Baseerat Online News Portal

مولانا ابن الحسن عباسی رحمہ اللہ کی یاد میں!

محمد رضی الرحمن قاسمی
ینبع، مدینہ منورہ
زندگی سطح آب پر ابھرنے والے بلبلے کی طرح ہے کہ اِدھر ابھرا اور اُدھر ختم، مشہور عالم، ممتاز مصنف اور البیلے طرز تحریر والے قلم کار مولانا ابن الحسن عباسی صاحب رحمہ اللہ نے بھی رخت سفر باندھا اور مالک حقیقی کی خدمت میں جا پہنچے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون

مولانا ابن الحسن عباسی صاحب رحمہ اللہ کی ذاتی زندگی کے سلسلہ میں میری معلومات اتنی محدود ہیں کہ بشارت نواز صاحب نے جب ٹیلیگرام کے ذریعہ ان کی وفات کی اطلاع دی، تو اس سے مجھے پتا چلا کہ وہ ایک مدرسہ کے بانی و مہتمم بھی تھے، عزیز گرامی قدر مولانا نایاب قاسمی نے جب فیس بک پر اپنے تعزیتی نوٹ کے ساتھ ان کی تصویر شیئر کی، تب پہلی بار مجھے ان کی شکل سے شناسائی ہوئی؛ لیکن ان کے بارے میں اتنی محدود معلومات کے باوجود نہ جانے کیوں عرصہ دراز سے ان کی محبت دل میں پاتا ہوں، معاصر مصنفین اور قلم کاروں میں جن سے بڑی مناسبت محسوس ہوتی ہے اور ان کی شخصیت اور تحریر، دونوں کی طرف دل کھنچتا ہے، ان میں ایک نمایاں نام مولانا ابن الحسن عباسی صاحب رحمہ اللہ کا ہے۔

غالبا 2001 ء کی بات ہے، جب پہلی بار ان کا نام سنا تھا، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ میں ایک طریقہ ہے کہ عصر کی نماز کے بعد مسجد ہی میں ایک طالب علم دو تین منٹ، اساتذہ کی طرف سے متعین کی ہوئی ایسی کتاب پڑھتا ہے، جس میں طلبہ کے لئے نصیحت و رہنمائی ہو، جب ایک کتاب دو تین مہینے میں مکمل ہو جاتی ہے، تو پھر دوسری کتاب پڑھی جاتی ہے اور یوں ہی معاملہ چلتا رہتا ہے۔ اسی معمول کے ضمن میں ایک دن یہ پتا چلا کہ آج سے مولانا ابن الحسن عباسی کی کتاب ” متاع وقت اور کاروان علم” پڑھی جائے گی۔

توفیق خداوندی اور اساتذہ کی تربیت کی وجہ سے ابتدائی جماعتوں ہی میں مطالعہ کا ذوق پیدا ہوگیا تھا اور سب سے اچھی تفریح کتابیں پڑھنا تھا، جب عصر بعد کی مجلس میں ایک دو دن اس کتاب کو سنا، تو بہت ہی اچھی محسوس ہوئی، لائبریری سے اسے حاصل کر کے دو تین دن میں حرف بہ حرف پڑھ ڈالا، تب سے ہی مصنف کی محبت دل میں بس گئی ہے، جو آج بھی ہے اور ان شاء اللہ عزوجل ہمیشہ رہے گی۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اس آیت کے زمرے میں ہمیں بھی شامل کر لے۔ الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ (الزخرف:67)
تین چار سال بعد پھر سے” متاع وقت اور کاروان علم” کو پڑھا، اس وقت تک کچھ زبان کی بھی سمجھ ہوگئی تھی، تب یہ احساس ہوا کہ کم عمری میں پڑھنے میں مزا آنے کی وجہ یہ تھی کہ مضامین کے مفید ہونے کے ساتھ کتاب کی زبان بھی حد درجہ شستہ اور سبک ہے۔ پھر ان کی لکھی ہوئی دوسری کتابوں کی جستجو ہوئی، انہیں بھی پڑھا اور خوب چٹخارے لے کر پڑھا، تب سے آج تک معمول رہا ہے کہ ان کی کوئی کتاب یا کوئی مضمون کہیں بھی ملتا ہے، تو اسے ضرور پڑھتا ہوں ۔
ان کی تحریروں میں زبان اتنی رواں اور سلیس ہوتی ہے کہ غرض و مدعا ایک ترتیب سے ذہن میں اترتا چلا جاتا ہے اور تحریر میں موجود پیغام دل پر دستک بھی دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حسن ترتیب، شستہ و شگفتہ زبان کے ساتھ اس حقیر نے ان کی تحریروں میں دل کی کسک اور سوز دروں کو بھی محسوس کیا ہے، اور میری سمجھ کے مطابق یہی وہ عناصر تھے، جو ان کی کتابوں اور تحریروں کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کا سبب بنے ہیں۔
ابھی دو تین ماہ قبل ان کی ادارت میں شائع ہونے والے "ماہنامہ النخیل” کا ضخیم خصوصی نمبر "یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ” طبع ہوا ہے، اور اس کی دھمک علمی حلقوں میں ابھی گونج ہی رہی ہے۔ ان کی کتابیں "متاع وقت اور کاروان علم، کتابوں کی درس گاہ میں، وفاق المدارس کی ساٹھ سالہ تاریخ، داستاں کہتے کہتے” بڑے ہی شوق سے پڑھی گئی ہیں اور ان شاء اللہ عزوجل پڑھی جاتی رہیں گی۔

علم و تحقیق کا یہ رسیا اور قلم کا یہ دھنی 14 دسمبر 2020 ء کو اس منزل کی طرف روانہ ہوگیا، جہاں سب کو آگے پیچھے جانا ہی ہے، اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ نصیب کرے ۔ حدیث پاک کے مطابق انسان کے مر جانے کے بعد جن اعمال کا ثواب پہنچتا رہتا ہے، ان "میں علم يُنتفع به” بھی ہے، ان شاء اللہ عزوجل ان کی کتابیں اور مضامین و مقالات طلبہ ، اہل علم اور اسکالرس کو نفع پہنچاتی رہیں گی، ان کی کتابوں اور تحریروں میں موجود پیغامات دلوں پر دستک دیتے رہیں گے، اور ان کا چھوڑا ہوا علمی ورثہ ان کے لئے ثواب جاری کا ذریعہ رہے گا۔

 

أستاذ اللغة العربية و الدراسات الإسلامية

رضوى العالمية ينبع،

المملكة العربية السعودية

 

Comments are closed.