آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

اگر حالتِ صحت کی نماز بیماری کی حالت میں ادا کی جائے؟
سوال: میں ادھر کئی سالوں سے بیمار ہوں اور بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھتا ہوں، جب صحت مند تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کھڑے ہو کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرنے پر قادر تھا، اس وقت غفلت اور معاشی دوڑ دھوپ کی وجہ سے بہت سی نمازیں قضاء ہو گئیں، اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے، اب میں ان نمازوں کی قضاء کرنا چاہتا ہوں اور ظاہر ہے صحت کی موجودہ صورت حال کے اعتبار سے بیٹھ کر ہی نماز ادا کر سکتا ہوں؛ حالاں کہ جب یہ نماز قضاء ہوگئی، اس وقت میں کھڑے ہو کر اور رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز ادا کر سکتا تھا تو کیا اب میرا اشارہ سے نماز پڑھتے ہوئے قضاء کرنا کافی ہو جائے گا؟ (سید وجیہ الدین، ملے پلی)
جواب: اللہ تعالیٰ نے کسی بھی عبادت کو انسان کی قدرت اور طاقت کے اعتبار سے واجب قرار دیا ہے؛ اس لئے قضاء کرنے کے وقت آپ کی جو کیفیت ہو، اسی لحاظ سے نماز پڑھنی واجب ہوگی، اگر نماز بیماری کی حالت میں قضاء ہوئی اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے صحت سے نوازد یا تو ضروری ہے کہ صحت مند آدمی کی طرح نماز ادا کی جائے، اسی طرح اگر حالتِ صحت میں نماز چھوٹ گئی اور بیماری وعذر کی حالت میں چھوٹی ہوئی نمازوں کو ادا کرنے کی توفیق میسر آئی تو اب جس طرح نماز ادا کر رہا ہو، اسی طرح چھوٹی ہوئی نمازوں کی بھی قضاء کرے گا، اگر بیٹھ کر پڑھ رہا ہو تو بیٹھ کر، اور رکوع وسجدہ اپنی اصل ہیئت کے ساتھ کرنے پر قادر نہیں ہو تو اشارہ سے، نیز جب اللہ تعالیٰ صحت دیدیں تو ان نمازوں کا اعادہ کرنا بھی ضروری نہیں: المریض إذا فاتتہ الصلوات، فقضاھا فی حالۃ الصحت یفعل کما یفعلہ الأصحاء ………… وان فاتتہ فی الصحۃ فقضیٰ فی المرض الخ(المحیط البرہانی: ۳؍ ۳۳-۳۴)

تفویض طلاق کا مسئلہ
سوال: حیدرآباد کے ایک مؤقر روزنامہ میں بعنوان ’’ طلاقِ تفویض کے معاہدہ کی مسلم معاشرہ کو آج جتنی ضرورت ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی‘‘ کے تحت ایک قانونی مشورہ شائع ہوا ہے، جس میں صاحب مشورہ کا استدلال ہے کہ ’’ شادی سے پہلے یا شادی کے بعد اگر شوہر اور بیوی کے درمیان ایک معاہدہ ہو کہ اگر شادی کے بعد شوہر کی جانب سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو جو اصولِ اسلام کے خلاف ہو تو بیوی کو اختیار حاصل ہوگا کہ شوہر کی جانب سے تفویض اختیارات کی بنیاد پر خود کو طلاق دے لے اور یہ طلاق اسی طرح مؤثر ہوگی، جس طرح سے عام طور سے شوہر کے طلاق دینے کے بعد ہوتی ہے، اس طرح بیوی اپنے شوہر کے نکاح کے بندھن سے آزاد ہو جائے گی اور عدت کی مدت گزر جانے کے بعد بر بنائے معاہدہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے، اسے نہ تو عدالت سے رجوع ہونے کی ضرورت ہے اور نہ دفتر قضائت سے کسی سرٹیفکٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ موصوف وقف بورڈ سے بھی اس مسئلہ کو سنجیدگی سے غور کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ کتابچہ نکاح میں ایک صفحہ کا اضافہ کریں، جس میں دولہا، دلہن اور دو گواہوں کے دستخط کی جگہ ہو، گویا وقت نکاح ہی سے شوہر نے عورت کے ہاتھ میں ایک شمشیر بے نیام تھما دی، اس طرح کے معاہدہ سے طرفین میں باہمی الفت ومحبت کا پروان چڑھنا تو درکنار ایک پائیدار رشتۂ ازدواج میں منسلک رہنا بھی ممکن نظر نہیں آتا، کیا اس طرح کے مبینہ ’’ طلاق تفویض‘‘ کے معاہدہ کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ مفصل جواب سے نوازیں تو نوازش ہوگی۔ (محمد معز الدین، شاہ گنج)
