اولاد کی تعلیم و تربیت کا بگڑتا رجحان: آخر اسکا ذمہ دار کون؟!

 

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی۔گیسٹ لیکچرار، مانو، حیدرآباد

[email protected]

 

اسلام مذہب دین و دنیا کے وسیع مجموعے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے اعلی اور معیاری اخلاق کا نام ہے، جوہمیں صحیح ایمان وعقیدہ کیطرف بھی رہنمائی کرتا ہے اور اپنی شریعت مطہرہ کے ذریعے پوری انسانیت کیساتھ عدل و انصاف کا نظام اور اخوت ومحبت کے ماحول قیام چاہتا ہے اور سبھوں کیلئے پاکیزہ اصول اور بہترین دستور حیات کی مانند ہے، کیونکہ ”الاسلام دین و دنیا۔۔۔عقیدۃ و شریعۃ”۔ اسی لیے مذہب اسلام ایک دین فطرت بھی ہے اور قرآن مجیدایک مکمل ضابطہ زندگی ہے۔ یہ دین پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن، دنیاوی زندگی میں امن و سکون کاداعی اور اخروی زندگی میں راحت وآرام کاپیامبر ہے۔ اسلام کی عظمت و برتری قران پاک میں یوں بیان کی گئی ہے کہ: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۱۹) ترجمہ: بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔

نیک اولادکا ہمارا خواب: اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کی آیت، انبیاء کی سیرت، رسول اکرم کے اسوہ حیات اور انکے متبعین کی فکر وبصیرت سے ایسے حقائق و احوال منعکس و منضبط ہوتے ہیں، جن سے مطیع وفرمانبردار اور نیک اولاد کی طلب و جستجو اور انکی ضرورت و اہمیت کا پتہ چلتا ہے اور انکی بہترین تعلیم و تربیت کے احکامات وفرمودات بھی ملتے ہیں تاکہ تمام اولاد اپنے والدین کے لیے بھی اور دوسروں کے لئے بھی نفع کا ذریعہ، آنکھوں کی ٹھنڈک، زندگی اور مرنے کے بعد بھی نفع رسانی اور عزت و افتخار کا باعث بن سکیں، انبیاء کرام اور انکی ازواج کا نیک اولاد کیلئے خدا سے منت و سماجت کرنے اور متعدد دعاؤں کے ذریعے صالح اولاد کی خوشخبری وبشارت کا آسمان سے اترنے کا حسین تذکرہ اللہ کی عظیم کتاب قرآن مجید میں جابجا ملتا ہے۔

بے شک اللہ ہم سبھوں کی دعاؤں کا بھی سننے والا ہے، وہی ہمیں اناث و ذکور اولادواطفال سے نوازتا ہے، میاں بیوی کی دلی خواہش کو پورا کرتا ہے اور وہی پروردگار مال و اولاد جیسی نعمتوں سے ہماری مددواعانت بھی فرماتا ہے، کیا ہم اس انعام الہی اور لطف خداوندی کی کماحقہ قدردانی بھی کرپاتے ہیں؟ ان کی پرورش و پرداخت اور ان کی اسلامی تعلیم وتربیت میں ان قرآنی مطالبات اورنبوی ارشادات کی رعایت و لحاظ کرتے ہیں؟ اوران نقوش وخطوط کی تکمیل کر پاتے ہیں جن کی علماء وماہرین نے اولاد کی تعلیم وتربیت کے لیے ضروری قرار دئے ہیں؟ اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کی نگرانی و نگہداشت میں کیا ہمارے گھروں میں ان اصولوں کی پابندی ہوتی ہے؟تاکہ وہ بچے اور بچیاں مستقبل میں نیک کردار، پاکیزہ سیرت، اچھی ذریت، بہترین دولت و ثروت حتی کہ متقیوں کے امام و پیشوا کہلانے کے مستحق بن سکیں؟ جو پورے خاندان و معاشرے کے لئے بھلائی کا سرچشمہ، سکون کا سبب، زینت کا باعث یا کم ازکم اپنے والدین کے لئے فخر واعزاز کا ذریعہ بن سکیں؟ اور اللہ اور اسکے رسول کے مختلف فرمان کا مصداق بن سکیں مثلا ”المال والبنون زینۃ الحیاۃ الدنیا” یعنی مال و اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں اورنبوی فرمان کے جامع و پیکر بن کر زندگی بسر کرسکیں، جسکا لب لباب یہ ہے کہ نیک اولاد والدین کیلئے صدقہ جاریہ کی مانند ہوتے ہیں۔

