بگ بینگ اورڈارون

سمیع اللہ ملک
کسی منکرخداسے سوال کیجیے کہ بھائی یہ آپ کی ناک آپ کے چہرے پرکیوں واقع ہے؟نظریہ ارتقاکے اعتبارسے ایساکیوں نہ ہواکہ آپ کی یہ ناک مبارک آپ کے پیٹ یاگھٹنے پرنکل آتی؟یہ ہی کیوں ضروری تھاکہ اس کاوجودعین آپ کی آنکھوں کے نیچے اورمنہ کے اپریعنی ان دونوں کے درمیان واقع ہو؟ اس سوال کاجواب اس حقیقت کے سوااورکچھ نہیں ہے کہ یہ دراصل ایک ’’ذہانت بھرے ڈیزائن‘‘کانتیجہ ہے.ہم آنکھوں سے کسی شے کاجائزہ لیتے ہیں پھرناک سے اسے سونگھ کرمزیدجانتے ہیں اورپھر اگراسے کھانے کے لائق پائیں تومنہ سے اسے چکھتے ہیں یاکھاجاتے ہیں.یہ خوبصورت،ذہانت بھراڈیزائن’’ایک ایسی ذہین ہستی‘‘ کے وجود کاواشگاف اعلان کررہاہے جس نے اسے سوچ سمجھ کروجود بخشاہے’’لقدخلقناالِنسان فِی حسنِ تقوِیم۔۔۔۔۔۔۔۔کہ ہم نے انسان کوبہت اچھی صورت میں پیداکیاہے۔ بس وہی خدا ہے۔
گلاس کوزمین یادیوارپردے ماریں،وہ دہماکے سے کرچی کرچی ہوکرزمین پربکھرجائے گا۔آپ ایساایک بارکیجیے یاہزاردفعہ، نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں ہی نکلے گا۔ایساممکن نہیں ہے کہ وہ گلاس خودبخودٹوٹ کرپلیٹ یاچمچوں کاروپ دھارلے۔ایسا توصرف اسی صورت ممکن ہے جب اس دھماکے کے پیچھے کوئی ذہانت یاصاحب عقل ہوجواسے منظم کرکے اس کی صورت گری کرے۔یہ ہماراروزکامشاہدہ ہے کہ دھماکے کانتیجہ ہمیشہ تخریب کی صورت میں نکلتاہے،اس کے ذریعے خودبخودترتیب و تعمیرممکن نہیں ہوسکتی۔پھریہ کیسے ہوسکتاہے کہ آج سے کروڑوں سال قبل ’’بگ بینگ‘‘ نامی ایک دھماکہ ہوجس سے ہماری یہ عظیم الشان کائنات اوراس کاناقابل یقین نظم خودبخودوجودمیں آگیاہو؟لازم ہے کہ اس عظیم دھماکے کے پیچھے بھی ایک عظیم تر ذہانت موجودہو۔قران اورسائنس دونوں بگ بینگ کے نظریے کی تائیدکرتے نظرآتے ہیں مگرکسی منکرخدااورمومن میں فرق یہ ہے کہ ایک فریق اندھے بہرے مجنون مادے کی خدائی کوتسلیم کرتاہے اوردوسرافریق برترذہانت والے مسبب الاسباب اللہ کے نظریے کومانتاہے۔ملحدکادعوی یہ ہوتاہے کہ گلاس ٹوٹ کرخود بخود ڈنرسیٹ بن سکتاہے جبکہ مومن کہتاہے کہ گلاس کوڈنرسیٹ بنانے کیلئے ذہانت درکارہے۔
ایک تجربے کے طورپرسیاہی کوکسی بھی سادہ کاغذپربکھیردیجیے،یہی عمل آپ ہزاردفعہ دوہرائیں،ممکن ہے کہ ہربارایک بھدا سانشان پڑجائے۔یہ بھی امکان ہے کہ کسی وقت ایک جاذب نظرنقش ابھرآئے،جیسے کوئی ایبسٹریکٹ آرٹ کانمونہ مگراس بات کا سرے سے کوئی امکان نہیں کہ اس سیاہی کوبکھیرنے سے کوئی تحریروجودمیں آجائے۔یہ نہیں ہوسکتاکہ محض سیاہی کوپھینکنے سے کسی زبان کامضمون تشکیل پاجائے۔ثابت ہواکہ امکانی یاحادثاتی قسمت سے یہ توپھرشائدکسی کمتردرجے میں ممکن ہوکہ ایک دلکش نقش دکھائی دینے لگے مگریہ ناقابل یقین ہے کہ کسی حادثے یااتفاق کے نتیجے میں ایک تحریریامعلومات پیداہوسکیں۔اب ذرا اس سائنسی حقیقت پرغورکریں کہ ہماراجسم جن لاکھوں کروڑوں خلیات پرمبنی ہے، ان میں سے ہرخلیہ اپنے اندرایک معلومات کی ضحیم کتاب رکھتاہے،جس میں یہ درج ہوتاہے کہ وہ انسان کیارنگ رکھے گا؟