اردو جریدہ کا کلیم عاجزؔ نمبر: ایک جائزہ

کامران غنی صباؔ
اسسٹنٹ پروفیسر، نتیشور کالج، مظفرپور
بہار یونیورسٹی مظفرپور کا شعبۂ اردواپنی فعالیت کی وجہ سے ہمیشہ مشہور رہا ہے۔ اس شعبہ کوہرزمانے میں قابل اساتذہ کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ شعبہ میں وقتاً فوقتاً علمی و ادبی تقریبات کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔ شعبہ سے وابستہ اساتذہ نے تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ابھی حال ہی میں شعبۂ اردو سے شائع ہونے والے اردو جریدہ کا ’’کلیم عاجز‘‘نمبر منظر عام پر آیا ہے۔اس شمارہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف انہی مضامین کو شامل کیا گیا ہے جو مضامین 2018ء میں شعبہ میں منعقد کیے گئے کلیم عاجز سمینار میں پڑھ گئے تھے۔اس خصوصی شمار ہ کی ایک اور خاص بات اس کا سب سے پہلا مضمون ہے۔یہ مضمون پروفیسر عبدالواسع کا ہے جس کا عنوان ہے ’’ شعبۂ اردو اور اساتذہ ٔ کرام بہار یونیورسٹی کی خدمات‘‘۔ اس مضمون میں بہار یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی پوری تاریخ سمیٹ دی گئی ہے۔ پروفیسر عبدالواسع نے اپنے اس مضمون میں نہ صرف شعبہ کی تاریخ رقم کی ہے بلکہ شعبہ سے وابستہ اساتذہ (قدیم و جدید) کا اجمالی تعارف پیش کر کے اسے دستاویزی حیثیت عطا کر دی ہے۔
اس خصوصی شمارہ میں پروفیسر توقیر عالم( سابق صدر شعبہ اردو بہار یونیورسٹی و سابق پرو وائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی، پٹنہ) کے دو مضامین شامل ہیں۔ پہلے مضمون کا عنوان ہے ’’جدید کلاسک: کلیم عاجز‘‘ ۔ اس مضمون میں کلیم عاجز کی زندگی اور ان کے فن کا ایک عمومی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد کلیم عاجزؔ کی شخصیت اور ان کے فن کا ایک عمومی خاکہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ یہ مضمون طلبہ و طالبات اور عام اردو شائقین کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ پروفیسر توقیر عالم کا دوسرا مضمون کلیم عاجز کی نظم نگاری سے متعلق ہے۔مضمون کا عنوان ہے ’’کلیم عاجزؔ بحیثیت نظم نگار‘‘۔ پروفیسر توقیر عالم کا یہ مضمون اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت ہی منفرد ہے۔ کلیم عاجز کی غزل گوئی اور ان کی نثر نگاری کے مختلف گوشوں پر اہل قلم نے مختلف زایوں سے روشنی ڈالی ہے لیکن کلیم عاجز کی نظم گوئی کے حوالے باضابطہ کوئی مضمون میری معلومات کی حد تک اب تک کسے نے نہیں لکھا ہے۔ حالانکہ کلیم عاجز کے شعری سرمائے میں 81نظمیں بھی شامل ہیں۔کلیم عاجز کی نظموں کا اختصاص بیان کرتے ہوئے پروفیسر توقیر عالم لکھتے ہیں :
’’عاجز کی نظموں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے اسلوب کے لیے اپنے روایتی اور کلاسکی مزاج کے ساتھ ایک معتدل رکھ رکھائو والی تہذیب کو پیش نظر رکھتے ہیں۔‘‘
پروفیسر نجم الہدی (سابق صدر شعبۂ اردو بہار یونیورسٹی) نے اپنے مضمون ’’کلیم عاجز: میرے ہم جماعت، میرے ہم جلیس‘‘ میں کلیم عاجز سے متعلق کئی اہم یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر نجم الہدی صاحب کلیم عاجز مرحوم کے ہم جماعت رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ان کا یہ مضمون زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ انہوں نے کلیم عاجز مرحوم کو ان کی طالب علمی کے زمانے سے لے کر آخری وقت تک بہت قریب سے دیکھا۔