افسوسناک مشاہدات و حالات:مگر افسوس! مشاہدات و حالات حقیقت و واقعیت کی الٹی ترجمانی پیش کر رہے ہیں، ہمارے معاشرے کی لائیو صورتحال کچھ اور ہی بتا رہی ہیں، غرض کے تربیت کا نقشہ الٹا نظر آرہا ہے، آخر کیوں؟ اولاد کی رغبت کے وقت جو جذبات و احساسات والدین کے دلوں میں موجزن ہوتے ہیں، عین ولادت کے بعد بالخصوص انکی تعلیمی وتربیتی پرورش وپرداخت کے وقت وہ ارادے بالکل بدل جاتے ہیں،! اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت، اسلامی پرورش و پرداخت میں ہم سے جہاں جہاں بھی کوتاہیاں ہوتی ہیں، ہمیں بعد میں اپنی لاپرواہیوں کی جزا و سزا دنیا ہی میں ملنے لگتی ہے! کبھی کبھی ہم خون کے آنسو بہانے پر مجبور ہوجاتے ہیں! خلاصہ یہ کہ ہم اپنے بعض طرز عمل سے دین کی ناقدری اور دنیا کی حرص و ہوس والی سوچ و فکر کی انہیں حامل بنا دیتے ہیں، بچے کے دلوں میں اخلاقی و روحانی لاپرواہی والی سوچ و فکر والدین سے سرایت کر جاتی ہے، جوروش اسلامی تعلیم و تربیت کے سلسلے ہمارے سماج و معاشرے میں پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ ہمارے موجودہ سماج میں دینی بے راہ روی اور اسلامی کج روی کا رجحان و میلان بچوں پر غیر مفید اثرات و مضمرات مرتب کررہا ہے، جنکے منفی نتائج سے ہماراپورا سماج ومعاشرہ جوجھ رہا ہے، بلکہ تقریبا ہر گھر میں اسکا غلط اثرظاہر ہورہا ہے، موبائل اور انٹرنیٹ کی دنیا سے جو خرابیاں اور بداخلاقیاں ہماری اولاد میں روز بروز منتقل ہورہی ہیں، اللہ ہمیں معاف کرے! جو نہایت ہی خطرناک اورافسوسناک ہیں، جس میں والدین اور گھر والوں کے قصور و لاپرواہی کا بھی دخل ہے جس سے انکارکی گنجائش نہیں! بیشتر والدین کا خود کو دین اسلام کے مھمات و فرائض سے دوری بنائے رکھنا اور اولاد کی اچھی تربیت سے لاپرواہی برتنا بھی اولاد کے نافرمان بننے کا سب سے بڑا سبب ہے، جس پر والدین کو فوری کنٹرول حاصل کرلینا چاہیے۔ اور اولاد کو مزید بگڑنے سے فوراًاللہ کی پناہ میں آجاناچاھئے۔ ورنہ بعد میں اسکے اتنے گہرے مضر اثرات ہونگے جسکا ہمیں گمان بھی نہیں ہوگا۔ سچی بات یہی ہے کہ الولد سر لابیہ. بیٹا باپ کا نمونہ ہوتا ہے،جب والدین ہی لاپرواہ ہیں تو پھر شکایت او ررونا کس بات کا؟!.

