اغیارکی سازشیں اوراسلام

سمیع اللہ ملک
آج دنیاافراط وتفریط کی جس راہ پرگامزن ہوچکی ہیاس نے افرادِانسانی سے اس کاامن وسکون چھین لیاہے اورکارِانسانیت کو انتشاروافتراق کی ان ظلمتوں کی نذرکردیاہے کہ بظاہر اس سے نجات کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ یہ صورتحال مسلم امہ کیلئیبھی ایک عظیم الشان چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اورحقیقت یہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے یہ تمام ترتلخیاں مسلمانوں ہی کیلئیبالخصوص وضع کی ہیں۔آج مسلمان سیاسی،اقتصادی،علمی الغرض تمام شعبوں میں انتہائی مجبورحدتک ناکام ونامراد ہیں اورعالمی طاقتوں کی شیطنیت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس راہ میں اخلاقی قدریں بھی مانع نہیں رہیں۔یہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کاکردارعمل ہے اوراسی پرشیطان کوکہناپڑا۔’’باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک‘‘۔
جس طرح کتاب وسنت اورسیرتِ نبویﷺ سے تعلق اس دنیاکی سب سے بڑی سعادت ہے بعینہ اس سے بعدودوری بھی دنیاکی سب سے بڑی شقاوت ہے۔یہ وہ اجزائے ثلاثہ ہیں جنہیں کسی صورت تقسیم نہیں کیاجاسکتااوراگرکسی کی نگاہ وحدتِ ناآشناان کی بنیادوں میں بھی فرق واختلاف تلاش کرلے توایسی کج نظری پرحسرت وافسوس ہی کیاجاسکتا ہے۔علم بے شک کسب وسعی کے مراحل سے گزرکرحاصل کیاجاسکتاہے لیکن فہم ومعرفت صرف عطیہ الہی کاثمرہ ہے۔آج ضرورت اسی دینی فہم کے اجاگرکرنے کی ہے جس کی کمی کی وجہ سے تشددوانتشارجنم لیتاہے۔مسلمان سب کچھ کرسکتے ہیں لیکن صرف اس صورت میں کہ ان کی صفیں منظم ومربوط ہوں وگرنہ تمناں اورخواہشوں کے باب توکھلے ہیں مگر حقیقتوں کاسامنا نہیں ہوسکے گا۔اس وقت مسلم امہ کو بالخصوص سیاسی،اقتصادی اورعلمی میدان میں اہم ترین اورانتہائی مشکل حالات کاسامناہے۔ان مسائل کا مختصرتجزیہ ازحد ضروری ہے۔
خفیہ عالمی طاقتوں نے ایک طویل عرصے سے دنیاکویہ باورکرایاہے کہ مسلمان جنگی جنون میں مبتلاہیں اور’’جہاد‘‘کے نام پر دنیاکاامن وسکون تباہ کردیناچاہتے ہیں۔یہ وہ منفی پروپیگنڈہ ہے جوآج بھی جاری ہے۔ تقریباڈھائی دہائیاں قبل برطانیہ سے شائع ہونے والے یہودی مجلہ’’جیوش کرانیکل‘‘میںالجہاد فی الاسلام کے عنوان سے لکھاتھاکہ’’عالمِ اسلام میں مختلف جماعتوں، تنظیموں اورتحریکوں کی طرف سے اسلام کے بنیادی اصولوں کی طرف رجوع کرنے اوران پرسختی سے کاربندہونے کی دعوت مسلسل دی جارہی ہے۔یہ تحریکیں اورجماعتیں کافی مضبوط ہوچکی ہیں اورمغرب کی سیاسی حکمتِ عملی ترتیب دینے والوں نے اگران جماعتوں کی اس دعوت کوملحوظ رکھ کراپنی اسٹرٹیجی نہ بنائی تویہ ان کی کوتاہ بینی کابہت بڑاثبوت ہوگا۔
