محدّثِ عصرحضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری ؒ وقت شناسی اورتدریسِ شہنشاہی کے آئینہ میں

مفتی اسعداللہ قاسمی مظاہری

صدرالمدرسین جامعہ ام الہدیٰ پرسونی،مدہوبنی،بہار

ڈائریکٹر دارالسّلام فاؤنڈیشن دربھنگہ ،بہار

???????????▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️

پیکرِ علوم ومعارف ،صدنازش وصدافتخار ،محدّثِ کبیر حضرت الاستاد مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری نوّراللہ مرقدہ کی وفات سے علمی دنیامیں جوصفِ ماتم بِچھی ،اورمشائخِ عرب وعجم کی طرف سے جو تعزیتی پیغامات وتاثرات آئے، اس سے اُن کی قابلِ رشک رفعتوں کااندازہ کرناکچھ مشکل نہیں۔
‌ وه اپنی اسّی سالہ زندگی میں اخلاص وللّہیت، علم ومعرفت ، اتّباعِ سنت،خوف وخشیت،جُہدوریاضت ،زُہد وقناعت،حلم وسخاوت ،عفوودرگذر،عزم واستقلال،صبروشکر،تفویض وتوکّل،انکساروفروتنی،خودشَناسی وخودآگہی اورعالمانہ شرف ووقار کے لحاظ سے ایک تاریخ ساز ،ہمہ جہت اورپُر کشش شخصیت کے مالک تھے۔
‌ وہ ایک ہی وقت میں محدّثِ ذی شان بھی تھے،اورمفسّرِعالى شان بھی٬فقیہِ رَمْزشَناس بھی تھے اورمتکلّمِ دقیقہ شَناس بھی،مدرّسِ باکمال بھی تھے اورمصنّفِ خوش اقبال بھی ،مُرشدِ کامل بھی تھے اور مُصلحِ خدارسیدہ بھی،فكرِولی اللّہی کے امین بھی تھے، اورگلشنِ قاسمی کے گلِ سرسبد بھی!‌غرض وہ ان خوش اقبال ہستیوں میں تھے،جنہیں قسّامِ ازل نے بےشمار کمالات وامتیازات سے بہرہ مند فرمایاتھا،ان کی ایک زندگی میں بہت سی زندگیاں جمع ہوگئی تھیں،وہ إنّ ابراھیم کان أمة کی جیتی جاگتی شرح تھے،
‌ان کی اِسی جامعیتِ اوصاف کی وجہ سے اس کہنے میں کوئی تامل نہیں:
*‌وليس من الله بمستنكر*
*أن يجمع العالم في واحد*

‌کسی ایک تحریریامقالے میں اُن جیسی کثیرجہتی شخصیت کے تمام محاسن ومکارم کااحاطہ کرنامشکل ہی نہیں،بلکہ ناممکن ہے۔
‌بقولِ شاعر

*‌من كثرة الأخبار من مكرُماته*
*‌يمرّبه صنف ويأتي به صنف*

یعنی ان کے مکارم اتنے گوناگوں ہیں کہ ایک کاذکرچھِڑتاہے،تودوسراسامنے آجاتاہے،اس لیے مختلف قسطوں میں آپ کی زندگی کے چند وہ رخشندہ نقوش تحریرکرنے کی کوشش کروں گا،جومیرے دِيدہ وشُنیدہ ہیں،اورجومجھ جیسے لاکھوں شاگردوں ،ریزہ چینوں ، عقیدت مندوں ،جاں نثاروں ،بلکہ راہِ علم اورراہِ انسانیت کے پُرشوق مسافروں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

*‌?وقت کی حفاظت آپ کی زندگی کاتابندہ نقش?*

تاریخ شاہد ہے کہ کامیابی ہمیشہ اُن ہی لوگوں کے سروں کاتاج بنتی ہے جو وقت کے قدر شناس ہوتے ہیں،اورناکامی ہمیشہ اُن ہی لوگوں کے گلوں کاطوق بنتی ہے، جووقت کے ناقدرے ہوتے ہیں۔قحط الرّجال کے اِس دور میں استاذِ عالی وقارمحدّثِ پالن پوری رحمة اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی روشنی کاایک استعارہ تھی،اُنہیں دیکھ کریہ محسوس ہوتاکہ ہم اپنے درخشنده ماضی کی عہدآفریں شخصیتوں کے درمیان موجود ہیں،اُنہوں نے اپنی خدادادلیاقتوں کی بدولت اِس قدرناشناس معاشرےمیں اپنامقام خود بنایا،اُن کی ذاتِ سعید سے نہ جانے کتنے دینی وملّی کام تکمیل پائے،ہزاروں باکمال شاگردتیار ہوئے،چالیس سے زائدعلمی،تحقیقی،اورتشریحی کتابیں وجودمیں آئیں،جن میں بعض کئی کئی جلدوں کوحاوی،بلکہ کَمًّا وكَيفًا سیکڑوں کتابوں کے مُساوى۔
ملک وبیرونِ ملک علمی واصلاحی اسفار ،رسوم وبدعات کی نشاندہی ،مشنِ نانوتوی کی فروغ دِ ہی، دنیاکے گوشے گوشے اورچپّے چپّے میں فكرِولى اللّہی کی تشہیر ،اُن کی اِن روشن خدمات کودیکھ کرعقل حیران!
تنہااس ایک شخصیت سے وہ سارے کام کیسے انجام پائے،جن کے لیے اکیڈمیاں درکارہوتی ہیں!

*بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا فرزانہ*

*بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ*

حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کی اِن تمام فتح مندیوں کااصل راز اللّہ جلّ شانہ کےفضل کے بعداُن کی "وقت شناسی ” ہے۔وہ اپنی حیاتِ مُستعارکے قیمتی لمحوں کی مکمل حفاظت فرماتے، اپنی عمرِعزیزکاایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے، یاتو مطالعہ وکُتب بینی میں مشغول رہتے،یادرس وتدریس میں مصروف، یاتو تصنیف وتالیف میں سرگرم رہتے،یا اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں مُستغرَق۔وہ صرف دارالعلوم میں اپنے روحانی جگرگوشوں کوہی علوم ومعارف سے سیراب نہیں کرتے،بلکہ گھر پر اپنے صُلبى جگرپاروں کو بھی مختلف درسی کتابیں پڑھاتے،یوں ان کی دوتدریسی درس گاہیں:ایک درس گاہِ دارالعلوم،اوردوسری درس گاہِ دولت کدہ!
عصربعد کاوقت طلبہ،اساتذہ اورزائرین کے لیے خاص ہوتا ،جس میں مختلف علمی باتیں ہوتیں،وارِدین کے علمی اشکالات کاتشفّی بخش جواب دیاجاتا،اوراُن کے پیش کردہ مسائل حل کیے جاتے ،گویااُن کا دولت کَده عام دولت كَده نہیں،بلکہ ایک عظیم”جامعةالمعارف”تھا ،جہاں بڑے بڑے اہلِ علم اپنی پیچیدہ علمی گُتّھیوں کوسلجھانے کے لیے حاضر ہوتے ،یوں روزانہ اُن کی چوبیس گھنٹہ پرمُحيط زندگی کاایک ایک لمحہ معنی خیز مشاغل میں صرف ہوتا۔
اُن کےیہاں ہرکام کاوقت متعین ہوتا،جس پر وه سے سختی سے کاربند رہتے ،بلاعذرِ شدید سرِمُو انحراف نہیں فرماتے،کوئی وارِدناوقت آجاتا،توخفگی کااظہارکرتے اورکبھی واپس بھی کردیتے ،اس معاملہ میں اُن کے سامنے سب برابر ،خواہ اہل ثروت ہوں یااہلِ رسوخ۔ ممبئی سےکچھ اہلِ ثروت مکاتب کے سلسلے میں مُشاورت کے لیے دیوبند پہنچے،جن میں ممبئی کےایک مُستندعالمِ دین ہمارے رفیق بھی شریک تھے،آپ نے ان واردینِ ممبئی کوملاقات کا وقت دیا،مگر وہ وقت سے ذراتاخیر ہوگئے، جب حاضر ہوئے ،توآپ کسی عزیز کوپڑھانے ميں مشغول تھے،عَلَیْک سَلَیْک ہوئی ،مگرتفصیلی بات چیت سے منع کردیا ۔۔کہنے لگے:”یہ وقت آپ کانہیں،تشریف لے جائیں ، ابھی بات نہیں ہوسکتی۔”پھرحسبِ حال اپنے عزیز کو پڑھانے میں مصروف ہوگئے۔یہ حیرت انگیز،مگرسبق آموزادا دیکھ کر وہ وارِدین بہت نادم ہوئے،اور واپس لوٹ آئے،بعدمیں دوبارہ وقت لے کرحاضرِ خدمت ہوئے ۔

*?ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم?*

مجھے خوب یادہے کہ ایک مرتبہ دورانِ درس کہنے لگے :”جب میں گھر سے سبق پڑھانے کے لیے آؤں ،تو کوئی میرے ساتھ ساتھ نہ چلے اورنہ ہی مجھ سے بات چیت کرے ،کیوں کہ میں اُس دوران درس کو ذہن میں مرتّب کرنے میں جُٹاہوتا ہوں، اِس عمل سے مجھے خَلل ہوتاہے”۔
یہ ہے وقت کی حفاظت!سبق پڑھانے کے لیے گھرسے دارالحدیث محوِ سفر،مگر اس مختصردورانیے میں بھی مصروفِ عمل!!

*عام حالت میں بسر کی زندگی تُوْنے تو کیا*

*کچھ تو ایسا کرکہ عالَم بَھر میں افسانہ رہے*

‌حضرت الاستادپالن پوری ؒ صرف اپنے زمانۂ تدریس میں ہی وقت کے قدرشناس نہ تھے،بلکہ اُن کا دورِ طالبِ علمی بھی حفاظتِ وقت سے عبارت رہ چکاہے ،جس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ دورۂ حدیث شریف سے فراغت کے بعد1382ھ اور1383ھ میں ایک طرف جہاں آپ شعبۂ تکمیلِ افتاء میں کتبِ فقہ کا مطالعہ کرتے،فتاوی نویسی کی مشق کرتے،وہیں بڑے بھائی ہونے کے ناطے دیوبندمیں فروکش اپنے چھوٹے بھائیوں کی تعلیم وتربیت بھی کرتے ،جہاں تعلیمی اوقات کے علاوہ صدردروازے کے سامنے چبوترے پرخودحفظ کرتے، وہیں اپنے برادرِ خورد حضرت مفتی امین صاحب پالن پوری کوبھی حفظ کراتے،اس طرح فراغت کے بعداپنی ذاتی کوشش ولگن سے آپ حافظ ہوئے۔اِن گوناگوں اَشغال میں ایسے مُستغرق کہ رمضان میں وطن بھی نہ جاسکے۔
*?کیاتاریخ وقت شناسی کی اس سبق آفریں داستان کو بھُلادے گی؟*?
ایک مرتبہ دورانِ درس وقت کی قدردانی اورسبق کی حاضری پرتبصرہ کرتے ہو ئے کہنے لگے کہ: دورِ طالبِ علمی میں ترمذی کے ایک سبق میں غیرحاضری ہوگئی،جس کی خلش آج بھی محسوس کرتاہوں ،اوراس غیرحاضری کی وجہ یہ بتائی کہ: میری رہائش صدردروازے کے پاس تھی،حضرت الاستاذعلامہ ابراہیم بلیاوی قدّس سرّه عصاٹیکتے سبق پڑھانے کے لیے تشریف لاتے ،میں عصاکی آہٹ سنتے ہی اپنی رہائش سے نکل جاتا،اورحضرت کے ساتھ ہولیتا،لیکن ایک دن مطالعہ میں اس قدر ڈوب گیاکہ حضرت کی آمدکااحساس تک نہ ہوا،اور غیرحاضری ہوگئی ،جس کی کسک آج بھی کبھی کبھی سینے میں اُٹھتی ہے۔