اپنے بچوں کے اسلامی مستقبل کا انحصار صرف معمولی ٹیوشن، نورانی قاعدہ، قرآن کی تلاوت اور بعض فرائض دین اسلام کی رسمی تعلیم پر محدود کر دینا اور بچوں سے مطیع و فرمانبرداری کی امید وابستہ کرلیتا بے سود و لاحاصل ہے! جو والدیں کی بڑی غلطیوں میں سے بہت بڑی غلطی ہے!کیونکہ جیسا آپ بیج بوئیں گے پھل ویسا ہی حاصل ہوگا! اپنے بچوں کی معمولی تعلیم و تربیت سے بہترین مستقبل کی توقع رکھناہماری خام خیالی تو ہو سکتی ہے مگر روشن مستقبل کی ضامن نہیں! جب تک آپ انہیں انبیاء کرام کے قصے، حضور اور انکے اصحاب کی سیرت کی کتابیں، اولیاء اللہ اور علماء عظام کی سیرت و سوانح کے مطالعے اور انکے مزاج کاحامل نہیں بنا دیتے اور علماء کی قدر اور انکی صحبتوں کا انہیں پابند نہیں کر دیتے۔ اسوقت تک کسی بھی خیر وبھلائی کی اپنی اولاد سے امید وابستہ رکھنا محال ودشوار ہوگا!! کیونکہ صحبت صالح ترا صالح کند! وصحبت طالح ترا طالح کند۔۔۔ اچھوں کی صحبت آپ کو اچھا بنائے گی اور بروں کی صحبت آپ کو برا بنائے گی۔

غرض کہ ہمارے بچے اگر مطیع و فرمانبردار نہیں ہیں تو اس میں ہماری کوتاہی و لاپرواہی کا بھی خاصا دخل ہے! ہمیں اپنی کمزوریوں کو بھی دور کرنے کی شدید ضرورت ہے، ہم تو دینی تعلیم وتربیت کیلئے اپنے بچوں اور بچیوں کو مساجد میں صباحیہ اور مسائیہ مکتب پر موقوف کر دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اپنی دینی،اسلامی اوراخلاقی ذمہ داری پوری کردی؟! حالانکہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ وہاں بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بیچارے ایک یا دو مولوی صاحب اتنے زیادہ بچوں اور بچیوں کو چند منٹوں کے کلاس میں کیسے سنبھالیں! کس کو پڑھائیں اور کس کو نہیں پڑھائیں! یہی سوچتے سوچتے مغرب کی اذان ہوجاتی ہے اور بچوں کو چھٹی دے دی جاتی ہے!! بھلا ایسے مکتب کی تعلیم پر اپنے بچوں کا دینی انحصار کردینا کتنا مفید بخش ہوسکتا ہے؟ہر صاحب عقل آسانی سے بتا سکتا ہے، ایمانی و روحانی تربیت کا مرحلہ ابھی پہونچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے بچے مکتب سے فارغ ہوگئے؟!۔ نتیجہ جو کچھ بھی ہے وہ آپکے سامنے ہے۔یا آپ خود موجودہ ماحول اور اسکے منفی اثرات سے اسکا روززآنہ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ حالانکہ اسلام مخالف، دین بیزاری والے ماحول میں اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کا پختہ اہتمام و انتظام پہلے سے دسیوں گنا بڑھ کر کرنالازم ہو تا ہے۔ تاکہ اسلام دشمن اوریہ ناموافق و ناسازگار ماحول انہیں اپنا ہدف نہ بنا سکے۔

