اقلیتوں کے حقوق اسلامی قانون میں

مفتی محمد نافع عارفی
کارگزار سکریٹری آل انڈیاملی کونسل بہار
موبائل نمبر:۔9304145459
اقلیت قلیل سے ماخوذ ہے جس کے معنی تھوڑے اورکم ہونے کے ہیں یعنی اکثریت کے مقابلہ میں یہ لفظ بولاجاتا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،واذکروا اذ کنتم قلیلاً فکثرکم،(الاعراف:86)علامہ ابن منظورکہتے ہیں کہ قلت کثرت کے مقابلہ میں بولاجاتا ہے (لسان العرب:11/63،ط،لبنان)لیکن اصطلاح میں اقلیت اس جماعت کو کہتے ہیں جو دنیا کے کسی حصہ میں آباد ہو اوروہ وہاں کی مذہبی،لسانی اوررنگ و نسل کے اعتبار سے بڑی آبادی کے مقابلہ میں کم تعداد میں ہو،اقلیت کی اصطلاح ایک نئی اصطلاح ہے جو مغربی اقوام نے وضع کی ہے،اسلام کی نظرمیں رنگ ونسل اورزبان کی کوئی تفریق نہیں ہے بلکہ اللہ کے نظرمیں تمام آدم کی اولاد برابرہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل،زبان وتہذیب اورخطہ ئ ارضی سے ہواللہ پاک کا ارشاد ہے:اے لوگو!ہم نے تم کو ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اورتمہیں مختلف قبیلوں اورخاندانوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دورسے کو پہچان سکو،لیکن اللہ کے نزدیک با عزت وہی ہے جوتم سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے،یقیناً اللہ تعالیٰ جاننے والا اورخبر رکھنے والا ہے،(الحجرات:13) اسلام نے تمام انسانی برادری کو ایک درجہ دیا ہے اورنسلی بھید بھاؤ گورے کالے کا فرق،لسانی امتیازات اسلام کی نظرمیں گھٹیا چیز ہے،اسلام نے فوقیت اورامتیاز کی بنیاد،نسل و خاندان کونہیں بلکہ عمل وکردار کو بنایا ہے اوریہ صاف اعلان کردیا کہ انسان کو وہی ملے گا اوراتنا ہی ملے گا جتنی وہ محنت کرے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نسلی امتیاز وبھید بھاؤ،تہذیبی اور علاقائی عصبیت وامتیازات کومٹادیا،آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان فرمایاکہ کسی عربی کسی غیر عربی پر،کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اورارشاد فرمادیا کہ تم سب کی سب آدم کی اولاد ہو اورآدم کی تخلیق اللہ نے مٹی سے کی ہے،فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے،(مسند احمد:5/411)غرض اسلام کی نظرمیں نسلی،تہذیبی اورلسانی بنیاد پر اقلیت کا کوئی تصورنہیں ہے بلکہ اسلام کا آفاقی نظریہ کائنات کی تمام انسانوں کوایک لڑی میں پروتا ہے اورتمام انسانوں کو ایک خاندان کا افراد تصورکرتا ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کی آواز سب سے پہلے 1814ء میں آسٹیریا کی راجدھانی ویانہ میں ہونے والے کانفرنس کے بعد اٹھی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ جرمن میں آباد یہودیوں کے حقوق تسلیم کئے جائیں پھر1856ء میں پیرس میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں خلافت عثمانیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ اس کے زیر اقتدار ممالک میں آباد یہودیوں اورعیسائیوں کو خاص حقوق دئے جائیں اوران اقلیتوں کو قانونی تحفط فراہم کیاجائے اسی طرح1878ء میں برلن سے یہ مطالبہ زوروشور سے اتھا کہ رومانیہ،سربیااوربلغاریہ میں آباد یہوداقلیتوں کو قانونی تحفظ اور قانونی طور پر حقوق عطا کئے جائیں اورپھر دھیرے دھیرے مختلف حلقوں سے یہ آواز بلند ہونے لگی،یورپین یونین اوردیگر تنظیموں نے بھی اقلیتوں کے حقوق کی آوازیں بلند کیں،گویا یہ ایک خاص اصطلاح 1814 سے پہلے ناپیدتھی۔ اسی اصطلاح کے بطن سے حقوق اطفال، عورتوں کے حقوق،انسانی حقوق کی اصطلاحوں نے جنم لیا،اب اقلیتوں کے حقوق بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ قانون ہے مختلف ممالک نے اپنے اپنے ملکوں میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے قانون بنائے ہیں،اقلیتیوں کے حقوق کو نسلی،مذہبی اورلسانی اقلیتوں پر کے لیے ہیں،یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کا لازمی جز ہے،بچوں کے حقوق،خواتین کے حقوق اورمہاجرین کی ہی طرح اقلیتوں کے حقوق کا ایک فریم ورک بنایا گیا ہے تاکہ معاشرے میں اسے جائز حق دلایا جا سکے،اقوام متحدہ کاآرٹیکل 27/قومی،نسلی،مذہبی اورلسانی اقلیتوں سے متعلق حقوق کا اعلامیہ ہے جس میں اقلیتوں کے تئیں اقوام متحدہ نے دنیا کے تمام ممالک سے اپیل کی ہے۔
ہمارے ملک ہندوستان میں بھی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے قانون موجود ہے،ہندوستانی قانون کے مطابق ہندوستان کا ہر شہری بلا کسی امتیاز کے برابرکے حقوق رکھتا ہے ہندوستان کے قانون کا آرٹیکل 25/مین فرد کی مذہبی آزادی کو اس کا بنیادی حق تسلیم کیا گیاہے اوراسے اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت نیز مذہبی تعلیم کے ادارے اوراپنے تعلیمی مراکز قائم کرسکتا ہے،اسی طرح آرٹیکل،29,30اور30Aمیں ہندوستان میں آباد اقلیتوں کے حقوق کا تذکرہ کیا گیاہے،سپریم کورٹ نے ان دفعات کی روشنی میں متعدد مقدمات کی روشنی میں اس کی وضاحت کی ہے کہ اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادار نہ صرف کھولنے اورچلانے حق حاصل ہے بلکہ اپنے شرطوں کے مطابق چلانے کا حق حاصل ہے،اقلیتی اداروں کے ملازمین کی حیثیت پرائیویٹ اداروں کی سی ہے،خواہ یہ اقلیتی ادارے حکومت کے مکمل مالی تعاون سے چل رہے ہوں یا جزوی مالی تعاون پر یہ ادارے کام کرتے ہوں،غرض ہندوستانی قانون اقلیتوں کے حقوق کے سلسلے میں نہایت جامع اورشاندار ہے لیکن افسوس دیگر قوانین کی طرح یہ قانون بھی صرف دستور ہندکی زینت ہے،اقلیت کے کے زیادہ ترافراد اس سے واقف ہی نہیں اوراگرواقف ہیں بھی تواس قانون سے فائدہ کم ہی اٹھاتے ہیں ہو سکتا ہے کہ دیگر ہندوستانی اقلیتیں اس قانون میں دئے گئے حقوق کا خوب استعما کرتی ہوں لیکن مسلمان اس سلسلے میں بھی سرد مہری کا ثبوت دیتے ہیں،ہندوستان میں سینکڑوں اقلیتی ادارے اپنی قوم کی فلاح وبہبود کے لیے کام کررہے ہیں،ہندوستانی قانون میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کویقینی بنایا گیا ہے،نیز مرکزاورریاستی سطح پر وزارت اقلیتی فلاح بھی قائم ہے۔
اس مختصر سی گفتگو کے بعد آئے ہم غور کریں کہ اسلام نے اپنی اقلیتوں کو کیا حقوق دئے ہیں،یہ ذکر آچکا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی اصطلاح بہت زیادہ پرانی نہیں ہے،اس لیے اسلامی قانون میں یہ اصطلاحی لفظ نہیں ملتا،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سرے سے اس کا وجود ہی نہیں ہے بلکہ فقہا نے ”حقوق اہل الذمہ“کے عنوان سے اقلیتوں کے حقوق کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اوراسلامی قانون میں اس کی حیثیت واضح کی ہے۔