*شادباش اے محدّثِ زمن!شاد باش*

وقت شناسی کے حوالے سے آپ کی یہ بات بھی ہم جیسوں کے لیے چشم کُشاہےجو حضرت الاستاد مفتی ابوالقاسم نعمانی باغبانِ گلشنِ قاسمی مدظلہ کی زبانی، تعزیتی پیغام میں سننے کوملی کہ دارالعلوم میں مسجدِ قدیم کے پاس آپ کی رہائش گاہ ،اوردارِ جدیدکی شکل دیکھے مہینوں بیت گئے،جب کہ مسجدِ قدیم اوردارِ جدیدکے درمیان صرف "نَودرے کی عمارت”حائل!!یہ وقت شناسی کا درخشاں باب نہیں تواورکیاہے؟!
*بھلاسکے گانہ زمانہ وہ یادگارہوں میں*
آپ ممبئ میں مَرَضُ الموت کے اپنےآخری خطاب میں کہنےلگے:”میرے ایک عزیزہیں ایران میں،مولانا حکمت اللہ سلّمہ ،انہوں نے فون کیا:بیان نہ فرمائیں۔۔۔میں نے کہا:نہیں۔۔۔۔!بیان ہوگا۔۔۔میرے ایک دوست ہیں کراچی میں،مولانا عبدالرؤف صاحب،انہوں نے فون کیا: مختصر بیان فرمائیں۔۔۔۔میں نے کہا:ہاں۔۔۔۔!یہ ٹھیک ہے،مختصر بیان ہوگا۔”
طبیعت سخت علیل،متعلّقين کی طرف سے آرام کامشورہ،مگراس وقت بھی مصروفِ كار رہنے کاجذبہ،اوربے مشغلہ بیٹھنا ناپسند ۔‌یہ وقت کی قدردانی کا نقشِ تابندہ نہیں نہیں،تواورکیاہے؟!

*اب اُنہیں ڈھونڈھ چراغِ رُخِ زیبالے کر*

حضرت محدّثِ پالن پوری رحمة اللہ علیہ نے زندگی کے آخری ایّام میں شدید مرض کے باوجودتراویح کے بعدجس حوصلے کے ساتھ خطاب کاسلسلہ شروع فرمایا، وہ بجائے خودکسی کرامت سے کم نہیں،جن میں دوخطاب دونزاعی مسئلوں میں فیصلہ کُن ہیں:ایک حدیثِ سُريّا سے متعلق ۔۔۔۔اوردوسرے اس سے کہ قرآنِ کریم کی روزِ اوّل سے مُتوارِث ترتیبِ قدیم صحیح ہے یا ایک ندوی عالمِ دین کی مُختَرَع ترتیبِ جدید؟
گویاآپ اپنے اس سلسلہ وارخطاب کے ذریعہ دنیاسے رخصت ہوتے ہوئے بھی اپنے لاکھوں شاگردوں ،ارادت مندوں،بلکہ دینی کام میں سرگرم سبھی جیالوں کویہ سبق دے گئے کہ لمحۂ رواں کی قدر کرلو،تاکہ بعد میں حسرت نہ ہو۔

*ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں سوچے انجام*

*ورنہ ناداں بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے*

*حَياتُكَ أَنْفَاسٌ تُعَدُّ فَكُلَّما*

*مَضى نَفَسٌ أَنقَصتَ بِهِ جُزءاً*

القصّہ: وقت شناسی کے گلہائے رنگارنگ سے مزین آپ کی یہ خوبصورت زندگی ،رہتی دنیاتک راہِ علم کے پُرشوق مُسافروں کے لیے ،بلکہ محفلِ گیتی میں کچھ کرگذرنے کےخواہش گرتمام انسانوں کے لیے روشن شاہراہ ہے،جس پر گامزن رہ کر دنیاکی ہربلندی کوحاصل کیاجاسکتاہے۔

*یہ ماہِ تاباں سے کوئی کہہ دے تُواپنی کرنوں کوگِن کے رکھ لے*

*میں اپنے صحراکے ذرّے ذرّے کو تابناکی سکھاچکاہوں*

 

*?ایوانِ تدریس وتفہیم کے ہردلعزیز شہنشاہ?*

حضرت الاستاد رحمة اللہ علیہ یوں تو ہمہ جہت کمالات کے حامل تھے،مگرتدریس وتفہیم آپ کی امتیازی شان تھی،جس میں کوئی دوسرا صاحبِ تدریس ان کاشریک نہیں،بلکہ اگریوں کہاجائے کہ وہ مجتہد فى التدریس والتفہیم ،یعنی ایوانِ تدریس وتفہیم کے بے تاج شہنشاہ تھے،توقطعًا بے جانہیں۔

*ان کے کمالات ومحاسن میں جواب اس کانہیں*

*اس قبیلے میں کوئی بھی ہم رکاب اس کانہیں*

مجھے 2011ء میں آپ سے أصحّ الكتب بعد كتاب الله پڑھنے کاشرف حاصل ہوا، درس کی بہت سی حسیں یادیں اور شیریں باتیں ہیں جو ذہن ودماغ میں محوِگردش ہیں، جن میں چند نوکِ قلم پر بَرق رفتاری سے آرہی ہیں،جنہیں لکھے بغیرچارہ نہیں۔

