ہندوستانی مسلمان

محمدطفیل ندوی
جنرل سکریٹری ! امام الہندفائونڈیشن ممبئی8451837574
کسی ملک کی آبادی خواہ کتنی ہی کثیرہواس کے پا س قدرتی وسائل کی کتنی ہی بہتات ہو وہ ملک کتناہی زرخیزاوردولت مندہو اس میں تعلیم کیسی ہی اعلی مدارج تک پہونچ چکی ہو کوئی چیز ایسےملک کومحفوظ نہیں رکھ سکتی جوبرادرکشی کےمرض میں مبتلاہویہ بڑی حیرت اورانتہائی افسوس کی بات ہےکہ وہ ملک جس نے زمانہ قدیم میں پرچم کی سریلی بانسری بجائی تھی اوردل کش لےمیں ہندی سنسکرت فارسی اورپھراردومیں محبت کاپیغام دیاتھا اورآخردورمیں بھی جہاں بیٹھ کرمسلمان صوفیوں نے انسان دوستی اورانسانیت کے احترام کادرس دیاتھا اورجس سرزمین سے گاندھی جی نے عدم تشدد اوراہنسا کاپیغام ساری دنیا کوسنایا تھا اورجس کے پاس آج بھی ہرزبان میں انسان دوستی کاوسیع لٹریچر ہے اس ملک میں آج انسانیت کے شرف اورانسانی جان کی قیمت کاپوراپورااحساس نہیں ۔
آج مسئلہ ہے اس ملک کی قیادت کا آپ دوسروں کےپیچھے چلنے کیلئے پیدانہیں کئے گئے اورنہ خدانے آپ کواس ملک میں اسلئے بھیجاہے کہ آپ دوسروں کے حاشیہ بردارہوں اورآپ لوگوں کے اشاروں کودیکھیں اوران کے چشم ابروکوپہچاننے کی کوشش کریں کہ ملک کس رخ پرجارہاہے ہم کسی قومی دھارےسے واقف نہیں ہم توصرف اسلامی دھارےکوجانتےہیں ہم تودنیاکی قیادت وامامت کیلئے پیداکئے گئے ہیں آج ملک خودکشی کیلئے قسم کھاچکاہے وہ آگ کی خندق میں گرنےکیلئے تیارہے وہ بداخلاقی اورانسانیت کشی کے دلدل میں ڈوب رہاہے آپ ہی ہیں جوہندوستان میں کیا پورےایشیا ءمیں اس ملک کوبچاسکتےہیں آپ اللہ اوراسکے رسول ﷺکی بات کہیے آپ کوکوئی ضرورت نہیں کہ آپ نیلام کی منڈی میں اترآئیں اورآپ سوداکرنے لگیں کہ ہماری بولی بولی جائے آپ متاع نایاب ہیں اللہ کےسواآپ کی خریداری کا حوصلہ کوئی نہیں کرسکتا اسلئے میں ڈنکےکی چوٹ پر کہتاہوں کہ اس ملک کوصرف تنہا آپ بچاسکتےہیں اسلئے کہ آپ کے پاس عقیدئہ توحید اورانسانی اصول ومساوات ہے اورآپ کےپاس اجتماعی عدل کامکمل نظام موجودہے۔
ہم مسلمانوں نے پورےعزم کیساتھ سوچ سمجھ کر اس ملک میں رہنےکافیصلہ کیا ہے ہمارے اس فیصلہ کوارادئہ الہی کےسواکوئی طاقت نہیں بدل سکتی ہمارادوسرافیصلہ یہ ہےکہ ہم اس ملک میں اپنے پورے عقائد ،دینی شعائراوراپنی پوری مذہبی اورتہذیبی خصوصیات کیساتھ رہیں گے ہندوستان کے دستورنے ہمیں اس ملک میں نہ صرف رہنےکی آزادی دی ہےبلکہ اس نے ہمارے رہنےکاخیرمقدم کیاہے وہ ہم کوہماری خصوصیات کیساتھ رہنے کی اجازت دیتااوراس کا انتظام کرتاہےہمارےسامنےایک وقت وہ بھی آیاکہ جب وطن عزیزکےدوجیالوں ’’علی برادران‘‘کی شفیق ماں نےکہاتھا ’’جان بیٹا خلافت پہ دیدو‘‘جب کہ آج ہم ہیں کہ سب کچھ دیکھ رہےہیں اورسن رہےہیں مگردم سادھے ہوئےبیٹھےہیں شاعرنےکیاہی طنزومزاح کے اندازمیں کہاہے۔
نکل کر بزم سے دیکھوکہ اک عالم پریشاں ہے
یہاں بیٹھے ہوئے زلفوں کوسلجھانےسےکیاہوگا
