کاروان علم کا ایک مُسافِر حضرت مولانا ابن الحسن عباسی رحمہ اللہ

تحریر _عمر انور بدخشانی

ابھی عشاء کی نماز سے قبل برادر عزیزم صاحبزادہ مولانا طلحہ رحمانی زید مجدہ سے یہ افسوسناک اطلاع ملی کہ مولانا ابن الحسن عباسی صاحب (جو گزشتہ چند ماہ سے کافی علیل تھے) انتقال فرماگئے ہیں ، طلحہ بھائی بغیر تحقیق کے ایسی اطلاع نہیں دے سکتے تھے ، لیکن اس کے باوجود دل کی تسلی کے لیے برادرم بشارت نواز صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی تصدیق کردی۔

 

مولانا ابن الحسن صاحب رحمہ اللہ محقق عالم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب طرز ادیب اور قلم نگار بھی تھے ، نفیس ادبی ذوق رکھتے تھے، اسی لیے لکھنے کے معاملہ میں کمیت سے زیادہ کیفیت ان کے پیش نظر رہتی تھی، ان کی مشہور کتاب ’’متاع وقت اور کاروان علم‘‘ سے راقم نے بہت استفادہ کیا ، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ کتاب زمانہ طالب علمی میں راقم کی محسن کتابوں میں شامل تھی تو یقینا بجا ہوگا ، مولانا نے کاروان علم کے مسافروں کے احوال زندگی جس حسین اور دل آویز اسلوب سے لکھے ہیں وہ بے مثال ہیں ، مطالعہ کا تھوڑا بہت شوق پیدا کرنے میں اس کتاب کا بہت اہم کردار رہا ، زمانہ طالب علمی میں جب کبھی پڑھائی میں سستی ہونے لگتی یا خاص طور پر جب امتحان کا وقت قریب آجاتا تو یہ کتاب وقت کی قدر و قیمت، ہمت، حوصلہ، عزم اور مطالعہ کا شوق بڑھانے کے لیے تریاق کا کام دیا کرتی تھی ، اور یوں یہ کتاب بیسیوں بار پڑھنے کا موقع ملا۔

 

گزشتہ چند سال سے کافی زیادہ تعلق ہوگیا تھا ، ملاقات کی نوبت کم آئی ، گزشتہ دو تین سال سے فون پر زیادہ رابطہ ہوا کرتا تھا ، پچھلے سال آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی جب شائع ہوئی اور ان تک پہنچی تو بہت زیادہ خوشی کا اظہار فرمایا ، کام تو اصل بزرگوں کا ہی تھا ، انہی کی نسبت تھی، لیکن انہوں نے راقم کی حوصلہ افزائی کے لیے بہت زیادہ تعریف سے کام لیا ، اس کے متعلق کافی سوالات کیے ، علمی وفنی معلومات بھی حاصل کی ، آسان بیان القرآن پر بطور تعارف ایک تفصیلی مضمون بھی غالبا لکھ لیا تھا یا درمیان میں تھا کہ اسی دوران مولانا شدید علیل ہوگئے۔

 

آخری بار ماہنامہ النخیل کی اشاعت خاص مطالعہ نمبر ’’یادگار زمانہ شخصیات کے احوال مطالعہ‘‘ کے سلسلے میں انہوں نے رابطہ فرمایا تھا ، پہلے اس اشاعت خاص کے لیے محترم والد صاحب کے مضمون کے سلسلے میں ، جس کے موصول ہونے پر ان الفاظ کے ساتھ جوابی رسید ان کلمات کے ساتھ بذریعہ میسیج دی:

 

’’شیخ ! اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ، ایک سانس میں سارا پڑھ لیا ، جامع ، دل چسپ اور کئی گمنام نابغہ روزگار شخصیات کا مُشک بو تذکرہ ، طالبان علوم نبوت اور شائقین علم ومطالعہ اسے برسوں پڑھیں گے ، ایک بار پھر تشکر بسیار اس سوغات پر‘‘۔

 

مولانا عباسی صاحب رحمہ اللہ کتابوں کی اشاعت اور فنی ترتیب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے ، وقتا فوقتا سرورق کی خطاطی کے لیے رابطہ فرماتے تھے ، چنانچہ اس یادگار کتاب کا سرورق لکھنے کی بھی فرمائش کی ، اور راقم کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی ، بہت محنت اور کاوش سے یہ مجموعہ مرتب فرمایا جو بیک وقت پاکستان وھندوستان سے شائع ہوا اور اہل علم سے خراج تحسین حاصل کی۔

 

جدید فتنوں اور شذوذ و تفرد کے معاملہ میں بہت زیادہ حساس تھے ، جمہور اسلاف کے مزاج و مذاق کے پابند اور امین تھے ، کئی بار یہ مشاہدہ ہوا کہ جہاں بھی انحراف اور کجی محسوس کرتے وہاں ببانگ دہل اس کا اظہار کرنے میں جھجھکتے نہ تھے۔

 

دعا ہے کہ اللہ تعالی مولانا ابن الحسن عباسی صاحب رحمہ اللہ کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کی جملہ خدمات کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ، آمین۔

Comments are closed.