غیربرادری میں شادی کوفروغ دیاجائے

(مفتی)محمد اشرف قاسمی

ترتیب وپیشکش:
مفتی محمد توصیف صدیقی

قسط نمبر1.

نوٹ: ہماری یہ تحریرآج سے چند سالوں قبل کی لکھی ہوئی ہے۔ بعد میں ہندی اردو میں میری کتاب
*شادی اورشریعت،حصہ اول*
کے ایک باب کی شکل میں شائع ہوئی تھی،اُس وقت قدیم طرز کی کتب مجھے دستیاب تھیں، انھیں کا حوالہ دیاگیا تھا۔ آج جب کہ نسبتاً کافی کتب بندہ کو دستیاب ہیں، نیز سافٹ وئیر کتب کی سہولیات بھی میسر ہیں، لیکن قلتِ وقت کی بنا پرنئے حوالہ جات پیش کرنے کے بجائے قدیم حوالہ جات اور ماخذ ومصادر کے ساتھ یونیکوڈ اورکتابت کی دیگر شکلوں میں سوشل میڈیا پر وہی تحریرہدیۂ قارئین کی جارہی ہے۔
اس تحریر کامقصد کفوء میں شادی کی افادیت کا انکارنہیں ہے۔ بلکہ چونکہ فقہاءکرام نے اہلِ عجم کے لیے نسبی کفائت کا اعتبار نہین کیا ہے،نیز کمزورخاندان کی لڑکی کی شادی اُس سے اعلی خاندان میں کیے جانے کی بلاکراہت اجازت دی ہے۔
اس کے باوجودہمارے معاشرے میں مسئلہ کفائت میں لڑکی ولڑکا دونوں جانب سے دین داری، پیشہ، تعلیم، کے بجائے حسب ونسب کی بنیادرشتوں کا التزام کیاجاتا ہے۔ جس کے بے شمار نقصانات سامنے آرہے ہیں۔( زیر مطالعہ مضمون میں ان مضر پہلووں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے)
سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس بے جاالتزام کی وجہ سے امت منووادی طبقاتی نظام کے مطابق تقسیم ہوتی ہے۔ اوراس سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ نومسلموں کے رشتوں میں کافی مشکلات ودشواریاں پیش آتی ہیں۔
بریں بنا اس تحریر سے ہم اہل اسلام کواس طرف متوجہ کرناچاہتے ہیں کہ وہ شادی کے سلسلے میں خاندان اورنسب کے بجائے دینداری کوترجیح دیں۔ اوراس طرح پوری امت کو ایک لڑی میں پروکر ایک امت بنانے کی مبارک سعی میں شریک ہوں۔

