربی دنیامیں متنوع علوم خصوصافلسفیانہ علوم سے شغف کی ایک فضاپیداہوئی،اورفلسفے کی ایک خاصیت ہے کہ یہ حاضرومحسوس کاگرویدہ اور ’’غائب ومستور‘‘سے بیگانہ کرتی ہے۔اسلامی تاریخ کے بڑے اورٹھیٹھ فلاسفہ کے افکارکااگردقت نظر سے جائزہ لیاجائے توبہت کم خوش قسمت ایسے ملیں گے،جن کے افکارمیں ’’الحادی جراثیم‘‘نہ ہوں،اسلام کے زمانہ عروج میں’’تہافت الفلسفہ‘‘جیسی کاوشوں کاسبب یہی’’جراثیم‘‘ہی بنے۔خالص فلسفیوں کوایک طرف رکھ دیں،اصولی ودینی علوم کے ماہرین میں سے جس نے فلسفہ کوزیادہ پڑھا،وہاں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔اس کی مثال ہماری تاریخ میں ’’اعتزال کامکتب‘‘ہے۔۔حق شایدان دونوں کے درمیان ہے کہ نہ توعلوم عقلیہ پرکلیساکی طرح مکمل پابندی سے مسئلہ حل ہوگااورنہ جدیدذہن کی طرح اساسیات مذہب کوبھی تشکیک کی بھٹی سے گزارنے سے فائدہ ہوگا۔ماضی میں ماتریدی مکتب عقل ونقل کے حسین امتزاج کے حوالے سے بہترین مثال ہے۔
اس قسم کے شکارملحدین کاحل’’غزالی کی روش‘‘ہے۔ان ملحدین کافلسفہ پرایمان اسی وقت متزلزل ہوگاجب کوئی’’غزالی وقت‘‘فلسفہ کے محل پر’’تہافت الفلسفہ‘‘کے مجنیقوں سے ’’سنگ باری‘‘کرے گا۔اس لیے ہمارے راسخ العقیدہ لوگوں کوفلسفہ مغرب سے واقفیت حاصل کرناہوگی۔اس حوالے سے’’انصاری سکول آف تھاٹ‘‘( ڈاکٹرجاویداکبر انصاری صاحب اوران کے تلامذہ ومتوسلین سیدخالد جامعی،عبدالوہاب سوری،علی محمد رضوی،مولاناظفراقبال اورزاہدمغل صاحب)یہ کام کرسکتاہے،اگران کی توجہ’’اسلامی مفکرین کی ٹھوکروں کی نشاندہی(جوبذات خود ایک اہم کام ہے)سے ذراآگے بڑھ کربراہ راست مغربی فلسفہ کی’’نارسائی‘‘پرمرکوزہو جائے۔اس سلسلے میں مغرب کی ریاستی قوت کاغیر معمولی جبربھی ایک چیلنج ہے۔جب تک یہ ختم نہیں ہوتا،محض فکری کام اس ساری مہم کاایک جزہوگا۔یونانی فکرکی طرف سے ہمیں کوئی تہذیبی چیلنج نہیں تھاجبکہ آج اس تہذیبی چلینچ کے ریلے میں ہر خاص وعام بہ رہاہے،حتی کے ہم میں سے بہت سے وہ لوگ بھی’’مغربی‘‘ہیں جو’’مشرقی‘‘کہلاتے ہیں اوریہ مزاجی سانچے کسی فلسفے نے نہیں بنائے بلکہ تہذیبی بالادستی نے بنائے ہیں۔
3۔مغربی دنیامیں الحادکاتیسراسبب چنددہائیوں سے نہایت تیزی سے مقبول ہوتا’’فلسفہ مابعد جدیدیت‘‘ہے۔مابعدجدیدیت کافلسفہ ’’جدیدیت‘‘کے ردعمل کے طورپروجودمیں آیا۔جدیدیت انسان کے کبرجبکہ مابعد جدیدیت اس پرڈھٹائی کااظہارہے۔جدیدیت میں انسان کویہ غرورہوچلاتھاکہ میں حقیقت وغیرہ خوداپنے بل بوتے پرتلاش کرلوں گا۔ مابعدجدیدیت نے عاجزی کااظہارکرکے یہ نہیں کہاکہ ہم حقیقت نہیں جان سکتے(جس سے چلونبی کی گنجائش پیداہوجائے)بلکہ وہ یہ کہتی ہے کہ یہ حقیقت،سچ،اقداروغیرہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے،ایساکچھ ہے ہی نہیں۔یہ سرکشی سے بھی آگے کی ڈھٹائی ہے۔
