Baseerat Online News Portal

کاش ہمارے اندر بھی اتنی وسعت پیدا ہو جائے

 

 

محمد قمرالزماں ندوی

 

*حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رح* کی وسعت ظرفی کا ایک واقعہ مشہور ادیب ،مفسر قرآن اور انشاء پرداز *مولانا عبد الماجد دریا آبادی رح* کی زبانی پڑھا جی میں آیا کہ ہم جیسے ناکارئہ علم و عمل کے لئے اس میں بہت کچھ پیغام ہے ،اور آج کے موجودہ حالات میں اس وسعت ظرفی اور اعلی سیرت و کردار کی خاص ضرورت ہے کیوں نہ اپنے قارئین باتمکین کی خدمت میں اس واقعہ کو پیش کردوں ۔ اور اگر اس پر کسی ایک فرد نے بھی عمل کرلیا تو عند اللہ اجر و ثواب کا حق دار بھی بن جاؤں گا (اگر اللہ نے چاہا) ۔

*مولانا عبد الماجد دریا آبادی رح* اپنی مشہور و معروف تصنیف (جو اپنے رنگ و آہنگ کے اعتبار سے اور نقوش و تاثرات کی حیثیت سے ایک منفرد اور شہرئہ آفاق کتاب ہے) *حکیم الامت* میں تحریر فرماتے ہیں :

۳۱ء اب ختم ہو رہا تھا،لیکن ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ اپنے ایک عزیز دوست ،اور محترم کرما فرما اور نامور ہم نام کی وفات کی خبر گویا اچانک ملی، مولانا عبد الماجد قادری، بدایوں کے مشہور قدیم خاندان علماء و مشائخ کے ایک فرد تھے،خود بھی عالم ،تحریک خلافت کے برجوش کارکن،جمعیت علماء کے ممتاز رکن اور بڑے ہی خوش تقریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقائد میں بڑے زبردست قادری،اور ذرا غالی قسم کے صوفی تھے ۔ حضرت مولانا تھانوی کی طرف سے قدرتا دل صاف نہ تھا ،دوران گفتگو میں ناملائم الفاظ زبان پر آجائے ناگزیر (ضروری ) تھے ۔ وفات کی خبر سنتے ہی ذہن ادھر منتقل ہوا کہ دعاء مغفرت حضرت سے کرانی چاہئے ،بے تکلف ایک عریضہ اس مضمون کا لکھ بھیجا ۔ یہ رنگ بھی مولانا کا،اگر آپ نے نہ دیکھا تو گویا مولانا کو دیکھا ہی نہیں ۔ دیکھئے ایک عمر بھر کے مخالف کا ذکر کس انداز سے کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

میں کل کے خط کا جواب لکھ کر روانہ کرچکا ہوں کہ دوسرا کارڈ آیا،جس سے ایک محب اسلام و اہل اسلام کا مفارقت ناسوتی کا علم ہوکر قلق ہوا ،رائے کا اختلاف میری نظر میں کچھ زیادہ وزنی نہیں ہے ۔ اصول اور نیت پر نظر رہنی ہے ،سو مرحوم کے متعلق اس کے خلاف کوئی بات نہیں سنی گئی،اس لئے خاص تعلق ہے، اللہ تعالی ان کے ساتھ مغرفت کا معاملہ فرماویں اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرماویں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو معلوم ہے کہ میرے قلب میں بحمد للہ تعالی کسی کی طرف سے غل نہیں ہے اور ایسی گفت و شنید میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ ان کو گناہ بھی نہ ہوتا تھا،کیونکہ وہ روایات کے تحت معذور ہیں ،اس لئے معافی کی حاجت بھی نہیں، لیکن اس سے آپ کی طبیعت خوش نہ ہوگی ،اس لئے آپ کے مذاق کا اتباع کرکے صریح الفاظ میں دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ میں نے سب کچھ ان کو معاف کیا ،آپ بھی معاف فرمائیں ۔ اور ان کو تو ایک خاص امتیاز تھا کہ وہ بدایوں کے متوطن تھے، جو ہمارے شیخ المشائخ حضرت سلطان جی کا۔ اہل بدایوں کے لئے یہ سمجھ کہ ایسے امور کو گوارا کرتا ہوں کہ بدا،یوں،ہی تھا۔ (انسانی عظمت کے تابندہ نقوش مرتبہ راقم الحروف بحوالہ حکیم الامت صفحہ ۲۲)

اس واقعہ میں ہم سب کی نصیحت اور عبرت کے لئے بہت کچھ پنہاں اور پوشیدہ ہیں، شرط یہ ہے کہ ہم ان تحریروں اور کتابوں کو، اور ان واقعات و حکایات کو اپنی اصلاح کی غرض سے پڑھیں ۔ الحمد للہ اکثر لوگ اسی جذبے سے پڑھتے اور مطالعہ کرتے ہیں، لیکن ایک طبقہ اور جماعت وہ ہے جو اپنی اصلاح اور اور فائدے کے لئے کم نقد و تبصرہ اور قیل وقال کے لئے زیادہ پڑھتی ہے،یقیناً یہ سوچ منفی ہے ۔ مثلا اسی واقعہ کو جو اوپر ہم نے بیان کیا اب اگر کوئی اس کو پڑھنے کے بعد سب سے پہلے یہ فکر کرے کہ اس واقعہ کو کنڈم اور بے حیثیت کیسے ثابت کیا جائے اور اسی میں پوری طاقت و انرجی صرف کردے تو یہ سوچ بہتر نہیں ہے ۔ ہاں لکھنے والے کی بھی ذمہ داری ہے کہ کسی واقعہ کو بغیر حوالہ اور ریفرنس اور ثبوت کے قطعا تحریر نہ کرے اور مبالغہ آمیزی سے کلی طور پر پرہیز اور اجتناب کرے ورنہ ایک تماشہ اور معمہ بن جاتا ہے، اور عبرت و نصیحت کے بجائے ایک لطیفہ، کھیل اور ہنسی کی محفل بن جاتی ہے ۔

اس واقعہ کو ہم سب غور و فکر اور تدبر کے ساتھ پڑھیں اور اپنے اندر بھی ایسی ہی وسعت ظرفی پیدا کریں اسلاف کے اس طرح کے واقعات ہمیں بہت کچھ مہمیز لگانے کے لئے کافی ہیں، بس شرط ہے کہ اسی نیت اور جذبہ سے ہم انہیں پڑھیں ۔

آج اختلاف آراء اور علمی بحث و مباحثہ کے نام پر ہم لوگ اور خاص طور پر جدید نسل اور نئے فارغین جو طوفان بدتمیزی واٹسیپ اور فیس بک پر پھیلا رہے ہیں اور جس طرح کی ناشائستہ زبان استعمال کر رہے، وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔۔۔

بعض نئے فارغین مدارس جن کو تھوڑا بہت قلم پکڑنا آ گیا ہے، ان کی زیادہ تر تحریریں دل شکنی اور دل آزاری کے لئے وقف ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کو اس طرح کے مضامین لکھنے ہی میں ذھنی اور قلبی سکون ملتا ہے ۔

ہمیں چاہئے کہ ادب الاختلاف ۔ کتاب الخلاف پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کا ہم مطالعہ کریں ۔ اور ان کو پڑھ کر اپنے اندر وسعت طرفی پیدا کریں ۔

کہ اختلافی مسائل کو لکھنے میں کن آداب اور اصولوں کا لحاظ ضروری ہے ۔

Comments are closed.