سوگ منانا بند کرو بس حوصلوں کو بلند رکھو

امام علی مقصود شیخ فلاحی
متعلم : جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
چھ دسمبر 1992 کو جب شر پسندوں نے ایک شرارتی منصوبے کے تحت ہزاروں سال پرانی عبادت گاہ یعنی بابری مسجد کو شہادت کے سایہ میں سلا دیا تو اس وقت عدالت عظمٰی نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ ‘بابری مسجد پر یہ حملہ صرف بابری مسجد پر ہی نہیں تھا بلکہ یہ قانون کی بالا دستی پر اور آئین پر حملہ تھا، اور اس وقت سپریم کورٹ نے اس حملے کو کھلی غنڈہ کردی بھی قرار دیا تھا، اور جب آج زمانہ بیت گیا اور 28 سال گذر گئے تو وہی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کو بدل کر رام مندر کو سپورٹ کیا۔
مسجد کے تمام شواہدات کو پس پشت رکھتے ہوئے رام جنم بھومی کے حق میں فیصلہ دیا، جو کہ ایک نہایت گھٹیا اور قابل باز پرس فیصلہ تھا۔
بہر حال جب چھ دسمبر تھا تو لوگوں نے بابری مسجد کو گھیرا تھا، عجب کا ماحول تھا، آسمان پر بھی سکتہ تھا، افرا تفری ہو رہی تھی، نعرے بازی ہورہی تھی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ماحول گرم ہوا اور ایک جھڑپ سی دکھائی دی، تقریباً ساڑھے دس بجے ایک ہلچل مچی پھر سینکڑوں دشمن مسجد کی جانب بھاگے اور یہ صدا بلند کی کہ ‘ایک دھکا اور دو بابری مسجد توڑ دو’ پھر کیا تھا کوئی درخت پر رسی پھینک کر اور کوئی دیوار چھلانگ کر مسجد کے مینار پر جا بیٹھا اور کدالوں سے مسجد کو شہادت کے سایہ میں پہنچا دیا۔
قارئین! یہی وہ دن و مہینہ ہے جس میں مسجد کو مسمار کیا گیا، یہی وہ دن ہے جس دن مسلمان خون کے آنسوں رو رہے تھے ، یہی وہ دن ہے جس دن مسلمان اپنے گھروں کی کھڑکیوں سے مسجد کا دیدار کر رہے تھے ، اور وہیں کھڑے کھڑے خون کے آنسوں بہا رہے تھے، کیونکہ کہ اس وقت انکا کوئی پرسان حال نہیں تھا، انکا کوئی بہتر لیڈر نہیں تھا، جو ان غنڈوں کے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اور وقت کے حکمرانوں کو مجبور کراکر، اپنے شواہدات کو انکے سامنے پھینک کر بابری مسجد کو انکے چنگل سے نکال کر آزاد کراتا۔
قارئین! آج پھر وہی دن و مہینہ ہمارے روبرو ہے ، جو بابری مسجد کی یاد دلاتا ھے، مسجد میں پڑھنے والی نمازوں کی خواب دکھاتا ہے، یہی وہ دن ہے جو مسجد کے میناروں سے بلند ہونے والی اذانوں کو یاد دلاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری خوشیوں کو زوال آجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہر چھ دسمبر کو مسلمان کالا دن مناتا ہے، غموں کا دن مناتا ہے۔
لیکن میرا دل یہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان سوگ منانا چھوڑ دیں ، ہمتوں کو ساتھ لیں اور حوصلوں کو بلند رکھیں تو وہ دن دور نہیں کہ پھر وہ دن آجائے اور دوبارہ مسلمانوں کو وہ دن نصیب ہو جائے کہ مسلمان پھر سے اس مسجد کا دیدار کریں، اسکی اذانوں سے مست ہوکر مسجد کو روانہ ہوں، پھر پنج گانہ ادا کریں ، عید الفطر و عید الاضحی کی نمازیں پڑھیں اور سب مل کر خوشی منائیں۔
کب تک یہ سوگ مناتے رہیں گے، اب جاگنے کا وقت ہے، اب سوگ منانا ختم کرو، یہ زمین تو ہماری تھی، سارے ثبوت و شہود ہمارے ہی حق میں تھے اور اس پر ابھی بھی ہمارا ہی حق ہے، اور حق ایسی چیز ہے کہ اسے چھین کر بھی لیا جاسکتا ہے، اس لئے اب ہمیں لڑنا ہوگا، اور یہ لڑائی تا قیامت چلتی رہے گی جب تک وہ اس زمین پر دوبارہ مسجد کی تعمیر نہ ہوجائے۔
ارے ذرا اس مسجد کو یاد کرو جس کی تم طواف کرتے ہو جسکی تعمیر بھی اللہ کی عبادت کے لیے کی گئی تھی، صدیوں تک اس کی یہی حیثیت باقی رہی لیکن پھر اس کے اطراف میں رہنے والے آہستہ آہستہ بتوں کی پرستش کرنے لگے _ انھوں نے توحید کے مرکز کو بتوں کا اڈّہ بنا دیا _ لات ، عُزّہ ، مناۃ ، ہُبُل اور نہ جانے کن کن ناموں سے بہت سے بت بنا ڈالے _ وہ ان کے آگے اپنی جبینِ نیاز ٹیکتے ، ان کو مشکل کشا سمجھتے ، ان سے حاجت روائی چاہتے ، ان سے فریاد کرتے اور ان کی دہائی دیتے ، کہا جاتا ہے کہ خانۂ کعبہ میں تین سو ساٹھ (360) بت رکھے ہوئے تھے۔