مابعدجدیدیت کی تعریف ایک فلسفی لیوٹارڈکے الفاظ میں’’مابعدجدیدیت عظیم بیانات پرعدم یقین‘‘ہے۔مابعدجدیدیت کے علمبرادروں کے نزدیک اس دنیامیں اصول، نظریات ، روایات،اقدار،افکار،آدرشوں اورسچائی وحقیقت نام کی کوئی چیزموجودنہیں ہے،اورنہ ہی دنیامیں آفاقی سچائی اورحقیقت مطلقہ کاکوئی وجود ہے،یہ سب چیزیں اضافی ہیں،اضافی ہونے کامطلب یہ ہے کہ سچائی،حقیقت اورحق وخیرکاتعلق محض انفرادی پسندوناپسندکے ساتھ ہے۔ہرشخص کی سچائی،ہرشخص کاخیراورہرشخص کاحق الگ الگ ہے۔ اس لئے آفاقی سچائی کاتصورمحض ایک دعوی اوردیومالائی داستان ہے۔مابعدجدیدیت کے فلسفے کااثریہ ہے کہ آج کے انسان کی دلچسپی محض اپنے احساسات،جذبات اورعملی مسائل کے ساتھ محدود ہوکررہ گئی ہے،آج کے انسان کے نزدیک زندگی کی تمام بحثیں مسئلہ اورحل کانام ہیں،افکار،نظریات اورآیئڈیالوجی کے مباحث محض نظری ہیں۔جن کاعملی زندگی کی تشکیل اورمسائل کے حل میں کوئی کردارنہیں ہیں۔آج کے انسان کے نزدیک اصول،نظریات،اقدار،روایات وافکارماضی کی باتیں ہیں۔اس لئے بعض مفکرین نے موجودہ دورکو’’عدم نظریہ کاعہد‘‘کہاہے۔جبکہ مذہب(خواہ جوبھی ہو)کی بنیادہی مخصوص نظریات،خآص افکار،متعین آدرشوں اورمحدودخیالات وتصورات پرہوتی ہے۔اس لیے مسئلہ اورحل کے خوگرآج کے انسان کے نزدیک مذہب کے عقائد و نظریات’’دیومالائی داستانیں‘‘ہیں۔مابعدجدیدیت کافلسفہ بعض وجوہ سے تحریک تنویر،تحریک رومانیت اورمغرب سے پھوٹنے والی پچھلی دوصدیوں کی دیگرفلسفیانہ تحریکوں کی بنیادپرقائم’’جدیدیت‘‘سے زیادہ خطرناک ہے۔مابعدجدیدیت کااثرصرف مذہب پرنہیں پڑا،ادب،ثقافت،صحافت،سیاست حتی کے تعلیم تک پراس کے اثرات پڑے۔آج اگرریٹنگ کے چکرمیں ہمارے ٹی وی چینل اقدار، روایات،اخلاق بلکہ بسااوقات ملکی قانون کوپامال کرتے ہیں،ہمارے سیاستدان ’’چڑھتے سورج کے پجاری‘‘بن گئے ہیں،اورسال میں دودوپارٹیاں بدلتے ہیں،ہمارے صحافی وکالم نگارایک سال میں بسااوقات تمام اخباروں کاچکرکاٹ کرواپس پہلے اخبار تک پہنچ جاتے ہیں،ہمارے ہاں تعلیم کی’’خریدوفروخت‘‘کابازارگرم ہے،اورحالت یہ ہوگئی ہے کہ معاشرہ ایک دیانتدارصحافی،کھرے سیاستدان،نظریاتی کالم نگاراورایک مخلص ٹیچروپروفیسرکواس حوالے سے’’احمق‘‘سمجھتاہے کہ اس نے اصولوں،نظریات اورذہن میں موجودخیالات وتصورات کی بناپرمال،دولت اورعزت کوٹھکرایا۔آج بھی خاصے اچھے پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کاذہن یہ ہے کہ معاشرے کاکامیاب فردوہی ہے،جس نے دوچارروپیہ کمایا،ایک اچھی سی کوٹھی کھڑی کی،اونچے عہدوں تک پہنچ گیا،اور زندگی میں لذت کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کیے،تووہ’’کامیاب‘‘شخص ہے،خواہ اس کیلئے اس نے نظریات،اصولوں اوراپنے رسوم وروایات کومکمل طورپرہی ذبح کیوں نہ کیاہو۔یہ سب فلسفہ مابعدجدیدیت کاتباہ کن اثرات ہیں ۔
(قارئین محترم!2دسمبربروزبدھ کولندن کے ایک معروف ہسپتال میںمیرے معدہ کاآپریشن ہونے جارہاہے۔آپ سب سے خصوصی دعاؤں کی التماس ہے ۔۔۔۔۔یارزندہ صحبت باقی)

Comments are closed.