ذمہ لغت میں امان اورمعاہدہ کو کہتے ہیں اوراہل الذمہ سے مراد وہ غیرافراد ہیں جو اسلامی حکومت کے شہری ہیں اورانہوں نے ٹیکس کے عوض اسلامی حکومت کے زیر سایہ رہنا قبول کیا ہواورحکومت اسلامی نے ان کے جان و مال اورعزت وآبرو کا وعدہ کیا ہو (کشف القناع:3/116،احکام اہل الذمہ لابن قیم:2/475)اہل ذمہ یا اقلیتوں کو اسلام نے وہ تمام حقوق دئے ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہے چنانچہ اس سلسلے میں ایک واضح اورعمومی اصول ہے ”أن لہم مالناوعلیہم ما علینا“(بدائع الصنائع للکاسانی:111/6،الموسوعۃ الفقہیۃ:118/7)کہ انہیں وہی حقوق حاصل ہیں جو ہم مسلمانوں کو حا صل ہیں اوران پر بھی وہی تعزیرات نافذ ہوں گے جو ہمارے خلاف نافذہوں گے۔اسلام نے ذمیوں بالفاظ دیگر اپنی اقلیتوں کو برابرکا شہری تسلیم کیا ہے اورحکومت پر لازم قراردیا ہے کہ ان کے دفاع اورتحفظ کو یقینی بنائے تاکہ وہ اسلام کے سایہ ئ عدل میں اطمینان وسکون کی زندگی بسر کر سکیں ”یعتبرأہل الذمہ من أہل دارالاسلام لأن المسلمین حین أعطوہم الذمۃ فقد التزموا دفع الظلم عنھم والمحافظۃ علیہم وصاروا أہل دارالاسلام کما صرح الفقھاء لذلک“(الموسوعۃ الفقہیۃ:127/7)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمیوں کے حقوق کی رعایت اوراقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا”یاد رکھو!جس نے بھی کسی ا قلیت کے فردپر ظلم کیا یا اس کاحق مارا یا اسے اس کی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا مکلف بنایا یا اس کی رضا اورخوشنودی کے بغیر اس کی کوئی چیز چھین لی تو کل قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں میں اس کے خلاف مقدمہ کروں گا (ابوداؤد،حدیث نمبر:3052)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(لا یجرمنکم شنآن قوم علٰی ألّا تعدلوا اعدلوا ہوأقرب للتقوٰی)(المائدہ:8)کہ کسی قوم سے تمہاری دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے ساتھ عدل نہ کروبلکہ عدل وانصاف سے کام لو یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے،اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جو لوگ تمہارے مذہب کے پیروکار نہیں اورتم سے دشمنی روا رکھتے ہیں ان کے ساتھ بھی عدل و انصاف سے کام لوتو پھر کوئی مسلم حکومت اپنی ا قلیتوں کے خلاف ظلم و زیادتی کیسے روارکھ سکتی ہے۔
اسلام نے اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی دی ہے اورانہیں حق دیا ہے کہ وہ اپنے عقیدے پر آزادی کے ساتھ نہ صرف عمل کریں، انہیں اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر کا حق حاصل ہے،انہیں اپنے مذہبی تہواروں کے منانے کا حق حاصل ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی)(البقرۃ:256) کہ ہدایت و گمراہی کھل کر سامنے آچکی ہے،اب جسے جی چاہے وہ ہدایت قبول کرے اورجوچاہے اپنے دین پر باقی رہے،دین کے معاملے میں کوئی زوروزبر دستی نہیں ہے،اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے اس شرط پر معاہدہ کیا کہ وہ اپنے دین پر باقی رہیں اورجو کچھ بھی مال ان کے پاس ہے وہ ان کا ہے (دلائل النبوۃ للبیہقی: 385/5) یہ الگ سی بات ہے کہ اسلام نے غیر مسلم اقلیتوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کی تعلیم دی ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش سے ہی کہ کوئی فرد بشر نورہدایت سے بے بہرہ نہ رہے۔
