تہذیبوں کے تصادم کوہوادینے کی سازش

سمیع اللہ ملک
نگورنوکاراباخ کے حوالے سے آذر بائیجان اورآرمینیاکے درمیان تنازع نہ تومستقل ہے اورنہ ہی قدیم دشمنی کی بنیادپرہے۔روسی سلطنت کی آمدسے قبل دونوں ریاستیں صدیوں تک پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندہ رہی ہیں۔اس وقت نگورنوکاراباخ کے حوالے سے جوتنازع دونوں ممالک کے درمیان پایاجاتاہے وہ اس وقت شروع ہواجب آرمینیاکی افواج نے آذربائیجان کی زمین پرقبضہ کیا۔آرمینیانے آذربائیجان سے اپنے تنازع کوتہذیبوں کاتصادم قراردینے کی کوشش کرتے ہوئے کرسچین کارڈکھیلنے کی کوشش کی لیکن آرمینیاکاپروپیگنڈا زیادہ کارگرثابت نہیں ہوا۔اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ اس وقت آذربائیجان اتناہی مسلم ہے جتنا ہالینڈکرسچین ہے۔اس تنازع کاتعلق کسی بھی اعتبارسے مذہبی اختلافات سے نہیں جس کی وجہ سے آرمینیاکا پروپیگنڈابری طرح دم توڑگیا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں آرمینیااورآذربائیجان کے درمیان چندمناقشے ہوئے۔ان مناقشوں ہی نے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تنازع اورکشیدگی کی راہ ہموارکی۔ یہ مناقشے1905ء سے1907ء میں شروع ہوئے اور1917ء میں کمیونسٹ انقلاب تک جاری رہے۔ جب سوویت یونین قائم ہواتوآرمینیااورآذربائیجان سوویت سوشلسٹ ری پبلک میں تبدیل ہوگئے۔1920ء کے اوائل میں آذر بائیجان کی حدودمیں آرمینیائی مسیحیوں کی اکثریت پرمبنی نگورنوکاراباخ خودمختارعلاقہ قائم کیاگیا۔کہاجاتاہے کہ سوویت
کاکیسس کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے جوزف اسٹالن نے نگورنوکاراباخ کاعلاقہ آذربائیجان کے حوالے کیاتھا۔تاریخی دستاویزات سے ثابت ہوتاہے کہ یہ علاقہ آذربائیجان ہی کاتھااوراس کی حدودمیں شامل رکھ کرکوئی نئی بات نہیں کی گئی۔
1988ء میں،یعنی سوویت یونین کی تحلیل سے تین سال قبل،کونسل نے آرمینیامیں شمولیت کے حق میں ایساغلط فیصلہ دیاجیسا 1991ء میں آزادی وخود مختاری کے نام پرکرایاجانے
والاریفرنڈم غلط تھا۔سوویت قانون کے مطابق نگورنوکاراباخ میں ریفرنڈم صرف اس نکتے پرہوسکتاتھاکہ وہ سوویت یونین میں رہے گایاآذربائیجان کاحصہ بنے گا۔آزادی کے نام پرریفرنڈم کی کوئی گنجائش تھی نہ آرمینیاکاحصہ بننے کیلئے۔سوویت یونین کی تحلیل کے بعدآرمینیااورآذربائیجان کوسوویت دورکی حدبندی کے مطابق آزادوخودمختارریاست کی حیثیت دے دی گئی۔اس کامطلب یہ ہواکہ بین الاقوامی قانون نگورنوکاراباخ کوآذربائیجان کاحصہ گردانتاہے اوروہاں تعینات آرمینیائی افواج کو قابض ہی تصورکیاجائے گا۔اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل51کے مطابق آذر بائیجان کواپنے دفاع کیلئے عسکری کارروائی کا حق حاصل ہے۔
آرمینیااورآذربائیجان کے درمیان نگورونوکاراباخ کے معاملے میں موجودہ تنازع نے اس وقت شدت اختیارکی جب سوویت یونین کی تحلیل کے وقت آرمنیاکی افواج نے آذربائیجان کی سرزمین پرچڑھائی کی،آذری شہرکھجولے کوتاراج کیااورآذری باشندوں کوبڑے پیمانے پرموت کے گھاٹ اتارا۔اس وقت بھی آرمینیائی افواج آذربائیجان کے 20 فیصدرقبے پرقابض ہیں۔1993میں اقوام متحدہ نے چارقراردادیں منظورکیں،جن میں آرمینیاسے مطالبہ کیاگیاتھاکہ وہ آذربائیجان کے علاقوں سے نکل جائیں مگرایساکچھ نہ ہوا۔ آخرکار7لاکھ80ہزارافرادکونگورونوکاراباخ کے علاقے،اس سے ملحق آذری علاقوں اورآرمینیائی علاقوں سے نقل مکانی کرناپڑی۔ اس کاردِعمل آذربائیجان میں بھی ہوا۔ آرمینیائی نسل کے کم و بیش ڈھائی لاکھ باشندوں کوآذربائیجان سے نکل کرآرمینیاجاناپڑا۔آج بھی آذربائیجان کے دارالحکومت باکو،گانجااوردیگرعلاقوں میں کم وبیش دس ہزار آرمینیائی باشندے سکونت پذیرہیں۔
