غیربرادری میں شادی کوفروغ دیاجائے

مفتی محمد اشرف قاسمی
ترتیب وپیشکش:
مفتی محمد توصیف صدیقی
قسط نمبر7.آخری قسط
خاندانی ترفع اور یہودیوں کی ہلاکت
یہودیوں کاعبرتناک انجام بھی اپنے اندرمسلمانوں کے لئے سبق رکھتا ہے۔ یہودیوں نے اپنے خاندان کواشرف و اعلیٰ سمجھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ بنو اسحق ؑ کے بجائے جب بنو اسماعیل ؑ سے حضرت خا تم الا نبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی، تو نسلی امتیا زات اورخا ندانی ترفع و تعلی کی وجہ سے یہو د رسا لت ماٰب ﷺ کا انکا ر کر کے گمرا ہی و ضلالت کے گڑھے میں جا گرے۔اورخدا ئی لعنت وپھٹکارکے حق دارٹھہرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے خاندان کوافضل و اعلیٰ سمجھ کردوسری برادریوں کو رذیل وحقیر جاننے سے بے شما ردینی مصالح فو ت ہو جاتے ہیں انجام کار دُنیوی واُخروی خسارے کا شکارہو ناپڑتاہے۔
سور ہ احزاب آ یت نمبر 36/میں غلام،غیر قریشی غیر ہا شمی حضرت زید ؓکا؛آزاد،قریشیہ، ہا شمیہ،حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح سے مسئلۂ کفا ئت پر پہنچنے والی ضرب کا جواب دیتے ہوئے حضرت مفتی محمد شفیع صا حب نور اللہ مر قدہ رقمطراز ہیں کہ۔
”حضرت زینبؓ اور عبد اللہؓ کے معا ملہ میں جب رسول اللہ ﷺ نے نسبی کفا ئت کے حق کو نظر انداز کرکے زید ؓبن حارثہ سے نکا ح منظور کر لینے کا حکم دے دیا تو ان کا فر ض تھا کہ اس حکم کے سامنے اپنی رائے اور اپنے نفس کے حقوق کوترک کر دیتے، اس لئے ان کے انکار پر قرآن کریم کایہ حکم نازل ہوا۔ رہا یہ مسئلہ کہ نسبی کفا ئت خود رسو ل اللہ ﷺ کے نزدیک قا بل رعا یت ہے تو خود آ پﷺ نے اس کی رعایت کیوں نہ فرمائی؟ تو اس کا جواب بھی مذ کورہ تقریر سے وا ضح ہو گیا کہ یہ رعایت دوسری دینی مصا لح کے با لمقابل قابلِ ترک ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبا رک میں متعدد نکاح اسی طرح غیر کوء میں اسی قسم کی دینی مصالح کی بنا پر کئے گئے۔“
( معا رف القر آن جلد7/ ص151/مطبوعہ کبت خا نہ نعیمیہ دیو بند)
آ گے حا صل کلام میں تحریر فر ماتے ہیں۔
”کوئی دوسری اہم مصلحت اس کفائت سے بڑھ کرسا منے آ جائے تو عورت اور اس کے اولیاءکو اپنایہ حق چھوڑ کرغیر کفوء میں نکاح کرلینا بھی جائز ہے۔ خصو صاجب کہ کوئی دینی مصلحت پیش نظر ہو تو ایسا کرنا افضل و بہتر ہے۔ جیسا کہ صحا بۂ کرام کے متعدد واقعات سے ثا بت ہے۔“
( معارف القر آن جلد7 ص152/ مطبوعہ کبت خا نہ نعیمیہ دیو بند)
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مر قدہ کی مذکورہ بالادونوں عبارتوں میں تین با تیں واضح طور پر موجود ہیں۔
1.حضرت زینت اور ان کے بھا ئی کو غیر خاندان میں شادی کے لئے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق تیار ہو نا چاہئے،یہاں غیرخاندان میں شادی کو پسند نہ کر نے پر قر آن میں تنبیہی کلمات نا زل ہو ئے۔
2.اصحاب رسول ﷺ نے بھی غیر خاندان میں شادی رچائی ہیں۔
3۔نیزخاندان کی حکمتوں سے بھی بڑی کسی مصلحت کے پیش نظرآ پ ﷺ نے بھی خاندان میں شادی کی رعا یت نہیں فر مائی۔ بلکہ دوسرے خاندان میں شادی کاحکم فرمایا۔
خاص موقع پر ہی سہی!دوسرے خاندان(Other cast) میں رسول ﷺ کی مرضی کے مطابق شادی کے لئے تیا ر نہ ہو نے پر قر آن میں سخت کلموں کے ساتھ تنبیہ کی گئی۔ لیکن غیر خاندان میں شادی سے مما نعت پرکوئی نصِ قرآنی یا قوی سند کے ساتھ ارشاد رسول ﷺموجود نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ غیرخاندان میں شادی کرنا بھی قرآن و سنت اصحاب رسول ﷺ کے تعامل سے ثابت ہے۔ اور گذ شتہ سطور میں بیان ہو نے والے واقعات وحقائق اس بات کا اعلان ہیں کہ مو جودہ زما نے میں غیرخاندان (Other cast) میں شادی کرنا ا مت کوجو ڑنے اوراشاعتِ اسلام کی راہ میں حا ئل دیوار (نسلی چھو ا چھات)کو منہدم کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہے۔
مختصر یہ کہ دور نبوی ﷺ اوردور صحابہؓ میں خا ندان میں شادی کا کوئی خاص التزام نہیں تھا۔بلکہ دینی بنیادوں پر مختلف برادریوں کے درمیان شا دی(Out of cast marriage) کارواج رہا ہے۔فقہائے کرام نے کچھ مصلحتوں کے پیشِ نظر خاندان میں شادی کر نے کے بارے میں استحبا بی احکا م بیان فر مائے ہیں۔ لیکن مو جودہ دور میں وہ حکمتیں ومصلحتیں تقریبًا مفقود ہیں۔ بلکہ اس قسم کے بے جا التزام سے بے شما رمسائل و مفاسد پیداہو رہے ہیں۔اس لئے شادی میں صرف اور صرف دیندا ری دیکھی جا ئے۔ یہی وقت کا تقاضا اور امت وملت کے اتحاد و استحکام کےساتھ دین کی حفاظت وشاعت کے لئے مطلوب ومحمود اور پسندیدہ ہے۔ع
ابو طالب کے قصے نے حقیقت کھول کر رکھ دی
نہ ہوں آنکھیں تو گھر کی روشنی سے کچھ نہیں ہو تا اگربغا وت پہ ہو آمادہ تو ڈو بے نوح کا بیٹا
یہاں نام و نسب کی برتری سے کچھ نہیں ہو تا۔
فقط والسلام
محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء،شہر مہدپور، اجین، ایم پی۔
برائے سوشل میڈیا۔
2020/12/12ء
Comments are closed.