ابن الحسن عباسی: مدتوں رویا کرینگے جام و پیمانہ مجھے

 

لقمان عثمانی

جب میں نے مولانا ابن الحسن عباسی رح کا مجموعۂ مضامین ”کرنیں“ پڑھا تو انکا دیوانہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اسکے بعد متاعِ وقت اور کاروانِ علم، داستاں کہتے کہتے، التجائے مسافر اور کتابوں کی درسگاہ میں، کے علاوہ درسِ مقامات حریری سے بھی خوب استفادہ کیا؛ چناں چہ ہم نے پہلے انہیں صرف ایک شہنشاہِ قلم کی حیثیت سے جانا اور پھر دھیرے دھیرے انکی ہفت رنگ شخصیت سے بہت سی پرتیں کھلتی چلی گئیں اور ہم انکے شیدائی ہوتے چلے گئے ـ وہ نہ صرف یہ کہ مایۂ ناز انشا پرداز تھے بلکہ جامعہ تراث الاسلام کرانچی کے بانی و مہتمم بھی تھے اور شیخ الحدیث بھی، انکے گہر بار قلم سے کئی علمی و ادبی کتابیں وجود میں آئیں، ابھی حال ہی میں ماہنامہ ”النخیل“ کے خصوصی شمارہ کے جمع و ترتیب کا کام بھی انجام دیا ـ

مولانا عباسی قلم کے دھنی تھے، مشکل الفاظ کو بھی جملے میں اس طرح پروتے کہ قاری مچل جائے، تعبیرات و استعارات کا بر محل استعمال انکا خاصہ تھا، سلاست و روانگی انکا کمال تھی، جملوں میں قافیہ بندی انکا تفرد تھا اور شائستگی و برجستگی میں اپنی مثال آپ تھے اور سب سے بڑھ کر یہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی کبر سے پاک اور اپنے چھوٹوں پر انتہائی شفیق تھے اور کسی کی حوصلہ افزائی کرنے میں بخل بھی نہ کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ میرے قلمی سفر کے ابتدائی دور میں ہی انہوں نے میرا کوئی مضمون پڑھ کر میری حوصلہ افزائی کی تھی اور انہوں نے خود میسج کرکے خوشی کا اظہار کیا تھا اور دعاؤں سے بھی نوازا تھا، آج جب انکی رحلت کی خبر دیکھی تو ایک عجیب سا دھچکا لگا؛ جیسے زمین کھسک گئی ہو، آسمان پھٹ گیا ہو اور پھر فورا تین سال پہلے کا وہ میسج کو دیکھا تو آنکھیں بھی نم ہوگئیں ـ اللہ پاک ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے:

کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی

کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

 

 

 

Comments are closed.