تعلیم پر ہماری اور حکومت کی سیاست:مگر ہماری اولاد عمر کے ہر مرحلے سے گزرنے کے باوجود بھی دین و شریعت کی ٹھوس تعلیم و تربیت سے محروم رہ جاتی ہیں، بچوں کو عصری تعلیم دلانے کے ہم نہ تو مخالفت کررہے ہیں اور نہ اس تحریر سے یہ دعوت دی جارہی ہے!بلکہ دینیات واسلامیات کی پختہ تعلیم فراہم کرانے کی وکالت کرر ہے ہیں،تاکہ بچوں کا مزاج دینی و اسلامی بن سکے، یہی ہمارے مضمون کا حاصل ہے! بیشتر مسلم معاشرے اورموجودہ ہندوستانی سماج کا ہر ناحیے سے جو برا حال ہے، ایسے میں اسلامی تعلیم و تربیت کے لیے کسی غیر معیاری ادارے اور غیر مستحکم نظام تعلیم پر توکل کر کے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاناہماری بڑی غلطی ہوگی، ہماری ہی لاپرواہی کے سبب ایسے معاشرے اورافراد کا ظہور ہورہا ہے جو خود اسلام کے تئیں شکوک و شبہات اور وساوس و غلط افکار کی زنجیروں میں پہلے سے ہی بری طرح جکڑے ہوئے ہوتے ہیں، جن کو اسلام مخالف تنظیمیں آسانی سے اپنا ہدف بنا لیتی ہیں، جو ہم مسلمانوں کیلئے کے لیے بڑا لمحہ فکریہ ہے، ہماری پوری زندگی برباد ہو جانے کا خدشہ ہے، جو ہر والدین کیلئے درد سر اور پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے، افسوس تو اسوقت اور بڑھ جاتا ہے کہ اگر کوئی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے تعلیم و تربیت کا کوئی معقول نظام یا معیاری ادارہ قائم کرنا بھی چاہتا ہے تو ہم ان کے سامنے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مسائل و مشکلات کا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں یا ان کے راستوں میں ہمارا پورا مسلم معاشرہ یا بعض منفی سوچ و فکر کے حامل افراد روڑے اٹکاتے لگتے ہیں، آخر ان خطرناک اور افسوسناک صورتحال کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟ بیچارے ان مولویوں کو صرف اس لیے بدنام کرکے رکھ دیا گیا ہے کہ جب دیکھو وہ رسید اور مدرسے کے تقاضوں کو لے کر سامنے حاضر ہوجاتے ہیں، جبکہ موجودہ حکومت کا مدارس کے تئیں جوظالمانہ رویہ ہے وہ نہایت افسوسناک اور قابل رحم ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ مدارس بند کردیے گئے جیسا کہ گورنمنٹ بھی یہی ارادہ ظاہر کر رہی ہے تو پھر دین اسلام کا حقیقی محافظ کون بنے گا؟! ذرا ٹھنڈے دل سے اس پر سوچیں!! غوروفکر کریں۔ کہ مدارس دینیہ اسلام کے قلعے اور اسکی انجمن اور دین و دنیا میں امن وامان کے ضامن ہیں، نعوذ باللہ اگر وہی اداریے مٹادئے گئے یا اسی طرح قیدو بند کا سلسلہ طویل ہوتارہا تو ہمارے سماج و اولاد میں دینی و اسلامی ایندھن باٹنے کانظام وانجن کا سلسلہ کیسے چلے گا؟ اس لیے مدراس ومکاتب کو پہلے سے زیادہ مستحکم کریں اور اسکے قیام کو علما و دانشوران سے مل کر خوب وسیع کریں! اورانکے پکے محافظ وپاسباں بنیں! انکا دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے تعاون کرتے رہیں۔ آپکی اولاد کو یہی ادارے اور علماء دین ہی زمین سے آسمان، تنزلی سے ترقی، بدحالی سے خوشحالی، برائی سے اچھائی اور بد دینی سے دینداری کی طرف سفر کراتے ہیں اور وہی ان کے مضبوط و مستحکم وسائل و ذرائع ہیں۔ آپکے اور ہمارے بچوں کو صحیح تعلیم وتربیت وہی علما ومدارس فراہم کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ بچپن کا زمانہ تحصیل علم و معرفت کا بہترین زمانہ ہوتا ہے، بچے کو بچپن سے ہی وقت کو قیمتی بنانے، واہیات کے کاموں، پبجی جیسے گیموں، موبائل کی بے شمار خرابیوں اور تضییع اوقات کے مشاغل و امور کے گھیرنے سے قبل فراغت و صحت سے کام لینے کی ترغیب دینا جتنی گارجیں، والدین اور گھر کے تمام ذمہ دار حضرات کی بڑی ذمہ داری بنتی ہے، اتنی ہی ذمہ داری کسی اسکول ومدرسہ کے معلم، مدرس، استاذ، مہتمم، ناظم، پرنسپل، ڈائریکٹر، یونیورسٹی کے پروفیسر، چانسلر، وائس چانسلر کی بنتی ہے!اور اسی طرح تمام ارباب حکومت اور وزیر تعلیم کی بھی ذمہ داری سب سے اہم اور کسی سے کم نہیں ہے؟! مگر آج اسمیں بھی سیاست شروع ہوگئی ہے اور حکومت نے اس کا نظام درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے، تعلیم وتربیت کے نظام کو بھی بھگوا رنگ میں رنگنے کی گھناؤنی سازشیں ہورہی ہیں، اسلام کو زیر اور ہندو مذہب کو فروغ دینے کے حیلے ہورہے ہیں، کورونا کے عالم میں یہی سب کچھ ہمارے ملک میں دیکھنے کو ملا ہے، تعلیم کو بھی اپنی گندی سیاست کا اڈہ بنا دیا ہے، جو آپ کی آنکھوں سے بھی اوجھل نہیں ہے، وہ لوگ چاھتے ہیں کہ عوام جاہل بنی رہے، اور ہم حکومت کے مزے لیتے رہیں اور پورے ملک کو ہندو راشٹریہ بنا کر رکھ دیں، ہم ایسا قطعاً ہونے نہیں دیں گے! آج کورونا کے بہانے سارے ادارے ظاہرا ڈھپ ہو کر رہ گئے ہیں، شراب کی دوکانیں توکھلی ہیں اور لوگ خوب شراب پی رہے ہیں۔ مگر نعوذ باللہ تعلیمی ادارے، تمام اسکول و کالجز آف لائن بند ہیں۔ آن لائن نظام تعلیم جو چل رہا ہے۔وہ آپ کو پتہ ہوگا کہ کیا ہورہا ہے، بلکہ بچے اور خراب ہوتے جارہے ہیں، آن لائن تعلیم کے بہانے موبائل کی کس دنیا میں پہونچ جارہے ہیں؟جو نفع بخش ہونے کے بجائے نقصاندہ ثابت ہورہا ہے، اور حکومت کا یہی مقصد ہے جو حاصل ہورہا ہے،ہمارا حکومت سے سوال ہے کہ کہ کورونا صرف اسکول اور کالجز میں ہی تعلیم حاصل کرنے ہی آیا ہے۔ جسکی وجہ سے تمام مدارس و مکاتب بھی بند کردیے گئے۔ ہائے رے افسوس! ہائے رے ہماری عقل! ألیس منکم رجل رشید؟

