جنتی عورت کے اَعمال

از: مفتی محمد اشرف علی
بانی وناظم ادارہ خالد بن ولید ومدرسہ خنساء للبنات
محمد پور اعظم گڑھ
ہر مسلمان: مرد وعورت کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اس کو دنیا میں اللہ کی رضا حاصل ہو اور آخرت میں نجات اور جنت کا داخلہ نصیب ہو_
اللہ تعالٰی نے اپنے اَحکام نازل فرمائے ہیں ؛ تاکہ بندوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کا رب ان سے کیا چاہتا ہے، وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے،کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے_
دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے کے لیے،اللہ کو راضی کرنے کے لیے،جہنم سے بچنے اور جنت میں جانے کے لیے اس کے اَحکام پر مکمل طور سے عمل کرنا، مرد کے لیے بھی ضروری ہے عورت کے لیے بھی ضروری ہے _
اللہ کے سارے اَحکام دو طرح کے ہیں ایک کو اَوامِر(کرنے والے کام) اور دوسرے کو نواہی (نہ کرنے والے کام) کہتے ہیں اور دونوں کے مجموعے کو شریعت کہتے ہیں _
*شادی اور نکاح میں شریعت کے اَحکام :*
نکاح ایک انسانی فطری تقاضا ہے، جس میں بہت سی مصلحتیں چھپی ہوئی ہیں،دنیا کی ہر قوم میں شادی کا چلن ہے، عمر ہونے کے باوجود شادی نہ کرنے کو ہمیشہ سے برا سمجھا جاتا تھا،اسلام نے اس ضرورت کو عبادت کا تَصَوُّر دے کر پاکیزگی عطا کردی، نکاح کو نبیوں کی سنت اور طریقہ بتایا، اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے خود نکاح کیا اور فرمایا :
*”….. میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں، جسے میرا طریقہ پسند نہیں وہ مجھ سے لاتعلق ہے”*(بخاري)
نوجوانوں کو شادی کی رغبت دلاتے ہوئے فرمایا :
*”نوجوانو! تم میں جو نکاح کے حقوق ادا کرنے کی سَکَت رکھتا ہے،؛ اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرلے؛ کیونکہ نکاح نگاہوں کو جھکانے اور شرمگاہ کی حفاظت میں مدد کرتا ہے”*
(بخاري)
صحت مند آدمی عمر ہو جانے کے باوجود اگر نکاح نہ کرے تو اس کے بے حیائی کے گناہ (زنا) میں مبتلا ء ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، زنا اور نکاح دونوں ایک دوسرے کی ضِد اورمخالف چیزیں ہیں، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے،زنا چھپ کر اور ڈر کر کیا جاتا ہےاور نکاح عِلانیہ کیا جاتا؛ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
*”نکاح کا اعلان کرو اور اسے مسجد میں انجام دو”* (ترمذی)
غالبا مسجد میں نکاح کی غرض بھی اعلان کرنا اور لوگوں کو خبر کرنا ہے؛ تاکہ سب کو معلوم ہو کہ کس کارشتہ کس سے ہوا ہے اور کون کس کی اولاد ہے_
