زخم پہ زخم اور حوادث کی چوٹیں
کشمیرکا ایک ناکام عاشق ! قسط 16

ش۔م ۔احمد ،کشمیر
7006883587
’’ میں آپ کے باپ کے مانند ہوں اور میں نے سیاست میں اپنے بال سفید کئے ہیں ۔ میرا تجربہ ہے کہ ہندو پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا، یہ کبھی آپ کے دوست نہیں بن سکتے۔ میں نے زندگی بھر اُن کو اپنانے کی کوشش کی ، لیکن مجھے اُن کا اعتماد حاصل کر نے میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ وقت آئے گا جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے۔‘‘
’’آتش چنار‘‘از شیخ محمد عبداللہ
یہ الفاظ بانی ٔ پاکستان محمد علی جناح کے ہیں جن کا حوالہ شیخ محمد عبداللہ نے اپنی محولہ بالا سوانح حیات میں دیا ہے ۔ اپنی سوانح حیات میں شیخ صاحب مسٹر جناح کوصابر اور مردِ بزرگ جیسے القاب سے یاد تو کرتے ہیں مگر کہیں بھی اشارہ کنایہ میں نہیں کہتے کہ وہ جناح صاحب کی تائید کر تے ہیں۔ جچی تلی زبان میں بات کر نے کے عادی مسٹر جناح کے منہ سے یہ الفاظ زیب ِ داستان بڑھانے کے لئے نہیں نکل سکتے تھے بلکہ ان کی پس پُشت موصوف کے ذاتی تجربات، مشاہدات اور محسوسات کا پلندہ کارفرما تھا ۔ جناح صاحب کی اس پدرانہ گفتگو کا شیخ نے کتنا اثر قبول کیا ،وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تاریخ میں رقم ہے ۔
ماقبل۴۷ء کشمیر کی سیاسی جدوجہد کا یہ چیستان کسی جاسوسی ناول کی طرح تجسس بھرا ہے کہ شیخ محمد عبداللہ کو پنڈت جواہر لال نہرو کے پلڑے میں اپنی دوستی ، اپنائیت اور اعتماد کا سارا وزن ڈالنے میں کوئی قباحت محسوس ہوا نہ تذبذب مگر مسلم لیگ کے رُوح رواں محمد علی جناح سے سرد مہری برتنے اور اُن سے ایک ناقابل ِعبور فاصلہ بنائے ر کھنے پر انہیں کبھی کوئی پچھتاوا نہ تھا۔
مسلم لیگ کے مرکزی قائد اور پاکستان کے موسس محمد علی جناح
( ۲۵؍دسمبر ۱۸۷۶ء تا ۱۱؍ستمبر ۱۹۴۸ء) کراچی کے ایک تاجر جناح پونجا بھائی کے فرزندتھے۔ تجارت پیشہ گھر انے میں آسودہ حالی اور آسائشوں کی فراوانی تھی ، چھ سال کی عمر میں محمد علی کو مقامی مدرسے میں داخل کردیا گیا ،دس سال کی عمر میں گھوگل داس تیج پرائمری اسکول میں داخلہ ملا۔ سال بعد کراچی لوٹ کر سندھ مدرسہ ہائی اسکول میں داخلہ پا کر پندرہ سال کی عمر میں میڑک پاس کیا ۔ ۱۸۹۲ء میںسولہ سال کی عمر میں لندن کے ایک مطالعہ ٔ قانون کے ادارہ لنکنز اِن جوائن کیا۔ ولایت میںتعلیم پانے کے علاوہ جناح صاحب کو حساس ذہن ہونے کے ناطے سیاست میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔اس دور میںآپ معروف پارسی لیڈر دادا بائی نوروجی سے قربت رکھتے تھے اور اُن کی سیاسی آئیڈیالوجی سے بھی کافی متاثر تھے۔ ۱۸۹۶ء میں