کیا رویہ اپنائے گا؟اس کے خدوخال کیسے ہوں گے؟ وغیرہ ۔ جس طرح انسانوں نے کمپیوٹرکیلئے مختلف کوڈایجادکررکھے ہیں،اسی طرح ہمارے ان خلیات میں ہمارے خالق نے ایسے کوڈ قدرتی طورپرڈال رکھے ہیں جوآپس میں نہ صرف گفتگوکرتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے مختلف جسمانی حرکات انجام دیتے ہیں۔ سائنسدان اس طرح کے کوڈکو’’ڈی این اے‘‘کوڈ کے نام سے تعبیرکرتے ہیں۔ سمجھنے والوں کیلئے یہ ایک واضح نشانی ہے کہ اس ذہین ترین نظام کو چلانے والی ایک برتر ذہانت موجود ہے ۔
ایک سوال اورذہن پردستک دیتاہے وہ یہ ہے کہ کیامحض اجزاکی کیمیائی ترکیب سے ایک عاقل،ذہین اورباشعوروجودکابن جانا ممکن ہے؟اگرکوئی کہتاہے کہ ہاں ممکن ہے توایسا کیوں نہیں ہوتاکہ ہم مردہ انسانی اجزاکوآپس میں جوڑکرایک جیتاجاگتاعاقل وجودکھڑاکردیں؟ہمارامعاملہ تویہ ہے کہ باوجودتمام ترعلمی دریافتوں کے،ہم ایک باشعوروجو دتو درکنار محض زندگی پیداکردینے سے بھی قاصرہیں۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسان نے خودبیشمارتخلیقات کی ہیں،جن میں بہت سی تخلیقات ذہین بھی ہیں جیسے کمپیوٹریاروبوٹ وغیرہ مگران تمام ذہین تخلیقات میں جوقدرمشترک ہے وہ یہ ہے کہ کسی تخلیق کوذہین بنانے کیلئے اس میں ذہانت باہرسے ڈالنی پڑتی ہے،یہ اندرسے نہیں پھوٹتی۔دوسرے لفظوں میں ذہانت کی اپنی جداگانہ حیثیت ہے اوریہ صرف اجزاکی ترتیب سے ازخودحاصل نہیں ہوسکتی۔کمپیوٹرکی مثال لیجنے،آپ اس کے بیرونی اوراندرونی اجزاکوجوڑکراسے میکانکی حرکت میں تو لاسکتے ہیں مگراس میں ذہانت ڈالنے کیلئے آپ کولازمی ایک جداسافٹ وئیرکوانسٹال کرنے کی ضرورت ہوگی۔محض ہارڈوئیرکو ترتیب دے لینے سے یااس میں برقی توانائی کے بہاسے آپ’’ذہانت‘‘نہیں پیداکرسکتے۔انسانی جسم کی ترتیب کابھی یہی معاملہ ہے ،آپ حدسے حدجسمانی وکیمیائی اجزاکوہارڈوئیرکی طرح یکجاکرسکتے ہیں مگراس میں ذہانت پیداکرنے کیلئے لازم ہے کہ نفس (سول)نام کاسافٹ وئیرمنطبق کیاجائے۔اس کے علاوہ کسی اوررائے کااظہارمحض حقیقت سے فرارہے۔کمپیوٹرایک ذہین تخلیق ہے اوروہ اپنے وجودسے یہ منادی کررہی ہے کہ میراتخلیق کارانسان ایک عظیم ترذہانت کامالک ہے،تویہ کیسے ممکن ہے کہ انسان نامی یہ زہین مخلوق بناکسی خالق کے خودبخودوجودپاجائے؟ اس لئے یہ ثابت ہوگیاکہ ’’بگ بینگ‘‘تھیوری اورڈارون تھیوری کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ میرے رب کی وہ نشانیاں ہیں جن میں عقل مندوںکوغوروفکرکی دعوت دی گئی ہے:
٭ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ اسے تم دیکھ رہے ہو ( الرعد2)
٭ اسی ( اللہ )نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا تم انہیں دیکھ رہے ہو ( لقمان10)
٭کیا اللہ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ (ابراہیم10)
Comments are closed.