مدتوں رویا کرینگے جام و پیمانہ مجھے

غفران قاسمی
۱۴دسمبر ۲۰۲۰ بروز دوشنبہ واٹس ایپ پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک اسکرین پر ایک خبر نمودار ہوئی، خبر اتنی وحشتناک اور روح فرسا تھی کہ راقم کچھ دیر تک تو یوں ہی ساکت و جامد پڑا رہا، زبان پر انا للہ وانا الیہ راجعون کا ورد تھا، اور دل غم کے اتھاہ سمندر میں ڈوبا جا رہا تھا، جذبات و احساسات کا دریا موجزن تھا، صدمہ سے نڈھال دل خدائے پاک کے حضور کچھ اس طرح سر گوشیاں کر رہا تھا، یا خدا تیرے ہر فیصلے میں کوئی نہ کوئی حکمت پنہاں ہوتی ہے، تو جو بھی کرتا ہے اسی میں تیرے ناتواں بندوں کی مصلحت ہوتی ہے، اسلئے تیرے ہر فیصلہ پر صابر و شاکر رہنا ہی ہم بندوں کا فرض ہے، مگر اس غم و اندوہ کا کیا کریں جو دل و جگر کو کھوکھلہ کئے دیرہا ہے، آخر علماء کی رخصتی کا یہ دلدوز سلسلہ کب تھمیگا؟ ابھی ایک کے جانے کا غم سوار ہی رہتا ہے کہ دوسری کوئی اور عظیم شخصیت ہمیں داغ مفارقت دیجاتی ہے، خدایا ہم کیا کریں؟ علم کی مجلسیں سونی ہوئی جا رہی ہیں، مسند علم و فن کو زینت بخشنے والے علماء ربانیین رخصت ہوئے جا رہے ہیں، ابھی حضرت مولانا ابن الحسن عباسی صاحب (جنہیں اب ہمیں دامت برکاتہم کے بجائے رحمۃ اللہ علیہ لکھنا پڑ رہا ہے) کی عمر ہی کیا تھی؟ ابھی تو حضرت نے عمر کی مکمل پانچ بہاریں بھی نہیں دیکھی تھیں، ابھی تو دل کو قوی امید تھی کہ حضرت کا فیض ابھی برسوں جاری رہیگا، اورحضرت کے گہربار قلم سے نکلنے والے ادبی شہ پارے ہم جیسے تشنہ کاموں کی سیرابی کا سامان فراہم کرتے رہینگے، ابھی حضرت کے بہت سارے علمی و تحقیقی مگر ادب کے شاہکار مضامین ذہن و دماغ پر ضیاپاشیاں کرتے رہینگے، ابھی تو حضرت والا کے فیض رساں قلم سے کتنوں کو نکھرنا ہے، بننا ہے، سنورنا ہے، مگر یہ کیا حضرت کے انتقال پر ملال کی خبر اور اتنی اچانک ؟ ٹھیک ہے حضرت کی طبیعت ناساز چل رہی تھی، کافی دنوں سے بستر علالت پر تھے، لیکن حضرت کے کام تو جاری تھے، زندگی کا جو مشن نونہالان امت کی رہنمائی کا حضرت والا نے متعین کر لیا تھا اسی سمت کی طرف حضرت کا قافلہ رواں دواں تھا، ابھی حال ہی میں تو حضرت والا کی سر پرستی و رہنمائی میں ماہنامہ النخیل نے مطالعہ نمبر شائع کیا تھا، جس میں ہند و پاک کے بڑے بڑے علماء کرام کے مضامین شامل اشاعت تھے، جنہوں نے اپنے مطالعہ کی روداد قلمبند کیا تھا، جسکا مقصد یہ تھا کہ نئی نسل کے مطالعہ کو صحیح سمت ملے، اور انکا مطالعہ بھٹکنے نہ پائے، ورنہ تو کتنے ایسے ہیں جنکی صحیح رہنمائی نہ ہونے سے مطالعہ کو درست سمت نہیں ملتی، وہ مطالعہ کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو انکے جذبات بہت پاکیزہ اور ستھرے ہوتے ہیں، لیکن پہر وہ اسکی بھول بھلیا میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ واپسی دشوار یا دیر طلب ہو جاتی ہے ، خدایا اب ایسے لوگ کہاں ملینگے جو قدم قدم پر نونہالان امت کی رہنمائی کیلئے کمر بستہ رہتے تھے، راقم نے خود حضرت کی مشہور زمانہ کتاب ( متاع وقت اور کاروان علم ) سے اس قدر فائدہ اٹھایا ہے کہ میرے پاس الفاظ نہیں کہ بتا سکوں، ایک بار پڑھا، اچھی لگی، بار بار پڑھا، وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا، ویسے اس کتاب