خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے!

 

شمع فروزاں

 

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف الله رحمانی صاحب مدظلہ العالی

صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

 

قدرت کا نظام یہ ہے کہ اہم نتائج حاصل کرنے کے لئے مسلسل اور دیر تک جد و جہد کرنی پڑتی ہے ، تخریبی کاموں میں تو کچھ زیادہ وقت نہیں لگتا ؛ لیکن تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے اندر برداشت کی صلاحیت ، انتظار کی قوت اورجہد مسلسل کی عادت ہو ، درخت گھنٹے دو گھنٹے میں کاٹا جاسکتا ہے ؛ لیکن بیج سے پودا اور پودے سے تناور درخت بننے میں سالہا سال مطلوب ہوتے ہیں ، ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو جوان ہوتا ہوا اور شادی بیاہ کے مرحلے سے گذرتا ہوا دیکھے ، یہاں تک کہ اس کی اولاد خود صاحب اولاد ہوجائے ، یہ منظر اس کی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک اور دل کے لئے سرور کا باعث ہوتا ہے ؛ لیکن ا س منزل تک پہنچنے کے لئے مدتوں صبر کی راہ سے گذرنا پڑتا ہے ، محض وقتی جذبہ اور چیخ وپکار سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیاجاسکتا ، یہ بات جس طرح مادی نتائج کے حصول کے لئے ضروری ہے ، اسی طرح سماج میں اپنے حقوق کو حاصل کرنے اور بد خواہوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بھی ضروری ہے ۔

جب سے ہندوستان کے روابط اسرائیل سے بڑھے ہیں ، ہندوستان نے ناطرفدار بلاک سے اپنے آپ کو الگ کرکے امریکہ اور مغرب کی متابعت قبول کی ہے ،اور مغربی ملکوں نے عالمی غنڈہ گردی اور خوں آشامی کی خوکو پوری کرنے کے لئے اسلامی دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کیا ہے ، صورت حال یہ ہے کہ آئے دن مسلمان نوجوانوں کا انکاؤنٹر کیا جاتا ہے ، مسلمانوں کے خلاف فرضی مقدمات دائر کئے جاتے ہیں ، کسی جواز کے بغیر نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے ، گرفتار کرنے میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں کی ہدایات کا پاس ولحاظ تک نہیں رکھا جاتا ، دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہو ، کسی مسلم تنظیم (جو اکثر فرضی ناموں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی) کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ، مندر میں کوئی دھماکہ ہوتب بھی مسلمانوں کو مجرم گردانا جاتا ہے اور مسجد میں ہو تب بھی مسلمان ہی قصور وار سمجھے جاتے ہیں ، ملزموں کی مجرموں کی طرح تشہیر کی جاتی ہے اور ذرائع ابلاغ میں کچھ اس طرح معاملات کو پیش کیا جاتا ہے کہ گویا یہ ایک ثابت شدہ حقیقت اور ناقابل انکار واقعہ ہو۔

بہت سے نوجوان وہ ہیں ، جو طویل عرصہ سے جیل میں بند ہیں ، نہ ان پر مقدمہ کی کاروائی ہوتی ہے اور نہ انھیں ضمانت ملتی ہے ، ایسا بھی ہوا کہ کسی واقعہ کے سلسلہ میں پولیس نے کچھ نوجوان مسلمانوں کو گرفتار کیا ، بعد میں انکشاف ہوا کہ جرم کے مرتکب بعض ہندو تنظیموں کے لوگ تھے ؛ لیکن جو مسلمان گرفتار کئے گئے ، انھیں رہائی نصیب نہ ہوسکی ، یہ بھی ہوا کہ بہت سے نوجوان باعزت بری کئے گئے ، محض شک کی بنا پر جب ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی تو میڈیا نے اسے شاہ سرخی بنایا تھا ، حکومت کے عہدہ داران اور پولیس افسران نے بھی اس کے بارے میں گرم گرم بیانات دئے تھے ؛ لیکن ان کے باعزت بری ہونے کی خبر کو نہ تو میڈیا میں کوریج مل سکا اور نہ حکومت اور پولیس کی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی وضاحت ہوئی یامعذرت آئی، جن لوگوں کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتا ہے، ان کے لئے وہ وقت نسبتاً اچھا ہوتا ہے ، جب وہ جیل بھیج دیئے جاتے ہیں ؛ ورنہ تو جب تک وہ پولیس تحویل میں ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ ایسا روح فرسا سلوک کیا جاتا ہے ، جن کو سن کر کلیجہ منھ کو آتا ہے ، حد تو یہ ہے کہ بعض دفعه ایسے ملزمین کے خلاف مقدمہ کی پیروی کرنے والے وکیل بھی نہیں ملتے اور کوئی وکیل مقدمہ قبول کرتا ہے تودوسرے اس کی پٹائی کردیتے ہیں ۔