طالب علم کی بھی اپنی بڑی ذمہ داری: اسی طرح طالب علم کے اوپر بھی یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنی مصروفیات و مشغولیات کا محور صرف اور صرف حصول علم و معرفت کو بنائے، حضرت امام نووی رح تنبیہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ فراغت و فرصت، زمانہ شباب، بدن کی قوت اور دل جمعی کو بیکار کردینے والے امراض وعوارض کے لاحق ہونے سے قبل تحصیل علم کو غنیمت جانے”۔اپنے بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کی اہمیت و ضرورت اور اس کی ناقدری کی ممانعت والی حدیث کا جامع بنائیں، جس کا مفہوم ہے کہ ”صحت اور فراغت نعمت الہی میں سے ہیں، بہت سے لوگ وقت اور صحت کے متعلق خسارے میں واقع ہیں ” (سنن دارمی: 297) اسی طرح حضرت امام برہان الدین زرنوجی رح طلبا کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ ”طالب علم کو چاہیے کہ وہ وقت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے، خوب فضیلت حاصل کریں۔ (تعلیم المتعلم 89)۔

یقینا انسانوں کی عمر بہت محدود ہے اور علم بہت زیادہ ہے، عصری بھی اور دینی بھی، حصول علم کے لیے بہت ضروری ہے کہ وقت کے ایک ایک لمحے اور سکنڈ سے کام لیا جائے، اسے ہرگز ضائع نہ کیا جائے، حکومت کی ناپاک پالیسیوں کو ناکام بنا دیا جائے، خلوت اور راتوں کو بھی بطور خاص غنیمت سمجھا جائے اور اس سے خوب فائدہ اٹھایا جائے۔ تبھی مسلم نوجوانوں کا اس ملک میں گزارہ ممکن ہوسکے گا۔

کیونکہ نوجوان کے افکار و خیالات کسی بھی قوم کی ترقی و انحطاط کا اصل منبع ہوتے ہیں، جس قوم کے نوجوان اپنی قوم کی ترقی کے لیے فکر مند و کوشاں رہتے ہیں، وہ قوم ترقی کی منزلیں طے کرتی ہے اور کرتی ہی چلی جاتی ہے اور جس قوم کے نوجوان غفلت و لا پرواہی اور اپنی قوم کے بارے میں لاابالی پن کا شکار ہوتے ہیں، وہ قوم دھیرے دھیرے نیست و نابود ہوکر رہ جاتی ہے، اس کے تار نفس کو ٹوٹنے کے لیے کسی بڑی آندھی کی ضرورت نہیں ہوتی،بلکہ ہلکی ہلکی ہوا بھی اس کو زمین بوس کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے، آج امت مسلمہ جن حالات سے دوچار ہے اوربالخصوص ملک ہندوستان میں انکے خلاف سازشوں کا جو بازار گرم ہے، وہ ہماری اورہمارے نوجوانوں کی غفلتوں اور ذمہ داروں میں کوتاہی و لاپرواہی کا نتیجہ ہے، ہم نے غفلت ولاپرواہی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، اپنے اندر کے جذبات واحساسات کوپوشدہ رکھ کرہم آپس میں الجھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے شانہ بشانہ دینی امور کے ساتھ ٹھٹھا اور مذاق کررہی ہیں، ہمیں دلی سکون کیسے ملے گا، ہمارے نوجوان اور ہماری اولادتو نشے کا عادی بنتی جارہی ہیں، ان کے ذہن میں ہر وقت نئے نئے غلط خیالات جنم لے رہے ہیں، جبکہ ملک کی موجودہ سرکار ہماری ترقی کی مخالف ہے، ملک کی معیشت کا بدحال ہے،پورا ملک پریشان ہے، مسلم نوجوانوں کو آگے بڑھنا چاہیے اور اپنی اولاد کوبھی ملک کی دیکھ بھال کے لیے تیار کرنا چاہیے ورنہ مزید بجلیاں گرسکتی ہیں،اور ہمارے پورے نشیمن کو خاکستر کرسکتی ہیں؟ چند لمحوں کے لیے سوچئے اورانداز تفکربدلیے اور مستقبل کے خطرات اور چیلنجز کاسد باب یا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوجایئے اور حقیقی صورتحال کاادراک کیجئے؟ آخر کب تک ہم خواب غفلت میں مدہوش رہیں گے! اللہ کے واسطے اب بیدار ہوجایئے!!

