جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے شیوخ جوپاکستان کی محبت میں کٹ مرے

عبدالرافع رسول
فقیہہ شہربولاباشادہ سے
بڑاسنگین مجرم ہے یہ آقا
اسے مصلوب ہی کرناپڑے گا
کہ اسکی سوچ ہم سے مختلف ہے
اکیسویں صدی کی اندھیر نگری میں چراغ کے مثل روشن ضمیر اور منور شخضیات پھانسیاں چڑھ کر زمانے کوبتارہے ہیں کہ یہ کوئی اجالی دنیانہیں جس کاچرچاکیاجارہاہے یہ توپتھرکے زمانہ اوروہی دورجہالت ہے۔ یہ انسان کادور عروج نہیں یہ اس کادورانحطاط ہے ۔اس دورمیں نئی بلندیاں فریب ہے البتہ اس کی پستیاں نمایاں ہیں۔16دسمبرہمیں سقوط ڈھاکہ یاد دلاتاہے۔ اہل ایمان کے لئے یہ اتنازخم اتناگہراہے جو کبھی مندمل نہیں ہوگا ۔برا ہو،اکیسویں صدی کے انتقامی سیاست یا غیروں کی چاکری کا کہ اس نشے میں مسلمانوں کی گردنوں پرمسلط حکمرانوں کواس کے سواکچھ اور دکھائی نہیں دے رہاہوتاکہ کس طرح اہل ایمان کاصفایاکیاجاسکے۔اہل حق بلالحاظ عمرتختہ دار پر لٹکائے جارہے ہیں ۔
زہرناک اذیتوںاوراکابرین جماعت اسلامی بنگلہ دیش کوسزائے موت دینے کے باوجود جماعت اسلامی بنگلہ دیش کایہ نفیرعام ہے کہ دنیا والو!سن لو، ہاں، ہم اقراری مجرم ہیں، اس بات کے کہ ہم اللہ کے نام لیوا ہیں،اس کے رسول کے امتی ہیں، اس کے دین کے علم بردار ہیں اور رب کے دیئے ہوئے نظام عدل کو دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ سن لو!ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے، رسول ہمارے رہبر ہیں، قرآن ہمارا دستور ہے، جہاد ہمارا راستہ ہے اور اللہ کی راہ میں شہادت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے۔ مولانا نظامی کو پھانسی پر چڑھانے والو!سن لو، ہم بھی اسی راہ کے راہی ہیں جس پر مولانا نظامی چل رہے تھے۔اگر تم سمجھتے ہو کہ ، قمر الزماں ، عبد القادر ملا، علی احسن مجاہد، اور مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا کر ہمیں خوف زدہ کردوگے اور اس راہ پر آگے بڑھنے سے ہمیں روک دو گے تو یہ تمھاری خام خیالی ہے۔تم جسے موت سمجھتے ہو وہ ہمارے نزدیک زندگی ہے، حقیقی زندگی، قابل رشک زندگی۔
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی
یہ الگ بات ہے کہ سائونڈپروف دنیاکلے ظالم حکمرانوںکی فصیلوںسے ٹکراکرحق وصداقت پرمبنی یہ صدائیں ،چورہوکرواپس لوٹتی ہیںاورکہیں انکی شنوائی نہیں ہوپارہی۔ مطیع الرحمان کادومرتبہ بنگلہ دیشی اسمبلی کے لئے یہ انتخاب بنگلہ دیش کے عین آئین ہی کے تحت حاصل ہوا تھا۔ چالیس سال انہوں نے اس نوزائیدہ ملک میں ایک محب وطن شہری کی زندگی گزاری وہ اگرمجرم تھے تو اس وقت انہیں جیل کیوں نہ بھیجاگیااور انکے خلاف کوئی جوڈیشری ٹرائیل کیوں نہ چلا۔ ان سے قبل جماعت اسلامی کے بزرگ راہنما اور نائب سیکرٹری جنرل 65سالہ عبدالقادر ملا ، علی احسان مجاہد،صلاح الدین قادر کو پھانسی دے دی گئی ،جبکہ ایک بڑی قطار ہے اکابرین جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی جنہیں کال کوٹھریوں میں ٹھونساگیاہے اورجنکے لئے پھندے تیارکئے جاچکے ہیں،معلوم نہیں بنگلہ عدالتوں سے کس کس کے لئے موت کے پروانے لکھے جاچکے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ نہ معلوم مصرسے کب صدرمرسی اوراکابرین اخوان کی سزائے موت کی خبرسننے کوملے گی ۔نہ معلوم کس کس مسلمان ملک کی کس کس ایسی دینی شخصیات کوتختہ دارپرچڑھایاجائے گاجوخداکی زمین پر خدا کے ہی نظام کے لئے اپنی صدابلندکئے ہوئے ہیں۔ یہ بات الم نشرح ہوچکی ہے کہ جولوگ اورجودینی تنظیمیں ظالم حکمرانوں کے ظلم پرمہر بلب ہیںتوانکی جان کی امان ہے لیکن جولوگ اورجوتحریکیںظالم حکمرانوں کے ظالمانہ طرزعمل اورانکے سفاکانہ طرزفکرپرآتش زیرپاہیںتوانکی جان کی کوئی امان نہیں چاہے یہ مسلم ممالک ہوں یاغیرمسلم ممالک اس حوالے سے کوئی فرق نہیں چاردانگ عالم میں ۔
