سترہ تاریخ تک کسان آندولن ختم نہیں ہوا تو دہلی ایک بار پھر جلے گی !!!

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹکا )
ایڈیٹر گوشہ خواتین بصیرت آن لائن
سترہ تاریخ تک کسان آندولن ختم نہیں ہوا تو دہلی ایک بار پھر جلے گی ….
دراصل یہ الفاظ راگنی نامی اُس ناگن کے ہیں جو آج سے ایک سال قبل دہلی میں ہوئے فساد کی اصل ذمہ دار ہے جس نے شاہین باغ کو ہٹانے کے لئے دنگے کروائے، معصوم لوگوں کا خون بہایا اور آج دوبارہ گیڈر بھبھکیوں کے ساتھ کسان آندولن ختم کرنے کے لئے واپس آئی ہے ہوبہو اُسی انداز میں …….
اگر آپ بھولے نہیں ہیں تو یہ وہی دسمبر ہے جس کی کپکپاتی ہوئی سرد راتوں میں دہلی کی سڑکیں انقلابی نعروں سے گونج رہی تھیں
سی اے اے, این آر سی, این پی آر جیسے ظالمانہ قوانین کے خلاف امڈا جامعہ ملیہ کے نوجوانوں کے سیلاب نے پورے ملک کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا تھا اور اس تاریخی مظاہرے میں بچے بوڑھے مرد و خواتین سبھی کا تعاون حاصل تھا اور پورا بھارت ایک زبان ہوکر سرکار کی غلط پالسیوں کے خلاف آواز اٹھانے لگا تھا اسی بیچ دہلی میں جانباز شاہینوں کا شاہین باغ بھی وجود میں آیا جس سے انسپائر ہوکر اسی طرز میں ملک کی دیگر ریاستوں حتی کہ ہر شہر، قصبے،اور چھوٹے چھوٹے گاؤں میں چھوٹے بڑے شاہین باغ آباد ہوئے اور اس شاہین باغ نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی جس کو رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا اور انہین آباد کرنے والی صنف نازک شاہینوں کے جوش و جذبہ کا یہ عالم تھا کہ ان کے آگے تاناشاہ بی جے پی سرکار کے پسینہ چھوٹنے لگے اور بوکھلائی ہوئی سنگھی سرکار نے ان جانباز شاہینوں کو ڈرانے دھمکانے ان کے حوصلے توڑنے کی ہر ممکن کوشش کرڈالی , سام دام دنڈ بھید جیسے ہر قسم کے حربے استعمال کئے،
کبھی انہیں نقصان پہنچانے کے لئے اسلحہ بارود سے لیس آتنکوادیون کو بھیج دیا جاتا تو کبھی گنجن نامی سنگھی دہشتگرد کو شاہین باغ مین برقعہ پہنا کر وہاں کا ماحول بگاڑنے کے لئے بھیجا گیا تو کبھی رات گئے گاڑی مین دو آتنکوادی اندھادھند گولیان چلاتے ہوئے شاہین باغ میں گھس گئے، تو کہیں کپل مشرا اور انوراگ جیسے بی جے پی نیتاؤں نے آشتعال انگیز تقریریں کیں اور "دیش کے غدارون کو گولی مارو سالون کو جیسے نعرے لگائے اتنا ہی نہیں شاہین باغ مین موجود شاہینوں پہ طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے اُن کی دیش بھکتی والے جذبہ کو 5 سو روپیہ سے جوڑا گیا, بریانی کے طعنے دئے گئے, کنڈوم اور دھندے بازی کی بہتان تراشی کی گئی، ان سب کے باوجود شاہینوں کا حوصلہ نہیں توڑ پائے،
خود ہوم منسٹر امت شاہ نے اپنے انتخابی بیان مین یہاں تک کہہ دیا کہ الیکشں کے دن جب بٹن دبایا جائے گا تو شاہین باغ مین کرنٹ لگے گا, امت شاہ کے اس بیان کا کنیکشن کہیں نہ کہیں دہلی میں ہوئے فساد سے جُڑا تھا، تبھی کپل مشرا آور راگنی تیواری کے حوصلے اتنے بڑھ گئے کہ ان دونوں نے دہلی پولس کو کھلی دھمکیاں دینی شروع کردی، شاہین باغ کو خالی نہ کروایا تو فلاں فلاں کردینے کی بات کہی آور جعفر اباد خالی کروانے کے لئے راگنی نامی اس بدزبان ناگں نے اپنا زہریلا پھن پھیلاتے ہوئے اپنے سنگھی غنڈوں کے ساتھ مل کر شاہین باغ سے تھوڑے فاصلے پہ راستہ بند کردیا اور سرکار ان آتنکوادیون کی پشت پناہی کرتی رہی ….