جواب: شریعت نے طلاق کا اختیار اصل میں شوہر کو دیا ہے؛ لیکن دو صورتیں ایسی ہیں، جن میں شوہر اپنے اختیار کو باقی رکھتے ہوئے دوسرے کو بھی طلاق کا اختیار دے سکتا ہے، ایک شکل یہ ہے کہ وہ کسی کو اپنی طرف سے طلاق دینے کا وکیل بنا دے، اس صورت میں وکیل اپنی مرضی سے طلاق نہیں دے سکتا؛ بلکہ شوہر کی طرف سے طلاق دینے پر مامور ہوتا ہے، اگر اس نے شوہر کے دئیے ہوئے حکم کے مطابق اس کی بیوی کو طلاق دے دیا،تو طلاق واقع ہو جائے گی، دوسری شکل ’’ تفویض‘‘ کی ہے، تفویض یہ ہے کہ شوہر کسی اور شخص کو یا خود اپنی بیوی کو مطلقاََ یا کسی شرط کے ساتھ اپنے آپ پر طلاق واقع کرنے کا اختیار دے دے، مطلقاََ تفویض کی صورت یہ ہے کہ کہئے: ’’ تم جب بھی چاہو اپنے آپ پر مثلاََ ایک طلاق واقع کر سکتی ہو‘‘ مشروط صورت یہ ہے کہ جیسے کہے: ’’ اگر میں تمہارے ساتھ فلاں فلاں حق تلفی کروں تو تمہیں حق ہوگا کہ تم اپنے اوپر طلاق واقع کر لو‘‘ ۔ تو اس خاص صورت میں عورت کو اپنے آپ پر طلاق واقع کرنے کا حق ہوگا، اور جب تک اس حق کے استعمال کی نوبت نہ آئے، اس کا یہ حق باقی رہے گا: قال لھا: أنت طالق متی شئت أومتی ما شئت أو شئت أو إذا ما شئت فردت الأمر لا یرتد ولا یتقید بالمجلس (الدر المختار مع الرد، فصل فی المشیئۃ: ۲؍ ۶۷۲- ۶۷۳، نیز دیکھئے: بدائع الصنائع: ۳؍ ۱۱۲-۱۱۳)توکیل کی صورت میں شوہر وکیل کو حوالہ کی ہوئی ذمہ داری واپس لیتے ہوئے طلاق کی اجازت سے رجوع کر سکتا ہے، تفویض کی صورت میں چوں کہ عورت حق طلاق کی مالک ہو جاتی ہے؛ اس لئے شوہر اس سے رجوع نہیں کر سکتا: ولا یملک الزوج الرجوع عنہ أی عن التفویض ……………. لما فیہ من معنی التعلیق (الدر المختار مع الرد، فصل فی المشیئۃ: ۲؍۶۶۹) تفویض طلاق کا معاہدہ نکاح سے پہلے بھی ہو سکتا ہے، ایجاب وقبول کے وقت بھی ہو سکتا ہے اور نکاح کے بعد بھی، فقہ حنفی کی تقریباََ تمام ہی معتبر کتابوں میں اس مسئلہ کی وضاحت موجود ہے۔
شریعت نے بیوی کو طلاق کا اختیار نہیں دیا ہے؛ لیکن شوہر کی جانب سے حق تلفی، زیادتی اور ایذاء رسانی کی صورت میں فسخ نکاح کی گنجائش رکھی ہے؛ مگر فسخ نکاح قاضی کے ذریعہ ہوگا، آج کل عدالتی نظام اس قدر پیچیدہ، خرچ طلب اور تھکا دینے والا ہے کہ اس میں ایک طویل مدت لگ جاتی ہے، راقم الحروف سے خود گوا کے ایک مسلمان جج نے کہا کہ ہماری عدالت میں فسخ نکاح کا ایک فیصلہ ۲۲؍ سال کے عرصہ میں ہوا، اس موقع پر عورت نے کہا کہ میں نے جوانی میں مقدمہ دائر کیا تھا ،بوڑھاپے میں اس کا فیصلہ ہو رہا ہے، اب میں اس ڈگری کو لے کر کیا کروں گی، اسی طرح کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے علماء نے ۱۹۳۹ء میں ’’قانون انفساخ نکاح ‘‘کا مسودہ تیار کیا، اور برطانوی عہد میں یہ پارلیامنٹ سے پاس ہوا، جس میں خواتین کی سہولت کے لئے فقہ مالکی سے استفادہ کیا گیا ہے، دوسرے: حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے نکاح کے موقع پر تفویض طلاق کی اس صورت سے استفادہ کا مشورہ دیا اور اس کے لئے دستاویزی مضمون بھی مرتب فرمایا، جو اُن کی مشہور کتاب ’’ الحیلۃ الناجزہ‘‘ میں موجود ہے؛ چنانچہ بعض مسلم ممالک کے نکاح نامہ میں بھی تفویض طلاق کی یہ دفعہ شامل ہے۔