غرض کہ عمومی طور پر اس وقت مسلمان عدم تحفظ کاشکار ہیں ، فرقہ پرست ہندو تنظیمیں انھیں رسوا کرتی ہیں ، پولیس بلاثبوت انھیں گرفتار کرتی ہے اور گرفتار کرنے کے بعد بھی انھیں ایذا رسانی کا شکار بناتی ہے ، قانون ساز ادارے ٹاڈا پوٹا اور مختلف ناموں سے ایسے قوانین بناتے ہیں ، جو لاقانونیت کا جواز فراہم کرتے ہیں ، نیز ذرائع ابلاغ مسلمانوں پر جور وستم ڈھانے والے ا فراد اور اداروں کی پیٹھ تھپکتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں ، ہمارا رد عمل اس سلسلہ میں یہ ہوتا ہے کہ ہم وقتی طور پر احتجاج کرتے ہیں ، احتجاجی بیانات دیتے ہیں ؛ لیکن ہمارا یہ احتجاج اُردو اخبارات تک محدود ہوتا ہے ، جس کو حکومت کے ایوانوں میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں مسلمان کیا کرے ؟

ایک راستہ تو پرتشدد رد عمل کا ہے ، جیساکہ ماؤوادی کرتے رہے ہیں ، یا بعض علاحدگی پسند تنظیمیں کرتی رہی ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ اسلامی طریقہ نہیں ہے ، اسلام نہ ابتداء تشدد کا قائل ہے اورنہ رد عمل میں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لا ضرر ولاضرار‘‘ یعنی نہ ابتداء ً نقصان پہنچایا جائے نہ جواباً ، شریعت نے اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ عوامی املاک کو نقصان پہنچایا جائے ، غلطی ایک پولیس والے نے کی ہو اور نشانہ کسی بھی پولیس والے کو بنادیا جائے، یہ اسلامی عمل نہیں ہوگا ؛ بلکہ اسلام کو بد نام کرنے والا عمل ہوگا ، ایسے رد عمل سے سماج میں نفرت کے جذبات پروان چڑھنے لگتے ہیں اور انصاف پسند لوگ بھی غلط رائے قائم کر بیٹھتے ہیں ۔

دوسرا طریقہ قانونی ہے ، ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، یہاں کی عدلیہ بڑی حد تك آزاد ہے ، بہت سے معاملات میں عدلیہ نے اقلیت کو انصاف فراہم کیا ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے معاملات کو عدالت تک پہنچایا جائے اور اس کی مسلسل پیروی کی جائے ، یہاں تک کہ مقدمہ اپنے انجام کو پہنچ جائے ، بھاگل پور اور گجرات فسادات کے بعض ملزمین کو سزائیں ملی ہیں اوربیشتر مقدمات میں مسلمان نوجوان باعزت بری کئے گئے ہیں ؛ لیکن اس میں مسلمانوں کی اجتماعی کوششوں کا بہت کم دخل ہے ، اگر مسلمان باضابطگی کے ساتھ ایسے مقدمات کی پیروی کریں اور سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک جانے کے لئے تیار ہوں ، مجرم پولیس عہدہ داروں کا جرم ثابت ہوجائے اور ان کو سزا ملے ، نیز مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو عوام کی عدالت میں پہنچانے کے لئے انسانی حقوق کی تنظیموں سے مدد لی جائے اور چند واقعات میں مجرمین کو سزا مل جائے تو اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

لیکن اس کے لئے تین باتیں ضروری ہیں : ایک تو ثابت قدمی اور صبر کے ساتھ جہد مسلسل ، کسی بھی اہم کام کے نتیجہ خیز ہونے کے لئے صبر وبرداشت اور انتظار کی قوت ضروری ہے، رسول اللہ ﷺ دُعاء فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ہر کام میں ثابت قدمی عطا فرما : اللّٰہم إني أسئلک الثبات في الأمر الخ (سنن الترمذی، عن شداد بن اوس، حدیث نمبر: ۳۴۰۷) اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی عمل کرتے تو تسلسل اوردوام کے ساتھ اسے انجام دیتے: کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إذا عمل عملا أثبت (مسلم، حدیث نمبر: ۴۶؍۷) قرآن مجید نے خود مسلمانوں کو جو دُعاء سکھائی ہے ، اس میں ثابت قدمی کی بھی دُعا سکھائی گئی: … وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا (آل عمران: ۱۴۷) مسلمانوں کو بار بار تلقین کی گئی کہ وہ صبر اور مصابرہ سے کام لیں اور اس بات کی بھی کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کے بارے میں ہمیشہ چوکنا رہیں: يٰٓـاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا (آل عمران: ۲۰۰) مصابرہ کے معنی کسی چیز پر پابندی کے ساتھ جمے رہنے کے ہیں ، (مختار الصحاح، ص: ۸۳) اور قرآن کے حکم’’رَابِطُوْا‘‘ کا اصل مقصد مسلمانوں کی حفاظت ہے ، چاہے وہ کسی مسلم ملک میں ہو یا کسی غیر مسلم ملک میں ، مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ نہ صرف اُمت کے دین و ایمان کے لئے ؛ بلکہ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے جوتدبیریں کرسکتے ہیں ، وہ ضرور کریں ، ہوتا یہ ہے کہ وقتی طور پر تو ہم احتجاج کرتے ہیں ، اخبارات میں بیان دیتے ہیں اور اپنی مظلومیت کی داستان سناتے ہیں ؛ لیکن ہم ایف آئی آر درج نہیں کراتے ، درج کراتے وقت پولیس والوں کی بد دیانتی پر نظر نہیں رکھتے ، پھر جب معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو تسلسل کے ساتھ مقدمہ کی پیروی نہیں کرتے، اگر ذیلی عدالت سے اپنے موقف کے خلاف کوئی فیصلہ ہوگیا تو اوپر کی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے، اس طرح ہم قانونی لڑائی ہارجاتے ہیں، جب تک ہماری قانونی کوششوں میں تسلسل نہیں ہوگا، ہمیں انصاف حاصل نہیں ہوسکے گا۔