اسی طرح برطانیہ سے شائع ہونے والے ایک دوسرے مجلہ سنڈے ٹیلی گراف نے’’اسلامی خطرے کامقابلہ‘‘کے عنوان سے ایک انتہائی گمراہ کن پروپیگنڈہ کرتے ہوئے لکھا کہ: ایسامعلوم ہوتاہے کہ کچھ عرصے تک عرب اورمسلمان ملک دنیاپرقابض ہوجائیں گے بغیراس کے کہ وہ اپنے ہاں دورِجدیدکے نئے ترقی یافتہ ادارے قائم کریں۔بعض عرب ملکوں کے عوام میں تجدید الاسلام کا جاری عمل ایک نیاخطرہ ہے۔ہم پرلازم ہے کہ اس خطرے کے سدباب کیلئے مناسب وسائل اختیارکریں ممکن ہے کہ اس غرض کیلئے عسکری قوت سے بھی کام لینا پڑے،کیونکہ اسلام تجدیدجہادکی دعوت دیتاہے جس کامطلب یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کوختم کردیاجائے۔ چنانچہ خفیہ عالمی طاقتیں مسلمانوں کونیست ونابود کر نے کے ’’مقدس مشن‘‘کی تکمیل میں مصروف ہوگئیں۔سی آئی اے کے سربراہ رچرڈبی مچل نے بظاہرالاخوان المسلمون کے خاتمے کی تجاویزپیش کیں لیکن حقیقت میں یہ حربہ ہر خطہ اسلامی میں آزمایا گیا۔موصوف کی تجاویزملاحظہ ہوں:
1۔مکمل خاتمے کی بجائے جزوی خاتمے پراکتفاکیاجائے۔صرف ان رہنما شخصیتوں کا خاتمہ کیا جائے جو دوسرے ذرائع سے جن کاذکرہم آگے کرنے والے ہیں،قابومیں نہ آئیں ۔ہم اس بات کوترجیح دیتے ہیں کہ ان شخصیتوں کاخاتمہ ایسے طریقوں سے کیاجائے جوبالکل طبعی اورفطری معلوم ہوں۔
2۔جن شخصیتوں سے چھٹکاراحاصل کرنے کافیصلہ کیاجائے،ان کے سلسلے میں ہم مندرجہ ذیل اقدامات کی سفارش کرتے ہیں۔
(لف)جن لوگوں کوبڑے بڑے مناصب دے کرورغلایاجاسکتاہے،ان کوبے ضررقسم کے بڑے بڑے اسلامی منصوبوں میں منصب دیے جائیں تاکہ ان کی قوتیں یہی منصوبے نچوڑلیں۔اس کے ساتھ ہی ان پراوران کے اہل وعیال پرمادی سہولتوں کی بارش کردی جائے تاکہ وہ ان میں پوری طرح منہمک ہوجائیں۔ان کی قوتیں وہیں صرف ہوجائیں اورعوام سے ان کارابطہ کٹ کران کی بنیادختم کردی جائے۔
(ب)جن کے کاروباری رجحانات ہوں،ان پرکام کرکے انہیں کاروباری منصوبوں میں حصہ داربنانے کی کوشس کی جائے۔
(ج)پٹرول پیداکرنے والے عرب ملکوں میں ان کیلئیکام کے مواقع پیداکیے جائیں اس طرح وہ اسلامی سرگرمیوں سے دورہوجائیں گے۔
(د)یورپ اورامریکامیں جوعناصرفعال ہیں،ان کے بارے میں ہماری تجاویزحسبِ ذیل ہیں:
(i)ان کی قوتوں اورکوششوں کوغیرمسلموں پرصرف کروایاجائے۔پھراپنے اداروں کے ذریعے ان کاوشوں کولاحاصل بنادیاجائے۔
(ii)ان کی کوششوں کواسلامی کتابیں چھاپنے اورشائع کرنے میں کھپادیاجائے اورساتھ ہی ان کے نتائج کوناکام کردیاجائے۔
(iii)ان کی قیادتوں میں آپس میں شکوک وشبہات پیداکیے جائیں۔ان میں اختلاف کے بیج بوکران کونمایاں کیاجائے تاکہ نتیجہ خیز سرگرمیوں کی بجائے ان اختلافات میں اپنی قوتیں جھونک دیں۔
3۔ نوجوانوں کے بارے میں ہم تجویزکرتے ہیں کہ:
