آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری : اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

وساوس کا علاج
سوال:-مجھے ہمیشہ عجیب قسم کے خیالات آتے رہتے ہیں، کبھی لگتاہے کہ میںایک عظیم گلوکار بن گیا ہوں ، کبھی لگتا ہے کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، میں ایسے خیالات سے چھٹکارا پانا چاہتاہوں ، اس کے لئے کوئی دعاء بتائیے؟ (محمد جنید، مہدی پٹنم)
جواب:- حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے فلان فلان کو کس نے پیدا کیا ؟ یہاں تک کہ یہ وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا ؟جب نوبت یہاں تک آجائے تو چاہئے کہ اللہ تعالی کی پناہ چاہے اور ایسے خیال سے باز رہے’’فلیتعوذ باللّٰہ ولینتہ‘‘ (’’ قال رسول اللّٰہ ا :یأتی الشیطان أحدکم فیقول : من خلق کذاوکذا ؟ حتی یقول لہ : من خلق ربک ؟ فاذا بلغ ذلک فلیستعذ باللّٰہ و لینتہ‘‘ عن أبي ھریرۃ ص ، (صحیح البخاری، حدیث نمبر : ۳۲۷۶ ، باب صفۃ ابلیس و جنودہ ، کتاب بدء الخلق ، نیز دیکھئے : صحیح مسلم ، حدیث نمبر : ۱۳۴ ، کتاب الایمان )) معلوم ہوا کہ نا مناسب خیالات کا علاج یہ ہے کہ بہ حد امکان ان خیالات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ، اور تعوذ یعنی ’’ أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ‘‘ پڑھاجائے، آپ بھی اس پر عمل کریںاور ایسے خیالات اور وساوس سے حفاظت کی دعاء کا اہتمام کرتے رہیں، نیز طبیب سے بھی رجوع کریں ؛ کیوںکہ بعض اوقات نفسیاتی اسباب کے تحت بھی ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔

بیماری —– گناہوں کا کفارہ
سوال:- کیا بیماری گناہوں کا کفارہ ہے اور کیا کبیرہ گناہ بھی بیماری سے معاف ہوتے ہیں؟ (کلیم اللہ، سنتوش نگر)
جواب:- رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ مؤمن کو جو بیماری لگتی ہے، وہ اس کے گزشتہ گناہوں کے لئے کفارہ بن جاتی ہے، اور مستقبل کے لئے عبرت و موعظت کا باعث ہے :کانت کفارۃ لما مضی من ذنوبہ وموعظۃ لہ فیما یستقبل( ابو داؤد، حدیث نمبر : ۳۰۸۹) یہ صرف صغائر کے لئے کفارہ بنتے ہیں ، یا کبائر کے لئے بھی ؟ حدیث میں اس کی صراحت نہیں ؛ لیکن قرآن میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ جو شخص کبائر سے بچے گا، اللہ اس کی خطاؤں کو معاف فرمادیں گے :إن تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاّتکم ( النساء : ۳۱)اس سے خیال ہوتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے صرف صغائر معاف ہوں گے، کبائر کے لئے توبہ کا اہتمام کرنا چاہئے کہ یہی احتیاط کا تقاضا ہے، ویسے اللہ تعالی کریم و غفار ہیں ،اس کی شان سے کیا بعید کہ کبائر کو بھی معاف فرمادے۔

پرشاد کھانے کا حکم
سوال:-بعض غیر مسلم دوست پوجا کا پرشاد ہم لوگوں کو لاکر دیتے ہیں، تاکہ ہم بھی ان کی خوشی میں شریک ہوسکیں ، کیا ایسے پرشاد کا کھانا جائز ہے؟ (عبد المقتدر، ہمایوں نگر)
جواب:- غیر مسلموں کے ایسے تحفے قبول کرنے جائز ہیں،جن کا تعلق مذہبی تہواروں سے نہ ہو، جیسے شادی بیاہ،بچے کی پیدائش ، یا کسی اور خوشی کے موقعہ پر مٹھائی یا تحفہ دیں ، تو ا سے کھایا جا سکتا ہے،(بخاری، حدیث نمبر: ۲۶۱۷) ؛لیکن جو مٹھائی بتوں پر چڑھائی گئی ہو، اور ایسے ہی چڑھاوے کی مٹھائی کو یہ حضرات پرشاد کہتے ہیں، تو ان کا کھانا جائز نہیں ، گو یہ ذبیحہ نہیں؛ لیکن قرآن مجیدنے بتوںکے نام پر اور آستانوں پر ذبح کئے گئے جانوروں کو جس سبب سے حرام قرار دیاہے،وہ یہی ہے کہ ان کے ذریعے شرک کی تعظیم کی گئی ہے، اور یہ بات پرشاد اور چڑھاوے میں بھی پائی جاتی ہے۔

