کسانوں کے خلاف کالے قانون کو لانے کا مقصد

امام علی مقصود شیخ فلاحی
متعلم : جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
کسانوں کی تحریک مسلسل جاری و ساری ہے، لوگ گاہے بگاہے اس تحریک میں حصہ لئے جارہے ہیں، جوق در جوق کسانوں کی جماعت شرکت کئے جارہی ہے ، جگہ بجگہ چکے جام کئے جارہے ہیں، یوپی سے لیکر ہریانہ تک، راجستھان سے لیکر پنجاب تک سارے کہ سارے کسان ملے جارہے ہیں۔
کیوں صرف اور صرف اس لئے کہ وہ کالا قانون جو کسانوں کے خلاف ہے، ملک کے خلاف ھے، آئین کے خلاف ہے، عوام کے خلاف ہے، جس کے نفوذ میں کسانوں کا‌ مرنا یقینی ہے ، بچوں کا مرنا یقینی ہے، بوڑھوں کا مرنا یقینی ہے، جس کے نفوذ میں ملک کی تباہی یقینی ہے، اس قانون کو واپس لیا جائے، کیونکہ اگر اس قانون کو لاگو کیا گیا تو ملک کا کسان پریشان ہو جائے گا، اور اگر اسکی پریشانی بڑھ گئی تو وہ یہ دنیا چھوڑ جاے گا، اور اگر وہ یہ دنیا چھوڑ گیا تو ملکی معیشت برباد ہو جائے گی جسکا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک کا وہ طبقہ جسکا شمار غربت میں ہوتا ہے، جسکا تعلق غریب گھرانے سے ہے وہ بھوکا مرے گا،اسکا بچہ بھوکا مرے گا، ملک کا بوڑھا بھوکا مرے گا، ملک کا جوان بھوکا مرے گا۔
کیوں اس لئے کہ وہ قانون ہی ایسا ہے جو جان لیوا، جو بڑا ہی خطرناک ہے، وہ ایک ایسا قانون ہے جو کسانوں کی محنت پر پانی پھیرتا ہے، وہ ایک ایسا قانون ہے جو کسانوں کی جھولی کو کھالی کرانا چاہتا ہے، وہ ایک ایسا قانون ہے جو فصلوں کی تباہی کا سبب بنتا ہے، وہ ایک ایسا قانون ہے جسکا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے۔
قارئین ! اس قانون کو نافذ کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اس کے ذریعے کسانوں کے ایم ایس پی کو ختم کیا جائے۔
ایم ایس پی کیا ہے؟
یہ ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعے حکومت کسانوں کے فصلوں کی کم سے کم قیمت مقرر کرتی ہے ، جسے ایم ایس پی کہا جاتا ہے۔
حکومت کی طرف سے یہ ایک طرح کی ضمانت ہوتی ہے کہ ہر صورت میں کسانوں کو انکے فصلوں کی مقررہ قیمتیں مل کر رہیں گی۔
اگر کسانوں کو منڈیوں میں کوئی دشواری ہوتی ہے یا انکی خریداری نہیں ہوپاتی ہے تو حکومت ایم ایس پی کے تحت کسانوں سے انکی فصلوں کو خریدتی ہے۔ جس کی وجہ سے منڈی میں فصلوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا اثر کسانوں پر نہیں پڑتا ہے اور کسانوں کا گھاٹا بھی نہیں ہوتا ہے۔
لیکن حکومت اب ایک ایسا قانون لارہی ہے جس کی وجہ سے اس ایم ایس پی کو ختم کرانا چاہتی ہے ، انکی محنت پر پانی پھیرنا چاہتی ہے ،اور کسانوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیسہ وصول کرنا چاہتی ہے، کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی اور دہلی ریاستی کانگریس کے صدر انل چودھری کے قول کے مطابق حکومت کسانوں کی محنت پر پانی پھیرتے ہوئے انکی کمائی سے ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ پیسہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حکومت کسانوں کے ذریعے پیسہ حاصل کرنا چاہتی ہے وہ اس طرح کہ جب سرکاری میڈیا بند ہو جائیں گی تو کسان اپنے بل بوتے اپنی فصلوں کو فروخت کرنا شروع کر دیں گے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو انکے مشتری ہونگے وہ رئیسوں کے باپ ہونگے، حکومت کے ساتھ ہونگے، اور وہ کم از کم قیمت لگانے کی کوشش کریں گے اور کسانوں کو مجبوراً انہیں کی بات ماننی پڑے گی اور فصلوں کو اسی قیمت میں فروخت کریں گے جتنا مشتری کہیں گے ورنہ انکی فصلیں خراب ہو جائیں گی، پھر ان رئیسوں سے حکومت اپنے طریقے سے وصولے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت ان پیسوں کو کرے گی ؟ کیا ان پیسوں کو دوبارہ عوام پر خرچ کرے گی؟ یا کسی ہسپتال یا کالج کی تعمیر کرے گی ؟
