اردودرس وتدریس: قصّہ اردو کی ایک اورحق تلفی کا…

انوارالحسن وسطوی
9430649112
امسال بہار کے اسکولوں ،کالجوں اوریونیورسٹیوں میں اردو درس وتدریس کے دائرے کو محدود کرنے کے لیے سرکاری سطح پرکئی اقدام کیے گئے۔پہلا کام تویہ کیا گیا کہ حکومت کے محکمۂ تعلیم نے اپنے ایک مکتوب نمبر 799 مورخہ 15؍مئی 2020 کے ذریعہ ریاست بہارکے سکنڈری اورہائر سکنڈری اسکولوں میں اردو کی لازمیت کو ختم کرکے اسے اختیاری مضمون کے خانے میں رکھنے کا فرمان جاری کیا۔اس غیر منصفانہ سرکلر کے خلاف جب پوری ریاست میں احتجاج ہونے لگے تواس احتجاج کوبے اثر کرنے کے لیے محکمۂ تعلیم نے اپنے مکتوب نمبر1155 مورخہ 28؍اگست2020 کے ذریعہ ایک دوسرا سرکلر جاری کیا جس میں یہ وضاحت کی گئی کہ جن اسکولوں میں اردو کے 40؍طلبہ وطالبات ہوں گے وہاں اردو کے اساتذہ کی تقرری کا نظم کیاجائے گا۔یعنی اس سرکلر کے مطابق جن اسکولوں میں اردو کے 39 طلبہ وطالبات بھی اگرہوں گے تووہاں اردو کے اساتذہ کی تقرری نہیں ہوسکے گی۔یہ سرکلر اردو درس وتدریس کے فروغ کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ ہے اوراردوزبان کے ساتھ کیسا بھدّا مذاق ہے،اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔تھوڑی سی عقل رکھنے والا انسان بھی مسئلہ کی نزاکت کو بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
گذشتہ ستمبر2020 ء میں بہاراسٹیٹ یونیورسٹی سروس کمیشن نے بہار کی یونیورسٹیوں میں خالی پڑے اسسٹنٹ پروفیسروں کے عہدے پر تقرری کے لیے اشتہارجاری کیا،جس کے لیے درخواست دینے کی مدت گذشتہ 10؍دسمبر کو ختم ہوچکی ہے۔اس اشتہارکے ذریعہ بہار کی مختلف یونیورسٹیوں میں مختلف سبجکٹوں میں اسسٹنٹ پروفیسروں کے 4؍ہزار638 عہدے خالی دکھائے گئے ہیں جن پر تقرریاں ہوں گی۔یہ اسامیاں کس سال کی تیارکردہ فہرست کی بنیاد پر مبنی ہیں اس کی کوئی وضاحت اس اشتہار میں نہیں کی گئی ہے۔اشتہارکے مطابق جن 52 سبجکٹوں میں اسسٹنٹ پروفیسروں کی تقرری ہونی ہے ان میں انگریزی میں 253،ہندی میں 292 ،جغرافیہ میں 142،ا ینشینٹ ہسٹری میں 55،تاریخ میں 316،ہوم سائنس میں 83،پالیٹیکل سائنس میں 280،اکنامکس میں 268،سائیکلوجی میں 424،فزکس میں 300،ریاضی میں 261،فلاسفی میں 135،سوشیولوجی میں 108،کیمسٹری میں 332،بایولوجی میں 285،بوٹنی میں 333،اردو میں 100،فارسی میں 14 اورعربی میں بھی2 سیٹوں پر تقرریاں ہونی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور ہمارے نوجوان اسکالروں ،پی ایچ ۔ڈی اورنـٹ کوائیلفائی کرنے والو ںکے لیے یہ ایک بڑی مسرّت افزاخبرہے کہ وہ کالج اوریونیورسٹیوں میںبحال ہوکر قوم کے نونہالوں کے مسقبل کو سنوارنے میں اپنا کرداراداکریں گے۔لیکن اس خوشی میں اردو اسکالروں کی حصّہ داری آٹے میں نمک کے برابر رہے گی۔ایک تواردو کے حصّہ میں صرف 100؍سیٹیں ہی رکھی گئی ہیںاوراس پر طرّہ یہ کہ 100؍سیٹوں میں 41؍سیٹیں ایس سی ۔ایس ٹی زمرے کے امیدواروں کے لیے مختص کردی گئی ہیں۔جبکہ یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ جب مسلمانوں کو ملک کے آئین نے ایس سی۔ایس ٹی کی سہولیات سے محروم کررکھا ہے توایسی صورت میں مسلمانوں کے درمیان سے اردو کی یہ 41؍سیٹیں کیسے پُرہوسکیں گی؟باقی بچے ہندو،سکھ،بودھ اورجین مذہب کے لوگ جنھیں ملک کے آئین کی رو سے ایس سی۔ایس ٹی کی سہولتیں حاصل ہیں،ان میں کتنے لوگ ارد و کے پی ایچ۔