اسلام میں نکاح بہت آسان سی چیز ہے، مثلاً :ایک بالغ مرد وعورت جو ایک دوسرے کے محرم نہ ہوں،دو گواہوں کے درمیان، مہر کی ایک مقدار طے کر کے،ایجاب وقبول کرلیں تو دونوں کا نکاح منعقد ہوجائے گا،ہمارے یہاں بعض مصلحتوں کی وجہ سے، عام طور پر لڑکی نکاح خواں کو اپنی طرف سے وکیل بنادیتی ہے اور وہ لڑکی کی جانب سے ایجاب کرتا ہے اور لڑکا قبول کرلیتا ہے، نکاح کی یہی اصلیت اور حقیقت ہے،ہاں حیا اور والدین کی شفقت کا تقاضا ہے کہ زوجین خود سے شریک ِ حیات کا انتخاب نہ کریں؛بل کہ یہ کام سرپرستوں کے حوالہ کردیں، جب وہ انتخاب کرلیں تو ان کی پسند کو اپنی پسند بنا لیں؛ *تاہم اگر لڑکی کو لڑکے میں یا لڑکے کو لڑکی میں کوئی ایسا عیب یا برائی معلوم ہو جس سے اس کے ساتھ زندگی گذارنا مشکل ہو یا دین کا نقصان یا چین و سکون کا غارت ہونا یقینی لگے، تو وہ اس انتخاب کو ناپسند بھی کرسکتے ہیں،*
شوہر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے پاس بیوی کے لیے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کرنے کی وسعت اور وظیفہ ِ زوجیت اداکرنے کی طاقت ہو، یہی نکاح کی اصل ہے، باقی سارے لوازمات اضافی چیزیں ہیں، ان کا نکاح کے انعقاد سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہاں کچھ چیزیں سنت اور مستحب کی قبیل سے ہیں،جیسے: نکاح سے ہہلے خطبہ پڑھنا، نکاح کے بعد چھوہارے یا شیرینی تقسیم کرنا،زوجین کو نکاح کی مبارک باد دینا،ولیمہ کرنا وغیرہ_
شریعت نے نکاح کو اتناآسان اس لیے بنایا تاکہ نکاح عام ہوجائے اور ہر فرد کے لیے نکاح ممکن ہوجائے ،زنا مشکل ہوجائے اور اس کے دروازے مسدود ہوجائیں _
مسلمانوں کے سنہرے دور میں نکاح بہت آسان سی چیز تھی، اسے ایک نعمت اور عبادت کے طور پر انجام دیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے نکاح میں برکت ہوتی تھی، اولادیں نیک و صالح ہوا کرتی تھیں, دلوں میں سکون اور گھروں میں امن و امان ہوا کرتا تھا، جب کہ ہمارے زمانے میں، ایمان کی کمزوری اور آخرت فراموشی کی وجہ سے، نکاح محض ایک دل لگی کی چیز اور رسم بنتا جارہا ہے،نکاح میں شریعت اور سنت کو فراموش کردیا جاتا ہے، بل کہ اب تو بہت سی غیر اسلامی رسمیں اور گناہ کی باتیں بھی نکاح میں شامل ہوگئی ہیں،جو یقیناً اللہ کی ناراضگی کاسبب ہیں، ایک اللہ والے کے بقول *:”نکاح میں سب کو خوش کیا جاتا ہے،سوائے اللہ کے اور سب کی رعایت کی جاتی ہے سوائے اللہ کے رسول _صلی اللہ علیہ وسلم_ کی طریقوں کی”*
ایک ایسی عورت جسے اپنی مغفرت اور جنت میں جانے کی فکر دامن گیر ہو اسے یہ جاننا ضروری ہے کہ نکاح میں وہ کون سی رسمیں ہیں جو شریعت کے خلاف ہیں اور جن سے اللہ ناراض ہوتے ہیں اور جاننے کے بعد اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے _
*مہندی لگانا*
عورت کے لیے مہندی لگانا نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ پسندیدہ ہے،اگر شادی میں لڑکی کو مہندی لگائی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں؛مرد کے لیے مہندی لگانا جائز نہیں ہے،اس سلسلے میں ایک اصول یاد رکھنا چاہئے کہ *”مرد کے لیے ایسی خوشبو لگانے کا حکم ہے جس میں مہک ہو،رنگ نہ ہو، عورت کے لیے ایسی خوشبو لگانے کا حکم ہے جس رنگ ہو مہک نہ ہو”* عورت اگر نامحرم مردوں کے سامنے مہک والی خوشبو لگا کر آتی ہے یا ان کے سامنے سے گذرتی ہے تو اس پر حدیثوں میں سخت وعید آئی ہے؛ بل کہ ایسی عورت کا زانیہ(زناکار) کہا گیا ہے _