سمجھ نہیں آرہاہے کہ مسلم ممالک اجتماعی طور پر زوال کی پستیوں میں لڑھکنے پرمصرکیوں ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو پھران کے رویوں میں سفاکیت اوراس قدر تلخی، اس قدر اشتعال، اس قدر بے ڈھنگا پن اور اس قدر انتقام پسندی کیوں آگئی ہے؟ مسلم ممالک شائستگی کے قرینوں سے محروم کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟بنگلہ دیش کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین پر جوظلم وستم ڈھارہی ہے، ادنی ترین تہذیبی قرینہ رکھنے والی کسی انسانی بستی کے لئے بھی انتہائی شرمناک ہے۔ احساس کی معمولی سی رمق رکھنے والے کسی انسانی معاشرے کے ماتھے پر بھی کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اقدار سے عاری کسی سماج کے لئے بھی راتوں کی نیندیں حرام کردینے والا المیہ ہے اور اخلاقیات سے محروم ہوجانے والی کسی قوم کے لئے بھی پیہم نشتر زنی کرنے والا لمحہ فکریہ ہے۔اس جوروجبراورسفاکیت کو دیکھ کرہر صاحب ضمیر مسلمان انگاروں پہ لوٹ رہا ہے کہ ہرطرف یہ کیسے سفاک موسم ہمارا مقدر ہوگئے ہیں؟دماغ کھول رہا ہے کہ یہ ہم کیسی آسیب زدہ ریاستوں میں جنم لے چکے ہیں کہ جہاں چار سو اپنوں کے بہتے لہو، بکھری لاشوں، دہکتی آگ اور بل کھاتے دھوئیں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
دلوں میں زہریلے خنجر کی طرح پیوست سوال یہ ہے کہ آخر ریاست کااپنے عوام کے ساتھ رویہ کیاہوناچاہئے ،اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ دینے والی آئینی ضمانت کے نگہبان ریاستی مشینری خوداپنے ہاتھوں آئین کی دھجیاں کیوں بکھیررہی ہے؟ وہ سفاک قاتل کیوں بن ہوئی ہے؟ریاست ہی قاتل بن جائے اور انسانی بستیاں ریاستی درندوں کے سپردہوجائے توپھربچ کیاجاتاہے ۔ جب ریاست کی آستینوں میں ہی خنجر چھپے ہوں اور اس کے ہاتھ لہو میں رنگے ہوںتوایسی ریاستوں کا مقدربربادہوناہی ٹھر جاتاہے ۔یہ توطے ہے کہ جوحکومتیںاپنے ہی اہل وطن کاکافیہ حیات تنگ کرتی ہیںاورقوم کواچھی بھلی مستقیم راہوں سے بھٹکا کر بے یقینی کے دلدلی جنگلوں میں دھکیل دیتی ہیںآخرکارانہیںایسی بدقسمتی سے نکلنے کا کوئی راستہ پھرسجھائی نہیں دیتا۔ماضی قریب میں اسکی کئی مثالیں ہمارے سامنے بکھری پڑی ہیں۔
نظریہ شرارت کے پیرو کارحکمران جب جان بوجھ کر عوامی فصیل میںرخنہ اندازی کرتے ہیںتو مملکت کی چولیں ڈھیلی پڑجاتی ہیں، فتنہ و فساد کا الا ئوبھڑک اٹھتاہے اورپھرچمن بربادہوجاتاہے۔ نظریہ شرارت کی پیرکاربنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجداپنے سیاسی مخالفین کوجس بے رحمی کے ساتھ آج کل کچل رہی ہیں،سامنے آنے والی مرغ بسمل کی طرح لہ دیشیوں کی خون میں لت پت تصاویرکود یکھ دل بیٹھنے لگ جاتاہے ۔بنگلہ دیش کی بدنام زمانہ عدالتیںبالخصوص انٹرنیشنل کریمنل کورٹس حسینہ واجد اوراس کی پارٹی عوامی لیگ کے مخالفین کے لئے موت کے جھولے گانٹھ رہی ہیں، ہزاروں افراد ایک بار پھر نفرت کی بھینٹ چڑھنے کے لئے دھر لئے گئے ہیں ۔اس سیاسی انتقام گیری سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت،جان بوجھ کر بنگلہ دیش کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
خالدہ ضیا کی قیادت والی بنگلہ دیش نیشنلشٹ پارٹی بی این پی اورجماعت اسلامی آف بنگلہ دیش حسینہ واجد کے نظریہ شرارت کی شکاربنی ہوئی ہیں۔