ویسے بھی پولس اُن کی انتظامیہ ان کی اور سرکار بھی انہیں کی ایسے میں گلے میں سنگھیوں کے نام کا پٹہ پہنی خاکی پولس یمراج کا اوتار بن گئی اور 23 فروری 2020 کو وہی ہوا جس کا ڈر تھا ……..
دہلی کے نارتھ ایسٹ میں نفرت کی لگائی آگ اس قدر بھڑکی کہ انسانیت جل کر راکھ ہوگئی
دراصل یہ فساد ایک سیاسی سازش کے تحت تھا جس میں ایک مخصوص فرقہ کو ٹارگیٹ کیا گیا تھا آور کئی بےگناہ مسلم نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی گجرات کے بعد شاید یہ دوسرا ایسا فساد تھا جس میں حیوانیت کا ننگا ناچ کھیلا گیا اور پولس کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی میں دنگائیوں کا ساتھ دیتی نظر آئی تھی, اُس دنگے میں بھی کپل مشرا اور راگنی تیواری نے اہم کردار نبھایا تھا …….
یہاں پہ دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں سی پی ایم کے ذریعہ بدھ کے روز جاری کردہ ایک حقائق کی اطلاع میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو تشدد میں اضافے اور تحقیقات میں تعصب برتنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
شمال مشرقی دہلی ، فروری 2020 میں فرقہ وارانہ تشدد کے عنوان سے ، رپورٹ میں کہا گیا کہ ، مسٹر امت شاہ کے ماتحت وزارت داخلہ کا کردار کافی حد تک اس تشدد کے بڑھنے کے لئے ذمہ دار تھا۔
رپورٹ میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ “فرقہ وارانہ تشدد کو دہلی کے فسادات سے تعبیر کرنا غلط ہے۔ ’’ فسادات ‘‘ ایسی صورتحال کی وضاحت کرتے ہیں جہاں دونوں فریق برابر کے شریک ہوتے ہیں…. تاہم ، یہ حملہ ہندوتوا ہجوم کی طرف سے تھا جب کہ دوسری طرف ، مرکزی طور پر ، شدت سے خود کو اس طرح کے حملوں سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ تقریبا تمام علاقوں میں ، پولیس کے ہندوتو ہجوم کا ساتھ دینے کے ویڈیو ثبوت موجود ہیں …………. آور آج ایک سال بعد پھر سے وہی سب کچھ دہرانے کی سازش رچی جارہی ہے پھر ایک بار تمام زہریلے ناگ کسان آندولن کے خلاف پھنکارتے ہوئے بلوں سے باہر نکلے ہیں اور اُسی انداز میں دھمکیان دی جارہی ہیں …….
راگنی تیواری عرف جانکی بین جو ہندتوا رہنما کہلاتی ہے اس ناگں نے کسانوں کے جاری احتجاج کو تشدد کے ساتھ ختم کرنے کی دھمکی دی ہے …..
ایک ویڈیو میں تیواری نے کہا کہ اگر حکومت 16 تا 17 دسمبر تک احتجاج بند نہیں کرواتی ہے تو دہلی کے جعفر آباد میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی طرح ہی اس بار پھر وہی تشدد دہرایا جائے گا, تیواری نے کہا کہ اگر انتظامیہ دہلی کو کسانوں کے احتجاج سے آزاد کرنے میں ناکام رہی تو وہ جعفرآباد میں اپنے کاموں کو دہرا دے گی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر انتظامیہ ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے تو جو بھی ہوگا اس کی ذمہ داری دہلی پولیس , مرکز اور ریاستی حکومت پر عائد ہوگی
راگنی تیواری پھر روڈ خالی کروائے گی اور کسان آندولن بند کروائے گی ……. راگنی تیواری نے شمال مشرقی دہلی سے کھلے عام فیس بک پر مسلمان ذبح کرنے کی بات کہی جس پر اس سے پوچھ گچھ تک نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی ملزم بنایا گیا اور اب اس نے کسانوں کے احتجاج کو ختم کرنے کے لئے ایک تازہ وارننگ دی ہے بصورت دیگر وہ اسے کسی اور جعفرآباد میں بدل دے گی”…….
ایسے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان دنگائیوں کو بھاجپا نیتاؤں کا مکمل ساتھ حاصل ہے , جب خود سے بات نہیں بنتی تو یہ ان دنگائیوں کو آگے رکھ کر اپنے گندے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کرتے ہئں ….
صدیوں سے ظالموں کی یہی چال رہی ہے جب حق کو ڈرا دبا نہین سکتے تو اُس کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں
یاد رہے اس بار دہلی مین کسان بھائیوں آور اقلیتی طبقے کے ساتھ کچھ بھی برا ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار بیشک مرکزی سرکار ہوگی جو آح اپنے غنڈوں کو آگے رکھ کر خود تماشائی بنی ہے ……..
Comments are closed.