بیر سٹری کی ڈگری حاصل کرکے اپنے وطن مالوف کراچی لوٹے۔ یہاں دیکھا کہ اُن کا کھاتا پیتا گھرانہ زبردست تجارتی خسارے کے سبب کنگال ہوچکا تھا ، مگر آپ چونکہ پیدائشی طور آ ہنی عزائم کے مالک تھے ،اس لئے گھر پتلی مالی حالت سے خائف ہوئے بغیر کمرہمت باندھ کر پریکٹس کے لئے ممبئی کی عدالت کا انتخاب کیا۔ یہاں اپنا آذوقہ کمانے کے لئے پورا دن انتظار میں گززتا مگرایک بھی مقدمہ نہ ملا ۔ یہ صورت حال تین سال جاری رہی اور دن بھر تک کورٹ کچہری میں بنا کوئی کام کئے خالی ہاتھ گھر لوٹنا معمول بنا ۔بظاہریہ ناکامی مگر اس سے اُن کے پائے ثبات میں کو ئی لغزش آئی نہ اُمید کا ٹمٹماتا چراغ بھجنے دیا۔ روزعدالت سے مکھیاں مار کر واپس گھر کی راہ لینا روز کا رونا تھا مگر ماتھے پر مایوسی کی شکن ہوتی نہ تھکن کی کوئی سلوٹ ، خوش لباسی کی وضع قطع بھی بر قراری رہی ۔ آخر کار جناح صاحب کے لئے ستارۂ اقبال طلوع ہونے کے ا سباب یوں پیدا ہونے لگے کہ ممبئی کے انگریز ایڈوکیٹ جنرل مسٹر میکفرسن نے اس جوان سال ذہین وفطین جواں مسلم قانون دان کو پریذ یڈنسی مجسٹریٹ کے عارضی عہدے پر تعینات کیا۔ یہ معیادابندتقرری آپ کی زندگی میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو ئی۔ اس ملازمت سے آپ کو اپنے اندر چھپے جوہر کمال کو ظاہر ہونے کا سنہری موقع ملا ، بہت جلد لوگ قانو ن دانی کے حوالے سے آپ کی غیر معمولی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے قائل ہوئے۔ نتیجہ یہ کہ مالی مشکلات کا تھوڑا بہت ازالہ ہو ا۔ ملازمت کی معیاد ختم ہوئی تو انگریزحکومت نے پندرہ سو روپے ماہانہ مشاہرہ پر مسٹر جناح کو مستقل ملازمت کی پیش کش کی ۔ آپ نے پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ اتنی رقم میری روز کی کمائی ہوگی۔ اُس وقت اُن کا یہ کہنادیوانے کی بڑ لگتا تھا مگر بعد میں آپ کی وکیلا نہ زندگی میں اس قول کی حرف بہ حرف تصدیق وتائید ہوئی۔ اس کی ایک مثال کشمیر میں ۱۹۳۵ء کو ایک مقدمہ کی کامیاب پیروی ہے ۔ مقدمہ حنیفہ بیگم او مہر علی تھانیدار کے متنازؑہ فیہ نکاح کے بارے میں تھا اورا س کی شنو ائی جسٹس سر برجور دلال کی عدالت میں ہورہی تھی۔ شیخ محمد عبداللہ اور مرزا محمد افضل بیگ نے شوپورہ میں کے اُس ہاوس بوٹ میں جناح صاحب سے ملاقات کر کے اُنہیں مقدمہ کی پیروی پر آمادہ کیا جس میںاُن کا جہلم کنارے قیام تھا ۔ معاملہ فی پیشی مبلغ ایک ہزار روپے پر طے ہو ا۔ اندازہ کیجئے کہ آج سے پچاسی برس برس ایک ہزار روپے کی قدروقیمت کیا تھی۔ شیخ صاحب نے اگرچہ ملک گیر شہرت رکھنے والے قانون دان سے فیس کم کر نے کا اصرار کیا مگر جناح صاحب نے فیس میں تخفیف کو اپنی پیشہ ورانہ ا خلاقیات کے خلاف بتاکر یہ تک کہا کہ میں خیراتی کاموں کے لئے چندہ دے سکتا ہوں مگر پیشہ ورانہ ا صولوں کو قربان نہیں کر سکتا( آتشِ چنار) ۔ بہر حال جناح صاحب کے جوہر جب کھل گئے تو اُن کو دھڑا دھڑ مقدمات ملنے لگے ، اس سے گھر کی مالی دشواریوں کا بوجھ ہلکا ہو ا ۔ یہ اسی مالی فراخی اک اثر تھا کہ آپ نے اپنی ہمشیرہ فاطمہ جناح کا داخلہ ممبئی کا نوینٹ اسکول میں کرایا ۔ اس زمانے میں ایسے تعلیمی اداروں تک رسائی صرف رئیسوں کی ہوا کرتی تھی۔ چونکہ قانونی موشگافیوں اور جرح و تعدیل کے فن میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا ،اس لئے عدالت کے ایوان میں جس کسی مقدمہ کی پیروی کرتے،اُسے ایک ہاتھ بآسانی جیت جاتے اور دوسرے ہاتھ قانون کی نظیریں قائم کر تے ۔ ایک بار کسی انگر یز جج نے دوران جرح آپ کوٹوک کہہ کہا :
مسٹر جناح !آپ کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے ْْمخاطب نہیں ہیں۔
اس پر بانی ٔ پاکستان نے برمحل اور بلا تکلف جج پر پلٹ وار کیا:
جناب ! آپ بھی یاد رکھیں آپ کسی تھرڈ کلاس وکیل سے مخاطب نہیں ۔ یہ سن کر حج کی بولتی بند ہوگئی ۔ کمرہ ٔ عدالت میںاپنے موقف کے حق میں قانونی دلائل کے انبار لگانے میں اس دُبلے پتلے، تحمل مزاج اور دراز قامت وکیل پر فریق مخالف کا بازی لینا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوتا تھا۔
محمد علی جناح نے اپنی عملی سیاست کا آغاز ۱۹۰۶ ء میں دادا بائی نوروجی کی زیر صدارت آل انڈیا نیشنل کانگریس کے کولکتہ اجلاس میں شرکت سے کیا۔ قبل ا زیں آپ کی خداداد ذہانت وفطانت تاڑ کر نوروجی نے انہیں اپنا پرائیوٹ سیکرٹری بنایا تھا۔ کولکتہ اجلاس میں جناح صاحب نے مسلم وقف الاولاد کے قانون پر ایک فکر انگیز مدلل ومفصل تقریر بزبان انگریزی کی تو علمی دلائل اور قانونی باریکیوں پر مبنی اس تقریر کوسن کر سامعین عش عش کر تے رہے ۔ اسے ہم اتفاق ہی کہیں گے کہ یہ ۱۹۰۶ء کا سنہ تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا ، جناح صاحب اس نئی انجمن سے بالکل دور رہے، اگرچہ ا س سے ہمدردی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بہ حیثیت کانگریسی قائد آپ کو ہندو مسلم اتحاد کا فعال ومتحرک سفیر تصور کیا جاتا رہا۔ تاریخ کا چکر کچھ یوں چلا کہ ۱۹۱۳ء تھا جب مولانا محمد علی جوہر اور سید وزیرحسین کے اصرار پر مسٹر جناح نے بہ حیثیت کانگریسی لیڈر اور اس کے سیاسی نظریہ پرا پنا یقین واعتمادبرقرارر کھتے ہوئے مسلم لیگ کی رُکنیت اختیار کر لی۔ آپ نے مسلم لیگ اور کانگریس کے بیچ خلیج پاٹنے کی غرض سے انتھک کام کیا ۔اس کے نتیجے میں تاریخ کے ماتھے پرمیثاقِ لکھنو جیسا خوش کن سمجھوتہ کا جھومر سجا مگر بعد میں کچھ حالات وحوادث کی چوٹوں نے جناح صاحب کی ایسی اتحادی کا وشوں کو سخت دھچکا دیا کہ جس کے منطقی انجام کے طورانہوں نے نہ صرف کانگریس سے کنارہ کشی اختیارکر لی بلکہ مسلم آبادی کے لئے دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ایک الگ وطن ۔۔۔پاکستان ۔۔۔ کا مطالبہ منوا کر ہی دم لیا۔ جناح صاحب کی سیاسی زندگی نے یہ موڑ کیوں لیا، مورخین اس باب میںکئی واقعات کا ذکر کر تے ہیں مثلاً یہ کہ کانگریس کی قیادت میں جناح خود کو گاندھی جی اور پنڈت نہرو کا اپنے مدمقابل(competitor) محسوس کر تے تھے ۔ اسی طرح کے تین ایسے ہی چھوٹے واقعات یکے بعد دیگرے رونما ہو ئے جنہوں نے تاریخ آزادی ٔ ہند کے جریدے پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے۔ مثلاً ۱۹۱۵ء میں گاندھی جی جنوبی افریقہ سے براستہ لندن ہندوستان پلٹے تو لندن میں اہل ِگجرات نے ا ستقبالیہ کمیٹی تشکیل دی جس کی
چئیر مین شپ جناح صاحب کو سونپ دی گئی۔ انہوں نے گاندھی جی کا شایانِ شان استقبال کیا اور اپنے انگریزی خطبہ ٔ استقبالیہ میں وطن کے تئیں خاص کر ان کی خدمات کا متاثر کن انداز میں ذکر کیا۔اس کے جواب میں گاندھی جی نے اپنی تقریر میں کہا کہ مجھے یہ اچھا لگا کہ میرے گجرات کے ایک’’ گجراتی محمڈن‘‘ کو استقبال کمیٹی کی صدارت دی گئی ۔ اس جملے سے یہ تاثر ملتا تھا کہ گاندھی جی نے وقت کے ایک معروف وممتاز وکیل اور مسلمہ سیاسی قائد جناح کی تحدید گجرات تک جان بوجھ کر کی ۔ یہ چیز موخرالذکر کو دلی طور اتنی محسوس ہوئی کہ وہ اول
ا لذکر سے پھرکھچے کھچے رہنے لگے۔ دوسرا واقعہ ۱۷ ۱۹ء کو وقوع پذیر
ہو ا۔اس بار گاندھی جی اور جناح صاحب پھر ایک مرتبہ ایک پلیٹ فارم پر جمع تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب گاندھی جی نے مادری زبان کو فروغ دینے کے لئے مہم چھیڑی ہوئی تھی بلکہ انہوں نے اپنی آتم کتھا ( سوانح عمری ) بھی گجراتی زبان میں ہی قلم بند کی تھی ۔ جناح صاحب نے حسبِ معمول اپنی تقریر انگریزی میں شروع کی۔ گاندھی جی نے اُنہیں اسٹیج پر سے بر سر عام ٹوکاکہ اپنی بات گجراتی میں کریں ۔ بانی ٔ پاکستان نے اگرچہ اپنی گفتگو گجراتی میں جاری رکھی جس میں انگریزی کے مقابلے میں انہیں خاصی دقت ہوئی ،کیونکہ وہ مادری زبان روانی سے بول نہیں سکتے تھے، اس لئے گاندھی جی کی روک ٹوک کا بُرا منایا۔اس واقعہ نے جناح صاحب کو گاندھی جی سے مزید دور کیا ۔ تیسرا واقعہ ۱۹۲۰ ء کو رونما ہو ا۔ گاندھی جی اور جناح صاحب ا س بار بھی اسٹیج پر اکھٹے موجود تھے۔ ستیہ گرہ تحریک کی مقبولیت سے اب گاندھی عوام میںاحتراماً مہاتما اورابوالکلام آزاد مولانا کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ جنا ح صاحب نے اپنی تقریر کے آغاز میں ’’مسٹر گاندھی اینڈ مسٹر آزاد‘‘ کہا تو شر کائے جلسہ نے اُن پر ہوٹنگ کی کہ ان دونوں کو بالترتیب مہاتما اور مولانا کہہ کر مخاطب کیا جائے ۔ جناح صاحب نے اسے اپنی توہین ا ور حقارت سمجھ کر اب گانگریس سے رشتہ ناطہ توڑا اور پھر کبھی مڑکر نہ دیکھا۔
باقی باقی
نوٹ: ش م احمد کشمیر کے آزاد صحافی ہیں
Comments are closed.