جس تواترکیساتھ شیوخ جماعت کوسزاموت دی جارہی ہے وہ بڑا مہیب اورخوفناک سلسلہ ہے ۔ اتوار22نومبر2015کوبنگلہ دیش میں 1971 میںسقوط ڈھاکہ کے دوران جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے والے دو عوامی راہنمائوں کو پھانسی دے دی گئی۔جن 2 راہنمائوں کو پھانسی دی گئی ہے ان میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے67سالہ اہم ترین راہنما علی احسان محمد مجاہد اور حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی یابی این پی کے 66سالہ راہنما صلاح الدین قادر چوہدری شامل ہیں۔خیال رہے کہ جماعت اسلامی کے دو راہنمائوں65سالہ عبدالقادر ملا کو دسمبر 2013 اور محمد قمر الزمان کو 7 ماہ قبل اپریل 2015 میں پھانسی دی گئی۔ جبکہ جولائی 2013 میں جماعت اسلامی کے سابق امیر 90سالہ غلام اعظم کو 90 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اس دوران وہ جیل میں ہی داعی اجل کولبیک کہہ گئے۔بنگلہ دیش کی حکمران اور سیکیولر نظریات رکھنے والی جماعت عوامی لیگ نے 2010 میں جنگی جرائم کا ٹریبیونل بنایا تھا جس نے 1971 میںسقوط ڈھاکہ کے دوران جنگ میں پاکستانی افواج کاساتھ دینے کے حوالے سے تحقیقات اوربلاجوازظالمانہ سزائوں کا تعین کرنا تھا مگر اس ٹریبیونل کی کارروائی کو عالمی سطح پر قبول نہیں کیا گیا اور اس کو انتہائی متنازع قرار دیا گیا لیکن بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ ٹریبیونل ختم نہیں کیا اور بلاجوازظالمانہ سزائوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے، جبکہ بنگلہ دیش میں عمومی تاثر ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت اس ٹریبیونل کو مخالفین کے خاتمے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔واضح رہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تھا البتہ اس دوران مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کا ساتھ جماعت اسلامی نے دیا تھا اور پاکستان کے دفاع کے لیے اپنے کارکن فراہم کئے تھے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جماعت اسلامی وہاں کی مقبول جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جبکہ اس کے جن راہنمائوں کو موت کی سزائیں دی گئی ہیں وہ اسمبلی ارکان حتی کہ وزرا بھی رہے ہیں۔مطیع الرحمان نظامی سے قبل جن شخصیت کوپھانسی دی گئی وہ جناب علی احسان محمد مجاہدجو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکریٹری جنرل رہ چکے تھے ، وہ 2001سے 2007تک جماعت اسلامی کے منتخب رکن پارلیمان رہے تھے جبکہ اسی دوران 5سال تک وہ عوامی بہبود کے مرکزی وزیر بھی تھے.ٹریبیونل میں ان کے خلاف 2013میں کئی جھوٹے الزامات عائد کیے تھے جن میں ان کو ٹریبیونل نے پھانسی کی سزا سنائی جس کے خلاف انہوں نے 14اکتوبر2015کو سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی البتہ 18 نومبر کو ان کی درخواست مسترد کر دی گئی ۔دوسری جانب بنگلہ دیش اسی طرح نیشنل پارٹی کے راہنما صلاح الدین قادر چوہدری کے خلاف بھی جھوٹے مقدمات بنائے گئے ۔ صلاح الدین قادر چوہدری 6 بار بنگلہ دیش کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔صلاح الدین قادر چوہدری کے والد فضل قادر چوہدری متحدہ پاکستان کے قائم مقام صدر اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے تھے جبکہ وہ مسلم لیگ کے اہم راہنما بھی شمار ہوتے تھے جبکہ 1971میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمن کی حکومت نے ان کو گرفتار کر لیا تھا ان کا انتقال بھی 1973 میں 55 سال کی عمر میں ڈھاکہ جیل میں ہوا تھا۔