*?درس گاہ تشریف آوری کادلکش منظر?*

حضرت محدّث پالن پوری ؒ کے درس گاہ تشریف لانے کااندازبہت دلکش ہوتا،وہ اپنے مخصوص روایتی لباس میں تشریف لاتے۔۔۔نصف ساق درازجُبّہ۔۔۔سفید،مُدَوّر،سروں سے چِپکی ٹوپی،اُس پرسفیدعربی رومال ۔۔۔کبھی کبھی عمامہ اوراُس پرسفیدعربی رومال۔۔۔یوں لگتاکہ کوئی عربی نَژاد محدّث تشریف لارہے ہیں،پُر شکوہ رفتار سے تشریف لاتے،نَودرہ میں تاریخی کنویں کے پاس کُلّی فرماتے ،پھرمحدّثانہ شان وشوکت کے ساتھ نَودرہ سے متصل تاریخ ساز دارالحدیث میں داخل ہوتے، مَسند کے پاس کھڑے ہوکرمحفلِ درس کے ہرگوشے پر نظر ڈالتے ،اوربلندآوازمیں اپنے مخصوص لب ولہجہ میں طلبہ کوسلام کرتے،پھرنہایت پُروقار اندازمیں مسندِ درس پرچارزانو تشریف فرماہوتے،آپ کایہ اندازِ نشست درس کے اختتام تک رہتا،دورانِ درس اس میں ذرابھی تبدیلی نہ ہوتی ،اورنہ ہی حرکت ،بلکہ خاشعًا ومتواضعًاجلوہ افروزرہتے ،جوآپ کے درسِ حدیث کے احترام پر روشن دلیل ہے۔
*?عبارت خواں یابُلبلِ خوش آہنگ?*
حضرت پالن پوری ؒ کے یہاں عبارت خوانی کا مرحلہ کافی اہم ہوتا،ہرطالبِ علم عبارت خوانی کی ہمت نہیں کرپاتا،بلکہ آغازِ سال میں عبارت خوانی کے شائق طلبہ کوگھربُلاتے ،امتحان لیتے،اوربلندآہنگ ،خوش نوا،ذی استعداد چند طلبہ کو سال بھر عبارت خوانی کے لیے متعین فرمادیتے ۔اورانہیں تصحیحِ اعراب کے ساتھ بلندآہنگی اورمیانہ رَوى کی تاکید فرماتے،پھر یہ خوش بخت طلبہ سال بھراِس محاذکوسنبھالے رہتے ۔یہ طلبہ اِس قدر خوش اِلحانی کے ساتھ قراءتِ حدیث کرتے کہ دارالحدیث کے بام ودَرفرطِ شوق سے وجدمیں آجاتے،اورایک عجیب دلکش سماں بندھ جاتا،دارالحدیث کے گردوپیش سے گزرنے والاہرفردِ بشر اس روح پرور منظرکولمحہ بھر کے لیے ضروردیکھتااوراپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا۔ اس خوش جمال قراءتِ حدیث کوضرورسنتا اورمحظوظ وشاداں ہوتا۔

*بجلیوں کی رو میں غلطیدہ وہ لحن ِ جاں نواز*

*دل کی دھڑکن کو عطا کرتاہے جو سوز و گداز*

*اُف وہ نغمہ جس کو کہتے ہیں تمنائے بہار*

*کوئلوں کی کُوک ، ساون میں پپیہوں کی پُکار*
میں جس سال دورۂ حدیث شریف میں زیرتعلیم تھا،تحفة القارى کی تالیف شباب پرتھی،اس لیے اس سال آپ خودقراءتِ حدیث کرتے،جب آپ اپنے سوزبھرے اندازمیں،خوش نغمگی اورنرم رَوی کے ساتھ قراءت کرتے،توایک عجیب کیف آور سماں ہوتا۔اللہ اللہ وہ دل سے نکلی ہوئی،جذبات سے سرشار،ذوقِ عرفاں سے مالامال آواز،وہ پُرشوکت لب و لہجہ،وہ کوثروتسنیم سے دُھلی زبان،کیاکہوں اُن کی ہرشان وادامیں کیا کیاسحرانگیزی تھی،یہ باتیں جب یادآتی ہیں ،دل پارہ پارہ ہوجاتاہے۔

*اک برقِ طپاں ہے کہ تکلم ہے تمہارا*

*اک سحر ہے لرزاں کہ ترنم ہے تمہارا*

*‌?درسِ بخاری۔۔۔ حسیں* *یادیں،شیریں باتیں?*

حضرت الاستاد محدث پالن پوری ؒ ابتدائی چنددن بخاری اورصاحبِ بخاری کا جامع تعارف پیش کرتے،حدیث اوراصولِ حدیث پرمحقّقانہ کلام کرتے،،اسمائے حُسنى اور احادیث یادکرنے پرزوردیتے،بلکہ سبق شروع کرنے سے پہلے اسمائے حسنی اورمختصر احادیث یادکراتے، عمامہ باندھنے کی ترغیب دیتے، اصولِ درس گاہ پرروشنی ڈالتے ،اپنی مقررکردہ اصطلاحات سے روشناس کراتے،پھرباضابطہ کتاب شروع فرماتے۔آپ کی تدریس گوناگوں خوبیوں کی حامل تھی،جن پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے لیے مقالہ نہیں ،کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ واہ کیاخوب ہوتاآپ کادرس !
عبارت خوانی ہوتی،پھرآپ کاعلمی چشمہ پھوٹ پڑتا،
تراجمِ بخاری کی دلنشیں شرح کرتے۔۔۔،ابواب کا جامع، پیشگی خلاصہ پیش فرماتے۔۔۔،غریب الفاظ کو محاورں کی مددسے بے غبارکرتے۔۔۔،مذاہبِ اربعہ پرسیرحاصل بحث کرتے۔۔۔۔، فقہِ حنفی کی مدلل تنقییح و ترجیح فرماتے ۔۔۔، کلامی مسائل پرتسلّی بخش کلام کرتے۔۔۔،علومِ ولى اللّہی کا جابجاتذکرہ فرماتے۔۔۔، افکارِ دیوبندكا موقع بہ موقع حوالہ دیتے ۔۔۔۔،حدیث کے دقیق نکتےسمجھاتے۔۔۔،سند کی پُرمغزبحثیں بتاتے۔۔۔،غرض مسئلے کے ہرہرگوشہ کوواضح کرتے۔ اوریہ سب کچھ جس سہل اوردل کش پیرائے میں بیان کرتے ،اس میں کوئی دووسراان کاشریک نہیں ۔
‌بقولِ کلیم عاجز ؒ

