ممتا بنرجی کا وعدہ فردا…… کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

عبدالعزیز 
بنگال میں بی جے پی ‘ مودی اور ممتا کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کرنے میں گودی میڈیا کے ذریعے کامیاب ہو سکتی ہے اگر تیسرا محاذ تیجسوی کی طرح کسی نوجوان کو بنگال کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کر سکتا ہے تو اسے بھی قابل ذکر کامیابی مل سکتی ہے۔
شوبھندو ادھیکاری نئی پارٹی بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ نئی پارٹی ممتا بنرجی کے لیے زبردست دھچکا ثابت ہوسکتی ہے۔ بی جے پی مودی کے سہارے اپنی نیا پار لگا نا چاہتی ہے۔ اسمبلی الیکشن میں ان کا چہرہ دکھا کر شاید ہی بڑی کامیابی ملے۔ ممتا بنرجی کی متنازع شخصیت کی وجہ سے پارٹی کے اندر اور باہر کشمکش جاری ہے جس سے پارٹی کی کمزوری میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
مسلم ووٹرز اگر اجتماعی حیثیت سے کسی قیادت کے تحت کوئی فیصلہ نہیں کرسکے تو الیکشن کے بعد irrelevantثابت ہوسکتے ہیں۔ جیسے پچھلے دس سال سے غیر متعلق، بے وزن اور بے وقعت رہے ہیں، ایک بھی مطالبہ نہیں منوا سکے ۔مدرسہ کے مسائل کے سلسلے میں ممتا ٹیچروں کو سکریٹریٹ نبنودوڑاتی رہیں۔ ایک بار بھی ملاقات کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ اتنا بیہودہ سلوک کسی وزیر اعلیٰ نے مسلمانوں سے نہیں کیا۔ ایک بارمد رسہ کے ایک پرنسپل سیکرٹری نے ممتا سے ڈر تے ڈر تے کہہ دیا کہ ٹیچروں کو تنخواہ دینے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ ممتا بنرجی نے فوراً کہا کہ تم اپنے پاس سے دینے کی کوشش کر و۔ یونانی میڈیکل کالج اور اسپتال کے ذمہ دار دہلی اور کلکتہ کے لوگ ایک پیلر سے دوسرے پیلر تک دھکے کھاتے رہے ۔آخر میں محکمہ صحت کے پرنسپل سیکریٹری نے غصہ بھرے لہجے میں کہہ دیا کہ دیدی چھاڑا کیئو کیچوکوررتے پار بے نا (دیدی کے سوا کوئی کچھ نہیں کر سکتا) ایک ایم پی کے پاس خاکسار  موکل رائے سے ان کے پاس لے گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ادارہ دے تو اس کی قسمت بدل دیں گے میں ان کا منہ دیکھنے لگا سوچا کہ ان کے پاس تو کئی ملی ادارے ہیں ان کا حال تو اچھا نہیں ہے اسے لے کر کیا کریں گے۔  اب وہ دنیا میں نہیں ہیں اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کر ے موکل رائے جو اس وقت بی جے پی میں ہیں اس وقت ترنمول کانگریس میں نمبر دو تھے، انہیں کاغذ ات میں کمی نظر آئی ، وعدہ کیا تھا دیکھیں گے ۔فرہاد حکیم نے بھی کوشش کی  انہوں نے جلد ہی ہتھیار ڈال دیا کہ ان سے کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ملی کالج والوں نے انہیں صدارتی عہدہ سونپا تھا دوہی تین مہینے میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ ممتا بنرجی نے بیساکھی بنرجی اور ان کے طفیل میں ایک اور ٹیچر کو بحال کرنے کیلئے سلطان احمد مرحوم سے  کہا کہ تم ہائی کورٹ سے مقدمہ واپس لے لو اور ٹیچروں کو بحال کردو اقلیتی کردار بحال کردیں گے۔ سلطان احمد صاحب نے بغیر مشورہ کئے وعدہ نبھانے کی بات کی۔ مقدمہ ڈبل بنچ سے واپس لے لیا وہ دنیا سے چلے گئے مگر ممتا نے وعدہ ایفا نہیں کیا۔ ان کا وعدہ، وعدہ فر دا ثابت ہوا۔ خاکسار نے کھڑے کھڑے ان کے دروازے کے باہر ان کا وعدہ فردا یا د دلایا تو انہوں نے مجھے اپنے وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی سے ملنے کو کہا کہا بات کرو۔ ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومت کسی قیمت پر اقلیتی کردار بحال نہیں کرے گی۔ خالی ہاتھ آیا اس وقت کالج کی انتظامیہ ممتا کے لوگوں  کے اشارے پر کام کرتی تھی۔
پریس کانفرنس کرکے اعلان کیا کہ اقلیتی کردار توہے حکومت نے دے دیا ہے مجھے ایک ترنمولی اخبار کے ذریعے گا لیوں سے نوازا گیا۔ حقیر فقیر گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا۔چند دنوں پہلے طالبات امتحان نہیں دے پا رہی تھیں سارے دروازے پر دستک دی گئی سب دروازے بند ہوگئے تو آخر ش گورنر کا دروازہ خاکسار نے کھٹکھٹا یا گورنر نے پرو وائس چانسلر ‘کلکتہ یونیورسٹی کو ہدایت دی۔ انہوں نے تعاون کیا کام انجام پذیر ہوا۔ اب جب داخلہ فارم نہیں ملا کیونکہ کالج پورٹل کا پاس ورڈ جس کے پاس ہے وہ تعاون کیلئے تیار نہیں ہوئیں۔ بالاآخر طالبات کوسرد موسم میں احتجاج کے طور پر غیر معینہ مدت کے لیے بیٹھنا پڑا ۔کل ممتا بنرجی کے دو کارندے سیاسی اور تعلیمی میدان سے تعلق رکھنے والے آئے تھے ۔انہوں دیدی سے بات کرنے کے بجائے پارتھو چٹرجی سے بات کرنے کی بات کی ہے۔ پارتھو دیدی سے بات کریں گی۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ کوئی امید بر نہیں آتی۔ بک رہا ہوں جنوں میں‘ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کی حمایت میں ہے کہ ممتا بنرجی یا ان کی سرکار سے سوال وجواب نہ کیا جائے اور نہ ان کے وعدے کو یاد دلایا جا ئے آنکھ موند کر ا ن کی حمایت کی جائے اور ان کے امیدواروں کو ووٹ دیا جائے خواہ وہ نصرتِ جہاں جیسی ہوں اور وہ مسلمانوں کے لیے ر سوائے زمانہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کو بہر حال ووٹ دے کر کامیاب کرنا۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن کو ہرانا ہے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ ممتا بنرجی کے بجائے کانگریس اور بایاں محاذ کی حمایت کی جائے۔اس طرح کے لوگوں کی تعداد کم ہے۔ تیسر ا خیال ہے کہ ممتا بنرجی یا بی جے پی کے سوا جس کو بھی حمایت کی جائے چند شرائط پر کی جائے تاکہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کا بھی بھلا ہو ممتا بنرجی کو گزشتہ دس سال سے مسلمان بڑی تعداد میں حمایت کرتے آرہے ہیں۔ مگر ممتا بنرجی مسلمانوں کو کسی وجہ سے کوئی اہمیت نہیں دیتیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کچھ ملا تھا اس سے بھی اگر انہوں نے  مسلمانوں کو محروم کر دیا ہے تو وہ تو خود زبان حال سے کہہ رہی ہیں انہیں آنکھ بند کر کے ووٹ دینا ہے تو دیجئے ورنہ مت دیجئے۔ سوال یہ ہے کہ مدنا پور کے ایک لیڈر شوبھندو ادھیکاری جو ممتا بنرجی کو دس پندرہ ایم ایل اے کی سیٹیں دلا سکتے ہیں یا ناراضگی کے سبب بر باد کر  سکتے ہیں اس پر ممتا بنرجی کی نید حرام ہوگئی ہے ۔اپنے لیفٹنٹ  کے ذریعے منانے کی کوشش کررہی ہیں کیا مسلمانوں کی طرف سے کو ئی طریقہ کار اپنانا غلط ہوگا یا جمہوریت کے شایان شان ہوگا ۔جمہوریت میں چیخ پکار سے ہی حکومت کے کان کھڑے ہوتے ہیں۔ ملی کالج کی طالبات کے غیر معینہ اسٹرائک سے حکومت کے کان کھڑے ہوئے ان کے نمائندے آئے اوربات کرنے پر مجبور ہوئے اس سے پہلے کوئی جھانکنے بھی نہیں آتا تھا اگر کوئی وفد ملی کا لج کا جاتا تھا تو پارتھو چٹرجی صاف کہہ دیتے ان کے پاس وقت نہیں ہے ایک بار سلطان احمد مرحوم سے پارتھو چٹرجی ملنے گئے۔ ایک وفد کے ساتھ تو مسٹر چٹرجی نے کہا ملی کالج کے علاوہ کوئی بات کرو جب ممتا بنرجی این ڈی اے کے ساتھ تھیں اور اسمبلی کا الیکشن لڑ رہی تھیں تو انہوں نے ایک جماعت کے لیڈروں کو مکل رائے کے ذریعے  اپنے گھر پر ملاقات کے لیے دعوت دی تھی۔ بہت ساری گفتگو ہوئی جب وفد نے ان کو حمایت دینے سے بی جے پی کی وجہ سے انکار کر دیا تو ہم نے آخر میں پوچھا آپ کوہم لوگوں کوبلا نے کے لیے کس نے مشورہ دیا  تھااسوقت ہم نے جاننے کے لئے سلطان احمد صاحب کا نام لے لیا تو فوراً کہا ’’آمی سلطان ولطان کے پتہ دی نا‘‘ (میں سلطان ولطان کو کوئی اہمیت نہیں دیتی ہوں ) محترمہ کی اس بات سے مجھے دکھ بھی ہوا تعجب بھی۔ پھر پوچھا آخر تو کوئی ہوگا تو انہوں نے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر تے ہوئے اپنی انگلی سے طاقوں میں سجے ہوئے بتوں کی طرف اشارہ کیا جسے بنگال میں غالباً ٹھا کر کہتے ہیں۔یعنی مجھے میرے ٹھا کروں نے حکم یا اشارہ کیا۔ میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ جو لوگ محض ایک ٹکٹ کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ان سیاسی پارٹیوں کے پاس ان کی قدر وقیمت کیا ہوتی ہے ؟عوام کو معلوم ہو۔ مولانا صدیق اللہ چودھری اور عبد الرزاق ملا کس قدر آزاد تھے کیا نہیں بولتے تھے مگر ایک ایک ٹکٹ پر  سر تسلیم خم کر دیا منہ پر مہر لگ گئی۔‘‘۔ اللہ رے سناٹا آواز نہیں آتی ‘ آخر ممتا نے تو خود اقتدار میں آنے سے پہلے اخبار مشرق کے ایڈیٹر کے جلسے میں مسلمانوں کو پریشر گروپ بنانے کی طرف اشارہ کیا تھا ۔یہ دوسری بات ہے کسی بھی کور گروپ یا پریس گروپ سے ملنا گوارا نہیں کیا۔ معاملہ یہ ہے۔ کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے؟
()()()
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Comments are closed.