ہیں بنے قانون جن کی بہتری کے نام پر

محمد عظیم فیض آبادی دار العلوم النصرہ دیوبند
9358163428
زمین کے سخت سینے کو چیر کر پانی کے ذریعہ اس کی سختی کو نرمی میں تبدیل کر زمین کو قابل کاشت بنانے اورسخت محنت کے بعد غلہ پیدا کرکے پورے دیش کو روٹیاں کھلانے اور پیٹ بھرنے کا وسیلہ بننے والے کسانوں کو آج جس موت و زیشت کا سامنا ہے وہ ہم سب کی نظروں کے سامنے ہے کئی دنوں سے اس شدید سردی میں کھلی ہواؤں میں نہ ان کا کوئی پرسان حال ہے اور نہ ہی ان کی پریشانیوں سے کسی کو ان کے حال پر کچھ رحم ہی آتاہے حکمراں جماعت نہ صرف بے حسی کا مظاہرہ کر ہہی ہے بلکہ ظلم وزیادتی کا ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہی ہے اور طاقت کےزور پر ان کی آواز دبانے کی جوگھناؤنی کھیل کھیل رہی ہے وہ انتہائی شرمناک ہے طاقت کے نشے میں چور حکومت نے ظلم کی ساری حدیں اس وقت پار کردی جب اس شدید سردی میں سرد ہواؤں میں ان کوروکنے کے لئے آنسو گیس کے گولے تو دور ان پر پانی کے تیزدھاریں ماری گئیں جن کسانوں کو حکومتیں صحیح وقت پر ان کی فصلوں کی سچائی کی لئے پانی نہ دے سکیں آج اس سخت سردی میں ان کو پانی سے تربتر کردیا حد تو یہ ہے کہ ہریانہ پنجاب اور مغربی اتر پردیش کے کسانوں کی زندگیاں داؤں پر لگی ہوئی ہیں اور حکمراں جماعت کے سب منتری سنتری حیدرآبادی میں نگر نگم کےالیکشن کے پرچار میں مست ہیں جیسے ملک میں کچھ ہو ہی نہیں رہاہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کو کسانوں کی نہیں اپنی کرسیوں اور حکمرانی کے حلقے کو وسیع تر کرنے کی فکر دامن گیر ہے
آخر کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اورخود صدر جمہوریہ ، کِرسی منتری، دہلی ایل جی ، دہلی کے وزیر اعلیٰ کی ناک کے نیچے ہی مودی حکومت کے ظالمانہ زرعی قوانین کی خلاف گذشتہ 6 دنوں سے دہلی کے باڈر پر مظاہرہ ہو رہاہے دہلی کی سرحدیں سیل ہو چکی ہیں دہلی آمد ورفت کرنے والوں کے لئے نہ جانے کتنی دشواریوں کا سامنا ہے لیکن کسانوں کا یہ مسئلہ ابھی تک حل نہ ہو سکا حتی کہ ایک شخص نے اسی مظاہرے میں اپنی جان گنوادی
جب 2014 میں پارلیمانی الیکشن ہو رہا تھا تو بہت سے دل کو لبھانے والے وعدے کیے گئے تھے۔ انھیں وعدوں میں سے ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ ملک کے کسانوں کی آمدنی دو گنی کی جائے گی اور کسان اپنی محنت کا پورا معاوضہ حاصل کریں گے۔ لیکن ساڑھے چھ سال ہو گئے کسانوں سے کیا گیا یہ وعدہ آج تک پورا نہیں کیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جب کسان اپنے مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر اترتے ہیں تو ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ آج ان پر تشدد ، لاٹھی چارج کیا جاتاہے اور اس سردی میں بھی ان پر پانی کی بوچھاریں چھوڑی جاتی ہیں ان کو دہشت گرد اور خالصتان، اور کانگریس کے ایجنڈ تک کہا گیا آخر کسانوں کےتعلق سے حکمرانوں کی غیرت کہاں مر گئی