آذربائیجان اورآرمینیاکے درمیان نگورونوکاراباخ کے معاملے پرمسلح مناقشے ہوتے رہے ہیں۔یہ کہانی تین عشروں پرمحیط ہے۔ جولائی2020میں نگورنوکاراباخ سے کم وبیش100کلومیٹرکے فاصلے پرآذری علاقے”تووز”کے علاقے میں دونوں ممالک کی افواج متصادم ہوئیں۔روس نے آرمینیاکوفوجی امداد فراہم کی جس سے آذربائیجان کو شدیدد کھ پہنچاکیونکہ اس نے15برس کے عرصے میں روس سے تعلقات بہتربنانے کی بہت کوشش کی تھی۔27ستمبرکوایک بارپھرلڑائی چھڑگئی اوراس بارمعاملہ تیزی سے شدت اختیارکرگیا۔روس نے جنگ بندی کرانے کی بھرپورکوشش کی،مگراب تک لڑائی بندنہیں کرائی جاسکی ہے۔
نگورونوکاراباخ کے حوالے سے جوکچھ بھی ہورہاہے اس کابنیادی طورپرآرمینیاکی اندرونی سیاست سے تعلق ہے۔آرمینیائی تارکین وطن نے ملک کی سیاست پرغیرمعمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔2018میں نکول پاشنیان آرمینیاکے وزیراعظم منتخب ہوئے۔انہوں نے انتخابی مہم کے دوران نگورونوکاراباخ کامسئلہ حل کرنے کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کیے تھے۔جب وہ انتخابی وعدوں پرعمل کرنے میں ناکام رہے تب ان پردباوبڑھنے لگا۔جب ہرطرف سے شدید تنقیدہونے لگی تب انہوں نے غیرمعمولی نوعیت کی قوم پرستی کوہوا دیناشروع کی۔ اس کے نتیجے میں نوبت ایک بارپھرآذربائیجان سے عسکری مناقشے تک جاپہنچی۔2019میں آرمینیاکے وزیردفاع ڈیوڈتونویان نے نیو یارک میں ایک آرمینیائی گروپ سے گفتگومیں کہاکہ وزیراعظم نکول پاشنیان نیزمین برائے امنکانظریہ ترک کرکینئی جنگیں، نئی زمینکانظریہ اپنالیاہے۔اگست2019میں نکول پاشنیان نے آذر بائیجان کے تمام مقبوضہ علاقوں کوآرمینیاکاباضابطہ حصہ بنانے کااعلان کیا۔1990کے عشرے سے اب تک کسی بھی آرمینیائی سیاست دان نے اس طوربات نہیں کی۔
رواں سال مارچ میں آرمینیاکے وزیراعظم نے اعلان کیاکہ وہ دس سال قبل ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈمیں آرمینیااورآذربائیجان کے درمیان بات چیت کیلئے یورپ میں تعاون وترقی کی تنظیم کے تحت ہونے والے معاہدے کوتسلیم نہیں کرتے۔جولائی2020میں نکول پاشنیان نے آذربائیجان سے مذاکرات جاری رکھنے کیلئے یک طرفہ طورپرنئی شرائط کا اعلان کیا۔ایک شرط یہ تھی کہ دونوں ممالک کی بات چیت میں نگورنوکاراباخ کے آرمینیائی باشندوں کوبھی شریک کیاجائے جبکہ اس علاقے کے آذری باشندوں کو بات چیت کاحصہ بنانے پروہ تیارنہ تھے۔اس شرط کوتسلیم کرنے کی صورت میں مذاکرات کاڈھانچاہی تبدیل ہوجاتا۔اب تک دو طرفہ چلے آرہے مذاکرات سہ فریقی ہوجاتے۔آذری قیادت نے مذاکرات میں نگورنوکاراباخ کے آرمینیائی باشندوں کوشریک کرنے کی شرط مستردکردی۔اب دونوں ممالک ایک بارپھرمذاکرات کی میزسے بہت دورہیں۔