یقیناََ یہ ہندوستان جیسے ملکوں میں عورتوں کی دشواریوں کا ایک بہتر حل ہے، بعض دفعہ بیرون ملک کے کسی مرد سے نکاح کر دیا جاتا ہے، بعض اوقات دہلی، ممبئی جیسے شہروں میں اپنے اپنے آبائی وطن کے اعتبار سے لڑکی بالکل الگ علاقہ کی ہوتی ہے اور لڑکا کسی دوسرے علاقہ کا، اور وہ شادی کر کے کچھ عرصہ کے بعد غائب ہو جاتا ہے، یا شوہر کی ظلم وزیادتی سہتے سہتے عورت عاجز آجاتی ہے اور وہ سماج کے ذریعہ شوہر سے طلاق حاصل کرنا چاہتی ہے، جب برادری اور سماج کے لوگ مرد پر دباؤ ڈالتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ مجھے ایک موقع اور دیجئے، ایسے مواقع پر تفویض طلاق کے ذریعہ عورت کے لئے اپنے شوہر سے نجات کا آسان راستہ فراہم ہو سکتا ہے؛ اس لئے ہندوستان جیسے ملکوں میں جہاں مظلوم عورت کے لئے انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے، یہ ایک بہتر صورت ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی ایک نکاح نامہ مرتب کرایا ہے، اس میں بھی تفویض طلاق سے متعلق ایک دفعہ داخل کرنے کی تجویز تھی؛ لیکن ہندوستان میں عوام کا مزاج یہ ہے کہ وہ نکاح کے موقع پر طلاق کا نام لینے کو بدشگونی تصور کرتے ہیں؛ اس لئے اس کے بجائے ثالثی کی دفعہ رکھی گئی ہے کہ اگر زوجین کے درمیان کوئی اختلاف ہو تو فلاں شخصیت یا فلاں ادارہ ہم دونوں کے معاملات میں ہر طرح کے فیصلہ کرنے کا مجاز ہوگا، پس یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ تفویض طلاق عورت کے ہاتھ میں شمشیر بے نیام ہے؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم شوہر کی شمشیر بے نیام کے مقابلہ ایک ڈھال ہے۔
تفویض طلاق کے لئے شرعی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المسلمون علیٰ شروطھم (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۳۵۹۴) یعنی مسلمانوں پر یہ بات واجب ہے کہ آپسی معاہدات پر قائم رہیں، اور جن شرطوں کو قبول کیا گیا ہو، ان کے پابند ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ سب سے زیادہ جو شرط پوری کئے جانے کے لائق ہے، وہ ایسی شرط ہے جو نکاح کے موقع پر طئے پائی ہو: أحق ما أوفیتم من الشروط أن توفوا بہ ما استحللتم بہ الفروج (بخاری عن عقبہ بن عامر، حدیث نمبر:۵۱۵۱)

سانپ کی خریدوفروخت
سوال: آج کل سانپ کی بھی خریدوفروخت ہوتی ہے، اگر کسی کے گھر سانپ نکل آیا تو لوگ سپیرے کو بلاتے ہیں، بعض سپیرے سانپ کو پکڑتے بھی ہیں اور اسے خرید بھی لیتے ہیں اور اسے مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں، کیا اس طرح سانپ بیچنا جائز ہے؟ (احمدی بیگم، عطا پور)
جواب: جن کیڑوں مکوڑوں سے کوئی فائدہ متعلق نہ ہو، ان کی خریدوفروخت تو جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر ان سے کوئی جائز نفع متعلق ہو گیا ہو تو ان کو خریدنا اور بیچنا جائز ہے، آج کل سانپ سے مختلف فائدے اٹھائے جاتے ہیں، اس کے زہر سے بڑی اہم دوائیں تیار کی جاتی ہیں، اس کے چمڑوں کو دباغت دے کر قابل استعمال بنایا جاتا ہے، اور وہ مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں، بعد کے فقہاء نے بھی جب دیکھا کہ سانپ سے فائدہ اٹھانے کی صورت پیدا ہو گئی ہے تو اس کے استعمال کو جائز قرار دیا: ویجوز بیع الحیات إذا کان ینتفع بھا فی الأدویۃ، وإن کان لا ینتفع بھا لا یجوز، والصحیح أنہ یجوز بیع کل شئی ینتفع بہ (الفتاویٰ الہندیہ: ۳؍ ۱۱۴)
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.