)الف(ان کی قوتوں کومذہبی رسوم وعبادات میں کھپادیاجائے۔اس سلسلے میں وہ مذہبی قیادتیں مفید ثابت ہوسکتی ہیں جوصرف عبادات پرزوردیتی ہیں اورجوسیاست سے تعرض نہیں کرتیں۔
)ب(مذہبی وفروعی اختلافات کی خلیج کووسیع کیاجائے اورنوجوانوں کے ذہنوں میں ان کونمایاں کیاجائے۔
)ج(سنت پرحملوں کی حوصلہ افزائی کی جائے،سنت اوردوسرے اسلامی مآخذکے بارے میں شکوک وشبہات پیداکیے جائیں۔
4۔مختلف اسلامی جماعتوں میں پھوٹ ڈالی جائے اوران جماعتوں کے اندراورمابین تنازعات کھڑے کیے جائیں۔
5۔نوجوانوں کی توجہ اسلامی تعلیمات کی طرف بڑھ رہی ہے۔اس’’رو‘‘کامقابلہ ضروری ہے،خاص طور پر لڑکیاں اسلامی لباس کا التزام کررہی ہیں،اس کامقابلہ میڈیااورجوابی ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے ضروری ہے۔
6۔مختلف مراحل میں تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے اسلامی جماعتوں کی کاوشوں کوبے اثربنایاجائے اوران کادائرہ محدود کرنے کی کوشش کی جائے۔
موصوف کی تجاویزتقریباربع صدی قبل کی ہیں جس کے نتیجے میں آج مسلمان استعماریت کے ہاتھوں کھلونابن گئے ہیں۔علی ہذا القیاس اس وقت تمام اسلامی دنیاشدیدترین سیاسی بحران کاشکارہے۔اسلامی ممالک میں اتحادویگانگت کافقدان ہے۔فلسطین،کشمیر، چیچنیا،عراق،کوسوووغیرہابلادِاسلامیہ میں مسلمانوں کوبدترین مظالم کاسامناہے،تمام اسلامی ممالک اس صورتحال کوملاحظہ کرنے کے باوجودبے بس ہیں،اس لیے کہ جراتِ ایمانی وقوتِ روحانی سے محروم ہیں۔اس سیاسی بحران سے نکلنے کیلئے درج ذیل تدابیرپرعمل ناگزیر ہے۔
1۔تمام اسلامی ممالک ایوانِ کفرمیں سرنگوں ہونے کی بجائے آپس میں اتحادومحبت کی فضا پیداکریں۔
2۔ اوآئی سی کوواقعتامتحرک وفعال بنایاجائے۔
3۔اپنے اندرونی معاملات میں استعماریت کی دخل اندازی کوسختی سے روکاجائے۔
4۔اپنی دفاعی صلاحیتوں کومضبوط بنایاجائے۔
اس وقت ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دنیاکوبالعموم اوراسلامی دنیاکوبالخصوص اقتصادی طورپراپنایرغمال بنارکھاہے۔آج کی مادی دنیا نے انسان کی مادی خواہشوں کوبے لگام کردیاہے کہ ہرشخص اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے ہرحدتک جانے کیلئے تیارہوگیاہے۔ سلسلہ مال ودولت کاارتکازمحض ایک مخصوص طبقے تک محدودہوکررہ گیاہے،جس نے معاشرے میں بے چینی واضطراب کو جنم دیااوریہی بے چینی واضطراب کی کوکھ سے جرائم جنم لیتے ہیں،گویااقتصادی بحران کادائرہ اثرونفوذ پورے معاشرے کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔اسلامی دنیا میں ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے یہ اقتصادی بحران بڑے غیرمحسوس طریقے سے اثراندازہواحتی کہ حکومتیں بھی ان کے سامنے بے بس ہوگئیں۔انگریزوں نے قارہ ہندکو اقتصادیات ہی کی راہ سے اپنایرغمال بنایاتھااورآج پھراسلامی دنیااسی راہ سے مغلوب ہورہی ہے۔یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں نہ صرف ہماری اقتصادی جڑوں پرضربِ کاری لگارہی ہیں بلکہ اپنی مصنوعات ومشروبات میں حرام اجزاکوشامل کرکے مسلمانوں کے ایمان پربھی نقبِ زن ہورہی ہیں۔یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی آمدنی کاایک معتدبہ حصہ اسرائیل کے تحفظات کیلئیوقف کردیتی ہیں،گویامسلمان ان کمپنیوں کی مصنوعات خرید کرخوداپنی تباہی وہلاکت کاسامان تیارکررہے ہیں۔اقتصادی طورپراس بحران سے نکلنے کیلئے ناگزیرہے کہ:
1۔اسلامی حکومتیں ملک کے اندرہونے والی صنعتی ترقی کی حوصلہ افزائی کریں۔
2۔ان تمام مصنوعات وسامان اکل وشرب پرسرکاری سطح پرپابندی عائدکی جائے،جس میں حرام اجزاکی آمیزش ہو۔
3۔مسلمان خریدارسب سے پہلے اسلامی اداروں کی تیارکردہ مصنوعات کوفوقیت دیں،اس کے بعدان اداروں کی مصنوعات خریدیں جن کی آمدنی اسلام دشمنی میں صرف نہ ہورہی ہوجیسے چین،کوریاوغیرہماکی مصنوعات۔
اس وقت مسلم امہ کوعلمی میدانوں میں بہت بڑاچیلج درپیش ہے۔ایک طرف قدامت پسند علماہیں جواصابتِ فکروصلابتِ رائے سے محروم رسومات ہی کودین سمجھ بیٹھے ہیں۔سلف نے جوکچھ اپنے اجتہادوقیاس سے کہہ دیاہے اسے دین کے اصل سرچشمہ مصفا پرفوقیت دیتے ہیں۔دوسری طرف تجددپسندعلماکی کھیپ تیارہورہی ہے جودین کے ہرمعاملے میں اپنے عقلِ ناقص کی پیوندکاری ضروری سمجھتے ہیں۔
علمی طورپرجوسرمایہ اس وقت جمع ہورہاہے اس میں اسلامی فکرکے احیاکی غذامفقودہے۔فروعات پرکتابوں کے انبارلگ رہے ہیں۔ ہرروزنت نئی سنتیں ایجادہورہی ہیں۔ہمارے پاس قرآن موجودہے جس نے چودہ صدیاں قبل یہ دعوی کیا تھا کہ ’’ اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے‘‘ لیکن افسوس کہ ہم اپنے دل شکستہ کی تسکین کیلئے آلاتِ لہوولعب کے خوگربنتے چلے گئے اوراب صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ:
وکاس شربت علی لذ
واخری تداویت منہا بہا
کتاب وسنت سے اعراض مسلمانوں کی ہیئتِ اجتماعی کاسب سے بڑاعلمی سانحہ تھا۔غیرمسلم اسکالرزکاعلمی پروپیگنڈہ اپنے عروج پرپہنچ چکاہے،جس نے عالمی رائے عامہ پرنہایت گمراہ کن اثرڈالاہے،اس کے برعکس مسلم اسکالرزکی کثیرتعداد اپنی قلمی جولانیاں اندرونی اختلافات کی نذرکرتی رہیں۔بیروت کی امریکن یونیورسٹی کے ڈاکٹرکمال صلیبی(جن کا نسلی ربط یہودیوں سے بھی ہے)نے یہ انکشافِ جدیدکیاکہ یہودیوں کااصل وطن فلسطین نہیں بلکہ منطقہ عہد سعودی عرب ہے۔ایک دوسرے یہودی مستشرق پروفیسر برنارڈ ڈیوس نے ’’دی جیوزآف اسلام‘‘میں اسلام کے نمودکومسیحی علم الاساطیراوریہودی خرافات سے منسلک کرنے کی کوشش کی۔ریسرچ کے جدید اسالیب کواستعمال کرتے ہوئے موصوف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام نے علمی وفکری غذایہودیت سے حاصل کی ہے۔