پروفیسر عبدالواسع کا مضمون’’کلیم عاجز:یادیں باتیں‘‘ بھی تاثراتی نوعیت کا ہے۔کلیم عاجز مرحوم کے متعلق ان کی اس رائے سے کوئی صاحب نظر انکار نہیں کر سکتا کہ:
’’کلیم عاجز کو جیسا میں نے دیکھا اور پایا تو احساس ہوا کہ انہوں نے درویشانہ زندگی گزاری۔ نہ کوئی شان و شوکت، نہ علم کا غرور بلکہ انکسارو عاجزی کے پیکر تھے۔ زبان سے دعائوں کا ورد کرتے رہتے تھے۔ بہت ممکن ہے کہ ان کا دل بھی ذکرِ الٰہی میں محو ہو بلکہ ذاکر ہو گیا ہو۔ کہاں ملتے ہیں ایسے دیدہ ور لوگ۔ وہ اپنے میں ایک دبستان تھے۔‘‘
پروفیسر فاروق احمد صدیقی (سابق صدر شعبہ اردو بہار یونیورسٹی) نے اپنے مضمون بعنوان ’’ کلیم عاجز کا ایک شعر‘‘ میں کلیم عاجز کے اس مشہور شعرپر گفتگو کی ہے ؎
رکھنا ہے کہیں پائوں تو رکھو ہو کہیں پائوں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
پروفیسر فاروق احمد صدیقی کا شمار قابل اور تجربہ کار اساتذہ میں ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس شعر کے حوالے سے بھی انہوں نے بہترین نکات پیش کیے ہیں اس کے باوجود تشریح کے اختصار سے تشنگی کا احساس باقی رہ جاتا ہے۔کلیم عاجز کا کلام ایسے تہ دار اور طرحدار اشعار سے بھرا پڑا ہے۔مضمون میں اگر اس نوعیت کے کچھ اشعار پیش کر دئیے جاتے تو تشریح کا حسن دوبالا ہو سکتا تھا۔
کلیم عاجز جتنے اچھے شاعر تھے، اتنے ہی اچھے نثر نگار بھی تھے۔پروفیسر ممتاز احمد خاں نے اپنے مضمون ’’کلیم عاجز کا اسلوبِ نثر‘‘ میں کلیم عاجز کے نثری اسلوب کا جائزہ لیا ہے۔ڈاکٹر نبی احمد کے مضمون میں کلیم عاجز کی شاعری میں سماجی شعور کو تلاشنے کی کوشش کی گئی ہے۔ڈاکٹر منظر حسین (رانچی یونیورسٹی) نے اپنے مضمون میں کلیم عاجز کی غزلیہ شاعری کے اختصاص کو موضوع بنایا ہے۔
ڈاکٹر ہمایوں اشرف(ونوبابھاوے یونیورسٹی، ہزاری باغ) نے کلیم عاجز کے سفرناموں کو اپنے مقالے کا موضوع بنایا ہے۔اس مقالے میں کلیم عاجز مرحوم کے مکہ، مدینہ اور امریکہ کے سفرناموں کی روشنی میں ان کے نثری اسلوب کو اجگار کیا گیا ہے۔سفرنامہ ادب میں ایک الگ صنف کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر ہمایوں اشرف کے مضمون سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کلیم عاجز ایک بہترین سفرنامہ نگار بھی تھے۔
ڈاکٹر سید آل ظفر کا مضمون ’’کلیم عاجز کی غزلوں میں عصری حسیت کے عناصر‘‘ مختصر ہونے کے باوجود اہم ہے۔ڈاکٹر آل ظفر نے عاجزؔ مرحوم کے متعلق درست لکھا ہے کہ:
’’۔۔۔۔۔ اپنی طویل زندگی کے سفر میں انہوں نے جن ہوش ربا حادثات اور خونچکاں سانحات کو دیکھا، ان کو انہوں نے بڑی دل سوزی اور فنی چاپکدستی کے ساتھ اپنی غزل میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ان کی غزلیں اپنے عہد کی سیاسی اور سماجی تاریخ بن گئی ہیں۔‘‘
’اردو جریدہ ‘میں ریسرچ اسکالرز کے مقالوں کو بھی جگہ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔اس خصوصی اردو جریدہ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہیں رکھی گئی ہے۔کلیم عاجز ؔ سے منسوب اس دستاویزی نمبر کی حصولیابی کے لیے پروفیسر توقیر عالم سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Comments are closed.