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
*أيما امرأة استعطرت فمرت على قوم ليجدوا من ريحها فهي زانية.* (نسائي)
*جو عورت خوش بو لگاکر مردوں کے سامنےاس لیے گذرے کہ مرد اس کی خوشبو سونگھ لیں تو وہ عورت زناکار ہے_* (نسائی)
*عن أبي هريرة: أن امرأة مرت به تعصف ريحها فقال: يا أمة الجبار المسجد تريدين؟ قالت: نعم، قال: وله تطيبت ؟ قالت: نعم، قال: فارجعي فاغتسلي فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من امرأة تخرج إلى المسجد تعصف ريحها فيقبل الله منها صلاة حتى ترجع إلى بيتها فتغتسل . أخرجه أبو داود.*
*حضرت ابو ہریرہ رضی عنہ کے پاس سے ایک عورت خوشبو بکھیرتی ہوئی گذری، انہوں نے کہا :اے جبار(اللہ) کی باندی! مسجد جارہی ہو؟،اس نے کہا :ہاں،پوچھا: کیا اسی لیے خوشبو لگائی ہے؟ عورت نے کہا :ہاں، فرمایا:واپس گھر جاؤ، خوشبو دھل کر آؤ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو عورت بھی خوشبو لگاکر مسجد آتی ہے اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں فرماتے جب کہ وہ گھر جاکر اس کو دھل نہ ڈالے_* (ابوداؤد)
واضح ہوکہ اُس دور میں عورتیں نماز کے لیے مسجدوں میں بھی جایا کرتی تھیں، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب مسجد میں (جو خانہ خدا ہے)،
خوشبو لگا کر جانا اس قدر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے،تو بازاروں (جو غفلت اور لہو لعب کی جگہ ہے) میں خوشبو لگاکر جانا کتنی بڑا گناہ ہوگا_
ایک بات یہاں اور سمجھ لینی چاہیے کہ عورت کے لیے یہ سارے احکام شوہر کے علاوہ دیگر مردوں کے اعتبار سے ہیں، ورنہ عورت اپنے شوہر کے لیے اور اس کے سامنے، ہر قسم کی زیب وزینت اختیار کرسکتی ہے، ہر قسم کی خوشبو لگاسکتی ہے،ہر طرح کا کپڑا پہن سکتی ہے_
*ہلدی لگانا*
پہلے زمانے میں جب صابون شیمپو وغیرہ کا چلن نہیں تھا، شادی سے پہلے بدن کی صفائی کے لیے ہلدی یا ابٹن لگایا جاتا تھا؛ مگر اب جب کہ صابون وغیرہ کا استعمال عام ہوگیا ہے،نہانے دھونے کا ماحول اور معمول بھی پہلے سے زیادہ ہوگیا ہے ،میرے خیال سے صفائی کے مقصد سے ابٹن یا ہلدی کی ضرورت باقی نہیں رہی، اب یہ کام محض ایک رسم کے طور پر انجام دیا جاتا ہے،جسے ترک کیا جانا ہی مناسب ہے؛تاہم اگر کوئی صفائی یاکسی اور فائدے کے پیش ِ نظر ہلدی لگانا چاہے تو فی نَفسِہ جائز ہے،لڑکی اور لڑکا دونوں لگا سکتے ہیں، بشرطیکہ اس میں مُنْکَرات شامل نہ ہوں،مثلاً : مرد کو عورتیں ہلدی لگائیں یا عورت کو مرد لگائیں تو یہ سراسر حرام ہے،اسی طرح مرد کو مرد لگائیں؛ مگر ستر بھی کھولنا پڑے تو بھی ناجائز ہوگا،واضح رہے کہ مرد کا ستر ناف کے نیچے سے گھنٹے تک ہے،ان کے درمیان کا حصہ کسی مرد یا عورت کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں ہے،ایسے ہی اگر عورت کو ابٹن لگانے والے عورتیں ہوں تو ان سے بھی جسم بعض حصوں کا پردہ ہے دارالافتاء دارالعلوم دیوبند نے ایک سوال کے جواب میں لکھا:
