کسان تحریک جمہوریت کی، جمہوریت کے لیے لڑائی ہے!

شکیل رشید
بھارت میں جمہوریت بہت زیادہ ہے!
یہ کسی اور کا نہیں ہمارے ملک کے نیتی آیوگ ، جسے ماضی میں پلاننگ کمیشن کہا جاتا تھا ، کے سربراہ امیتابھ کانت کا فرمانا ہے ۔ حالانکہ کانت جی نے اب اپنے اس بیان سے پلہ جھاڑنے کی کوشش شروع کر دی ہے، اور کہنے لگے ہیں کہ جمہوریت تو بھارت کے لیے یوں ضروری ہے جیسے زندگی کے لیے خون ضروری ہے ۔ لیکن کانت جی نے کسانوں کی تحریک کے تناظر میں بات کرتے ہوئے جو جملے کہے تھے وہ بڑے ہی صاف اور واضح تھے ۔ ان کا، ہر مودی بھکت کی طرح، یہ ماننا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی ملک کو ترقی کی چوٹی پر لے جانے کے لیے انقلابی اصلاحات کے لیے کوشاں ہیں لیکن یہ جو بھارت کے لوگوں کو ” بہت زیادہ جمہوریت ” حاصل ہے، وہ اصلاحات کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ بھاجپائیوں کے بقول مودی سرکار نے کسانوں کی ترقی کے لیے ایک دو نہیں پورے تین ایسے قانون بنا دیے ہیں کہ کسان سیدھے اڈانی اور امبانی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جائیں، لیکن بجائے مودی جی کا شکریہ ادا کرنے کے کسانوں نے دہلی گھیر لی ہے اور ان قوانین کی واپسی کے مطالبہ پر بضد ہیں ۔ یقیناً یہ بات مودی کے دست راست امیتابھ کانت کو کہاں بھا سکتی ہے لہٰذا وہ جمہوریت پر لاٹھی لے کر پِل پڑے اور سارے فساد کی جڑ ” بہت زیادہ جمہوریت ” کو قرار دے ڈالا، اور اب جب چاروں طرف سے اُن پر تھو تھو ہوئی تو پہلے والے بیان کی من چاہی وضاحت کرنے لگے ۔ خیر یہ کانت جی کا قصور نہیں ہے ہر مودی بھگت کی نظر میں اصلاحات کی راہ سے اڑچنوں کو دور کرنے کا ایک ہی علاج ہے، عوام سے یہ ”بہت زیادہ جمہوریت ” چھین لی جائے ۔ سچ تو یہ ہے کہ کانت جی بہت ہوشیار آدمی ہیں، انہیں خوب پتہ ہے، اور پتہ کیوں نہ ہو مودی سرکار جو پالیسیاں بناتی ہے اس میں یہ خود شریک جو رہتے ہیں، کہ بھارتیوں سے تو 2014ء سے ہی، جب پہلی مودی سرکار بنی تھی، دھیرے دھیرے ان کے جمہوری حقوق چھیننے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، اور مودی سرکار کے دوسرے دور میں تو اس میں ایسی تیزی آئی ہے کہ بس گنتی کی ہی جمہوریت بچی ہے، اب ” بہت زیادہ جمہوریت ” کا نعرہ جب لگے گا اور اس کے بَل پر بچی ہوئی جمہوریت کو چھین لینے کی جب کوشش ہوگی، اور جمہوریت چھن جائے گی تب بھی لوگوں کو یہ اندازہ نہیں ہو سکے گا کہ ان کے پاس جمہوریت کے نام پر کچھ نہیں بچا ہے، بیچارے یہی سمجھیں گے کہ یہ جو ” بہت زیادہ جمہوریت ” تھی اس میں ہی سے کچھ کم کیا گیا ہے، چلو کچھ تو ہمارے پاس باقی ہے ۔ اور یہ سوچ کر وہ پھر آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کریں گے ۔ سونا ان کی عادت جو ٹہری ۔ لیکن یاد رہے کہ اس بار وہ سو نہیں پائیں گے کیونکہ کسان ملک کی راجدھانی دہلی کو گھیرے ہوئے کھڑے ہیں اور جمہوریت زندہ باد کے نعروں سے سوئے ہوؤں کو بھی جگا رہے ہیں، اور جو سونے کی کوشش میں ہیں انہیں سونے نہیں دے رہے ہیں ۔ ملک کو کسانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے آواز بلند کرکے جمہوریت کی لاج رکھ لی ہے، ورنہ گزشتہ چھ برسوں میں مودی سرکار نے عوام اور جمہوریت مخالف جتنے بھی قوانین بنائے تھے اُن پر تقریباً سب ہی اپنے لب سیئے ہوئے تھے ۔ خاموشی کا انجام ہمارے سامنے ہے ۔ ملک کے آئینی اداروں پر سرکار کا شکنجہ کس گیا ہے ۔ وہ جو مودی سرکار کی پالیسیوں پر نکتہ چینی اور تنقید کرتے ہیں ملک کے دشمن بنا دیے گئے ہیں ۔ ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ارنب گوسوامی کی مثال لے لیں، یہ مودی اور بھاجپائی بھونپو ہر اس شخص کو کاٹ کھانے کے لیے دوڑ پڑتا ہے جو مرکز کی مودی سرکار کی گھٹیا سے گھٹیا اور بدترین عوام مخالف پالیسی پر ایک انگلی اٹھا دے، اسی لیے جب اسے ایک شخص کی خودکشی کے معاملہ میں ملزم بنا کر حراست میں لیا گیا تو ساری مودی سرکار اس کے حق میں سڑکوں پر اتر پڑی اور ارنب کی حراست کو اظہارِ رائے کی آزادی پر سب سے بڑا حملہ قرار دے دیا گیا، اور ملک کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ نے چُھٹّی کے روز ، ارنب کے گُہار لگانے کے دوسرے ہی دن، کارروائی کی اور ارنب کو ضمانت دے دی ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کسی کی شخصی آزادی کی حفاظت نہیں کرے گی تو اور کون کرے گا! بات درست ہے، سوائے اس کے کہ ملک کی جیلوں میں ہزاروں افراد بھرے پڑے ہیں، نہ ان کے مقدمے چل رہے ہیں اور نہ ہی ان کی شخصی آزادی کی کسی عدالت کو فکر ہے۔ اسیران میں صدیق کپّن جیسے صحافی بھی ہیں ۔ لیکن یہ سب چونکہ ارنب نہیں ہیں اس لیے یہ باہر نہیں آ سکتے ۔ مودی سرکار نے ناپسند صحافیوں، حقوق انسانی کے کارکنوں، دانشوروں، سیاستدانوں، اور مسلمانوں کو، جو بہت آسان شکار ہیں، کال کوٹھڑیوں میں ڈال رکھا ہے، ان پر سخت ترین معاملات بنائے ہیں اور عدالتوں، پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں پر اپنا شکنجہ یوں جکڑا ہے کہ کوئی ان محروسین کی مدد کی سوچ تک نہیں سکتا ۔ یو اے پی اے کی دفعات سخت کی گئی ہیں، اب کسی شخص کو، تنظیم اور جماعت کو دہشت گردی سے جوڑا جا سکتا ہے، ہاں اس سے سنگھی مستثنیٰ ہیں ۔ مودی سرکار نے سب کیا، مثلاً نوٹ بندی، جی ایس ٹی، بینکوں کے نظام میں عوام مخالف تبدیلیاں، الیکشن بونڈ کے نام پر بےتحاشہ دولت بٹورنے کا حربہ، الیکشن کمیشن پر قابو، پولیس کو کٹھ پتلی بنا کر عام لوگوں پر ظلم کروانے کی سیاست ، دہلی فسادات اور یوپی میں سی اے اے مخالف مظاہرین پر تشدد اس کی واضح مثالیں ہیں، ملک کی اقلیتوں کو اجاڑنا، کشمیر سے آرٹیکل 370 کا ختم کرنا، اور مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر ملک بدر کرنے کے لیے غیر آئینی شہریت مخالف قانون بنانا ۔ مودی سرکار کے سیاہ کارناموں کی فہرست لمبی ہے ، افسوس بس یہ ہے کہ عوام یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتی رہی، اس کی زبان کھلی نہیں ۔ کچھ احتجاج ضرور ہوئے، عدالتوں کے بشمول عدالت عظمیٰ، دروازے بھی کھٹکھٹائے گیے، لیکن سپریم کورٹ نے آج تک نہ ہی تو سی اے اے پر اور نہ ہی کشمیر معاملے پر کوئی فیصلہ دیا ہے ۔ لوگ جیلوں میں ڈال دیے گئے ہیں پر عدالتیں خاموش ہیں ۔ یہ سب ہو رہا تھا، بھارت کے شہری خاموشی سے سب برداشت کر رہے تھے، اور بی جے پی جیت پر جیت حاصل کرتی جارہی تھی، اسے یوں لگ رہا تھا کہ لوگ اس کی زیادتیوں کو پسند کرنے لگے ہیں، لہذا اس نے تین ایسے بِلوں کو قانون بنا دیا جن سے کسانوں کی روزی روٹی پر، یا آسان لفظوں میں کہیں تو، کسانوں کے پیٹ پر لات پڑتی ہے ۔ جس سے کھیتی باڑی بھی اور کسانوں کی زمینیں بھی خطرے میں آ گئی ہیں ۔ یہ قانون کچھ اور نہیں، ملک کے دھنّا سیٹھوں کو، جن کی تجوریاں لاک ڈاؤن کے دوران پہلے کے مقابلے زیادہ بھری ہیں، مزید دولت بٹورنے، یا یوں کہہ لیں کسانوں کی دولت لوٹنے کے، قانونی اجازت نامے ہیں ۔ محنت کسان کریں گے اور ان کے اناج اونے پونے داموں خرید کر یہ دھنّا سیٹھ اپنے گوداموں میں بھریں گے، پھر ملک کے لوگوں کو بھی اور بیرون ممالک کو بھی من مانی قیمت پر بیچیں گے ۔ اناج کی قیمت کم از کم کیا ہوگی، اور کسان اناج کے دام مناسب پائیں گے یا نہیں، حکومت اس کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں ہے ۔ کسانوں کا ماننا ہے کہ ان کے استحصال کے لیے یہ قوانین بنائے گیے ہیں، وہ ان قوانین کو اپنی موت قرار دیتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ان قوانین کو واپس لے لے، لیکن مودی سرکار یہ بالکل نہیں چاہتی ۔ مرکزی وزیر زراعت تومر نے تو کہہ دیا ہے کہ قوانین واپس لیے گیے تو کارپوریٹ کیسے مودی پر بھروسہ کرے گا! اڈانی نے گوداموں کی تعمیر کے لیے زمینیں خرید لی ہیں، امبانی کی کئی زرعی شعبے کی کمپنیاں وجود میں آ گئی ہیں ۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں کسانوں اور حکومت، بالخصوص وزیر داخلہ امیت شاہ کے درمیان کئی بار مذاکرات ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ کسانوں نے اب اڈانی اور امبانی کو بھی نشانے پر لے لیا ہے، یعنی مودی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔ مودی کی سرکار کسی حال میں قوانین واپس لینا اور کارپوریٹ سیکٹر کو ناراض کرنا نہیں چاہتی ، وہ نہیں چاہتی کہ قوانین واپس لے کر وہ کمزوری دکھائے، اسے خوب اندازہ ہے کہ اگر اس نے ایسا کیا تو آئندہ بھی اسے جھکنا پڑے گا ۔ وہ سی اے اے مظاہرین کے سامنے نہیں جھکی، کئی شاہین باغ بنے لیکن مودی شاہ کی جوڑی کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ لیکن اُس میں اور اِس میں فرق ہے، وہ مسلمانوں کا معاملہ تھا اور بی جے پی کو مسلمانوں کی ضرورت نہیں ہے، یہ وہ بار بار کہہ چکی ہے، اسی لیے سی اے اے مخالف مظاہرین سے ایک بار بھی بات کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ یہ ملک بھر کے کسانوں کی تحریک ہے مسلمانوں کا احتجاج نہیں ۔ ویسے مودی سرکار سی اے اے مظاہرین سے بھی سہمی تھی، عالمی اثرات بڑے ہی منفی تھے، اور اب کسانوں کے لیے بھی ساری دنیا بول رہی ہے ۔ مودی اور شاہ کی جوڑی پریشان ہے اسی لیے کئی بار مذاکرات ہوئے ہیں ۔ حکومت چاہتی ہے کہ کسانوں کو سمجھا بجھا کر چلتا کردیا جائے پر یہ ہو نہیں پا رہا ہے ۔ بی جے پی نے سی اے اے کے مظاہرین اور شاہین باغ کی جری خواتین کے خلاف جو حربے استعمال کیے تھے سکھ اور سردار کسانوں کے خلاف بھی استعمال کررہی ہے، پاکستانی، خالصتانی کا سوشہ چھوڑا جا رہا ہے، پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کسانوں کو گمراہ کر رہا ہے، گودی میڈیا کے ذریعے جھوٹ کا بازار گرم کیا جا رہا ہے، مگر کسان پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں ۔ مسلمان بھی اس تحریک میں شامل ہیں اور ہندو بھی اس لیے یہ تحریک ہندوستانی تحریک بن گئی ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مودی سرکار کو اس کی راجدھانی میں للکارا گیا ہے ۔ یہ جمہوریت کی، جمہوریت کے لیے لڑائی ہے اور اسے جیتا جا سکتا ہے بس ایک ذرا اتحاد کی ضرورت ہے ۔ اتحاد سارے ملک کا کسانوں کے ساتھ اور استحصالی حکومت کے خلاف ۔ اگر کسان کامیاب ہو گئے تو سمجھ لیں کہ بھارت میں جمہوریت محفوظ بھی ہو جائے گی اور مضبوط بھی ۔ لیکن اگر کسان ناکام رہے تو یہ جو ” بہت زیادہ جمہوریت ” ہے وہ رتّی بھر بھی نہیں بچ پائے گی ۔
Comments are closed.