کسانوں کے تعلق سے حکومت کی نیت بھی صاف معلوم نہیں ہوتی غالبا اسی لئے
راجدھانی دہلی کی سرحدوں پر ڈیرہ ڈالے مظاہرہ کررہے کسانوں نے بات چیت کے لئے مرکزی وزیراخلہ امت شاہ کی یہ اپیل بھی ٹھکرادی کہ وہ آندولن ختم کریں اور انتظامیہ کے ذریعہ مختص کئے گئے مقام پر جاکر احتجاج کریں تب حکومت ان کے ساتھ بات چیت کرسکتی ہے لیکن کسانوں کو یہ مشروط بات چیت منظور نہیں
اِدھروزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو اپنے "من کی بات ” میں زرعی اصلاحات کے قوانین کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان قوانین سے کسانوں کے لئے نئے امکانات کے دروازے کھلےہیں۔
اس سے بڑی جادو گری اور کیا ہو گی کہ وزیر داخلہ کچھ اور وزیر اعظم کچھ اور ہی بول رہے ہیں جب ابھی بھی زرعی بل کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سرکار کا اس بل کی واپسی یا اس میں کچھ ترمیم کا ارادہ نہیں شاید اسی لئے کسانوں نے وزیر داخلہ امت شاہ کےشرائط کو ٹھکرادیا کہ یہ تو صرف کسانوں کی دہلی آمد کو روکنا مقصود ہے نہ کہ کسانوں کے مطالبات کی منظوری
یاد رکھیں کہ اگر کسانوں کے تعلق سے سرکاری کی بے رخی وبے حسی سے تنگ آکر کھیتی کرنا چھوڑ دیا توخدشہ ہے کہ ملک کا زرعی نظام کہیں ٹھپ نہ ہو جائے پھر ملک کے لئے جو سخت حالات ہونگے ان سے نپٹنا مشکل ہوجائے گا
آخر کسان کی مانگ کو پورا کرنے میں کونسی چیز حائل ہے..؟
آج تک ان کی آمدنی دونی کیوں نہیں ہوئی ، پانی تو 20 روپئے لیٹر ہے لیکن کسان کے دھان کی قیمت 10 روپئے کلو کیوں ہے …؟
کسان کے پاس سے مارکٹ تک پہنچتے پہنچتے اشیاء کی قیمت آسمان کو کیوں چھونے لگتی ہیں آخر کسانوں سے کون لوگ لوٹ رہے ہیں اور کن لوگوں کی جیبیں بھری جاتی ہیں …؟ اس طرح کی جب بھی سرکار کی کسی غلط پالیسیوں کی مخالفت ہوتی ہے تو ایک حکومتی طبقہ عجیب غریب منطق بتا کر سرکارکی حمایت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہےکسانوں کے ذریعہ اس زرعی بل کی مخالفت میں بھی یہی ہوا
حد تو یہ کہ اپنی بالکنی پر چھوٹے سے گملے میں پودینہ بونے والے بھی اس بل کی حمایت میں کھڑے ہو کر یہ حکومتی راگ الاپتے ہیں کہ ہم بھی کسان ہیں ہمیں اس بل سے کوئی پریشانی نہیں ہے
حکمران یہ کیوں بھول رہی ہے کہ قوم اور خود ان کی تھالی تک روٹی دال پہنچنانے میں کسان نہ جانے اپنا کتنا پسینہ بہاتاہے اب اگر اپنی مانگیں پوری کرنے کے لئے مظاہروں میں کسان اپنا پسینہ بہائے گا تو پھر سرکار کا بھی پسینہ چھوٹ جائے گا اس لئے بہتر ہوگا کہ
ہیں بنـے قـانـون جـن کی بہتـری کے نـام پـر
جب نھیں منظور ان کو ہی تو پھرکس کام کے
ان کـو لَـوٹـا دیجـئے ان کا پـرانـا ہی نـظام
یہ ضدیں یہ ظلم یہ ہٹ دھرمیاں کس واسطے
Comments are closed.