فوج داری قانون میں بھی اسلام نے اہل ذمہ یا اقلیتوں کو برابری کے حقوق دئے ہیں چنانچہ اگر کوئی ذمی کسی ذمی کو یا کسی مسلمان کو قتل کرتا ہے تو اسے قصاصاًقتل کیا جائے گا،اسی طرح اگر کسی مسلمان نے کسی اقلیتی فرقے کے فرد کو قتل کیا تو اسے بھی قصاصاً قتل کیا جائے گا، مسلمان نے ذمی کویا ذمی نے مسلمان کو غلطی سے مار ڈلا تو اسلامی اصول کے مطابق دیت واجب ہوگی،قصاص،دیت وغیرہ میں اسلام نے مسلمان اورذمی کے درمیا ن کوئی فرق روانہیں رکھا ہے،”لا فرق بین المسلمین والذمی فی وجوب الدیۃ فی قتل الخطا“ (الموسوعۃ الفقہیۃ:136/7)
اسلام نے اپنی اقلیتوں کو سرکاری،رفاہی اورامدادی معاملات میں بھی برابر کے حقوق دئے ہیں سیدنا حضرت عمر بن الخطاب نے اہل خیرہ کے عیسائیوں کے لیے وظائف جاری کئے،اتنا ہی نہیں بلکہ مسلم دور حکومت میں اقلیتوں کو بڑے بڑے عہدوں سے نوازا گیا، حضرت امیر معاویہ ؓ کو ایک نصرانی ڈاکٹر تھا جس کا نام ابن اثال تھا حضرت معاویہ نے اسے حمص کا خراج وصول کرنے پرمامورکیا تھا اموی خلیفہ مروان ابن عبد الملک یوحنا دمشقی نصرانی تھا اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد مل جائیں گے جو اسلامی دورحکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے،اسلامی دورحکومت میں اقلیتوں کی تعلیم پر بھی خاص توجہ دی گئی اس کا نتیجہ تھا کہ بڑے بڑے اصحاب فکر ونظر جن کا تعلق اقلیتی طبقے سے اسلامی درس گاہوں سے پیدا ہوئے جیسے حنین ابن اسحاق،مشہور فلسفی اورعلامہ علی فارابی کے شاگرد یحیٰ ابن عدی صادق بن مرہ وغیرہ ایسے روشن نام ہیں جو عیسائی تھے لیکن انہوں نے اسلامی درسگاہوں سے تعلیم حاصل کر کے دنیا میں اپنا نام روشن کیا،علم کے معاملے میں مسلمان ہمیشہ سے فراخ دل ثابت ہوئے ہیں انہوں نے علم کی کسی بھی شعبہ کوغیریت کے عینک سے نہیں دیکھا اس سلسلے میں مسلمانوں کا کھلا ہوا اصول ہے کہ علم و حکمت و کی باتیں جہان مل جائیں وہ ان کا کھویا ہوا سرمایہ ہے اوراس سے اپنے نگاہ و دل سے لگا لیتے ہیں،مسلم عہد حکومت میں یونانی علوم،علم طب،علم نجوم وغیرہ کے عربی ترجمے کئے گئے اوراس کام کے لیے باضابطہ اکیڈمیاں قائم کی گئیں،حضرت عمر بن عبد العزیزکے زمانے میں بہت ساری طب یونانی کا عربی میں ترجمہ ہوا۔اسی طرح مسلمانوں نے اہل ہند کی بہت ساری کتابوں کا ترجمہ بھی عربی میں کیا،منصورکے دورحکومت میں علم ریاضی کو عربی میں منتقل کیا گیا اوربھی بہت سارے علوم جن کا تعلق ہندوستان کے ہندؤوں سے تھا اس کا عربی ترجمہ ہوا۔
غرض کہ اسلام نے اقلیتوں کو وہ تمام حقوق عطا کئے جو اسلام کے زیر سایہ بسنے والے مسلمانوں کو حاصل ہیں اور اس کے عوض اپنی اقلیتوں سے بس یہ خواہش کی کہ وہ اسلام اوراسلامی حکومت کے خلاف کسی بھی طرح کی معاندانی پالیسی سے احتراز کریں اوراسلامی ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اسلام کے سایہ عدل میں اطمینان و آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کریں۔
Comments are closed.