خلاصہ کلام: انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج کل چہار جانب سے بڑی کوتاہیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، والدین کو اولاد سے صرف دنیا اور دولت و کمائی کی فکر باقی رہ گئی ہے، دین اسلام سے دونوں کو بے رغبتی ہوگئی ہے، بیشتر استاد و معلم کو صرف اپنی ماہانہ تنخواہ کی طلب رہ گئی ہے، حکومت بھی اس سلسلے میں بالکل مخلص و خیرخواہ نہیں رہی!! طالب علم کا مقصد حیات بھی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے، بیشتر طالب علموں پر بد محنتی، کاہلی، سستی اور محنت و لگن پر تن آسانی کو ترجیح دینے کا غلبہ ہے، انہوں نے فارغ البالی اور دوسری فضول چیزوں کو مقصد حیات سمجھ رکھا ہے، فضولیات سے لطف اندوزی اور دلجمعی ان کا مقصد حیات بن گئی ہے، پڑھنے کے لئے ان کے پاس اب کوئی وقت نہیں رہا! بلکہ کھیل تماشہ کیلئے انکے پاس وقت ہے، مگر تعلیم اور حصول درجات و منازل کیلئے انکے پاس وقت کی تنگی ہوگئی ہے، جب آج کے طلبا و طالبات کا یہ حال ہے تو امت اور اس کے افراد کا کل کیا حال ہوگا؟ اسلام اور اسکی تبلیغ تو بے معنی بن کر رہ گئی ہے، تقریباً ہر گھر اور ہر فرد کا یہی حال ہے اور سب کا یہی روناہے کہ ہمارے بچے نافرمان بن گئے! پڑھائی کیلئے محنت و شوق اور دلچسپی ختم ہوگئی ہے، آخر ان مشکلات کے عالم میں اولاد نیک کیسے بنیں؟ اسلام کا سچا داعی کون بنے! حکومت کی سازشوں کا جواب آخر کون دے! بچوں کے پاس ضیاع وقت کے علاوہ اور کچھ نہیں بچا ہے کہ وہ کتابیں کھول کر بھی دیکھ سکیں پڑھنا لکھنا تو دور کی بات؟!۔

ظاہرا ان حالات میں اچھے معاشرے اور صالح مجتمع کا خواب کیسے پورا ہوگا!؟ نئی نسل کا اسلام پر مضبوطی سے قائم ودائم رہنے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوگا؟ جس کا احساس ہم نے ولادت سے قبل کیا تھا!؟ ہماری نیت تو درست تھی مگر ہم نے اپنی بھی لاپرواہی اور زیادتی سے اسکی سوچ بدل ڈالی؟! اولاد بھی ایک طرح کی ہماری کھیتی ہے، جیسا ہم بیج بوئیں گے ویسا ہی کڑوا یا میٹھا پھل ہمارے خاندان، معاشرہ اور ملک کو میسر ہوگا! اسوقت جو حاصل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے! والدین توخوب آنسو بہا رہے ہیں کہ ہمارے بچے کو مودی حکومت نے خراب کردیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت بھی انکی خرابی کی برابر کی ذمہ دار ہے، مگر ہم بھی فتنوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اسلیے ضروری ہے کہ سب پہلے اپنی نیت کو درست کر لیں، استاد کو صحیح تعلیم و تربیت فراہم کرنی چاھئے، طلبا وطالبات کو تعلیم کے لیے مکمل یکسو جانا چاھئے اوروالدین اور ارباب حکومت کو بھی اپنے احساس ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہونا چاھئے بغیر کسی تاخیر اور رکاوٹ کے اپنی اپنی ذمہ داری انجام دینی چاھئے، تاکہ سب کا اپنا اپنا خواب پورا ہوسکے، کسی کا خواب ادھورا نہ رہے، سب کو مخلص اور خیرخواہ بن کر رہنا چاھئے۔ کورونا کے عالم میں بطور خاص ہمیں اپنی نیتوں کی اصلاح کرنی چاھئے جو مرض اور وبا کے خاتمے کیلئے بھی نہایت ہی ضروری ہے۔ اللہ سب کے ساتھ خیر و خوبی کا معاملہ فرمائے۔۔۔ آمین

Comments are closed.