اس کے علاوہ مغرب کابیشترتحریری اثاثہ اسی قسم کی زہرآلودمسموم تحقیقات سے معمور ہے لیکن مسلم اسکالرزنے اس کی تردیدمیں جوکچھ تحریری اثاثہ جمع کیااسے خود مسلمانوں کی اکثریت نے لائقِ اعتنا نہیں سمجھا جس کی وجہ سے ان کی آوازصدابصحراہوکررہ گئی۔اب کچھ اجتماعی کوششیں کی جارہی ہیں۔اللہ اس کے دائرہ اثرونفوذمیں اضافہ فرمائے۔آمین۔علمی میدانوں میں مسلم اسکالرزاوراربابِ اقتدارکوبالخصوص درج ذیل امورپیشِ نظر رکھنے چاہیئں:
1۔اسلامی ممالک کی تعلیمی پالیسی میں دین کواچھو ت کی جوحیثیت دی گئی ہے،اس کے صحیح مقام کوواضح اورنمایاں کرنے کی کوشش کی جائے۔
2۔تعلیم کیلئے کی گئی تمام اصلاحات اس وقت تک غیرمؤثررہیں گی جب تک کہ میڈیاکومشرف بہ اسلام نہ کرلیاجائے۔مجھے اس امرکاشدیداحساس ہے کہ میڈیاکوکوئی معجزہ ہی مشرف بہ اسلام کرسکتاہے لیکن گذشتہ چندبرسوں سے میڈیاجس آزادی کے سفرپرگامزن ہے اس نے طہارتِ فکرونظراورنظافت روح وقلب کے تصورکومجروح کردیاہے بالخصوص سلامی جمہوریہ پاکستان کامیڈیاجس اندازسے بسنت کی بہاروںاورویلنٹائن ڈے کی معصومیت کاپرچارکرتی ہے،وہ انتہائی افسوسناک ہے۔
3۔دینی ادارے ہوں یاانفرادی شخصیتیں،ضرورت اس امرکی ہے کہ وسعتِ قلبی کے ساتھ دینی خدمت کیلئے مستعد ہوں،ایک دوسرے کوبرداشت کرنے اورہم آہنگی کی فضاپیدا کرنے کی سعی کی جائے۔
4۔مستشرقین کی وہ تحریریں جواسلام کی حقانیت کاپرچارکرتی ہوں،ان کی زیادہ سے زیادہ تشہیرکی جائے۔مثلاڈاکٹرفرینک ٹیلرنے اپنی کتاب’’فزکس آف موریلیٹی‘‘میں جواہم ترین سائنسی انکشافات کیے ہیں اس سے اسلامی عقیدے کااثبات ہوتاہے۔اسی طرح عالمی شہرت یافتہ’’موریس بوکائلے کی کتاب۔دی بائبل،دی قرآن اینڈسائنس‘‘بھی اس حوالے سے مفیدکتاب ہے۔اس قسم کے علمی سرمائے کوزیادہ سے زیادہ عام کیاجائے۔
5۔آج تک یہ سمجھاجاتارہاہے کہ قرآن مسلمانوں کی کتاب ہے لیکن یہ غلط ہے کیونکہ قرآن توانسانوں کی کتاب ہے اورحاملینِ قرآن کاسب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کواس کی متاع گم گشتہ لوٹا دیں۔ دین کی خدمت ایک بہت بڑی سعادت ہے وگرنہ یہ توظاہرہے کہ اللہ کادین میری،آپ کی یاکسی فردِ انسانی کی خدمت کامحتاج نہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کادین بھی کبھی معدوم ہوجائے۔’’ وہی توہے جس نے اپنے پیغمبرکوہدایت اوردین حق دے کربھیجاتاکہ اسے اورسب دینوں پرغالب کرے خواہ مشرکوں کوبراہی لگے (صف:9)
آج ہم عمل کی دنیامیں ہیں اوراحتساب کاوقت نہیں آیا۔کل میدانِ احتساب میں ہوں گے اورعمل کاکوئی موقع نہ ہوگا۔آیئے اس سے پہلے کہ وقت کی ساعتیں دغادے جائیں،ہم خلوص وانابت کے جذبے سے سرشارہوکرجوکچھ ممکن ہوکرگزریں۔
Comments are closed.