ابلیس کا شکنجہ !

عمر فراھی۔۔۔۔۔
کسی علاقے اور زمین پر چاہے کتنا ہی خوبصورت مکان کیوں نہ بنا دیا جاےُ اور اس مکان کو بنانے والے راجگیر انجینیُر اور آرکیٹکٹ بھی چاہے کتنے ہی باصلاحیت کیوں نہ ہوں اگر انہوں نے مکان بنانے سے پہلے ماحولیات کے مطالعے کو ذہن میں رکھ کر عمارت کی تعمیر کا نظم اور منصوبہ نہیں بنایا اور مکان تعمیر کردیاتو مکان ہمیشہ ہی روشنی اور ہوا پانی کی شکایت کرتا رہے گا اور پھر اس خوبصورت مکان میں مکین گھٹن محسوس کئے بغیر نہی رہ سکتے –
موجودہ دور میں دنیا کے ہر سیکولر ملک میں مسلمان اگر دوسری قوموں کی بنسبت پسماندہ ہے یا ان سے ہم آہنگ نہیں ہوسکا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ ماحولیات کا فقدان بھی ہے ۔مسلمانوں کو اپنی ترقی اور نشو نما کیلئے جو تہذیبی آزادی اور دینی معاشرہ میسر ہونا چاہئے تھاوہ حاصل نہیں ہو سکا ۔یعنی جس خالص اسلامی معاشرے اور نظام سیاست کی وجہ سے وہ اٹھارہویں صدی تک نہ صرف اپنی شناخت کو قائم رکھ سکا ترقی بھی کرتا رہا لبرل طرز سیاست نے اسے دوغلہ بنا دیا ہے ۔
یہ خیال کہ اگر دوسری قومیں ایک لبرل اور مخلوط معاشرے میں ترقی کی راہ نکال سکتی ہیں تومسلمان کیوں نہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ماضی کے بارہ تیرہ سو سالوں تک یا تو مسلمانوں نے حرام و حلال کی بنیاد پر اپنے معاشرے کی تخلیق خود کی تھی یا جہاں وہ حکمراں تھے اسلامی تہذیب و تمدن ہی غالب تھا اور اس نے عالم انسانیت کو بھی ترقی کے فطری مواقع فراہم کئے ۔مسلمان اسپین سے لیکر سمر قند بخارہ ہندوستان ایران اور بغداد جہاں تک پہنچا وہاں اپنی چھاپ چھوڑ گیا۔مگراٹھارہویں صدی کے بعد وہ اچانک تنزلی کا شکار ہوا تو اس کی وجہ وہی تھی جس کا ذکر اوپر کیا ہے کہ وہ تہذیب مغرب اور اسلام دونوں کو ساتھ لیکر آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہو گیا ۔کچھ ترقی پسند مفکرین کا خیال یہ بھی ہے کہ مسلمان جدید تعلیم سے دور ہونے کی وجہ سے پسماندہ ہے ۔یہ خیال سراسر باطل ہے ۔جس وقت تاتار یوں نے بغداد پر حملہ کیا کیا وہ تعلیم اور ٹکنالوجی میں مسلمانوں سے آگے تھے -جس وقت سات سو سال تک حکومت کرنے کے بعد اسپین سے مسلمانوں کا اخراج ہو رہا تھا کیا مسلمان جاہل تھا اور عیسائی تعلیم یافتہ ہو گئے تھے ۔نہیں ان سات سو سالوں میں عیسائیوں کی حس بے دار ہو چکی تھی اور مسلم حکمراں بے حسی کا شکار تھے ۔ عیسائی نوجوانوں نے وہی راستہ اختیار کیا جس راستے سے مسلمان اقتدار پر غالب آئے تھے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ انہوں نے ترکی میں سلطنت عثمانیہ اور ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کی اینٹ سے اینٹ نہ بجا دی ۔یہاں تک کہ یہود بھی بیدار ہو گئے اور ہزاروں سال سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد انہوں نے ریاست اسرائیل کی بنیاد رکھ دی ۔بات صرف یہ نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے لئے ایک ریاست کے طور پر اپنا ایک مستقل وطن بنا لیا جبکہ اسی خطے میں اسرائیل سے بڑی بڑی عربوں کی ریاستیں پہلے سے وجود میں آچکی تھیں ۔ان عرب ریاستوں اور اسرائیل میں فرق یہ تھا کہ اسرائیل نے امریکہ کو بھی غلام بنا کر پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھا اور عربوں نے امریکہ اور روس کی سرپرستی میں اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنی خود کی فوج بھی نہیں بنائی یا اگر ان میں سے عراق ایران اور مصر نے کچھ فوج اکٹھا بھی کر لی تو بھی اپنی مضبوط انٹلیجنس اور ہتھیاروں کے معاملے میں خود کفیل نہیں رہے جس کی وجہ سے نہ صرف دو بار اسرائیل نے ان کی زبردست پٹائی کی خلیج کی جنگ میں دو مضبوط ملک خود آپس میں ہی ٹکرا کر تباہ ہو گئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائی اور یہودی نوجوان اور ان کی قیادت جس طرح اپنی قوم کے وفادار اور مخلص رہے اکثرمسلم حکمرانوں کو صرف اپنا اقتدار عزیز رہا ہے اور ابھی بھی ہے ۔سوال صرف مسلم ڈکٹیٹروں کا نہیں ہے جس وقت یہود و نصارٰی یلغار کر رہے تھے اس وقت بھی مسلمانوں کے علماء بے ڈھب دعوت کی ریپلاننگ میں مصروف تھے اور آج بھی ان کے ذہنوں پر یہی سوچ غالب ہے ۔