علی احسان محمد مجاہد اور صلاح الدین قادر چوہدری کوبالآخرپھانسی دیکرشہیدکردیا گیا ، استغاثہ کا دعوی تھا کہ دونوں نے جن لوگوں کوبنگلہ دیش کے قیام کے وقت قتل کیاتھاوہ ہندو تھے۔خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں ایک تسلسل سے سزائے موت دیے جانے کامہیب اورخوفناک سلسلہ جاری ہے۔جنوری 2010 میں پانچ سابق فوجی افسران کو ملک کے بانی راہنما شیخ مجیب الرحمان اور حسینہ کے والد کے قتل کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی تب سے یہ سفاکانہ سلسلہ رکنے کانام نہیں لے رہااورآج دومرتبہ بنگلہ دیشی اسمبلی میں رکن رہنے والے اورایک مرتبہ وزرات پرفائزبھی رہے۔ 10مئی 2016سابق امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمان نظامی کوڈھاکہ کی جیل میں پھانسی دیکرشہیدکردیاگیا۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جس ابتلا و آزمایش سے گزررہی ہے، اس کی جڑیں سرزمینِ بنگلہ دیش میں نہیں بلکہ اس طوفانِ کرب و بلا کا مرکز سرحدپار موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں اس نفرت کے سوداگر عوامی لیگ، بنگالی قوم پرست، مقامی ہندو اور سیکولر طبقات ہیں۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی درحقیقت اس نام نہاد امن کی آشا کے سامنے ایک آہنی چٹان ہے، جسے ڈھانے کے لیے برہمنوں ، سیکولرسٹوں اور علاقائی قوم پرستوں کے اتحادِ شرانگیز نے ہمہ پہلو کام کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا حقیقی سرمایہ جھوٹا پروپیگنڈا اور اسلام کی تضحیک ہے۔ آنجہانی انداگاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے وقت کہاتھا کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ کوخلیج بنگال میں ڈبودیا۔اسی فکروفلسفے پر عمل درآمدکرتے ہوئے بھارت کی سابق اورموجودہ قیادت بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بے دست وپا کرنے، مولانا مودودی کی کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور دو قومی نظریے کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹیBNP) (کو دیوارسے لگانے کے لیے حسینہ واجد حکومت کی بھرپور سرپرستی کرتی رہی اورکررہی ہے۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے حوالے سے سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے اس بیان کو پڑھیے، جو انھوں نے بنگلہ دیش میں اپنے دورہ بنگلہ دیش سے قبل نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھاان کاکہناتھا کہ بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ بنگلہ دیش کی آبادی کی ایک بڑی تعداد اقراری طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔
اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں۔بھارت کی موجودہ قیادت پورے خطے کو اکھنڈبھارت بنانے کاخواب دیکھ رہی ہے اس نے بنگلہ دیش کی حکومت کوکون سی پٹی پڑھائی ہوگی محتاج وضاحت نہیں۔بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نوآبادیاتی فکر اور معاشی و سیاسی بالادستی کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت محض ایک بھارتی گماشتہ ٹولے کی سی ہے۔ جسے بنگلہ دیش کے مفادات سے زیادہ بھارتی حکومت کی فکرمندی کا احساس دامن گیر ہے۔ گذشتہ تین برسوں پر پھیلے ہوئے عوامی لیگ کایہ اوراس نوعیت کا انتقام کیامستقبل میں بنگلہ دیش میں کیاگل کھلائی گی اور انجام گلستان کیاہوگا حسینہ واجد کواس کاہوش نہیں۔
