جمعہ نامہ:قصۂ ذوالقرنین کے اہم اسباق

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’اور وہ آپ سے ذوالقرنین کے بابت سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو، میں تم کو اس کا کچھ سبق آموز حال سناؤں گا‘‘۔نبی کریم ﷺ کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے اکساہٹ پر مشرکین مکہ نے ذوالقرنین کے تعلق سے استفسار کیا ۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق یہ قصہ حجاز میں معروف نہیں تھا ۔ اس کے پوچھنے کا مقصد معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ جانچنا تھا کہ کیا محمد ﷺ پر وحی آتی ہے ؟ دشمنانِ اسلام کی اس مشترکہ سازش کو وحی الٰہی کے ذریعہ ایک موقع میں بدل دیاگیا ۔ اللہ تبار ک و تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اس سوال کا جواب نازل فرماکرآپﷺ کی حقانیت ثابت کردی نیز اس قصے کو اس وقت جاری کفر و اسلام کی کشمکش پر چسپاں کرکےدین اسلام کی ترسیلِ دعوت کا وسیلہ بنادیا ۔ وزیر اعظم مودی اسے ’آپدا میں اوسر‘ یعنی مشکل میں موقع کہتے ہیں ۔
وطنِ عزیز میں گودی میڈیا تو بھونکنے کا مگر فسادی میڈیا مثلاً سدرشن یا سناتن پربھات کاٹنے کا کام کرتاہے۔ پہلے یہ لوگ مسلمانوں کے احتجاج کو نظر انداز کرتے تھے مگر اب وہاں اپنے نوجوان ترجمانوں کے ذریعہ اشتعال دلاکر ماحول بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حکمت عملی کا اندازہ گزشتہ دنوں دہلی میں اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج اور ابھی حال میں ممبئی کے اندر اے پی سی آر کی نفرت وہجومی تشدد کے حوالے سے رپورٹ جاری کرتے وقت ہوا۔ اس سےپریشان ہوکرکچھ لوگ انہیں نکال باہر کرنے کا مشورہ دیتے ہیں مگر قصۂ ذوالقرنین کا سبق ہے کہ مخالفین کے اعتراضات میں اپنے موقف کی وضاحت کا موقع نکال کر اس کا استعمال کرنا چا ہیے۔ ان کو روکنا انہیں اس خوش فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ ہم ان سے ڈرتے ہیں اس لیے سلیقہ کے ساتھ بلااشتعال محض مدافعت پر اکتفاء کرنے کے بجائےاپنی وضاحت کو حالات حاضرہ پر منطبق کرکےسوال وجواب کے سیشن کو سونے پر سہاگہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
قرآن مجید میں ذوالقرنین کا تعارف اس طرح کرایا گیا کہ:’’ہم نے اس کو زمین میں بڑا اقتدار بخشا تھا اور اس کو ہر قسم کے اسباب و وسائل سے بہرہ مند کیا تھا‘‘۔ اسلوب بیان سے ظاہر ہے کہ اسباب و وسائل کی فراوانی سے مالا مال ذوالقرنین کا اقتدار عطا ئے ربانی تھا۔ اس کے بعد بتایا گیا کہ ایک عادل اور انصاف پسند سربراہِ مملکت اس امانت کا استعمال کیسے کرتا ہے؟ یہاں اربابِ اقتدار کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اپنےگریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ذوالقرنین کے آگے ان کی کیا بساط؟ اوررویہ کیا ہے؟ وہ ا س حق شناس حکمراں سے کس قدر مطابقت رکھتا ہےی؟ ارشادِ قرآنی ہے :’’پس وہ ایک مرتبہ وسائل کے درپے ہوا۔یہاں تک کہ وہ سورج کے غروب ہونے کے مقام تک جا پہنچا۔ اس کو دیکھا کہ گویا وہ ایک سیاہ چشمے میں ڈوبتا ہے۔ اور اس کے پاس اس کو ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا اے ذوالقرنین چاہو ان کو سزا دو چاہو ان کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘۔
یہ ذوالقرنین کی مغربی مہم کا ذکر ہے کہ جس میں وہ آخری سرے تک اپنی فتح مندی کا پرچم لہرا کر ساری اقوام پرغالب ہو گئے۔یہاں یہ لطیف نقطہ قابلِ توجہ ہے کہ نہ صرف مغلوبیت آزمائشوں کا پیش خیمہ ہوتی ہےبلکہ غلبہ بھی بہت بڑا امتحان ہے کہ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکمراں اپنے اختیار کا استعمال کیسےکرتا ہے؟ ایسے میں ذوالقرنین کےافکارو اعمال تا قیامت مشعل راہ ہیں ۔ فرمانِ قرآنی ہے : ’’اس نے کہا ان میں سےجو ظلم کا مرتکب ہو گا تو اس کو تو ہم بھی سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف بھی لوٹایا جائے گا اور وہ اس کو نہایت سخت عذاب دے گا‘‘۔ظلم و ستم کی بیخ کنی کے لیے ظالموں کو سزا دینا اقتدارِ وقت کا فرضِ منصبی ہےلیکن اس کا حق بروز قیامت قرار واقعی سزا سے ہی ادا ہوگا ۔ ذوالقرنین آگے کہتےہیں :’’رہا وہ جو ایمان اور عمل صالح اختیار کرے گا تو اس کے لیے اللہ کے پاس بھی اچھا بدلہ ہے اور ہم بھی اس کے ساتھ آسان معاملہ کریں گے‘‘ یعنی ظالموں کی حوصلہ شکنی کے ساتھ نیکو کاروں کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے گی۔
مغرب کے بعد مشرق کی آخری حد تک کامیابی حاصل کرلینے کے بعدذوالقرنین کی تیسری مہم کا ذکر اس طرح کیا گیا کہ :’’ اس نے پھر ایک اور مہم کی تیاری کی۔یہاں تک کہ دو پہاڑوں کے درمیان درّے تک جا پہنچا۔ ان دونوں پہاڑوں کے درے میں اس کو ایسے لوگ ملے جو کوئی بات سمجھ نہیں پاتے تھے۔ انھوں نے درخواست کی کہ اے ذوالقرنین، یاجوج و ماجوج ہمارے ملک میں فساد مچاتے رہتے ہیں تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم آپ کے لیے خرچ کا بندوبست کر دیں اور آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دیں‘‘۔عوام کی اس فریاد ذوالقرنین کا جواب تھا:’’ میرے رب نے جو کچھ میرے تصرف میں دے رکھا ہے وہ کافی ہے البتہ تم ہاتھ پاؤں سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک اوٹ کھڑی کیے دیتا ہوں‘‘۔ اس سےمعلوم ہوا کہ رعایا کا مفسدوں سے تحفظ بھی حکمراں کا فرضِ منصبی اور وہ اس کے بدلے کوئی معاوضہ نہیں لیتا بلکہ عوام سے صرف محنت ومشقت کا طلبگار ہوتا ہے۔
فرمانِ قرآنی ہے :’’ میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لاؤ۔ یہاں تک کہ جب بیچ کے خلا کو بھر دیا، توحکم دیا کہ اس کو خوب دھونکو۔ یہاں تک کہ جب اس کو آگ کر دیا تو حکم دیا کہ اب تانبا لاؤ اس پر انڈیل دوں۔پس نہ تو وہ اس پر چڑھ ہی سکتے تھے اور نہ اس میں نقب ہی لگا سکتے تھے‘‘۔یہ آیات بتاتی ہیں کہ تحفظ کا انتظام اتنامضبوط ہونا چاہیے کہ لوگ فسادیوں کے شر سے پوری طرح محفوظ ہوجائیں ۔ یہ نہیں کہ ۸؍ لاکھ اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود پہلگام کے دو ہزار سیاحوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے۔اس سلسلۂ کلام کے اختتام پرفخرو غرور میں غرق حکمرانوں کے سامنے ذوالقرنین کا عجز وانکسارپیش کیا گیا کہ وہ احسان جتانے کے بجائے کہتےہیں:’’ یہ میرے رب کا ایک فضل ہے۔ پس جب میرے رب کے وعدے کا ظہور اس کو ہموار کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ شدنی ہے‘‘۔ یعنی میری یہ حتی المقدور کوشش بھی حکم خداوندی کے آگے ٹھہر نہیں سکے گی اور اس کی تعمیل میں ڈھے جائے گی۔قصۂ ذوالقرنین شاہد ہے کہ دشمنانِ اسلام کے اعتراض میں سے بھی مشیت ایزدی دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا بہترین موقع نکال لیتی ہے۔
Comments are closed.