سینٹرآف اینالسزآف انٹرنیشنل ریلیشنز(باکو)کے چیئرمین ڈاکٹرفریدشفیعیف کہتے ہیںآرمینیااگربات چیت شروع کرناچاہتاہے تو اسے نگورنوکاراباخ کے گرد سات علاقوں سے اپنی افواج کوواپس بلاناہوگا۔2009میں میڈرڈمعاہدے کے تحت اوراس سے قبل 1993میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روسے فریقین نے اس پررضامندی ظاہرکردی تھی ۔ ایساہوگاتودونوں ممالک کے درمیان رابطے بڑھیں گے اورپناہ گزینوں کی وطن واپسی کاعمل شروع ہوسکے گا۔
آرمینیاکے وزیراعظم اب تک اس بات کیلئے تیارنہیں کہ آرمینیائی افواج کوآذربائیجان کی سرزمین سے واپس بلایاجائے۔17اکتوبر کوآذری فوج نے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل شہرفزولی اوراس سے ملحق چندعلاقوں کاکنٹرول سنبھالا۔یہ علاقہ مقبوضہ علاقوں کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔فزولی آرمینیا کیلئے سب اہم دفاعی لائن کی حیثیت کاحامل رہاہے۔
میڈرڈمیں طے پانے والے معاہدے کے تحت آرمینیاکوآذربائیجان کے مقبوضہ علاقوں سے نکلجاناتھا۔ایساہواہوتاتونوبت عسکری مناقشے تک نہ پہنچتی اورفریقین کابڑے پیمانے پرجانی نقصان نہ ہواہوتا۔دونوں ممالک کے درمیان حقیقی اورپائیدارامن کیلئے اس معاہدے پرعمل ناگزیرہے۔یہ سب کچھ آذربائیجان کی طرف سے نہیں ہے۔عالمی برادری نے اس پرمہرِتصدیق ثبت کی ہے۔آرمینیا کیلئے اسے نظراندازکرناممکن نہیں۔آذربائیجان کوسفارتی اعتبارسے بھی برتری حاصل ہے اوروہ عسکری اعتبار سے بھی اتنا مضبوط ہے کہ اپنے تمام مقبوضہ علاقوں کوواپس لے لے۔اگرنکول پاشنیان نے نگورونوکاراباخ کامسئلہ حل کرنے کے حوالے سے عالمی برادری کی طے کردہ شرائط قبول نہ کیں توممکن ہے کہ ان کی جگہ روسی کیمپ کاحامی شخص وزیرِ اعظم کے منصب پردکھائی دے۔ ایسی صورت میں کیاہوگا یہ پورے یقین سے کہا نہیں جاسکتا۔
یادرہے کہ اس تنازعہ کوحل کرنے کیلئے ہلیری کلنٹن اپنے دورقتدارمیں4جولائی2010 کو نگورونوکاراباخ کے مسئلے پر ثالثی کے لیے آذربائیجان اورآرمینیا گئی تھیں جس کیلئے آذربائیجان کے صدرالہام علی یوونے امریکی وزیرِخارجہ پرزوردیاتھاکہ وہ اس مسئلے کو امریکی ایجنڈے پرسب سے اوپررکھیں۔1994ء میں دونوں ریاستوں کے درمیان تین سالہ جنگ کاخاتمہ ہواتھااوراس جنگ میں تیس ہزارافراداپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس جنگ کے نتیجے میں آذربائیجان سے ملحقہ آرمینیاکی اس تنگ پٹی میں رہنے والی آزیری آبادی کونقل مکانی کرناپڑی تھی اوروہ اب بھی ملک کے دیگرعلاقوں میں رہنے پرمجبورہیں۔
نگورونوکاراباخ میں آرمینیائی اورآزیری آبادی کے درمیان نسلی چپقلش کاآغاز80کی دہائی کے اواخرمیں ہواتھا۔1991میں نگورنو کاراباخ نے آزادی کااعلان کردیاتھاجس کے نتیجے میں آرمینیااورآذربائیجان کے مابین تین سالہ جنگ چھڑگئی تھی۔ 2008 اور 2009 میں اس معاملے پرپیش رفت کے باوجود تاحال یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ آذربائیجان اس علاقے سے آرمینیائی فوج کے فوری انخلا کامطالبہ کرتاہے جبکہ آرمینیااس علاقے کی آزادی تسلیم کروانے کا خواہاں ہے۔
