کسانوں کے ساتھ حکومت کا ظالمانہ رویہ حکومت کی تنگ خیالی کا نتیجہ۔۔۔۔۔۔۔۔عامر اقبال، اگر اسی طرح عوامی مفادات کی اندیکھی ہوتی رہی تو ہمیں تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا ہوگا

جالے۔ 30/ نومبر ( ارشد فیضی)

ایک طرف جہاں کسان مخالف قانون کے خلاف ملک کے اندر ہر طرف اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے کسان تحریک کی گونج سنائی دے رہی ہے اور نئے قانون کے خلاف کسانوں کا غم وغصہ سڑکوں پر نظر آنے لگا ہے وہیں جالے کے سرگرم سیاست داں اور کانگریسی لیڈر عامر اقبال نے اس پورے معاملے کو ملک کے اندر کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ قرار دیا ہے انہوں نے کہا کہ جے جوان جے کسان جیسے نعرے کا سہارا لے کر اقتدار میں آنے والی حکومت نے وقتی فائدے اور سرمایہ داروں کو مالا مال کرنے کے لئے جس طرح ان دونوں طبقوں کو آمنے سامنے کردیا ہے وہ اس ملک کی خوبصورت پیشانی پر بدنما داغ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے جوانوں کے دلوں میں حکومت نے کسانوں کے لئے نفرت کا جو زہر بھر دیا ہے اس کے بھیانک نتائج ملک کے مستقبل کو سوالیہ نشان کے دائرے میں لاکر کھڑا کر دیں گے،انہوں نے کہا کہ یہاں کی دو تہائی آبادی جو کھیتوں میں کام کر کے ملک کے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا عمل انجام دیتی ہے ان کے ساتھ یہ ظالمانہ رویہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے لوگوں کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اگر ایسا ہی اس ملک میں چلتا رہا اور یکے بعد دیگرے سماج کے مختلف طبقوں کے حقوق دبائے جانے کی پالیسی اختیار کی جاتی رہی ہے تو نہ صرف ہر طرف پھیلی بدامنی برسوں تک ہمارا پیچھا کرتی رہے گی بلکہ ہم اپنی ناکام پالیسی کے سبب عالمی برادری سے آنکھ ملانے کے بھی قابل نہیں بچیں گے،انہوں نے کہا کہ حکومتوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ عوام کے خوش آئند مستقبل کی راہ کو یقینی بنائے رکھنے کے لئے پیش رفت کرے لیکن اس حقیقت کے برخلاف مرکزی حکومت نے جو طرز عمل اختیار کیا ہوا ہے اور جس طرح چند لوگوں کو فائدہ دلانے کی خاطر پورے ملک کو نفرت کی ڈھیر پر بیٹھا دیا ہے اس کی سنگینی کئی نسلوں کو متاثر کرے گی،انہوں نے کہا کہ دلتوں اور مسلمانوں کے بعد کسانوں کے خلاف حکومت کا سخت قدم اس کی تنگ خیالی کا ثبوت ہے اور میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ایسا تنگ خیال ذہن لے کر ہم دنیا کی بڑی قوموں کے بیچ خود اعتمادی سے کھڑے نہیں رہ سکتے،انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں عوام کی بات سننا اور ان کے مطالبات کا حل کرنا سرکار کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے لیکن پچھلے کچھ سالوں سے عوام کی آواز کو دبانے کے جو فارمولے اپنائے جا رہے ہیں اور کسانوں کے ساتھ جس قسم کا ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے انہیں کسی بھی طرح ملک کے جمہوری نظام کے استحکام کی علامت کا نام نہیں دیا جا سکتا،انہوں نے کہا کہ کسانوں کی جانب سے تحریک کو کچلنے کے لئے حکومت نے جس طاقت کا استعمال کیا اور جس انداز سے ان پر لاٹھی چارج کے ساتھ آنسو گیس کے ذریعہ حملہ کیا گیا اس نے ہندوستان کی خوبصورت پیشانی پر بدنما داغ لگا دیا ہے جس کو صاف کرتے کرتے کئی دہائیاں گزر جائیں گی،انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت زراعت کے شعبے کو تیزی سے فروغ دینے اور کسانوں کے خوش حال مستقبل کی راہ کرنے کے لئے موثر اقدامات کی یقین دہانی کراتی رہی ہے اور ان کی جانب سے کسانوں کو ملک کی ریڑھ کی ہڈی بتایا جاتا رہا ہے رہے لیکن سب کے باوجود محنت کش کسانوں کے ساتھ حکومت نے جو معاملہ کیا اس نے پورے ملک کی کسان برادری کو شرمندہ کیا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اس کے اثرات دیر ہا ہوں گے اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کسانوں کے ساتھ صاف دل سے بات کرکے انہیں مطمئن کرنے کی ذمہ داری نبھائے تاکہ ملک کو ترقی کی سمت میں آگے بڑھنے کا موقع مل سکے ۔

Comments are closed.