اگرچہ آنجہانی انداگاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے وقت کہاتھا کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ کوخلیج بنگال میں ڈبودیالیکن اس میں صداقت نہ تھی کیوںکہ پھراس خطے میںبنگلہ دیش کی صورت میں ایک اورمسلمان ملک قائم نہ ہوجاتابلکہ پھرمشترکہ بنگال کادارالحکومت ڈھاکہ کے بجائے کلکتہ ہوتا۔مگریہ ضرور ہے کہ مسلمان ملک ہونے کے باوصف بنگلہ دیش میں مسلمانوں کوامان نہیں۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش ، آج جوبدترین اوردل دہلانے والا ظلم سہہ رہی ہے اس کااندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ صرف فروری 2013کے دوران اس کے درجنوںکارکن شہیدکئے جاچکے ہیں،سینکڑوں زخمی جب کہ30 ہزار سے زائد کارکنوں کو پکڑا جا چکا ہے جن میں عمررسیدہ اور ضعیف مرد، عورتیں اور بچے بھی ہیں اور جوان حیا صفت بچیاں بھی شامل ہیں۔بنگلہ دیش کے جنوب میں خلیج بنگال کے خوبصورت ساحل پر چٹاگانگ کا شہر آباد ہے۔ 60 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل یہ شہر اپنی سرسبز و شاداب پہاڑیوں و جنگلات اور دلکش ساحل کی وجہ سے سیاحوں میں بہت مشہور ہے۔ چٹاگانگ یونیورسٹی بنگلہ دیش کی بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ خوبصورت سبزہ زاروں سے گھری یہ یونیورسٹی آج اسلامی چھاترا شیبریااسلامی جمعیت طلبہ کے پاکباز جونواں کے لہو سے گل رنگ ہے۔ عوامی لیگ کی موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیاں اپنے عروج پر ہیں لیکن جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور اسلامی چھاترا شیبیریااسلامی جمعیت طلبہ اس کے خاص نشانے پر ہے۔ عوامی لیگی غنڈے جماعت اسلامی پر قیام بنگلہ دیش کی مخالقت بنگلہ قوم سے غداری کا الزام لگاکر اس کی قوت کو توڑنا اور مخالفین کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں۔
پندرہ کروڑ سے زائدکی آبادی والے ملک بنگلہ دیش جس کا رقبہ56ہزار مربع میل ہے اسکے عوام کی اکثریت بھارتی بالادستی کی مخالف ہے توایک تعدادضروروہ بھی ہے کہ جوپاکستان سے علیحدہ کرانے پر بنگلہ دیش بنانے پربھارت کے چاہنے والوں کی بھی ہے۔ ان میں ایک کروڑ سے کچھ زیادہ تو ہندو ہی ہیں8فیصدجو شہروں کی تجارت، بار ایسوسی ایشنوں اور میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔فروری 2013کے وسط میںبنگلہ دیش کی پارلیمان نے جنگی جرائم سے متعلق ملکی قوانین میں ایسی ترامیم کی منظوری دے دی ہے، جس کے جماعت اسلامی کے خلاف بھی مقدمہ چلایا جا سکے گا۔ملکی پارلیمان سے منظور کی جانے والی ان ترامیم کو جماعت اسلامی پر پابندی کی طرف ایک ایک خوفناک قدم قرار دیا جا رہا ہے۔یہ خوفناک صورتحال ایسے وقت میںپیداہوئی ہے، جب ایک روز قبل سیکولر خیالات کی مالک وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے عندیہ دیا تھا کہ وہ جماعت اسلامی پر پابندی کی حمایت کریں گی۔ جیسے ہی ان ترامیم کی خبر عام ہوئی،اس کے بعد درجن بھراکابرین جماعت کوگرفتارکیاگیاانہیںکال کوٹھریوں میں پابندسلاسل ہیں اس جوروظلم کے خلاف ڈھاکہ میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کراحتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کے خلاف سازشیں ختم کی جائیں۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اپنے خلاف ہورہی سازشوں پر پورے ملک میں بڑے پیمانے پر عوامی رابطے کی مہم شروع کئے ہیں، جس میں ہڑتالوں اور نوجوانوں کے زبردست مظاہروں نے حکومت کو ہلا دیا ہے، پولیس نے عوامی لیگ کے کارکنوں سے مل کر جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایاگیا بلکہ کھلے جماعت کے کارکنان پر گولیاں مار کر جاں بحق کیاگیا۔
موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان نے 1970 کی دہائی میں جماعت اسلامی پر جزوی طور پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مستندسیاسی پارٹی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کے حق میں نہیں تھی اور اس نے جنگ آزادی کے دوران مبینہ طور پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر میں پاکستان کی مدد کی تھی۔ تاہم 1975 میں بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد فوجی حکومت نے اس پابندی کو ہٹا دیا تھا۔حسینہ واجد کی قیادت میں بنگلہ دیش کی سیکولر حکومت جنگی جرائم میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف ایک خصوصی ٹربینول میں مقدمے چلا رہی ہے۔جماعت اسلامی اور بی این پی کا کہنا ہے کہ ان کے ممبران پر عائد تمام تر الزامات بے بنیاد ہیں اور سیاسی مقاصد کے لئے گھڑے گئے ہیں۔سچ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں آج کل سڑکیں رنگین اور گلیوں کی نالیاں خوں آلود کی جا رہی ہے جس پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز اٹھا رہی ہے اور نہ ہی دنیا کے قضاوقدرکے مالک بنے بیٹھے عالمی چوہدری آگے بڑھ کر اس خونریزی کو روکنے کی زحمت گواراکر رہے ہیں۔ انسانی اقدار کا دم گھٹنے لگتا ہے تو چند بے اختیار لوگ دنیا کو ضرور بتا رہے ہیں کہ یہ کریمنل کورٹس قتل عام کے آرڈر دینے کے لئے بنائی گئی ہیں۔
موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان نے 1970 کی دہائی میں جماعت اسلامی پر جزوی طور پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مستندسیاسی پارٹی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کے حق میں نہیں تھی اور اس نے جنگ آزادی کے دوران مبینہ طور پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر میں پاکستان کی مدد کی تھی۔ تاہم 1975 میں بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد فوجی حکومت نے اس پابندی کو ہٹا دیا تھا۔حسینہ واجد کی قیادت میں بنگلہ دیش کی سیکولر حکومت جنگی جرائم میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف ایک خصوصی ٹربینول میں مقدمے چلا رہی ہے۔جماعت اسلامی اور بی این پی کا کہنا ہے کہ ان کے ممبران پر عائد تمام تر الزامات بے بنیاد ہیں اور سیاسی مقاصد کے لئے گھڑے گئے ہیں۔سچ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں آج کل سڑکیں رنگین اور گلیوں کی نالیاں خوں آلود کی جا رہی ہے جس پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز اٹھا رہی ہے اور نہ ہی دنیا کے قضاوقدرکے مالک بنے بیٹھے عالمی چوہدری آگے بڑھ کر اس خونریزی کو روکنے کی زحمت گواراکر رہے ہیں۔ انسانی اقدار کا دم گھٹنے لگتا ہے تو چند بے اختیار لوگ دنیا کو ضرور بتا رہے ہیں کہ یہ کریمنل کورٹس قتل عام کے آرڈر دینے کے لئے بنائی گئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ1971میں بنگلہ دیش کے قیام کے سلسلے میں اگرجماعت اسلامی روڑے اٹکارہی تھی تو چالیس سال گذرجانے کے بعد اس پر ملک کے ساتھ غداری کے مقدمات میں پھنسایاکیوں جارہا ہے؟ ایساتو نہیں جماعت کوکسی دوسرے معاملے کے حوالے سے انتقام لیاجارہاہے؟آیئے اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔1991کے بنگلہ جنرل الیکشن کے بعد حسینہ نے جماعت اسلامی سے اتحاد کرنے اورمل کر حکومت بنانے کا فارمولا پیش کیا جس میں تین وزرا اور سات خواتین کی مخصوص سیٹس دینے کی آفر کی گئی لیکن جماعت اسلامی نے سیکولر عوامی لیگ سے اتحاد کی اس آفر کو ٹھکرا دیا، جسے عوامی لیگ کے حلقوں نے کھلم کھلا اپنی بے توقیری سمجھا اور حکومت کرنے سے محروم ہو گئی ۔