ڈی اورنٹ کوائلیفائی ہیں یا اردو کی اعلیٰ ڈگری رکھتے ہیں،یہ سبھو ں کو معلوم ہے۔غیر مسلموں میں اردو پڑھنے کا چلن تقریباً ناکے برابر ہے۔وہ بھی ایس سی۔ایس ٹی کے زمرے میں تو ایسی مثالیں خال خال ہی ملیں گی۔ایسی صورتحال میں ایس سی ۔ایس ٹی زمرے میں 41؍ کی تعداد میں کہاں سے لوگ ملیں گے جنھیں بہاریونیورسٹی سروس کمیشن اردو کے اسسٹنٹ پروفیسرکے عہدے پر بحال کرے گی۔اس زمرے میں اگردوتین افراد بھی اردو کے ایم ۔اے ،پی ایچ۔ڈی اورنٹ کوائلیفائی مل جائیں تواسے چمتکارہی سمجھا جائے گا۔اردو کے سلسلے کی یہ سرکار ی پالیسی اردو کی حق ماری کی ایک دانستہ اورسوچی سمجھی سازش ہے،جسے اردوآبادی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اردو کے ساتھ ہونے والی ان حق تلفیو ں کی لڑائی اب ارد وآبادی اورارد و داں عوام کو خود ہی لڑنی ہوگی اوراس کے لیے اب سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔ہمارے مذہبی رہنمااردو کے مسائل یا کسی بھی لسانی مسائل کو ملّی مسائل نہیں مانتے اوراس سلسلے میںوہ خاموشی کو راہ دینے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔بچ گئے ہمارے سماج کے نام نہاد دانشوران حضرات توان کی نظرہمیشہ سرکارکی اونچی کرسیوں پر براجمان ہونے کے لیے مرکوز رہتی ہے۔اردو کاز سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔اردوکی محبت ان کے دل میں صرف اسی وقت جاگزیں دکھائی دیتی ہے جب وہ اردو کے نام پر کسی سجی سجائی محفل میںرونق اسٹیج ہواکرتے ہیں ارورانھیں اردو کے سلسلے میں تقریر کرنی ہوتی ہے۔جہاں تک ہمارے مسلم سیاسی رہنماؤں کا سوال ہے توان کا حال بھی جگ ظاہر ہے۔ابھی ہم لوگوں نے دیکھا کہ بہار اسمبلی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے 19؍مسلم ممبران اسمبلی میں صرف چھے لوگوں نے ہی اردو میں حلف لینے کی ہمت جٹائی۔ایک صاحب نے انگریزی میں اورایک صاحب نے سنسکر ت میں حلف لیااورباقی 11؍لوگوں نے ہندی میں حلف لیا۔یہ بات بعید ازقیاس نہیں کہ جو لوگ اردو میں حلف لینے میں عارمحسوس کرتے ہیں ان سے ہم آپ اردو کی لڑائی لڑنے ا وراردو کو اس کا واجب حق دلانے کی توقع کیسے کرسکتے ہیں؟ایسے لوگوں سے یہ توقع رکھنا بیوقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔
لہذا ضرورت ہے کہ بہارکی اردو آبادی حکومت پر دباؤ ڈالے کہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسروں کی تقرری کرتے وقت ایس سی۔ایس ٹی کوٹے سے بچی تمام سیٹوں کو ریزرویشن قانون کے مطابق دوبارہ تقسیم کرکے اردو کے لیے مقررہ تمام 100؍عہدوں پر اردو کے اسسٹنٹ پروفسیروں کی تقرری کو یقینی بنایاجائے اورایک بھی جگہ خالی نہ چھوڑی جائے تاکہ کالج اوریونیورسٹیوں میں اردو درس وتدریس کا عمل متاثر نہ ہو اورطلبہ وطالبات اپنی مادری زبان کی تعلیم سے محروم نہ رہیں۔اگریہ طریقہ اختیارنہیں کیا گیا تواس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت قصداً اوردانستہ طورپر اردو درس وتدریس کے عمل کو فروغ دینا نہیں چاہتی ہے۔اردو کی تعلیم وتعلم اوراس کی درس وتدریس کے مسئلہ کو نظراندازکرکے یااسے نقصان پہنچاکر کے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کا خوش کن نعرہ دینا اردو والوں کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔
٭٭٭

Comments are closed.