18 اکتوبر2020کودونوں ممالک نے جنگ بندی کی تصدیق توکردی لیکن جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی بدستوراطلاعات آرہی ہیں۔ آرمینیا کی وزارت خارجہ کی ترجمان ، اناناگدالیان نے ایک ٹویٹ میں متنازع علاقے میں جنگ بندی اورکشیدگی کوختم کرنے کی کوششوں کاخیرمقدم کیا۔آذربائیجان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ فیصلہ اوایس سی ای منسلک گروپ کی نمائندگی کرنے والے امریکا،فرانس اورروس کے صدورکے بیانات پرمبنی تھا۔ نگورونوکاراباخ تنازع کی ثالثی کیلئے1992 میں قائم ہونے والی اس تنظیم کی صدارت تین ممالک کے ہاتھ میں تھی۔روسی وزیر خارجہ سیرگئی لیواروف نے دونوں ممالک کے ہم منصبوں سے بات چیت کے بعدکہاکہ انہیں پہلے والے معاہدے پرسختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔فرانسیسی صدرایمینوئیل میکران نے اتفاق کیاکہ ان کاملک جنگ بندی پرخاص توجہ دے گا۔
لیکن تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے کوجنگ بندی کی خلاف ورزی کامرتکب ٹھہرارہے ہیں۔ حاجیئیف نے غیرملکی میڈیاکوبتایاکہ’’آرمینیا اپنے ٹھکانوں کومضبوط بنانے اورآذربائیجان کے نئے علاقوں پرقبضہ کرنے کیلئے موجودہ جنگ بندی کاغلط استعمال کررہاہے۔آرمینیانے شہرگینجہ میں میزائل حملے میں ہمارے13 شہریوں کوہلاک اور45کوزخمی کردیاجبکہ یہ شہرجنگ کے محاذ سے کافی دورہے۔‘‘ایسے کئی سوالات ہیں جن کاآرمینیا کوجواب دیناہوگا۔”جبکہ آرمینائی حکام نے اس حملے کی تردید کرتے ہوئے آذربائیجان کی مسلح افواج پرشہریوں پرمیزائلوں سے حملہ کرنے کاالزام عائد کیاہے۔
آذربائیجان کاکہناہے کہ بین الاقوامی سطح پر نگورنو کاراباخ کوآذربائیجان کاایک حصہ تسلیم کیاگیاہے اوراس کاکنٹرول واپس حاصل کرناادھورے کام کوپوراکرنے جیساہے جبکہ آرمینیا کاموقف ہے کہ نوگورنو قرہباخ تاریخی طورپرآرمینیائی نسل کے باشندوں کامسکن اورصدیوں سے آرمینیاکاحصہ ہے۔
ادھریہ بات بھی قابل ذکرہے کہ خطے کااہم طاقتورملک ترکی آذربائیجان کے حق میں ڈٹ کرکھڑاہوگیاہے۔ترکی کے نیٹوکارکن ہونے کے باوجود فرانس اوریونان جیسے نیٹوکے دوسرے رکن ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ کیوں ہیں؟اورآرمینیااورآذربائیجان کے درمیان جاری جنگ میں ترکی آذربائیجان کی حمایت کیوں کررہاہے؟ترکی کے وزیرخارجہ میولت تیووسوگلونے 6 اکتوبرکو آذربائیجان کے دورے کے دوران صدر الہام علیئیف سے ملاقات کی اورمتنازع خطے نگورنو کاراباخ پرآرمینیاکے خلاف جاری جنگ میں آذربائیجان کی بھرپورحمایت کرنے کااعلان کیا۔انہوں نے کہا ’’آذربائیجان نے اعلان کیاہے کہ وہ آرمینیاکی اشتعال انگیزی کاجواب نہیں دے گااوروہ بین الاقوامی سطح پرتسلیم شدہ سرحدوں کے اندربین الاقوامی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے دفاع کیلئے اپنے اختیارکواستعمال کرے گااورہم اس کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔
ادھرنیٹوکے سیکریٹری جنرل یین اسٹولٹن برگ ترکی اوریونان کے دوروزہ دورے پرانقرہ پہنچے اورانہوں نے ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کی جس کے بعدسیکرٹری جنرل نے نیٹوکے متعدد بین الاقوامی مشنوں میں ترکی کے تعاون کی تعریف کی۔ان کے اس دورے کامقصد نیٹوکے ترکی کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات کوبہتربناناہے۔سیکرٹری جنرل کے دورے سے پہلے نیٹونے ترکی اوریونان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کوکم کرنے کیلئے ہاٹ لائن قائم کرنے میں مدد کی ہے۔
Comments are closed.