*‌یہ طرزِ خاص کوئی کہاں سے لائے گا*
*‌جوہم کہیں گے کسی سے کہانہ جائے گا*
‌‌دورانِ درس طلبہ یاتوگوش برآواز بدیدہ ودل آپ کی طرف متوجہ رہتے،یاآپ کے علمی جواہرپاروں کو قلم بند کرنے میں جُٹے ہوتے،ہرطرف ایسی خاموشی کہ صرف ورق پلٹنے کی آواز محسوس کی جاتی،یعنی كأنهم على رؤس الطيور کا دلفریب نظارہ!
‌گفتگوٹہرٹہرکر،صاف اورشیریں کرتے۔۔۔۔،آواز خوش نوا،مگر قدرےپست ہوتی۔۔۔۔،دورانِ تقریر ہاتھوں کامتوازن اشارہ ہوتا جس سے مسئلے کی تفہیم میں مددملتی ۔۔۔۔،اندازِتفہیم اتنامُرتّب ودل نشیں ہوتاکہ پیچدہ سے پیچیدہ علمی سنگلاخ لقمۂ تربن جائے،یعنی غبی وذکی ہرایک کے لیےیکساں مفید ۔۔۔۔، موضوع پرمکمّل توجہ مرکوز رکھتے۔۔۔۔،دلائل وبراھین اتنے دلچسپ اور منطقی اسلوب میں پیش کرتے کہ طبیعت عَش عَش کراٹھتی ۔۔۔۔۔،بیان وردِّ مذاہب میں ائمۂ سلف کامکمل احترام ملحوظ رکھتے ۔۔۔۔،مسلکِ حنفی کو ترجیح ضروردیتے ،مگرغیرحنفی طلبہ کواُسے اپنانے کی دعوت نہیں۔۔۔، نبی ہاشمی کےذکر پردرودوسلام کانذرانہ پیش کرتے، اورطلبہ کوبھی اس کی تاکید فرماتے۔۔۔۔،اصحابِ نبى کا تذکرے کرتے وقت زبان پرترضیہ کے کلمات ہوتے۔۔۔۔،ائمہ ومشائخ کانام لیتے وقت نوّرالله مرقده اورقدّس سرّه ضرورارشاد فرماتے۔۔۔۔،وقفہ وقفہ سے خاص اداسے لااله الا إلله کاوِرد کرتے ،جو آپ کی فطرت ثانیہ ہے ۔۔۔۔۔‌دورانِ تقریر متعلقہ بحث سے وابستہ کوئی خاص ضروری بات بتانی ہوتی،تو فرماتے کہ:یہاں رک کرایک مسئلہ سمجھو،پھر مسئلہ کی مختصرتشریح کرتے ،اس کے بعدمضمونِ سابق کو مضمونِ لاحق سے اس طرح ہم رشتہ کردیتے کہ طلبہ اس دل نشیں تسلسل سے جھوم اٹھتے ۔
مذاہبِ ائمہ کے اختلاف میں اس بات پر ضرور روشنی ڈالتے کہ یہ اختلاف نص فہمی کی بناپرہواہے،یادلائل میں اختلاف کی بناپر؟۔جوطلبہ کے لیے فہمِ مسئلہ میں سکون کاباعث ہوتا۔
‌یوں تو حضرت الاستاد رحمة اللہ علیہ کادرس اس قدرروح پرورہوتاکہ تعب وتکان کااس شاہی دربار میں گذر نہیں، تاہم دوران درس آپ کی چند حسین ادائیں اورنت نئی تعبریں ایسی دیکھنے اورسننے کوملتیں جن سے طبیعت ازسرنوہری بھری ہوجاتی،دل کی کلیاں مسکراٹھتیں ،ذہن کے دریچے خشک علمی باتوں کے استقبال کےلیے فرش راہ بن جاتے ۔جن کی چند جھلکیاں یہ ہیں:
کسی مسئلے میں اہلِ علم کی بہت سی آراء ہوتیں،توآپ دونوں ہاتھ پھیلاکر فرماتے کہ: اس مسئلے میں ٹوکرے بھرکراقوال ہیں،ایسالگتاکہ آپ کسی شئے کی مقدار بتارہے ہوں۔آپ کی اس اداسے محفلِ درس میں تبسم کی لہردورجاتی ،اورپوری محفل کشتِ زعفران بن جاتی۔‌کسی اشکال کے کئی جواب ہوتے ،توفرماتے کہ :اس اشکال کے دس جواب ہیں،مجھے کسی سے تشفی نہ ہوسکی،میں نے گیارہواں جواب گھڑاہے،تمہیں میراگھڑاجواب سمجھ میں آجائے ،توٹھیک،ورنہ تم بارہواں جواب گھڑلینا۔‌آپ کی اس بات پر شرکائے بزم خوب ہنستے، مزے لیتے،اورایک دوسرے کو آنکھوں سے خفیف اشارے کرتےاوریوں مجلس سرسبزوشاداب ہوجاتی۔
آپ کی یہ حسین ادا اگرچہ بادی النظر میں ظرافت وخوش طبعی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کی یہ ادا تدریس میں آپ کی اجتہادی شان کی آئینہ دار ہے،آپ نقل درنقل کے پابندنہ تھے،بلکہ خود بھی استخراج کرتے،اورطلبہ کے ذہنوں میں بھی استخراج کی تُخم ریزی کرتے،اس کااندازہ ان قارئین کوخوب ہے،جوآپ کے درسی افادات سےخوشہ چینی کرتے ہیں۔‌آپ فرماتے کہ:کسی بھی واقعہ میں دوپہلوہوتے ہیں ،ایک واقعہ کے مرکزی مضامین،دوسرے واقعہ کے متعلقات ۔اگرواقعہ کے کسی مرکزی مضمون میں تعارض ہو،تومیں اس کے جواب دینے کاپابندہوں،اوراگرواقعہ کے کسی متعلق میں تعارض ہو،تومیں اس کےجواب دینے کاپابندنہیں۔ مذکورہ بالاتناظرمیں کبھی مخصوص لب ولہجہ میں فرماتے ارے بھائی ! غزوہ میں شریک افراد کی تعداد کیاہے اورغزوہ کا جائے وقوع کیاہے، اس بارے میں مختلف متعارض اقوال ہیں ، اس کےچکر میں نہ پڑو،غزوہ میں جتنے بھی افراد تھے، تھے توسہی!،غزوہ جہاں بھی ہوا،ہواتوسہی !تیرے پیٹ میں کیوں درد ہوتاہے،!؟یہ باتیں واقعہ کےمتعلقات میں سے ہیں ،میں ان میں جَھک جَھک نہیں کرتا،اگرتمہیں جَھک جَھک کرناہے،توجاؤ حافظ ابن حجر رحمه الله کے ساتھ فتح الباری میں جَھک جَھک کرو۔