دیوارِ قبلہ کے سامنے کی زمین کا حکم
سوال:- مسجد کے دیوارِ قبلہ کے سامنے جو زمین ہو کیا اس جگہ رہائشی مکان تعمیر کر سکتے ہیں ؟ اگر کرسکتے ہیںتو مسجد کی دیوار اور مکان کی دیوار کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہئے ؟ نیز کیا یہ زمین کسی غیر مسلم کو فروخت کر سکتے ہیں ؟ (ابو طلحہ، مالیگاؤں)
جواب:- دیوارِ قبلہ کے سامنے جو زمین ہو ، اس میں رہائشی مکان تعمیر کیا جاسکتا ہے؛ البتہ مسجد کی دیوار سے متصل سمتِ قبلہ میں بیت الخلاء نہ ہوناچاہئے ، کہ یہ خلافِ ادب ہے ، مسجد اور مکان کے درمیان کوئی مخصوص فاصلہ شریعت میں منقول نہیں ، مکان کی دیوار صاحبِ مکان کی مملوکہ اراضی میں مسجد کی دیوار سے متصل بھی اٹھائی جا سکتی ہے ، موجودہ حالت میںمسجد سے متصل اراضی کا غیر مسلم بھائیوں کے ہاتھ فروخت کرنا مناسب نہیں ، اس میں فتنہ کا اندیشہ اور باہمی نزاع و اختلاف کا خطرہ ہے۔

سود سے مسجد کی تعمیر
سوال:- ایک صاحب نے ایک کثیر رقم جو ڈپازٹ بینک میں کی تھی ، مقررہ وقت کے ختم پر مع سود حاصل کرکے مسجد کی تعمیر کے لئے دیدی ،چنانچہ اس مسجد کو دومنزلہ بنادیا گیا اور دو کمرے تعمیر کئے گئے تاکہ ان کمروں کے کرایہ جات سے مسجد کے اخراجات کی پابجائی ہو،کیایہ عمل درست ہے؟ اور کیا اس مسجد میںنمازاداکی جاسکتی ہے؟(محمد محتشم، بہادرپورہ)
جواب:- فکس ڈپازٹ میں جو زائد رقم حاصل ہوتی ہے وہ سود ہے اور اس کا استعمال حرام ہے ؛ اس لئے مسجد جیسی مبارک جگہ کے لئے ایسی رقم کا استعمال سخت گناہ ہے ، مسجد میں تو نہایت پاکیزہ اور حلال مال لگانا چاہئے؛ کیونکہ اللہ تعالی مال خبیث کو قبول نہیں کرتے ، فقہاء نے بھی مسجد میں مال حرام کے استعمال کرنے کو منع کیا ہے (ردالمحتار: ۲؍۴۳۱) اب بہتر صورت یہ ہے کہ جتنی رقم سود کی مسجد میں استعمال ہوئی ہے عام مسلمانوں سے تعاون حاصل کرکے اتنی رقم آہستہ آہستہ غرباء پر خرچ کردی جائے؛ تاکہ مسجد میں لگی ہوئی پوری رقم پاک اورحلال قرار پائے ۔
لیکن چونکہ مسجد پہلے سے موجود تھی ، اور مال حرام کی مال حلال کے ساتھ آمیزش ہوئی ہے؛ اس لئے یہ مسجد شرعی ہی ہے ، اوراس کے احکام وہی ہیںجو مسجد کے ہیں، اس میں نماز ادا کرنا درست ہے؛ البتہ حکمت کے ساتھ ذمہ داروں کو سمجھانا چاہئے کہ وہ مال حرام سے مسجد کو ملوث کرنے کی اس غلطی کی تلافی کریں اور آئندہ اس سے اجتناب برتیں ۔