لیکن ایک دن‌ ایسا آیا کہ اس دھرتی پر اللہ نے جلوہ عام‌ کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تو خانۂ کعبہ اسی طرح بت خانہ بنا ہوا تھا ، آپ نے توحید کا پیغام پیش کیا اور شرک اور بت پرستی پر سخت ترین تنقید کی ، لیکن خانۂ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں سے کوئی تعرّض نہ کیا ، بت پوجنے والے حرم میں آکر بت پوجتے رہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ پر ایمان لانے والے حرم میں آکر اللہ واحد کا کلمہ بلند کرتے رہے ، سعید روحیں آپ کی طرف کھنچتی رہیں ، آپ پر ایمان لاتی رہیں ، بت پرستی سے توبہ کرتی رہیں اور توحید کا عَلَم تھامتی رہیں ، اسلام کے دشمن اہلِ ایمان کو ہر ممکن اذیتیں پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ، لیکن اہلِ ایمان صبر کا دامن تھامے رہے ، بالآخر انہیں اپنا ایمان بچانے کے لیے اپنا وطن چھوڑنا پڑا ، وہاں بھی دشمنوں نے انہیں چین سے رہنے نہیں دیا ، کئی جنگیں ہوئیں ، لیکن ایک وقت ایسا آیا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اہل ایمان کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے ، اقتدار پر قابض ہونے کے بعد آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ خانۂ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا، کتب سیرت میں ہے کہ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی ، آپ اس کے ذریعے ایک ایک بت کو ٹھوکا دے کر گراتے جاتے تھے اور اس وقت آپ کی زبانِ مبارک پر یہ آیت جاری تھی : جَآءَ الۡحَـقُّ وَزَهَقَ الۡبَاطِلُ‌ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ كَانَ زَهُوۡقًا (الاسراء:81)
’’حق آ گیا اور باطل مٹ گیا ، باطل تو مٹنے ہی والا ہے ۔‘‘
آج ٹھیک وہی حالت ہماری ہے، ہماری مسجد کو مندر میں تبدیل کیا جارہا ہے، ہمیں نکالنے کی سازش رچی جارہی ہے، ہمارے خلاف خفیہ منصوبے بنائے جارہے ہیں، ہمارے مذہب میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں، اس لئے ہمیں بھی ہمارے حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طر مایوس نہیں ہونا ہے بلکہ انہیں کی طرح اپنے حوصلوں کو بلند رکھنا ہے کہ انشاءاللہ ایک دن وہ ضرور آئے گا کہ حکومت ہماری ہوگی، اللہ ہمیں بھی فائز کرے گا اور وہ دن بھی آے گا وہ اسی بت خانے کو پھر مسجد کی شکل میں بدلا جائے گا۔
ارے تمہیں وہ دن یاد نہیں رہا کہ جب ہم نے قیصر وکسریٰ کی عظیم الشان سلطنتوں کو روند ڈالا تھا‘ ساری دنیا پر اپنی عظمت ورفعت کے پرچم لہرائے تھے اور اپنے تمدن وتہذیب کا سکہ رواں کیا تھا۔
کیا وہ وقت بھول گئے کہ جب سندھ میں راجہ داہر کے زیر نگیں علاقے میں بحری قزاقوں نے مسلمانوں پر جبر وظلم کیا تھا تو ایک مسلمان عورت نے ہزاروں میل دور حجاج بن یوسف کو مدد کے لیے پکارا تھا اور یہ پکار اور فریاد جب حجاج کے علم میں آئی تو اسی وقت اس نے لبیک کہا اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک لشکر جرار روانہ کر دیا جس نے آکر سندھ اور ہند میں اسلامی فتوحات کا دروازہ کھولا۔
ارے جس نے سارے ہند کو ہلا کر رکھ دیا جبکہ وہ اکیلا تھا تو کیا بیس کروڑ مسلمان مل کر اپنے حق کو نہیں چھین سکتے، یقیناً چھین سکتے، بس صرف اللہ پر توکل اور حوصلوں کو بلند رکھنا ہوگا۔

تجھے بلندی کو چھونا ہے دیر نہ کر آغاز کر
پر پھیلا کر سب اڑتے ہیں تو حوصلوں سے پرواز کر

Comments are closed.