آپ یہ ساری باتیں اس اندازمیں بیان فرماتے کہ پیٹ میں گُدگُدیاں لگنے لگتیں،اورطبیعت میں نشاط کی نئی شمع فروزاں ہوجاتی۔سندپرکلام کرتے ہوئے کسی کمزور راوی کاتذکرہ آتا،توفرماتے ،یہ راوی دوپیسے کانہیں،جابرِ جُعفی کے بارے میں فرماتے:یہ لَپاریاراوی ہے،کبھی کسی راوی کے بارے میں فرماتے،یہ انٹرنیشنل جھوٹاہے۔ آپ کے ان بے لاگ اوربرمحل تبصروں پر طلبہ خوب ہنستے اورمحظوظ ہوتے۔کسی امام یامحدّث کاتعارف کراتے،توکبھی کبھارازراهِ مزاح فرماتے کہ ان کاتعلق گاگلہیڑی سے ہےیاناگل سے ہے،‌(یہ دیوبندکے مضافاتی علاقے ہیں)شرکائے محفل آپ کی اس اداپربھی خود کوہنسنے سے روکنے نہیں پاتے ،اورمحفل قہقہ زار ہوجاتی۔کئی بار عبارت خواں طلبہ غلطیاں کرتے ،توکہتے تیرے ساتھ سرٹکڑانے سے اچھاہے کہ میں خودہی عبارت پڑھ لوں۔ کبھی کہتے:چل رہنے دے،تیرے ساتھ جَھک جَھک کون کرے، اس سے بہتر میں خود عبارت پڑھ لوں۔جن مدرسین کے یہاں خوب ہنسناہسانا ہوتا،اس پر آپ تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے کہ:یہ کانوں کی عیّاشی ہے،حصولِ علم نہیں۔
بھینس کا انڈا،بھینس اللغات، اورنہ جانے کیاکیاتعبیرات!۔غرض آپ کی یہ ساری تعبیریں اورادائیں درس کے نشاط کوباقی رکھنے،بلکہ اسے چارچاند لگانے میں ٹانک کاکام کرتیں۔
حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کی کچھ خودساختہ اصطلاحات بھی تھیں ، جو بڑی دل چسپ،اورجدت آمیز تھیں ، آغازِسال میں ان کی نشاندہی فرما دیتے،تاکہ شرکائے درس کودرس سمجھنے میں دشواری نہ ہو: آپ اپنی ایک اصطلاح یہ بیان فرماتے کہ :جب میں کہوں” حضرت شاہ صاحب قدس سرّہ” تواس سے مراد "مُسند الہندحضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمةاللہ علیہ” ہوں گے۔اورجب کہوں” ہمارے حضرت شاہ صاحب قدّس سرّہ٬” تواس سےمراد "محدّثِ عصرحضرت علّامہ انورشاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ” ہوں گے۔اورفرماتے کہ علامہ کشمیری رحمه الله کے لیے”ہمارے” کی تعبیراس لیے ہے کہ آپ دارالعلوم میں مدرّس رہ چکے ہیں۔ ‌اوردوسری اصطلاح یہ ذکرکرتے کہ:جب میں کہوں ،بڑے دوامام تواس سے مراد امام ابوحنیفہ اورامام مالک رحمهماالله ہوں گے اورجب کہوں چھوٹے دوامام تواس سے مراد امام شافعی اورامام احمد بن حنبل رحمهماالله ہوں گے۔‌اورفرماتے کہ یہ بڑااورچھوٹاہوناعمرکے لحاظ سے ہے ،رتبہ کے لحاظ سے نہیں،یعنی بڑے دونوں امام چھوٹے دونوں اماموں سے عمرمیں بڑے ہیں۔
آپ کی ایک خاص ادا یہ بھی تھی کہ بعض اوقات اپنی تشریحات سے رجوع فرمالیتے اوریوں کہتے کہ:کل اس مسئلہ میں ،میں نے جوتقریر کی ،وہ صحیح نہیں ہے ،اب جوتقریرکروں گا،وہ صحیح ہے،آپ کایہ عمل جہاں آپ کی خاکساری کی دلیل ہے ،وہیں آپ کی امانت داری کی غمازبھی!
آپ کے یہاں درس گاہ کے کچھ اصول وآداب بھی ہوتے، جنہیں آغازِ سال میں ہی بتادیتے،اورجن پرکاربند رہنے کی تلقین کرتے۔‌مثلاً(1)”ہرطالبِ علم میری آمدسے قبل درس گاہ حاضر ہوجائے، اپنی نشست گاہ محفوظ کرلے،اطمینان ووقار سے بیٹھ جائے،میری آمدکے بعد کسی طالبِ علم کادرس گاہ میں آناجُرم ہے،یوں نہ ہوکہ میں سبق شروع کروں اورکچھ طلبہ اِس رُخ سے آئیں اورکچھ اُس جانب سے،اس سے ذہنی انتشارہوتاہے۔”۔چناں چہ اگرکبھی کوئی طالبِ علم آپ کی تشریف آوری کے بعد حاضرِ درس ہوتا،توآپ برافروختہ ہوجاتے ،اوراسے فورًا درس گاہ سے نکال باہر فرماتے،اورکہتے:”ظالم !چل چلاجا،تیرے بغیربھی سبق ہوجائے گا”۔یاکبھی درس گاہ کاکوئی گوشہ خالی نظرآتا،توآپ غضب آلود درس گاہ سے تشریف لےجاتے،اورخاص طور سے ترجمان سے جواب طلب فرماتے۔
ہمارے سال بھی دومرتبہ یہ صورت پیش آئی،توآپ ناراض ہوکراپنے مخصوص لب ولہجہ میں فرمانے لگے کہ:”میں تپائیوں کوپڑھانے نہیں آتا،تم آؤگے،پڑھاؤں گا،نہیں آؤگے ،نہیں پڑھاؤں گامجھے بخاری پڑھانے کا شوق نہیں، میرایہ شوق بہت پہلے پوراہوچکاہے،میں نے آج سے تیس سال قبل کیمپ کے زمانے میں اِسی دارالعلوم میں بخاری پڑھائی ہے”اورلوٹتے ہوئے ایک مرتبہ پھرکہنے لگے :ظالمو!اگرتمہیں پڑھنے کاشوق نہیں ،تو ہمارے پڑھانے کاشوق بھی پوراہوچکاہے۔یہ مرحلہ طلبہ کے لیے نہایت باعثِ تشویش ہوتا،چناں چہ ترجمان اورچند وفاکیش طلبہ عصر بعدسہمے سہمے آپ کے دولت کَدہ پرحاضرہوتے،غلطی پرندامت کااظہارکرتے،معافی چاہتے،آئندہ پابندی سے حاضرہونے کاعہد کرتے،توآپ چندتنبیہی جملے ارشاد فرماکرمعاف کردیتے ،اوراگلے دن سبق کے لیے تشریف لاتے۔