مسجدوں میں صباحی و مسائی تعلیم کا نظم
سوال:- بعض علماء حضرات مسجدوں میں چھوٹے بچوں کو تعلیم دینے سے منع کرتے ہیں ؛حالاںکہ آج کل مسجدوں کی صباحی تعلیم اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے لئے بڑی اہمیت اختیار کرگئی ہے اوراگر اس کو منع کردیا جائے ، تو اس سے بڑے نقصان کا اندیشہ ہے ۔ (عبدالحنان، گنٹور)

جواب:- بنیادی طور پر مسجد میں تعلیم و تعلم میں کوئی حرج نہیں ہے ؛ بلکہ یہ مسجد کے مقاصد میں سے ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ؓ نیز بعد کے عہد میںبھی مسجدیں دینی تعلیم کا مرکز رہی ہیں ، بلکہ جامع ازہر ، جامع زیتون اور جامع قیروان جیسی قدیم دینی جامعات دراصل مسجدوں ہی میں قائم تھیں ؛ البتہ چھوٹے بچوں کو مسجد میں تعلیم دینے کو دو صورتوـ ں میں پسند نہیں کیا گیا ہے ، ایک یہ کہ وہ اتنے بے شعور ہوں کہ مسجد کے احترام کوپامال کردیں اورپیشاب پاخانہ وغیرہ کردیں ، دوسرے اجرت لے کر تعلیم دی جائے ؛ کیوںکہ مسجد کسب معاش کی جگہ نہیں ہے ، عبادت اور دعوت و اصلاح کی جگہ ہے ، اگر بعض علماء نے منع کیا ہو تو انہوں نے اسی نقطۂ نظر سے منع کیا ہوگا ؛ اس لئے اول تو مسلمانوں کو مساجد کی تعمیر کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے کہ اس سے متصل مکتب کے لئے کوئی ہال بھی تعمیر کردیا جائے ؛ تاکہ مسجد کے اندر مکتب چلانے کی مجبوری نہ رہے ؛ لیکن اگر کسی وجہ سے ایسی سہولت حاصل نہ ہوسکے ، تو موجودہ دور میں مسجدوں میں بچوں کو دینی تعلیم دینے میں حرج نہیں ؛ البتہ ایسا کنٹرول رکھا جائے کہ بچے سلیقہ کے ساتھ بیٹھا کریں اور مسجد کی بے احترامی نہ ہو ، اسی طرح فقہاء نے جہاں اجرت لے کر مسجد میں تعلیم کو منع کیا ہے ، وہیں یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں ضرورت ہو، وہاں کراہت نہیں : والوجہ ما قالہ ابن الہمام: أنہ یکرہ التعلیم إن لم یکن ضرورۃ (کبیری:۵۶۸) اور اس سے بڑھ کر ضرورت کیا ہوگی کہ ہمارے جو بچے آر ایس ایس اور عیسائی مشنریز اسکولوں یا دوسرے اسکولوں میں جاتے ہیں یا دیہات کے بچے جو دینی تعلیم سے محروم ہیں ، اگر مسجدوں میں صباحی اور مسائی تعلیم کے ذریعہ ان کو دین کی بنیادی تعلیمات سے آشنا نہیں کیا جائے تو ان کے ایمان کا تحفظ بھی خطرہ میں پڑ جائے گا ؛ اس لئے فی زمانہ حسب ضرورت مسجدوں میں صباحی یا مسائی تعلیم کے نظم میں کوئی حرج نہیں ؛ بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ۔