میں تو ان گنت خوبیاں ہیں، ایک چیز جو مجھے سب سے بھلی اور پیاری لگی جس نے مجھے بار بار پڑھنے پر مجبور کیا وہ اشعار کا بر محل اور بر موقع استعمال ہے، ایسا لگتا ہے جیسے اشعار مولانا کے سامنے دست بستہ کھڑے دعوت انتخاب دے ر ہے ہوں، مولانا نے اس خوبی اور سلیقہ سے اشعار کو چنا ہے جیسے انگوٹھی میں ہیرے کا نگینہ جڑ دیا ہو، راقم تو اشعار پڑھتا تھا، اور طبیعت جھوم اٹھتی تھی، پہلی فرصت میں انہیں حافظہ میں قید کرتا، پہر ڈا ئری میں قلمبند کرتا، یاد پڑتا ہے مولانا نے وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلانے کیلئے ایک موقع پر یہ اشعار ذکر کیا ہے *مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں* *میں اپنی تسبیح روز وشب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ* *ہر ایک سے آشنا ہوں لیکن جدا جدا ہے رسم و راہ مری* *کسی کا راکب کسی کا مرکب کسی کو عبرت کا تازیانہ* *نہ تھا اگر تو شریک محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا* *مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ* مولانا کے لکھنے کا انداز بہت نرالا تھا، اسلوب اچھوتا، الفاظ دلکش، اپنی بات کو اتنے خوبصورت اور پرکشش انداز میں کہتے کہ پڑھنے والا پڑھتا چلا جائے اور جو کچھ پڑھے دل پر نقش ہوتا چلا جائے، مولانا کی شان میں اگر مرزا غالب کا یہ شعر پڑھا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا *ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے* *کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور* مولانا جیسی بلند فکر اور پاکیزہ سوچ کی حامل شخصیات خال خال ہی میسر میسر آتی ہیں، سچ تو یہ ہے کہ مولانا جیسے عبقری لوگ اس دنیا میں خدا کی طرف سے اپنے بندوں کو عطا کئے جانے والے نایاب عطیہ ہوتے ہیں، ان کے جیسے لوگ آسانی سے نہیں ملتے *اے عشق مل سکینگے نہ ہم جیسے سر پہرے* *برسوں چراغ لیکے زمانہ اگر پہرے* اور *ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے* *بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا* آج جبکہ مولانا ہمارے درمیان نہیں رہے تو دل خون کے آنسو رو رہا ہے، انکی یاد ستا رہی ہے، انکے چاہنے والے غم سے نڈھال ہیں، دل بجھ سے گئے ہیں، درحقیقت مولانا جیسی شخصیات کی یاد اتنی آسانی سے دل سے نہیں جاتی، رہ رہکر آتی ہے، اور دل کو کچوکے لگاتی رہتی ہے، ایک کسک سی رہتی ہے جو بیچین کئے رکھتی ہے، جس سے آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے ہیں، سچ کہا ہے *جانکر من جملۂ خاصان میخانہ مجھے* *مدتوں رویا کرینگے جام و پیمانہ مجھے* یہ سرگوشیاں چل ہی رہی تھیں کہ دل کے ایک گوشے سے آواز آئی کہ ٹھیک ہے آج مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن انکی کتابیں تو ہیں، انکی یاد زندہ رکھنے کیلئے، ان سے رہنمائی حاصل کرنے کیلئے، ان سے فیض اٹھانے کیلئے، انکے محبین و مخلصین جب چاہیں انکی کتابیں پڑھیں، اور ان سے فائدہ اٹھائیں، ان کا جسمانی وجود نہیں رہا تو کیا ہوا ؟ ان کی فکر، انکی سوچ، ان کا مشن تو اس وقت تک زندہ رہیگا جب تک انکی کتابیں موجود رہیں گی *آتی ہی رہیگی ترے انفاس کی خوشبو* *گلشن تری یادوں کا مہکتا ہی رہیگا*
Comments are closed.