ایک مسلمان عورت دوسری مسلمان عورت کے سامنے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے علاوہ ستر کھول سکتی ہے؛البتہ بلاضرورت کھولنے سے احتیاط کرنی چاہیے: وتنظر المرأة المسلمة من المرأة کالرجل من الرجل وقیل کالرجل لمحرمہ والأول أصح۔ (الدر المختار مع الشامي: 9/533 ط زکریا دیوبند)_
*مال داروں میں رسم ِ ہلدی کے نام پر ایک نئی وبا*
ہمیشہ سے دیکھا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو مال دیتے ہیں اور اس کے سامنے کوئی مقصد ِ زندگی نہیں ہوتا ہے تو شیطان ان کی خوشیوں اور تقریبات کے موقع پر نئے نئے عنوانات سے ان کا مال غلط چیزوں اور نام ونمود میں خرچ کراتا ہے، جب کہ مالداروں کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ یہ مال اللہ کا فضل ہے،بطور ِ امتحان اللہ نے دیا ہے،ضروری نہیں کہ مال ہمیشہ رہے، میں نے اپنی مختصر سی زندگی بڑی عبرت کی چیزیں دیکھی ہیں،بڑے انقلابات دیکھے ہیں ،زکات دینے والے زکات لینے والے بن گئے،منہ مانگی قیمت پر زمینیں خریدنے والے زمینیں بیچنے والے ہوگئے_
*گنگناتا جارہا تھا اک فقیر*
*دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک*
ایک وبا ابھی جلدی سے بہت تیزی کے ساتھ ہمارے معاشرے کے مالداروں اور متوسط طبقے میں ہلدی کی رسم کے نام پر پھیل رہی ہے،جس میں ہلدی کے دن گھر کے سارے لوگ بالخصوص عورتیں ہلدی کلر کا کپڑا زیب تن کرتی ہیں، بعض جگہ تو سر اور کپڑے پر بھی مل لیتے ہیں،یہ غیروں کے بعض تہواروں کی مشابہت ہے، یہ سراسر غیر اسلامی رسم ہے اور یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جن کا اللہ پر آخرت کے دن ایمان نہیں ہے اور جن کا اول وآخر سب کچھ دنیا اور دنیا کی زیب زینت ہے اور جو اپنی ہر خواہش یہیں پوری کرنا چاہتے ہیں_
اس رسم کا دین سے یا اسلامی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے، مجھے بتایا گیا کہ اس رسم کو ہمارے معاشرے میں،بے دین عورتوں نے ٹی وی ڈراموں اور سیریلوں کو دیکھ کر اپنایا اور پھیلایا ہے_
اگر یہ درست ہے تو مزید افسوس کا سبب ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ ہمارے سماج کا رشتہ دین سے اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ ہماری ماؤں اور بہنوں کا محبوب مشغلہ نماز،ذکر و تسبیح وتلاوت، بچوں کی تعلیم و تربیت وخدمت نہ ہوکر ڈرامے اور سیریل دیکھنا ہوچکا ہے اور ہمارے علماء اور دینی تحریکوں کے اثرات ان تک نہیں پہنچ رہے یا کم پہنچ رہے ہیں،اصلاح ِ معاشرہ کا عمل، فساد و بگاڑ کے سیل ِ رواں کے سامنے رک ساگیا ہے _
اللہ کرے کہ ہمارے نوجوان اور بزرگ، مائیں اور بہنیں بچے اور بچیاں رسم و رواج کے برعکس نکاح کو سنت کے مطابق انجام دے کر شہیدوں کا اجر حاصل کریں!
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
جاری…..
Comments are closed.