*غیربرادری میں شادی کو فروغ دیاجائے*

کچھ مصا لح کی بنا پر فقہاء کرام نے کفوء،غیرکفوء عنوان کے تحت خاندان میں شادی کر نے اورنہ کر نے کے مسائل بیان فرمائے ہیں۔ اسی کے ساتھ اس کی بھی صراحت کی گئی ہے کہ شریعت میں قا بلِ قبول اور معتبر وہی مصا لح ہوں گے جومقاصدِ شریعت کی تکمیل کرنے والے ہوں،اوروہ شریعت کونقصان پہونچانے والے نہ ہوں۔
ہمارے ملکی حالات بلکہ موجودہ عالمی حالات کے پیشِ نظر شادی میں دین داری پرحسب و نسب کو تر جیح دینا شریعت کے خلا ف ہے اوراس سے حضور ﷺ کی مخالفت بھی لازم آ تی ہے۔ نعو ذباللہ منہ ! کہ آپ ﷺ نے مصلحت کا اعتبار کئے بغیر ہاشمی، قریشی اورعربی عورتوں کا نکاح غیربرادری میں کروادیا۔
مختلف پیشوں کی طرف منسوب برادریوں اورعلا قوں کے لوگوں کو اللہ نے قر آ ن مجید میں ایک ماں باپ کی اولاد بتلایا۔
یَآاَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْارَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَازَوْجَھَاوَبَثَّ مِنْھُمَارِجَا لًا کَثِیْرًا وَّنِسَاءً ج (1) النساء پ 4
”اے لوگو! اپنے پروردگا رسے، ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اُس جاندارسے اُس کاجوڑاپید اکیااور اُن دونوں سے بہت سے مرد اورعورتیں پھیلا ئیں 2؎“ْ(1) النساء
انسا نوں میں افضلیت و عزت کا معیار قبیلہ،خاندان، پیشہ کے بجائے اللہ تعالی نے دین داری کو قراردیا ہے۔
اِنَّاخَلَقْنَا کُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنَا کُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآ ءِلَ لِتَعَارَفُوْا ٓاِنَّ اَ کْرَ مَکُمْ عِنْدَ اللّٰہ اَتْقَا کُمْ(13) الحجرات پ26
”اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرداور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کومختلف قومیں اورمختلف خاندان بنایا، تا کہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرسکو1؎ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گارہو۔“(13)الحجرات پ26
عام طور پر انسا نوں کی تقسیم پیشہ اور علا قہ کی وجہ سے کی جاتی ہے اور انھیں بنیادوں پرتقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے نئے نئے خا ندان وجود میں آ تے رہتے ہیں۔ لیکن دینِ اسلام انسانوں کی اس تقسیم کو ’ایمان‘ کی ایک رسی سے با ندھ کرتمام اہل ایمان کو بھا ئی بھا ئی بناتا ہے۔
اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (10) الحجرات پ26
”مسلما ن تو سب بھا ئی ہیں۔“(10) الحجرات پ26
کسی بھی جائز پیشہ کی وجہ سے کوئی مسلمان اخوۃِ ِاسلامی کے دائرے سے الگ نہیں کیاجاسکتا ہے۔ آج عموماًجن پیشوں کی طرف منسوب قوموں کو ذلیل سمجھا اور کہاجا تا ہے۔ ابنیاء علیہم السلام اورپھر سلسلۂ نبوت کے ختم ہونے کے بعد تمام انسا نوں میں سب سے افضل گروہ،صحا بۂ کرام ؓ نے اُن پیشوں کواختیار کیاہے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ،دیگر انبیائے کرام اور اپنے بارے میں فرما تے ہیں کہ :
”تما م انبیائے کرام نے بکریاں چرائی ہیں۔ اور خود میں بھی چند قیر اطوں پر مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔“(بخاری ج1/ص278 /حدیث نمبر2262/)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ:
ما اکل احدٌ طعاماً قط خیرا من ان یأ کل من عمل یدہ وان نبی اللہ دوٗود علیہ السلام کان یأ کل من عمل یدہ۔ (بخا ری،حدیث نمبر2072 )
”اپنے ہا تھ کی کمائی سے بہتر رزق کسی نے نہیں کھایا حتیٰ کہ اللہ کے نبی داو ود علیہ السلام اپنے ہا تھ کی کمائی کھا تے تھے۔“
(بخا ری حدیث نمبر2072 )
حضرت داوود علیہ السلام کے بارے میں قرآن نے ’لوہا ری‘کو ذکر کیا ہے۔ارشادِربا نی ہے۔
وَاَ لَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ(10) اَنِ عْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَقَدِّ رْ فِی السَّرْدِوَاعْمَلُوا صَا لِحًا..(11) سبا پ 22
”اور ہم نے ان (داوٗد)کے وا سطے لوہے کو(مثل موم)نرم کردیا(10)اور(یہ حکم دیا) کہ تم پوری زرہیں بناؤ(اور کڑیوں کے)جوڑنے میں اندا زہ رکھو اور تم سب نیک کام کیا کرو۔“(11) سباپ22
حضرت زکریا علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے۔
صحا بہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و بزرگی کی گو اہی قر آن نے دی ہے۔ ذیل میں ان کے کچھ پیشوں کو دیکھیں۔
حضرت سلمان فا رسی رضی اللہ عنہ کھجور کی پتیوں کی چٹا ئی بنایا کرتے تھے۔ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا پیشہ بنکری کا تھا۔ ایک صحا بی ابوہندرضی اللہ عنہ جو حجام تھے۔ انھوں نے آپ ﷺ کے جسمِ اطہر سے خون نکالا تو آ پ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:
”اگر تم میں کوئی شخص ایسے آدمی کو دیکھنا چاہے، جس کے دل میں اللہ نے ایمان کوراسخ کردیا ہے تو وہ ابو ہندؓ کو دیکھے۔“( ابنِ ما جہ)
اس لئےجائزروزگار،مختلف دست کاری و پیشوں اور رنگ و نسل کی بنیاد پر مسلما نوں کے درمیان باہم شادیوں کو ممنوع نہیں قرار دیاجا سکتا ہے۔
محرمات کے علاوہ شا دیوں کے جواز اورعدم جواز کی واحد وجہ قرآن مجید نے دین داری یا بے دینی کو قرار دیا ہے۔
وَلَا تُنْکِحُوْاالْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُوْئمِنَّ ط وَلَاَمَۃٌ مُوْئ مِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَلَا تُنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُوْئ مِنُوْا ط وَلَعَبْدٌ مُّوْئمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٌ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ(221) البقرہ پ 2
”اور نکا ح مت کرو کا فر عورتو ں کے ساتھ جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجا ئیں اور مسلمان عورت (چاہے) لو نڈی(کیوں نہ ہو وہ ہزا ر درجہ) بہتر ہے کا فر عورت سے گو تم کو اچھی ہی معلوم ہو اور عورتوں کو کا فر مردوں کے نکاح میں مت دو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں اور مسلمان مرد (غلام) بہتر ہے کا فر مرد سے گو وہ تم کو اچھا ہی معلوم ہو۔“(221) بقرہ
(تر جمہ حضرت تھا نویؒ)

اگلی قسط میں پڑھیں

*حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے دوسری برادریوں میں شادیاں کی ہیں*
2020/12/01ء

Comments are closed.