قضاء نمازیں یاد نہ ہوں
سوال:- میری کتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں ،وہ یاد نہیں،اب میں ان نمازوںکی قضاء کرنا چاہتی ہوں تو کس طرح کر سکتی ہوں؟ (تبسم جہاں، اورنگ آباد)
جواب:- اس کے لئے آپ کو خود اپنا ذہن ٹٹولنا ہوگا،اور اندازہ لگانا پڑے گا،نماز بالغ ہونے کے بعد فرض ہوئی ہے،عورتوں کے لئے یہ خصوصی رعایت ہے کہ حیض و نفاس کے ایام کی نمازیں ان سے معاف ہیں، اس لئے آپ پہلے اندازہ کریں کہ کتنوں دنوں سے آپ پر نماز فرض ہے اور مہینوں میں کتنے دنوں آپ کو نماز کی ضرورت نہیں ہوتی ؟ پھر غور کیجئے کہ ان پانچوں نمازوں میں کون سی نماز آپ سے زیادہ فوت ہوتی رہتی ہے ، اور کس نماز میں آپ زیادہ پابندی کا اہتمام کرتی رہتی ہیں ؟ ان تمام امور کو ملحوظ رکھ کر اندازہ لگائیے اور جتنی نمازیں زیادہ آپ کے خیال میں قضاء ہوئی ہوں ان کو ادا کرنا شروع کردیجئے ،اگر یہ اہتمام کرلیں کہ جو نماز ادا کریں اسی نماز کی باقی ماندہ نمازوں میں سے ایک نماز بھی ادا کرتی جائیں، تو آسانی ہوگی ،نیت کا طریقہ یہ ہوگا کہ مثلا یوں کہیں کہ میں فوت شدہ پہلی فجر ادا کرتی ہوں یا آخری فجر ادا کرتی ہوں ، آپ کے خیال کے مطابق جب قضاء ادا ہوجائے تو آئندہ کوشش کریں کہ کوئی نماز قضاء ہونے نہ پائے ،اس کے باوجود اگر کچھ نمازیں باقی رہ گئی تو اللہ تعالی کی شان کریمی سے امید ہے کہ اللہ اسے معاف کردیں گے ۔

امام کا کتنی دیر انتظار کیا جائے ؟
سوال:- جہری نمازوں میں نائب امام کو امام صاحب کا کتنی دیر تک انتظار کرنا چاہئے ؟ ( سید حسنین، کولہاپور)
جواب:- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے کہ اقامت میں امام کی رعایت ہونی چاہئے ، یعنی امام کے آنے پر اقامت کہی جائے ،(ابو داؤد، حدیث نمبر: ۵۳۷،باب فی المؤذن ینتظر الامام) لیکن اگر امام معمول کے وقت پر نہ آئے تو نماز شروع کی جاسکتی ہے ، چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے میں تاخیر ہوئی تو حضرت بلالؓنے حضرت ابو بکر ؓ کو آگے بڑھایا(بخاری، حدیث نمبر: ۶۸۴، باب من دخل لیؤم الناس فجاء الامام الاول) اور ایک بار حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓکو ،(مسلم حدیث نمبر: ۳۷۴، باب تقدیم الجماعۃ منیصلی بھم اذا تأخر الامام ولم یخافوا مفسدۃ بالتقدیم) موجودہ دور میں مسجدوں میں اوقات نماز متعین ہوتے ہیں، اگر مقررہ وقت پر امام صاحب نہ پہنچیں تو مناسب ہے کہ ایک دو تین منٹ انتظار کیا جائے، اگر زیادہ تاخیر ہو تو نائب امام نماز پڑھا دے ، تاکہ لوگوں کے لئے باعث زحمت نہ ہو ۔

نکاح پڑھانے میں کس کو ترجیح ہے ؟
سوال:- میں ایک نکاح کی مجلس میں شریک ہوا ، وہاں لڑکے والے بھی نکاح پڑھانے کے لئے ایک عالم کو لے کر آئے اور لڑکی والے کی طرف سے بھی ایک عالم موجود تھے ، جس کے نتیجہ میں دونوں فریق کے درمیان کافی اختلاف ہوگیا ، آخر لوگوں نے دونوں کو سمجھا بجھا کر ایک تیسرے دین دار آدمی کے ذریعہ نکاح پڑھوادیا ، اس سلسلہ میں وضاحت مطلوب ہے کہ نکاح پڑھانے کا حق کس فریق کو حاصل ہے ؟ (محمد بلال، ہمایوں نگر )
جواب:- جو شخص نکاح پڑھاتا ہے وہی عام طور پر محفل نکاح میں لڑکی کی طرف سے لڑکے کے سامنے ایجاب کرتا ہے اور لڑکے سے نکاح قبول کراتا ہے ، اس طرح نکاح پڑھانے والے کی حیثیت لڑکی کے وکیل کی ہے ؛ لہٰذا لڑکی کے اولیاء جس سے نکاح پڑھوانا چاہیں، وہ نکاح پڑھانے کا زیادہ حقدار ہے ، البتہ نکاح پڑھانا کوئی ایسی فضیلت کی بات نہیں ہے کہ جس کے لئے آپس میں لڑائی جھگڑا کیا جائے ، ایسی باتوں کے لئے جھگڑنا انتہائی افسوس ناک ہے ۔ وباللہ التوفیق
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.