ایسےپرآشوب دورمیں ہم اپنے عافیت کدوںمیں دادعیش دےرہےہیں ملازمتیں توملتی نہیں لیکن ماشاءاللہ تجارت کےمیدان میں ترقی کررہےہیں معاشی خوشحالی اورآسودگی حاصل ہے شادی بیاہ کی تقریبات میں پیسہ پانی کی طرح بہ رہاہے رہنےکیلئے عمدہ مکانات میسرہیں انہیں چیزوں پرہم غورکرتےہیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ یہ سب نعمتیں ہم سےکہیں زیادہ برماکےمسلمانوں کوحاصل تھیں لیکن دین کی طرف سے غفلت برتی جارہی تھی اسلئے قانون قدرت نے اپناکام کیا ،ان کاحشربھی اسپین کے مسلمانوں جیساہوااللہ کےایک ولی اپنےزمانےکامفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی ؒ نےوہاں پہنچ کر کہاتھا کہ اگرتم نےدین کوفراموش کردیا اوردنیاسنوارنےمیں لگےرہے توایک دن تمہاراوہی حشرہوگا جواسپین کے مسلمانوں کاہواتھا ہم اپنے ہم وطن مسلمان بھائیوں کوماضی کی تاریخ یاددلاناچاہتےہیں اورعرض کرناچاہتےہیں کہ اگرانہوں نے اپنی کوتاہیوں کی تلافی نہ کی اوراپنے فرائض سے غافل رہے تووہ دن دورنہیں جب ان کی ساری خوش وقتی وخوشحالی اوردنیاوی ترقی کے باوجود ان کاانجام بھی اسپین ،برمااورچین کےمسلمانوں جیساہوگا ہم اپنی دنیاسنوارنےمیں لگےرہیں مسلکی اختلافات کوہوادیتےرہے اپنی اولادکودینی تعلیمات سےدوررکھیں اپنےمعاشرےکو اسلامی بنانےکےبجائے غیروں کےطریقے اختیارکریں دین کی دعوت سے غافل رہیں تووہی ہوگاجواب تک ہوتاچلاآیاہےجہادجیسی عظیم دولت کو ایک خوفناک اوروحشت ناک طریقوں سے پیش کرکے ایک ناپاک اورحرام کاری میںتبدیل عاشق ومعشوق کے دھاگوں میں پروکرنہیں پیش کیا گیا کیاجہاداسی گھٹیے اورناپسندیدہ عمل کانام تھا حالانکہ جہادتواللہ کی رضا اوردین کی بقاکیلئے اپنی جسمانی طاقت وتوانائی کوراہ خدامیں بےدریغ صرف کرنےکانام جہادتھا اوراب بھی اسی کانام ہے مدارس اسلامیہ جوامن وسلامتی کاپاورہائوس ہےجہاں یہ بتایاجاتاہوکہ وضومیں پانی کازیادہ استعمال بھی فضول ہے کیاوہ خون بہائےگا جہاں یہ بتایاجاتاہوکہ اگرتمہارے اوپرکوئی ظلم کیاہے توتم بدلہ لینےمیں زیادتی نہ کرو،جہاں اخوت ومحبت کےطریقےبتائےجاتےہوں جہاںسے امن وسلامتی کے پیامبرنکلتےہوںکیا اسے بدنام اوردہشت گردی جیسے اڈوں سے نہیں منسوب کیاجارہاہے اورہم خودسوچیںکہ امربالمعروف اورنہی عن المنکر کےفریضےکی طرف سےہم غفلت کی چادراوڑھے ہیں یانہیں ،کیاہماری گھریلوزندگی اسلام کے سانچےمیں ڈھلی ہوئی ہے، کیاہمارے معاشرےمیں اسلامی قوانین اوراسلامی آداب ومعاشرت رائج ہیں، اگریہ کوتاہیاں موجودہیں توآزمائشوں اورمصائب ومشکلات پرنالہ وشیون کیسا ،کیایورپ کی نقالی میں مدارس ومساجد اورپردہ اسلام پرحملےنہیں ہورہےہیں ،ہم نے طلاق ثلاثہ کوبچوں کاکھیل بنالیاتوشریعت سے ملاہواوہ حق ہم سےنہیں چھینا گیا،کیانیوز چینلوں کی میز پر ڈیبیٹ کی شکل میں بیٹھنےکیساتھ طلاق ثلاثہ کے بہانےاسلام اورقرآن اورہماری دھجیاں نہیں اڑائی گئیں ،مسجدوں کوآباد نہیں کیا تووہ ہم سےچھینی نہیں گئی ،ہم نےاپنی تعلیم سے قرآن سے اورمادری زبان سےغفلت برتی ،بچوں