آپ کی اس سرزنش کافائدہ یہ ہوتاکہ طلبہ کی طرف سے بھی حتی الوسع یہ کوشش ہوتی کہ وقت سے پہلے پابندی سے درس گاہ میں موجودرہیں۔آپ کایہ سبق آمیزرُوٹھنااورطلبہ کامَناکرلاناقریب ہرسال ہوتا،بلکہ بعض مرتبہ سال میں دوتین مرتبہ ہوجاتا،جو سبق کی تئیں آپ کی فکرمندی کی درخشندہ دلیل ہے۔(2)سبق کے دوران کوئی طالبِ علم سوال نہ کرے،اس سے سبق کاتسلسل ختم ہوتاہے،ذہنی انتشارپیداہوتاہے۔آج کے سبق سے متعلق کوئی سوال ہو،تواسے ورقے پر لکھ کر ترجمان کے پاس جمع کرے،میں آج ہی سبق کے آخرمیں یاپھرکل اس کاجواب دوں گا۔کوئی طالب علم سبق کے علاوہ کوئی فقہی سوال نہ کرے ،یہ دارالحدیث ہے ،دارالافتاء نہیں۔اگرپوچھناہی ہے،توعصر بعد گھر کی مجلس میں دریافت کرے۔
گذشتہ اسباق کے سلسلے میں کوئی سوال ہو،یاسبق کے علاوہ کوئی علمی سوال ہو،تووہ بھی درس گاہ میں نہ کرے ،بلکہ گھر کی مجلس میں معلوم کرے۔
آپ فرماتے کہ: ان صورتوں میں درس میں جواب نہ دینے اور گھرپربلانے کے دوفائدے ہیں:ایک یہ کہ سبق کی رفتار متاثر نہ ہواوردوسرے یہ کہ تمہارے مبلغِ شوق کا ہمیں علم ہو۔یہ سارے اصول آپ ایک ایک کرکے بہت واضح انداز میں بتاتے،اورترجمان کوتاکیدفرماتے کہ: ان اصولوں کے خلاف کوئی سوال ہو،تووہ مجھے پیش نہ کرے۔۔۔۔۔۔آپ فرماتے کہ درس کے نظام کوخوبصورت اورنفع بخش بنانے کے لیے یہ اصول ضروری ہیں۔پھرحسبِ وعدہ کبھی آغازِ درس سے پہلے اورکبھی اختتامِ درس کے بعدسارے سوالوں کا ایک کرکے تشفی بخش جواب دیتے۔جن طلبہ کاسوال معنی آفریں اورباوزن ہوتا،ان کی حوصلہ افزائی فرماتے، اور اگربعض اوقات سوال مہمل وغیرمعنی خیز ہوتا،یاسوال طالبِ علم کی بے توجہی کا غمّاز ہوتا،تواسے بلندآواز سے پڑھنے کے بعد تنبیہ فرماتے ، یاکبھی تنبیہًامسکراتے ہوئےاسے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے،پھونک کرہوامیں اُڑادیتے ،اورفرماتے کہ :لو!یہ رہا اِس کاجواب۔
‌حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کے درس میں ارشاد ونصیحت کی لُطف آفرینیاں اورطلبہ کی صورت حال پر دردروکرب کی دل فگاریاں بھی ہوتیں،‌چناں چہ موقع بہ موقع انذار وتبشير بھی فرماتے رہتے، آپ کی نصیحتیں بے حدچشم کُشا ہوتیں،جن کی چند جھلکیاں یہ ہیں:‌آپ کہاکرتے: "جب سے طلبہ کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ ہم فاضل ہوگئے ،ان کی علمی ترقی رک گئی،اس لفظِ فاضل نےان کاناس پیٹ دیا،ارے بھائی!فاضل توکوڑاکرکٹ کو کہتے ہیں۔فاضل من الفضیلة بننے کے لیے پوری زندگی محنت شرط ہے”۔
‌آپ کہاکرتے:”ہم تمہیں عالم نہیں بناتے ہیں،بلکہ عالم بننے کی راہ پرڈال دیتے ہیں،اب عالم بنو۔
آپ کہاکرتے:”فراغت کے بعد علمی مشغلہ جاری رکھوگے،اورذہین ہوتو 10/سال بعد،متوسط ہوتو15/سال بعد اورکندذہن ہوتو30/سال بعدعلم آناشروع ہوگا”۔
آپ کہاکرتے:”طلبہ دوطرح کے ہیں:ایک جواپنے لیے پڑھتے ہیں،اورایک جوماں باپ کے لیے پڑھتے،جواپنے لیے پڑھتے ہیں،وہ واقعی پڑھتے ہیں،اورجوماں باپ کے لیے پڑھنےمدرسوں میں آتے ہیں،وہ پڑھتےنہیں،بلکہ پَڑتے ہیں،یعنی پَرے رہتے ہیں،اس لیے اپنی خوش دلی سے پڑھو،ماں باپ کے دباؤسے نہیں”۔ آپ کےان جملوں نے نہ جانےکتنے بدشوق طلبہ کی زندگیاں تبدیل کردی ہیں۔
*جن کے کردارسے آتی ہوصداقت کی مہک*
*ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں*
ایک بہت نمایاں امتیاز ۔۔۔ جوموجودہ دور میں شاذونادر ہی کہیں نظرآتاہے ۔۔ یہ تھاکہ آپ کے یہاں پورے سال سبق کاایک ہی نہج ہوتا،آپ سردًااورروايةً پڑھانے کے قائل نہ تھے ،ہرہرحدیث پرکچھ نہ کچھ کلام ضرور فرماتے ،معرکة الآراء مسائل پرسیرحاصل گفتگو کرتے،ورنہ ہرحدیث پر ضروری کلام ضرور فرماتے،اگرکسی روایت پرکلام ہوچکاہوتا،اوروہ روایت دوبارہ آتی ،توفرماتے کہ:اس پرکلام ہوچکا ہے،یوں بالکل خوش رفتاری کے ساتھ کتاب اپنی آخری منزل پرپراؤڈالتی،تعلیمی دنوں میں سفرکی عادت نہیں،اورسبق بھی امتحانِ سالانہ سے بالکل قریب بند ،اس لیے کتاب ختم ہونے میں کوئی دشواری درپیش نہ ہوتی۔‌المختصر!ان جیسی بے شماراعلی خصوصیتوں ،مستحکم اصولوں،نرالی اداؤں،انقلاب آفریں نصیحتوں نے آپ کو ایوانِ تدریس کا ہردلعزیز بادشاہ اورمیدانِ تفہیم کامشّاق شہ سواربنادیاتھا۔طلبہ کے درمیان آپ کی حیثیت ایک شمعِ فروزاں کی تھی ،جس پرشوقین وبدشوق تمام طلبہ پروانوں کی طرح ٹوٹ پڑتے،ایک چشمۂ شیریں کی تھی،جس پرمحنتی وغیرمحنتی تمام طلبہ پیاسوں کی طرح امنڈپڑتے، المختصر! فنِّ تدریس میں آپ ایک مقناطیسی حیثیت کے مالک تھے ،جس کی طرف ہرکوئی آہن ریزوں کی طرح کھنچتاچلاآتا۔

