ویکسین قوم پرستی 


شکیل رشید

قوم پرستی اگر جارح ہو جائے تو بڑی ہی خوفناک شکل اختیار کر سکتی ہے ۔ آج جب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کورونا ویکسین کے حوالے سے ایک تشویش بھرا بیان نظر سے گزرا تو اندازہ ہوا کہ ویکسین کے بعد کی دنیا ویکسین سے پہلے کی دنیا کے مقابلے انتہائی خوفناک ہو سکتی ہے ۔ پہلے سکریٹری جنرل نے جو کہا اس کا مطلب کیا ہے یہ جان لیں ۔ گوتریس کے الفاظ تھے کہ ان دنوں ساری دنیا میں ‘ویکسین نیشنلزم’ یا ‘ویکسین قوم پرستی’ تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ گوتریس کا اشارہ مالدار ملکوں کے ذریعے دواساز کمپنیوں سے معاہدوں کی جانب تھا ۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، جاپان اور یورپی یونین وغیرہ نے فائزر، جانسن اینڈ جانسن اور آسٹرا زینکا جیسی ویکسین ساز کمپنیوں سے کئی کئی کروڑ روپے کے معاہدے کر لیے ہیں ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ یہ ممالک پہلے اپنے ملک کے لوگوں کو ویکسین کی راحت دیں گے، اس کے بعد اگر ویکسین بچ گئی تو دوسرے یعنی غریب ممالک کی، جو ویکسین پر کروڑوں روپیے نہیں خرچ کر سکتے، باری آئے گی ۔ اسی کو ذخیرہ اندوزی بھی کہتے ہیں ۔ ہو یہ رہا ہے کہ برطانیہ اور روس میں کورونا کے ویکسین لگنے شروع ہو گیے ہیں، امریکہ اور کناڈا نے فائزر کی ویکسین کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے جلد ہی وہاں بھی ویکسین مہم شروع ہو جائے گی ۔ بھارت بھی جنوری سے ویکسین مہم شروع کر رہا ہے، یہ اور بات ہے کہ ہنوز یہ اندازہ نہیں ہو سکا ہے کہ بھارت کی دواساز کمپنیوں نے جو ویکسین تیار کی ہے وہ کتنی کارگر ہے، لیکن ویکسین یہاں تیار ہے یہ بڑی بات ہے ۔ یہ سب بڑے ملک ہیں، گوتریس کو تشویش یہ ہے کہ اگر ویکسین ان ممالک نے ذخیرہ کرلیں تو غریب ممالک خاص طور پر افریقی ممالک کا کیا ہو گا! بات تشویش کی ہے بھی، افریقہ میں بھی بڑی تعداد میں متاثرین ہیں، ایشیا کے غریب ممالک میں بھی کورونا نے قہر برسایا ہے، انہیں بھی ویکسین کی اسی قدر ضرورت ہے جس قدر کہ امریکہ اور برطانیہ یا روس کو ۔ سکریٹری جنرل کے بیان میں دو باتیں بڑی خاص تھیں ،ایک یہ کہ یہ جو ویکسین کے نام پر قوم پرستی پھیل رہی ہے اس سے کورونا ختم نہیں ہوگا ۔ دوسری بات یہ کہ کورونا ویکسین کو کچھ ممالک اپنا اثاثہ نہ سمجھیں اس پر ساری دنیا کے حق کو قبول کریں ۔ کیا ایسا ہوگا؟ انڈین ایکسپریس کے ایک تجزیے کے مطابق جب ایچ ون این ون فلو کی وباء پھیلی تھی تب آسٹریلیا نے سب سے پہلے ویکسین تیار کی تھی اور اس کے ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی تھی ۔ کئی بڑے ممالک نے دواساز کمپنیوں سے مہنگے معاہدے کیے تھے، امریکہ نے اکیلے چھ لاکھ ویکسین خریدے تھے، جب مذکورہ فلو کی شدت گھٹی تب کہیں جا کر بڑے ملکوں نے غریب ممالک کو ویکسین کے عطیے دیے ۔ اس بار بھی ویسی ہی صورت نظر آ رہی ہے ۔ غریب ممالک کے لیے خطرے بڑھ گیے ہیں، حالانکہ اقوام متحدہ اور ڈبلیو ایچ او کی پوری کوشش ہے کہ ویکسین سب تک پہنچے ۔ یہ ہے امیر ملکوں کا ہمدردی سے عاری چہرہ، بڑا ہی خوفناک ۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس ویکسین نیشنلزم پر قابو پانے کے کیے کوئی عالمی قانون نہیں ہے ۔ ایک خبر اور دیکھ لیں، ممبئی میں ملاحوں کی ایک جماعت نے وزیراعظم مودی کو خط لکھ کر کہا ہے کہ انہیں کورونا ویکسین دینے میں ترجیح دی جائے کہ انہوں نے لاک ڈاؤن میں بڑی خدمات کی ہیں ۔ ہمارے یہاں اس طرح کی آوازیں مختلف حلقوں سے مزید آٹھ سکتی ہیں ۔ مودی سرکار نے تو پہلے ہی بہار والوں کو ووٹ کے بدلے ویکسین دینے کا اعلان کیا تھا ۔ بھارت کا نیشنلزم تو ایسا ہے کہ جو مودی سرکار کا ہے وہی قوم پرست اور باقی سب وطن دشمن ۔ کہیں یہ مانگ، مطالبہ یا اعلان یہاں نہ ہو جائے کہ کورونا ویکسین صرف قوم پرستوں کے لیے ہی ہو یا ہے! ایسا نہیں ہوگا دل یہی کہتا ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو؟ اس سوال کا جواب سب ہی جانتے ہیں ۔

اتواریہ

Comments are closed.