غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صہیونی سازش عروج پر، اسرائیل ’ارض محرقہ‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے

بصیرت نیوزڈیسک
جنیوا میں قائم انسانی حقوق کی عالمی تنظیم یورومیڈیٹرینیئن ہیومن رائٹس آبزرویٹری نے خبردار کیا ہے کہ قابض فاشسٹ صہیونی ریاست غزہ کی پٹی میں فلسطینی قوم کے وجود کے مکمل خاتمے کے گھناؤنے اور تباہ کن منصوبے کو ایک خطرناک مرحلے میں داخل کر چکا ہے۔ گذشتہ دنوں کے دوران اسرائیلی افواج نے غزہ کے مختلف علاقوں میں ایسی خوفناک تباہی مچائی ہے، جو کسی المیے سے کم نہیں۔ گھروں کو زمین بوس کیا جا رہا ہے، سکیورٹی مراکز، پناہ گاہیں، بنیادی ڈھانچے اور ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پورے کے پورے خاندان ملبے تلے دفن کر دیے جا رہے ہیں۔
آبزرویٹری کے مطابق اسرائیل نے حالیہ حملوں میں "ارض محرقہ ” کی پالیسی اپنائی ہے، جس کا مقصد غزہ کے ہر نشان کو مٹا دینا، ہر امید کو دفن کر دینا اور ہر آواز کو خاموش کرنا ہے۔ ان حملوں میں اب تک صرف شمالی غزہ میں 115 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔ جبالیہ اور بیت لاہیا کے محلوں میں درجنوں گھروں پر بم برسائے گئے، جنہیں رہائشیوں سمیت ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر لاشیں اب بھی ملبے تلے دبی ہوئی ہیں، کیونکہ غزہ کی امدادی ٹیمیں اور سکیورٹی ادارے نہایت کمزور حالات میں کام کر رہے ہیں۔ انڈونیشی اور العودہ ہسپتالوں کے راہداریاں لاشوں اور زخمیوں سے بھری پڑی ہیں۔ کوئی بستر خالی نہیں، کوئی دوا دستیاب نہیں اور نہ ہی کوئی پرسان حال ہے۔
قابض اسرائیل کی فوج نے شمالی بیت لاہیا اور مشرقی جبالیہ سے زمین پر محدود پیش قدمی بھی شروع کر دی ہے۔ گھنٹوں جاری رہنے والی شدید بمباری کے سائے میں کی جانے والی اس پیش قدمی نے ہزاروں بے گناہ شہریوں کو خیموں تک محدود کر دیا ہے، جہاں وہ پہلے ہی بھوک، خوف اور اذیت کی زندگی گزار رہے تھے۔
آبزرویٹری نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی توپخانے نے ان شہریوں کو بھی نشانہ بنایا جو مسلسل بمباری سے بچنے کے لیے محفوظ مقامات کی تلاش میں تھے۔ بیت لاہیا کے الدور الغربی اور جبالیہ کے عزبة عبد ربه میں فرار ہوتے کم از کم 18 شہری شہید کر دیے گئے۔
اسرائیلی افواج نے شمالی غزہ میں ان عمارتوں کو بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے جو جزوی طور پر پہلے متاثر ہوئی تھیں۔ یہ کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ دشمن کا مقصد صرف تباہی نہیں بلکہ پوری بستیوں کا صفایا ہے۔
خانیونس کے مشرقی علاقے اور رفح شہر میں کئی محلوں کو مکمل طور پر زمین سے مٹا دیا گیا ہے، اور اس کام میں اسرائیلی سول کمپنیاں بھی شامل رہی ہیں۔ یہ اقدامات اس بات کی گواہی ہیں کہ اسرائیل محض جنگ نہیں لڑ رہا، بلکہ فلسطینی قوم کے وجود کو ہی صفحۂ ہستی سے مٹانے پر تُلا ہوا ہے۔
آبزرویٹری نے بنجمن نیتن یاھو کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ الفاظ، جن میں اُس نے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور ان کی واپسی کے ہر امکان کو ختم کرنے کی بات کی، آج غزہ کی مٹی پر خون اور آنسو بن کر برس رہے ہیں۔
یہ محض ایک حکومتی پالیسی نہیں بلکہ نسل کشی کا کھلا اعتراف ہے۔ ایک ایسا منصوبہ، جو انسانی وقار، بین الاقوامی قانون اور ہر ضابطۂ اخلاق کو روند کر آگے بڑھ رہا ہے۔
یورومیڈیٹرینیئن آبزرویٹری نے عالمی برادری سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف خاموش نہ رہے۔ یہ وقت مذمتی بیانات کا نہیں بلکہ عملی اقدام کا ہے۔ عالمی اداروں، حکومتوں اور عدالتوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلائیں، اس پر اقتصادی، عسکری اور سفارتی پابندیاں عائد کریں، اسلحے اور دوہری استعمال کی مصنوعات کی فراہمی بند کریں، اور ان کمپنیوں کا احتساب کریں جو اسرائیلی فوج کو ہتھیار، بلڈوزر، جاسوسی نظام اور نگرانی کے آلات فراہم کر رہی ہیں۔
آبزرویٹری نے ان ممالک سے بھی مطالبہ کیا ہے جن کے ہاں عالمی دائرۂ اختیار کے قوانین نافذ ہیں کہ وہ اسرائیلی سیاسی اور عسکری مجرموں کے خلاف فوری گرفتاری کے احکامات جاری کریں، چاہے وہ مقدمات ان کی غیر موجودگی میں ہی کیوں نہ چلائے جائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک آزاد بین الاقوامی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جو ان جرائم سے متعلق تمام شواہد — سیٹلائٹ تصاویر، ویڈیوز، عینی شاہدین کی گواہیاں — کو محفوظ کرے، تاکہ عالمی عدالتوں میں ان مجرموں کا مواخذہ کیا جا سکے۔
آخر میں، یورومیڈیٹرینیئن ہیومن رائٹس آبزرویٹری نے عالمی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی غزہ میں کی جانے والی کارروائیوں کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کرے، ذمہ داروں کے وارنٹ جاری کرے، اور اُن تمام ریاستوں کو یاد دلائے جو روم اسٹیچیوٹ کی دستخط کنندہ ہیں کہ وہ ان مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
Comments are closed.