*ہیں اوربھی دنیامیں سخن وَر بہت اچھے*

*کہتے ہیں کہ غالب کاہے اندازِ بیاں اور*

حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ صرف استاد ہی نہیں،استادگر تھے،نہ جانے کتنے تلامذہ حسبِ ظرف آپ کےطرزِ تفہیم کواپناکرکامیاب مدرس ہوگئے،جن کی روشن مثالیں ملک میں پھیلے مدارس وجامعات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

*یہ بھی اعجاز ہے آپ کے نطق کا*
*بے زبانوں کوطرزِ کلام آگیا*

بڑے خوش نصیب ہیں وہ علماء اورطلبہ جنہیں اس شہنشاہِ تدریس محدّث کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کرنے کاموقع ملا۔

*آنے والی نسلیں تم پرفخر کریں گی ہم عصرو!*

*جب بھی ان کودھیان آئے گاتم نے فراق کو دیکھاہے*

آہ! 25/رمضان المبارک 441ھ صبح کی ابتدائی ساعتوں میں اس آبروئے تدریس فخرِ ملک وملت نے زندگی کی آخری ہچکی لے لی اوراپنے تمام اعلی قدروں کے ساتھ رب کے حضور حاضر ہوگیا۔
اب بخاری پڑھانے کے لیے کس کولائیں اورکہاں سے لائیں،کتابیں پڑھانے والے بہت ہیں ،مگردل میں اتارنے والاکوئی نہیں۔

*اب کہاں جاؤں،کدھردیکھوں،كسے آوازدوں*

*اے ہجومِ نامرادی جی بہت گھبرائے ہے*

‌ اللہ جلّ شانہ ان کی پاک روح پررحمتوں کی موسلادھاربارش فرمائے،جوارِ رحمت میں فروکش فرمائے،مادرِ علمی کوان کا نعم البدل نصیب فرمائے،جملہ سوگواروں کوحوصلہ دے اورہمیں ان کے تابندہ نقوش پرچلنے کی توفیق عطافرمائے ۔

آمین یاالٰه العالمين

*مثلِ ايوانِ سحَرمرقد فروزاں ہوترا*

*نُورسے معموریہ خاکی شَبِسْتاں ہوترا*

Comments are closed.