ڈاکٹر اسرار احمد سے ایک شخص نے بہت سی مسلم تنظیموں کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ دور میں غلبہ دین کے تعلق سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ پہلی بات تو آپ نے جن تنظیموں اور مسلمانوں کی تعداد کا ذکر کیا ہے دین کو غالب کرنا ان کے نصب العین میں شامل ہی نہیں ہے ۔ان میں سے بیشتر تنظیموں کی محنت اور دعوت صرف مسلمانوں کو ان کی شکل وشباہت اور عبادات کے طورطریقے تک ہی محدود رکھنا ہے ۔
جبکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قومیں اپنی ریاست اور اقتدار کے بغیر نہ صرف اپنی تعلیم و تربیت ,معیشت اور تہذیب ومعاشرت کو اپنی مرضی کے مطابق زندہ نہیں رکھ پاتیں ہیں رفتہ رفتہ اپنے تشخص سے محروم ہو کردوسری تہذیبوں کی اسیر ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ آج لبرل طرز سیاست اور ریاست میں مسلمانوں کا حال ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سقوط غرناطہ کے بعد بھی ترکوں اور مغلوں نے جو سلطنتیں قائم کیں وہاں کسی حد تک اسلامی نظام ہی نافذ رہا لیکن وہ اسے ہمیشہ کیلئے مستحکم نہیں کرپائے تو اس لئے کہ وہ اسلامی سیاست کو ایک عالم گیر تحریک کی شکل دینے میں ناکام رہے یااپنی حکومتوں کے دائرہ اختیار سے آگے اس طرح نہیں سوچ سکے جیسا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں نے امریکہ روس چین اور فرنس تک کو اپنا غلام بنا کر اپنی سوچ کو اقوام متحدہ کے نام سے عالم گیر تحریک میں تبدیل کر دیاہے۔پہلے ہمیں بھی لگتا تھا کہ یہود و نصارٰی کی اس عالم گیر تحریک میں ان کی یونیورسٹیوں نے اہم کردار ادا کیا لیکن اب ہم یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ تعلیم کا بھی اپنا ایک رخ اور ایک زاویہ ہوتا ہے ۔میں سوچتا ہوں کہ ان یونیورسٹیوں کے قیام سے پہلے ہی ان کے ذہن میں اقتدار حاصل کرنے کی یہ سوچ آئی کہاں سے ۔پھر یاد کرتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ ابلیس نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کے بندوں کو صراط مستقیم سے ضرور گمراہ کرے گا ۔یعنی وہ اللہ کے صالح بندوں سے خلافت چھین لے گا ۔وہ چھینتا رہا اور اللہ بھی اپنے رسول بھیجتا رہا۔اور تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار خلیفہ آئے ۔اب تو کوئی رسول آنے سے رہا لیکن جو حالات بن رہے ہیں اور ابلیس نے ایک گلوبل تحریک کے ذریعے جو مضبوط لکیر کھینچ دی ہے اور جو منصوبہ بنا رہا ہے کہ پوری دنیا کو ایک فوج اور نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے تنہا ایک ابلیسی خلافت کے ماتحت کسی حد تک ایک آئیں اور قانون کا پابند بنا دیا جائے ۔
یقیناً اس لکیر کو بھی ٹوٹنا ہی ہے اور اللہ کے بندوں کی ایک قلیل تعداد ہی سہی جواپنے عزم اور نصب العین پر قائم ہے اسے حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ کے ساتھ وقت کے دجال سے متصادم ہونا ہی ہے مگر اس دوران کتنے لوگ دجالی نظام کا ایندھن بن جائیں گے اور کتنے لوگ حقیقت میں اپنے ایمان و یقین کو سلامت رکھ پائیں گے یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور اکثریت کی غیر اخلاقی مفاد پرستانہ خرافاتی ذہنیت کو محسوس کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دن قریب نہیں تو بہت دور بھی نہیں ہے جب آپ کے لئے موجودہ ماحول میں یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل نہ ہوجائے کہ آپ کدھر ہیں ؟ اور پھر آپ اقبال کو بہت شدت سے یاد کریں کہ
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
Comments are closed.