تو بتادوں کہ نہ اس پیسے کو عوام پر صرف کرے گی اور نہ ہی ہسپتال یا کالج کی تعمیر کرے گی۔
بلکہ ان پیسوں کو حکومتی قرضوں کی ادائیگی میں صرف کرے گی، کیوں کہ اس وقت حکومت قرضوں کی سمندر میں ڈوب چکی ہے، جیسا کہ بی بی سی رپورٹ کے مطابق انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ ‘کووڈ 19 کے بحران سے نمٹنے کے لیے انڈین حکومت نے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے قرض کے دو معاہدے کیے۔ پہلا قرض 8 مئی 2020 کو 50 کروڑ ڈالر کا لیا گیا۔ یہ قرض انڈیا میں کووڈ 19 سے نمٹنے کے ایمرجینسی حل اور صحت کے منصوبے کے لیے لیا گیا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد وبا کے سبب پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنا اور کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر صحت کے شعبے کو مضبوط کرنا تھا۔
اس کے بعد انڈیا نے قرض کا دوسرا معاہدہ 19 جون کو کیا۔
انوراگ نے پارلیمان میں بتایاکہ19 جون 2020 کو دوسرے قرض کا جو معاہدہ ہوا وہ 75 کروڑ ڈالر کا تھا، اس کا بھی مقصد کووڈ 19 سے وابستہ سماجی تحفظ کے پروگرام میں تیزی لانا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان پیسوں کو سماجی حفاظتی اور قومی سطح پر صحت کے شعبوں کو مضبوط بنایا گیا ہے ؟
نہیں ہر گز نہیں نہ اس حکومت نے کما حقہ سماج کی حفاظت کی ہے اور نہ ہی صحت کے شعبوں کو مضبوط بنایا ہے،کیونکہ اگر سماجی حفاظت کی ہوتی تو آج ملک میں تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد 95،34،964 نہ ہوتی اور مرنے والوں کی تعداد 1,38,648 نہ ہوتی ۔ اگر صحت کے شعبوں کو مضبوط بنایا گیا ہوتا تو آج جگہ بجگہ خالص کووڈ شفاخانے موجود ہوتے، ہر تعلقہ کا اپنا ایک خالص کووڈ شفاخانہ ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔
پھر سوال در سوال یہ ہے کہ آخر ان پیسوں کو کہاں خرچ کیا گیا ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آسمان نے ان پیسوں کو نگل لیا ہو یا زمین نے ان پیسوں کو دھنسادیا ہو یا سمندر نے ان پیسوں کو بہادیا ہو !
تو دریں سلسلہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت نے ان تمام قرضوں کو اپنی عیش پرستی میں صرف کیا ہے ، کبھی ان پیسوں کے ذریعے مدھیہ پردیش کے ودھایک کو خریدا ہے تو کبھی ان پیسوں کے ذریعے گجرات کے ودھایک کو خریدا ہے، کبھی ان پیسوں کو رام مندر پر صرف کیا ہے تو کبھی ان پیسوں کو گودی میڈیا پر لگاکر اپنی ناکامی کو چھپایا ہے۔
پھر جب ان پیسوں کو یوں ہی تماشا بنادیا تو اب اس حکومت کو قرضہ چکانے کا خیال آیا تو حکومت نے پہلے امیروں کو دیکھا تو وہ پڑے بدحال نظر آئے، پھر حکومت نے ملک کی صنعت کاریوں پر نظر ڈالی تو وہ بھی گھاٹے میں نظر آئیں، پھر نظر دوڑائی ملکی معیشت پر اور کسانوں کو دیکھا پھر دیکھتے ہی کسانوں کے خلاف ایک بل پاس کردیا، اور ایک سیاسی طریقے سے انکے پیسوں سے اپنے قرضوں کو ادا‌ کرنا چاہا لیکن کسانوں نے چکا جام‌ کرکے اپنی شجاعت کا لوہا منوایا ہے آج ہر فرد اسکے ساتھ ہے امریکہ ہو آسٹریلیا کینیڈا ہو یا ہند و پاک ہر شخص اس کے ساتھ ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ کسان ہی ملک کی ترقی کے ضامن ہوا کرتے ہیں ۔

Comments are closed.