میرادل بدل دے

عبدالرافع رسول
معروف مبلغ اور مدحت رسول میں رطب ا للسان رہنے والے جنید جمشید کوہم سے بچھڑے آج4برس بیت گئے ہیں۔جنید جمشید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ انہوں نے پاپ موسیقی گروپ وائٹل سائنز کے نمائندہ گلوکار کی حیثیت سے شہرت حاصل کی ۔اس دوران انہوں نے’’ دل دل پاکستان‘‘کانغمہ گایا توپاکستان کے اس قومی نغمے نے انہیں شہرت کی لازوال بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان کاگایاہوایہ قومی نغمہ14اگست 1987کے موقع پر ریلیزہوا،ان کے اس نغمے نے پاکستان کے ملی نغموں کو نئی شناخت بخش دی۔لیکن جب انہوں نے حق کوپہچان لیاتو موسیقی گروپ وائٹل سائنزکوچھوڑدیا۔جنید جمشید نے موسیقی کو خیرباد کہہ دیااورتبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک ہوئے اورتبلیغ کے ساتھ ساتھ انہوں نے حمدوثنائے رب جلیل اور شان رسالت اقدس میںمدحت کواپناشعاربنالیاتوانکی شہرت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔
جنید جمشیدکے بدلائو،دین کے حوالے سے ان کاانشراح الصدر اورانکے اخلاص کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ انہوںنے اس وقت پاپ گلوکاری سے اپنادامن جھاڑ دیا جب کہ پوری دنیا میں اس کاڈنکابج رہاتھااورلوگ اس کے دلدادہ تھے۔اس لئے جس فیلڈ میں ان کا قیام سالوں سے تھا وہاں سے نکل پانا اوردین کواختیارکرنابادی النظر میں آسان نہیں ہوتا ، لیکن جب اللہ کسی سے اپنا کام لینا چاہتا ہے تو اس کے لئے مشکل ترین راستے ہموار ہوجاتے ہیں، جب جنید جمشید نے رباب وچنگ میںشہرت ونامور ی کو الوداع کہا تو ان کے دوستوں نے انہیں خوب جی بھر کر کوسا ، بے ذوق سمجھا ،طرح طرح کے طعنے دیئے ۔ لیکن جب جنیدکے ان طعنہ زن دوستوں نے دعوت دین میں ان کاانہماک دیکھاجوعشق ومستی کی آخری حدوں کوچھورہاتھاتوطعنہ زن دوستوں کوسبکی اٹھاناپڑی۔
تبلیغی جماعت سے وابستگی کے بعد جنیدجمشید صوم وصلوٰہ اورفضائل ذکرسمجھانے کے لئے دیس بہ دیس پہنچے۔جب انہوں نے موسیقی گروپ کوچھوڑدیاتوانہیں مختلف النوع مشکلات کاسامناکرناپڑا۔لیکن انہوں نے صبر وثبات کادامن نہیں چھوڑ ا۔جس رب العالمین نے انہیں نئی پہچان دی تواس رب نے انہیں مایوس نہیں کیااور وہ ایک معروف تاجربن گئے۔ انہوں نے (J.)برانڈکے نام سے سلے ہوئے کرتوں کاکاربارشروع کیااوراس کی شاخیں پورے پاکستان میں قائم ہوئیں۔پاکستان اوربیرون ملک ان کے برانڈ کوبے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اورانہیں بڑے بڑے آڈر مل گئے ۔جس کے بعد وہ بہت بڑے تاجراورصاحب زربن گئے ۔یعنی رب الکریم نے جنیدکااخلاص دیکھااوراس کے شروع کردہ دنیاوی بزنس میں اس قدربرکت عطاکردی کہ وہ پاکستان کے ایک ممتازبزنس مین کے طور پر ابھرا۔
یہ سنت اللہ ہے کہ وہ فرماں برداروں کوہراعلیٰ منصب کے لئے نوازتا ہے ۔جنیدجمشیدنے مصنوعی چمکتی دمکتی اور رنگین دنیا کو ایسے وقت ٹھوکر ماردی کہ جب وہ پورے حسن وجمال کے ساتھ اسکے قدموں میں آپڑی تھی،ایسے میں اسے ردکرنااوردین کوقبول کرنا کوئی معمولی مجاہدہ نہیں ہوتا ہے۔کیونکہ نفس سے معرکہ آرائی کو جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جنید جمشید نے اس معرکے کو نہ صرف سر کیا بلکہ اس پرفریب بظاہر رنگین و خوشنما بباطن متعفن و بدبوداردجالی تہذیب کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دیااوررب سے ملتجی ہوئے کہ ’’میرادل بدل دے‘‘تو ان کی پوری دل کی بستی میں ایک طوفان بپا ہوگیا اور ان کی کایاپلٹ دی، انہوں نے تاروچنگ،تائوس اوررباب کوتوڑ ڈالا اور دنیا کا ٹاپ کا گلوکار، جو اپنی مسحور کن آواز کے جادو سے ہزاروں دلوں میں رقص و مستی کا کرنٹ بھر دیا کرتا تھا، جس کی زندگی کا ایک قیمتی عرصہ گانے بجانے اور دنیا سجانے میں گزر گیا تھا ؛ لیکن جب اللہ نے انہیں توفیق حق بخشی تو اس کے بعد انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ جس روحانی سکون کی تلاش میں وہ دنیا کے تمام آلاتِ عیش آزما چکا تھا، جو قلبی طمانیت اسے بڑے بڑے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں میسر نہیں آئی تھی، وہ سکون و قرار انہیں ایک چھوٹی سی مسجد کی پھٹی پرانی چٹائی پر لیٹ کر حاصل ہوا۔