دوسری ضروری چیز یه هے كه مسلمان نوجوان قانون كی تعلیم حاصل كرنے پر توجه دیں اور مسلم معاشره میں زیاده سے زیاده وكلاء اور قانون داں فراهم هوں، بڑے شهروں میں بھی اور چھوٹے شهروں اور قصبات میں بھی، آج كل ویسے بھی تعلیم اور وزگار كا رشته بهت كمزور هوگیا هے، بهت كم نوجوان هیں، جن كو اُن كی تعلیم كے مطابق ملازمت حاصل هوتی هے، سركاری ملازمت تو كم سے كم تر هوتی جا رهی هے، جن شعبوں میں زیاده روزگار ملتے تھے، اب ان میں پرائیوٹیشن كا رجحان بڑھ رها هے، انسانی ضرورتوں كو مشینیں كم كرتی جا رهی هیں، اور اب جوں جوں مصنوعی ذهانت كے شعبوں میں ترقی هو رهی هے، یه صورتِ حال بڑھتی جائے گی۔

عام طور پر نوجوان تعلیم حاصل كر تے هیں اور جو كام مل جائے اس كے ذریعه اپنی ضروریات زندگی كا سامان كرتے هیں؛ اس لئے چاهے وكالت كو اپنا پیشه نه بنایا جائے؛ لیكن اس كی كوشش كرنی چاهئے كه همارے سماج میں زیاده سے زیاده قانون داں موجود هوں، كوئی بھی چھوٹا بڑاواقعه پیش آئے، ایسے افراد كے ذریعه FIRدرج كرائی جائے؛ تاكه پولیس دھوكه بازی سے كام نه لے سكے، جیسا كه اس وقت كی صورت حال هے، جب پولیس اسٹیشن اور حكومت كے مجاز اداروں میں شكایت لے كر جائیں تو یه پوری تیاری كے سا تھ پهنچیں اور اپنے مقرره ڈریس میں پهنچیں، اس طرح سركار پر بھی دباؤ پڑے گااور مسلمانوں كے ساتھ جس دھوكے اور بے اعتنائی كا مظاهره كیا جا رها هے، اس كا تدارك هو سكے گا۔

تیسری ضروری چیز اتحاد و اشتراک ہے، ملک بھر میں پیش آنے والے مقدمات کی پیروی غیر معمولی اخراجات کی متقاضی ہے، اس کے لئے تمام تنظیموں کو اکٹھا ہونا پڑے گا، مذہبی تنظیمیں جیسے جمعیۃ علماء، جماعت اسلامی، ملی كونسل، مختلف ریاستوں كی امارت شرعیه وغیرہ اور سیاسی تنظیمیں جیسے مسلم لیگ، مجلس اتحاد المسلمین، یو ڈی ایف وغیرہ، اگریہ تمام تنظیمیں مل کر ایک تحفظ مسلمین بورڈ بنائیں،مشترک طور پر افرادی اورمالی وسائل لگاکر ایسے مقدمات کی پیروی کریں اور اس انداز پر کام کریں کہ کسی معاملے میں کریڈٹ حاصل کرنے کا جھگڑا پیدا نہ ہو، مثلاً جس ریاست میں جو تنظیم زیادہ فعال ہو، وہاں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے وہاں کی مقامی تنظیم کو ذمہ دار بنادیا جائے،اس طرح بہ آسانی ان مسائل کو حل کیا جاسکے گا اور اِس وقت مسلمانوں کے خون کی جو اَرزانی اور سماج میں ان کی بے وزنی وبے وقاری دیکھی جارہی ہے، شاید اس کی نوبت نہ آئے، اگر مسلمانوں نے اس سلسلہ میں کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا اور امت کے مشترک مفاد کے لئے جھوٹے وقار کی قربانی دینے کو تیار نہ ہوئے تو ان کی ذلت ورسوائی اور جان ومال کی ارزانی کی داستان طویل سے طویل تر ہوتی جائے گی، افسوس کہ طوفان ہمارے سروں سے گذررہا ہے؛ لیکن ہماری بےشعوری اور بے حسی کی شام آئے نہیں آتی:

 

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

Comments are closed.