کوابتدائی بنیادی مذہبی تعلیمات دینےسے گریزکیا اوراس کولادینی اسکولوں میں سوٹ بوٹ کیساتھ بھیجناباعث فخرسمجھا تومادری زبان اوردین کاعلم ہمارےگھروں سے رخصت نہیں ہواایک یورپین مفکرکاکہناہے کہ ’’کسی قوم کو ختم کرنےکیلئے توپ وتفنگ کی کوئی ضرورت نہیں صرف اسکارسم الخط چھین لووہ خودبخود فناہوجائےگی ‘‘اسلئے آئیے ہم مل بیٹھ کر امن کیساتھ سچےدل اورمحبت کیساتھ ان تمام امورپر غوروفکرکریں، حالات کامقابلہ اوراس سے نجات حاصل کرنے کیلئے پرعزم ہو ،ہم اپنے دینی شعائرکو صدق دل کیساتھ اپنےسینوں سےلگائیں ،شعائراسلام اورنبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئےطریقےپرچلنےکواپنےلئے اعزازسمجھیں، ہمارےسامنےصحابہؓکرام کی زندگی کانقشہ بھی ہو،اللہ کےوہ نیک بندے جوپروردگارعالم کی خوشنودی اورپیغمبراعظم کی اتباع کواپنی کامیاب زندگی کیلئے ایک بہترین نمونہ بنایا اوروہ ہمیشہ اس پرعمل پیرارہیں توانہیں دنیاوآخرت میں سربلندیاں ملیں،ان کے درجات بلندہوئے، کامیابیوں اورکامرانیوں نے ان کے قدم چومے ان کےکارناموں سے ہماری جرات وشجاعت کی تاریخ روشن ہوئی ،حالاں کہ وہ دنیاکی ہرچیزسےخالی تھے نہ ان کے پاس دولت تھی، نہ حکومت ،نہ جنگوں میں مقابلہ کرنے کیلئے جانےکوسواری اورنہ اسلحہ جیسی چیزیں مگروہ کامیاب ہوئے اورہر مصائب وآلام سے وہ نجات پاتے گئے دست قدرت نے ان کی جبلت اورفطرت میں اخلاق وملکات اورجواہرکمالات ودیعت کررکھےتھے مگرجہل ونادانی کی وجہ سے بےمحل صرف ہورہےتھے لیکن انہی اخلاق وملکات کاجب تعلیم ربانی اورتلقین رحمانی سے سابقہ پڑ اتوروح کی کایاہی بدل گئی یہی جاہل قوم جو عملادرندوں سے بھی بدترتھی وہ ملائک سے بھی افضل اوربہترہوگئی اوریہی قوم جوقتل وغارت گری میں مبتلاتھی جب راہ خدامیں جانبازی اورسرفروشی کیلئے کھڑی ہوئی توآسمان کےفرشتےسفید زرد یاسیاہ عمامے باندھ کر ان کی نصرت واعانت کیلئے حاضرہوگئے ہم دیکھتےہیں کہ بادشاہ وقت کے دربارمیں کھانےکادسترخوان سجاہے کھاناتناول ہورہاہے لیکن ایک صحابی رسول ﷺسےلقمہ ہاتھ سے گرجاتاہے تواسے اٹھاکرکھاتے ہیں حالانکہ انہیں روکابھی جاتاہےکہ ہم قبادشاہ کےمحل میں ہے مگروہ یہ کہتے ہوئےلقمہ اٹھاتےہیں کہ ان نالائقوں کی وجہ سے میں سنت رسول ﷺچھوڑدوں،مختصریہ کہ وقت ہےقرآن وسنت سے تعلق مضبوط کرنےاوران پرپوری طرح عمل پیراہونے کااور’’واعتصموابحبل اللہ جمیعاولاتفرقوا‘‘کےتحت اللہ کی رسی کومضبوط پکڑکرآپس میں اخوت ومحبت پیداکرنیکااوراللہ کے نازل کردہ حق کوصدق دل کیساتھ تسلیم کرنیکا یہ وقت ہے رجوع الی اللہ ،توبہ واستغفار،رونےوگڑگڑانےکا اورحکم الہی کے سامنے جھک جانیکا کیوں کہ صاف اعلان ہے ’’وانتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘تم ہی سربلندرہوگے اگرپکے مومن ہواللہ ہم سب کودشمنان اسلام سے حفاظت فرمائیں اوریقین کامل وعزم مصمم کیساتھ اللہ اوراس کے رسول ﷺ کےطریقوں اور سنتوں پرچلنےکی توفیق بخشیں ۔

 

Comments are closed.