گیت اور گانے چھوڑ کر حمد و نعت گنگنانے لگا، ہاتھ میں گٹار کی جگہ تسبیح آگئی، چہرے پر پر نور داڑھی، بدن پر سنتی لباس، اس نے خود میں ایسی تبدیلی اور بلندی پیدا کی کہ دوسرے بھی اسے دیکھ کر سنورنے لگے۔
جنیدجمشید اخلاق کا غنی، محبت کا دھنی اور بہترین صفات کا حامل تھا، وہ علما ء عظام کا قدردان اور دین کا داعی تھا کل بدھ7دسمبرکو پی آئی اے کی ایک پرواز پرسوارہوکروہ چترال سے اسلام آبادآرہے تھے کہ یہ بدقسمت طیارہ ایبٹ آبادکے نذدیکی مقام حویلیاں میں گر کر تباہ ہوگیا اس میں جنید جمشید اپنی اہلیہ مسمات نہیاکے ساتھ شہیدہوااس ہوائی حادثے میں ان کے بشمول 48مسافربھی جاں بحق ہوئے ۔جنیدجمشیدکی اس اچانک حادثاتی شہادت نے انکے کروڑوں چاہنے والوں کا قرار چھین لیا، قریبی تعلق داروں کو اس خبر پر یقین کرنا دشوار ہوگیا،کروڑوں کی روتے ہوئے ہچکیاں بندھ گئی اور وہ انکی ترقی درجات اورمغفرت کے لئے گڑگڑاکر دعا کرنے لگے، پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر جنید جمشید کی شہادت کے بعد سوگواری کا منظر دیکھنے کو ملا، ہر جاننے نہ جاننے والے عمیق قلب اور زبان سے انکے کے لئے مغفرت کی دعانکل رہی تھی ۔
رسول کریم کے مبارک ارشاد کے تفہیم کاعملی طورپرنظارہ ہورہاتھا ترجمہ! کہ’’ جس نے اللہ سے لو لگا لیا ساری دنیا اس کو محبوب بنا لیتی ہے‘‘ جنید جمشید کو اتنی دعائیں کس لیے ملیں؟ کروڑوں لوگ اسے کیوں یاد کررہے ہیں؟ کیوں اس کے لیے عقیدتوں کا اظہار کیا؟ صرف اس لیے کہ اس نے للہ اور رسول سے اپنا تعلق ناطہ جوڑ لیا تھا، اپنی دنیا بدل ڈالی تھی،، یقینا مسلمانی حسب و نسب اور مسلمانی نام کالاحقہ رکھنے والے ان سمیعیوں کے لئے جنیدکی زندگی میں ایک سبق ہے کہ جومحض ناچ گانے کے لئے پاکستان سے بھارت پلیدمیں جاکرپھرپاکستان کے خلاف مغلظات بکتے ہیں۔ایسا سبق جو ان سمیعیوں کی زندگیوں میں بھی انقلاب لانے کے لیے کافی ہے، ان سمیعیوں بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جس سکون کے پیچھے وہ دن رات پاگلوں کی طرح بھاگ رہے ہیں وہ محض جنسی بے راہ روی اور عیاشی ہے اصل سکون روح کا سکون ہے جو اللہ کے دین کو اپنا کر حاصل ہوگا، پھر ایسا بھی نہیں کہ زندگی کا رخ بدلنے سے شہرت یا مقبولیت کم ہوجائے گی؛ بلکہ اگر وہ دین داری کی طرف قدم بڑھائیں تو ان کی قدر و منزلت اور بڑھ جائے گی، ابھی جو لوگ صرف ان کی دل لبھانے والی صلاحیتوں سے پیار کرتے ہیں پھر وہی لوگ ان کی ذات سے سچی محبت کرنے لگیں گے، پھر ان کے چاہنے والے صرف ایک یا چند ملکوں میں نہیں بلکہ عالم اسلام میں ہوں گے، آسمانوں پر بھی ان کی نیک نامی کے چرچے ہوں گے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا میں آنے کے مقصد کو سمجھ لیں، دنیا کی شہرت باقی رہنے والی نہیں ہے، نہ یہاں کا رتبہ پائیدار ہے، نہ یہاں کی زندگی مستقل؛ تو کیوں نہ اس دنیا اور اس زندگی کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی جائے جہاں ہمیشہ ہمیش رہنا ہے، ورنہ اگر یہ زندگی یوں ہی گزر گئی تو دنیا بھر کی شہرت خاک ہے، ہر طرح کی قابلیت موت کے جھٹکے کے ساتھ ہی دم توڑ دیگی، دعا کرنے والے بھی کشمکش میں رہیں گے۔جب جنیدبدل گیاتواپنے رب سے ملتجی ہوکریوں گویا ہوا
الہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجزوندامت ساتھ لایاہوں
بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مارڈالاہے
متاع دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹوا کر
سکونِ قلب کی دولت ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر
لٹا کر ساری پونجی غفلت و نسیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں ترے کعبے کے آنچل میں
Comments are closed.