نتیجتاخالدہ ضیا کی قیادت والی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یابی این پی نے جماعت اسلامی کی بجائے دوسری چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کر کے حکومت کی تشکیل کی 1996 کے بنگلہ جنرل الیکشن میں بھی جماعت اسلامی نے پروفیسر غلام اعظم کی قیادت میں ملک گیر ایک کامیاب مہم چلائی اور ایک تیسری طاقت کے طور پر سامنے آئی تب تک ان پر کسی قسم کے الزمات نہیں لگائے گئے تھے لیکن جماعت اسلامی کی کردار کشی کی بنا بھاری اکثریت حاصل کر کے عوامی لیگ ایوانوں میں پہنچ گئی ۔اس بار جماعت اسلامی نے بی این پی سمیت چار جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک طاقت ور اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور عوامی لیگ کی غلطیوں اور غیر جمہوری رویوں پر کھل کر تنقید کی۔ 2001 میں جماعت اسلامی اور بی این پی نے انتخابی الائنس کے نتیجے میں دو تہائی اکثریت حاصل کی خالدہ ضیا کی قیادت میں جماعت اسلامی حکومت کا حصہ بنی۔ جماعت کے وزرا نے کرپشن کے خاتمے اوربنگلہ دیش میں غربت میں کمی لانے کے لئے قابل قدر کام کرتے ہوئے اپنے آپ کو تاریخی وزرا کے طور نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ عالمی سطح پر منوایا،سیاسی انتقام کی آگ میں جلنے والی عوامی لیگ نے اسی دوران اپنی جماعت اسلامی مخالف مہم کو تیز کر دیا اوراسے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پیش کیا جانے لگالیکن اسے اپنے منفی پروپگنڈے میں ناکامی ہوئی ۔
ہم کتنے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔بوڑھوں کو بھی، جوانوں کو بھی اور بچوں کو بھی۔ہم نے انھیں طبعی طور بھی مرتے ہوئے دیکھا ہے اور حادثاتی طور پر بھی۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر شخص کی موت کا ایک وقت متعین کر دیا ہے۔نہ اس سے ایک لمحہ پہلے اسے موت آسکتی ہے نہ ایک لمحہ بعد۔تمام انسانوں میں برگزیدہ ہستیاںخداکے مبعوث کردہ انبیا کرام علیہم السلام اس دنیافانی سے نقل کر گئے ،سیدالاولین والآخرین خاتم النبیین صلعم جن کے لئے یہ کائینات بنادی گئی تھی اورانکے صحابہ عظام علیہم الرضوان اس دارفانی سے پردہ فرماگئے، اولیا و صلحا امت اس جہان فانی سے کوچ کرچلے گئے۔جبکہ خداکے باغی اوراس کے دشمن جنہوں نے اس کرہ ارض پرفسادپھیلایااورخونریزی کی فرعون و نمرود اور ہامان و شداد،ابوجہل،ابولہب ،عتبہ ،ربیعہ اورشیبہ کو بھی موت نے دھر دبوچا اور ان کے سارے کروفر، بلند و بالا محلات اور طاقت ور لشکر انھیں موت کے منہ سے نہ بچا سکے۔دونوں گروہوں کے پیچھے صرف ان کے تذکرے رہ گئے کہ کون کیسی سوغات لے کر اپنے رب کے حضور پہنچا ہے۔
اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کس کی موت ہوئی؟ یا کب ہوئی؟ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اس کی موت کیسے ہوئی؟اسے طبعی موت آئی ہے ؟یا وہ کسی حادثہ کا شکار ہو ا ہے ؟ یا اللہ کا نام لینے اور اس کا کلمہ بلند کرنے کی پاداش میں دنیا کے باطل خدائوں نے اسے جینے کے حق سے محروم کر دیا ہے ؟ مولانا نظامی پر بے شماراور بودے اور لچر الزامات عائدکردیئے گئے تھے کہ جنھیں سن کر غیر جانب دار کیا، مخالف بھی جھوٹ قرار دینے کے بغیرنہیں رہ سکتا۔یہ الزامات اس شخصیت پر لگائے گئے تھے کہ جو ایک ایسی جماعت کے سربراہ تھے جوبنگلہ دیش میں اسلامی نظام کے قیام کی علم بردار ہے، جورب کی دھرتی پررب کانظام قائم کرنا چاہتی ہے، جو عدل و انصاف، مساوات اور بھائی چارگی کی داعی ہے۔

 

Comments are closed.